Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مصنف کی طرف کتاب کی نسبت ثابت کرنے کے ضوابط اور اس سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ
    فاروق عبد اللہ نراین پوری

    (پی ایچ ڈی ریسرچر، شعبہ فقہ السنہ، کلیۃ الحدیث الشریف، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ)

    آج کل پوری دنیا خصوصاً بلاد عربیہ میں اسلافِ کرام کی علمی تراث کی تحقیق وتدوین کا کام زوروں پر ہے۔ یونیورسٹیوں میں اس پر ایم فل وپی ایچ ڈی کی اعلیٰ علمی ڈگریاں تفویض کی جاتی ہیں۔ علمی میدان میں اس سے اعلیٰ کوئی ڈگری نہیں ہوتی۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عمل کوئی معمولی عمل نہیں، بلکہ بہت ہی ذمہ داری اور محنت طلب عمل ہے۔ جب بھی کسی کتاب کی تحقیق وتدوین کا خاکہ پیش کیا جاتا ہے ایک محقق کی سب سے پہلی ذمہ داری ہوتی ہے اس مخصوص کتاب کی مخصوص مصنف کی طرف نسبت کی جانچ پڑتال کرے۔ اگر مصنف سے وہ کتاب ثابت ہی نہ ہو اور اس کی طرف اس کی جھوٹی نسبت کی گئی ہو تو اس کی تحقیق وتدوین اور نشر واشاعت کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔
    چنانچہ بہت ساری ایسی کتابیں ہیں جن کی کسی مصنف کی طرف غلط اور جھوٹی نسبت کی گئی ہے۔
    میں یہاں اس کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں:
    ۱۔ تنبیہ الملوک والمکائد
    اس کتاب کی نسبت مشہور ادیب جاحظ کی طرف کی گئی ہے۔ دار الکتب المصریہ کے قلمی نسخے میں اس پر جاحظ کا نام درج ہے۔ لیکن اس کی نسبت جاحظ کی طرف صحیح ہو ہی نہیں سکتی، کیونکہ اس میں ’’نکت من مکاید کافور الإخشیدی‘‘اور’’مکیدۃ توزون بالمتقی للّٰہ‘‘جیسے ابواب اس کی غلط نسبت پر بین دلیل ہیں۔ کافور الإخشیدی کی پیدائش سنہ ۲۹۲کو ہوئی ہے، جب کہ متقی باللہ کی پیدائش ۲۹۷کو ہوئی ہے اور جاحظ کی وفات ان کی پیدائش سے کافی سالوں پہلے سنہ۲۵۵کو ہو چکی تھی، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ جاحظ اپنی وفات کے بعد پیدا ہونے والے شخصیات کے حالات قلمبند کریں۔ دیکھیں: [تحقیق النصوص ونشرہا للشیخ عبد السلام محمد ہارون:ص :۴۶، وتحقیق التراث العربی للدکتور عبد المجید دیاب:ص:۱۳۷]
    ۲۔ عمل الیوم واللیلہ
    اس نام سے متعدد علما ء نے کتابیں لکھی ہیں۔ یہاں جس کتاب کی بات کی جا رہی ہے وہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب ہے جسے جامعہ علی گڑھ انڈیا کے مخطوطات کی فہرست میں فہرست بنانے والے نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ مُفَہرِس کو یہ دھوکہ اس لئے ہوا کیونکہ اس کے شروع میں مصنف کا یہ کلام موجود ہے:
    ’’هذا جزء لطيف فى عمل اليوم والليلة منتخب من الأحاديث والآثار، محرر معتبر، لخصته من كتابي منهاج السنة ومن الكلم الطيب، واللّٰه الموفق‘‘
    چونکہ منہاج السنہ اور الکلم الطیب شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کافی معروف ومشہور کتابیں ہیں اس لئے انہیں لگا کہ اس کے مصنف شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہی ہوں گے، حالانکہ یہ علامہ سیوطی کی کتاب ہے، اور ان کی بھی اس نام سے کتابیں ہیں جیسے کہ خود انہوں نے اپنی کتاب التحدث بنعمۃ اللہ (ص:۱۰۸،۱۱۲،۱۵۵) میں بیان کیا ہے۔
    اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کتاب کا اسلوب شیخ الاسلام کے اسلوب سے میل نہیں کھاتا، اس میں نبی سے توسل کی بات موجود ہے، اور کتاب کے آخر میں یہ عبارت موجود ہے : قال مؤلفه الفقير إلى اللّٰه عبد الرحمٰن بن أبي بكر السيوطي:فرغت من تأليفه فى رجب سنة ۸۹۲هجرية، والحمد للّٰه رب العالمين، جس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ شیخ الاسلام کی طرف اس کی نسبت غلط ہے۔ دیکھیں:(جامع المسائل لشیخ الاسلام ابن تیمیہ، -المجوعۃ الثالثہ- کے شروع میں شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ کا مقدمہ، ص۷۔۸)
    لہٰذا تحقیق سے قبل یہ کنفرم ہونا نہایت ضروری ہے کہ مصنف کی طرف اس کی نسبت صحیح ہے یا نہیں۔ عالمی پیمانے پر اس میدان کے متخصصین نے اس کی جانچ پڑتال کے بہت سارے اصول وضوابط متعین کئے ہیں جن کی روشنی میں محقق کو اس کی صحتِ نسبت کی تحقیق کرنی پڑتی ہے۔ ان میں سے بعض ضوابط یہ ہیں:
    ۱۔ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ مل جائے، چاہے کسی نے ان کی سوانح میں اسے ذکر کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ مثلًا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب الرد علی نہایۃ العقول للرازی خود ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی موجود ہے لیکن کبھی کسی نے ان کی سوانح میں اس کتاب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ دیکھیں:(جامع المسائل المجموعۃ الاولی- کے شروع میں شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ کا مقدمہ:ص:۱۱)
    ۲۔ کتاب کے قلمی نسخوں کے سر ورق پر مؤلف کا نام موجود ہو۔
    ۳۔ مؤلف نے اپنی دوسری کتابوں میں اپنی اس تالیف کا ذکر کیا ہو اور اس کے اقتباسات نقل کئے ہوں۔ یا اس کے بر عکس اس کتاب میں مصنف نے اپنی دوسری کتابوں کا ذکر کیا ہو، یا ان کے اقتباسات نقل کئے ہوں۔
    ۴۔ کتاب کا مواد مؤلف کی آرا کے عین مطابق ہو، اور دوسری تمام کتابوں میں جو ان کا معروف اسلوب ہے اس کا بھی بالکل وہی اسلوب ہو۔
    ۵۔ اس کے قلمی نسخے پر عرض و سماع موجود ہو۔ یعنی اس نسخے کو کسی طالب نے اپنے استاد پر پڑھا ہو، اور ان کے نام اس میں درج ہوں۔
    ۶۔ مؤلفِ کتاب کے شاگردوں نے وہ کتاب ان سے روایت کی ہو، اور پھر ان سے نسلًا بعد نسلٍ روایت کا سلسلہ چلا آرہا ہو۔ اسی کو سَنَد الکتاب کہتے ہیں۔
    ۷۔ کتب الفہارس میں اسے ان کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔
    ۸۔ کتب التراجم میں ان کے ترجمہ میں اس تالیف کا ذکر یا وصف موجود ہو۔
    ۹۔ ان کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف اسے کسی نے منسوب نہ کیا ہو۔ یعنی جب بھی اس کتاب کا ذکر آئے تو بالاتفاق علماء اسے ان کی طرف منسوب کرتے ہوں۔
    ۱۰۔ مؤلفِ کتاب کے معاصر علماء نے اس کی صراحت کی ہو۔
    ۱۱۔ ان کے بعد آنے والے علمائے کرام نے اس سے اقتباسات نقل کئے ہوں اور اس کا حوالہ دیا ہو۔
    جو بھی تحقیق شدہ کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں آپ ان میں محقق کا مقدمہ پڑھیں۔ انھوں نے کتاب کی نسبت مصنف سے ثابت کرنے کے لئے انہی امور کو بطور دلیل پیش کیا ہوگا، کیونکہ عمومًا کسی کتاب کی اس کے مؤلف کی طرف نسبت ثابت کرنے میں یہ امور معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بطور مثال جامع المسائل لشیخ الاسلام ابن تیمیہ المجموعۃ الاولی- کے شروع میں شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ کا مقدمہ، یا الایجاز فی شرح سنن ابی داؤد للنوی کی تحقیق میں شیخ مشہور حسن سلمان کا مقدمہ، یا الرد علی الجہمیۃ والزنادقہ للامام احمد کی تحقیق میں شیخ صبری بن سلامہ شاہین کا مقدمہ پڑھ لیں اور دیکھیں کہ انہوں نے کتاب کی نسبت مؤلف کی طرف ثابت کرنے کے لیے کن امور کو معیار بنایا ہے۔
    بعض کتابوں میں ان مذکورہ امور میں سے دو چار چیزیں ہی مل پاتی ہیں، اور بعض میں اس سے کچھ زیادہ۔ نیز ان کے علاوہ بھی کسی خاص کتاب میں کوئی خاص قرینہ موجود ہو سکتا ہے جس سے بوقت ضرورت استدلال یا استئناس کیا جاسکتا ہے۔ بطور مثال رفع الاشتباہ عن معنی العبادۃ والإلہ وتحقیق معنی التوحید والشرک باللہ کی نسبت علامہ عبد الرحمن بن یحییٰ المعلمی رحمہ اللہ کی طرف ثابت کرنے میں اس کے محقق شیخ عثمان بن معلم محمود نے اس کے مقدمے میں جن قرائن کا اعتبار کیا ہے انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
    کسی کتاب کی نسبت میں جتنے زیادہ قرائن پائے جائیں گے وہ اس کی صحتِ نسبت کی اتنی ہی پختہ دلیل مانی جائے گی۔
    لیکن ان مذکورہ قرائن میں سے کسی خاص قرینہ کا کسی کتاب میں مفقود ہونے کا یہ معنی قطعًا نہیں کہ وہ اس مصنف کی کتاب نہیں۔
    مثلًا پہلے قرینہ کو ہی دیکھیں۔ بہت ساری ایسی کتابیں ہیں جن کے قلمی نسخوں میں سرورق موجود ہی نہیں ہوتا۔ چونکہ یہ پہلا صفحہ ہوتا ہے اس لئے اس کے ضائع ہونے کاخوف بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے باقی قرائن اس کی بات کی پختہ دلیل ہوتے ہیں کہ یہ فلاں مصنف کی فلاں کتاب ہے۔
    بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لائبریرین خود اپنے قلم سے اس کے سر ورق پر اس کا نام اور اس کے مصنف کا نام لکھ دیتا ہے، لیکن کم علمی یا اسی نام کی کسی دوسری کتاب سے مشابہت کی بنیاد پر اس میں غلطی کر بیٹھتا ہے، جس سے بسا اوقات بعض لوگوں کو دھوکہ ہوجاتا ہے۔ ایسا معاملہ کئی کتابوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ ابھی اوپر عمل الیوم واللیلہ للسیوطی کی بات گزری۔ اسی طرح کا معاملہ اکمال تہذیب الکمال کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اس نام سے علامہ ابن الملقن اور علامہ مغلطائی دونوں نے کتاب لکھی ہے۔ نام میں مشابہت کی وجہ سے مغلطائی کی کتاب پر بعض مخطوطات میں ابن الملقن کا نام لکھا ہوا ہے۔
    اسی طرح دوسرے قرائن کا معاملہ ہے۔ کسی مخصوص کتاب میں دوسرے قرائن میں سے کوئی بھی قرینہ مفقود ہو سکتا ہے، لیکن اس وجہ سے مصنف کی طرف کتاب کی نسبت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ بقیہ دوسرے قرائن اس بات کی مضبوط دلیل ہوتے ہیں کہ یہ فلاں مصنف کی ہی کتاب ہے۔
    افسوس کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگوں نے کسی مصنف کی طرف کسی کتاب کی صحتِ نسبت کے لیے ایک قرینہ کو بنیادی شرط کا درجہ دینا شروع کر دیا ہے جو کبھی بھی علما ء کے نزدیک شرط کی حیثیت سے نہ دیکھا گیا تھا۔ وہ ہے:مصنف سے صحیح سند سے اس کتاب کی روایت موجود ہو۔
    یہ چیز اگر کسی کتاب میں پائی جاتی ہے تو بلا شبہ نورٌ علیٰ نور ہے، لیکن مصنف کی طرف صحتِ نسبت کے لیے اسے شرط کا درجہ دینا، بلکہ صحتِ نسبت کو اسی پر موقوف کر دینا تو یہ ایک نئی چیز ہے جس کی علماء نے کبھی بھی شرط نہیں لگائی ہے، الا یہ کہ کہیں نسبت ثابت کرنے والے تمام قرائن مفقود ہوں، اور موجود قرائن نسبت کی تکذیب کر رہے ہوں، اور متأخرین میں سے کوئی مصنف کی طرف اس کی نسبت کا دعویٰ کرے تو ایسی صورت میں اس سے اس کی سند ضرور طلب کی جائیگی اور یہ دیکھا جائیگا کہ کہیں کسی نے اپنی طرف سے گھڑ کر تو اسے مصنف کی طرف منسوب نہیں کر دیا ہے۔
    مثلًا ابھی حال ہی میں مصنف عبد الرزاق کے ایک مفقود حصے کے متعلق ڈاکٹر عیسیٰ بن عبد اللہ بن مانع الحمیری نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مصنف عبد الرزاق کا مفقود حصہ ہے، لیکن بے شمار قرائن ان کے دعوے کی تکذیب کر رہے ہیں اس لیے علماء نے ان کے اس دعوے کو باطل قرار دیا ہے۔ میں نے اس دعوے کی تکذیب پر ایک مفصل مضمون قلمبند کیا ہے جو فری لانسر کے ویب پورٹل پر موجود ہے۔
    لیکن اس کے بر عکس کوئی کتاب ایسی ہو جو ہر دور میں علما ء کے مابین معروف رہی ہو، علما ء اس سے اپنی کتابوں میں نقل کرتے رہے ہوں، جس نے بھی اس کتاب کے متعلق بات کی ہو اسے اسی مصنف کی طرف منسوب کیا ہو، کبھی کسی نے اس کی نسبت کے متعلق شک وشبہہ کا اظہار نہ کیا ہو صرف اس کی سند نہ ملنے، یا سند کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے مصنف سے اس کی نسبت کا ہی انکار کر دینا تو یہ بالکل نیا اور خطرناک منہج ہے جس سے پوری اسلامی تراث کے مشکوک ہونے کا خطرہ ہے۔
    آج کل بعض بردرس جو بنیادی شرعی علوم سے بھی عاری ہیں اسے لے کر کچھ زیادہ ہی فتنہ برپا کئے ہوئے ہیں۔ ابھی دو چار دن قبل ہی ایسے ہی ایک برادر کی تحریر نظر سے گزری، اس میں شیخ البانی رحمہ اللہ کی عربی عبارت کے ترجمے میں جس جہالت کا ثبوت دیا گیا ہے وہ تو اپنی جگہ مضحکہ خیز ہے ہی اس سے استدلال کا طریقہ بھی کم غیر علمی نہیں ہے۔
    علامہ البانی رحمہ اللہ نے خطیب بغدادی کی مشہور کتاب اقتضاء العلم العمل کے مقدمے میں اس کے مخطوط کی حالت بیان کرتے ہوئے ناسخِ مخطوط سے خطیب بغدادی تک کی سند بھی ذکر کی ہے، اور روات کے حالات ذکر کرنے بعد کہا ہے کہ اس کی سند مصنف تک صحیح ہے۔
    اس سے موصوف نے یہ عجیب وغریب استدلال کیا ہے کہ مؤلف تک کتاب کی نسبت ثابت کرنے کے لئے اس کی سند کے روات کا حافظ وضابط اور مشہور ہونا ضروری ہے۔ فرماتے ہیں:کتاب کی سند کے رواۃ کا حافظ ضابط اور مشہور ہونا ضروری ہے مؤلف تک جب ہی اسے منسوب کیا جائے گا، جیسا کہ شیخ رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔
    حالانکہ شیخ نے کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں سند اور اس کے روات کے حالات اس لئے بیان کر رہا ہوں کیونکہ مصنف سے اسے ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری امرہے، بلکہ خود شیخ نے دوسری جگہ اسے ایک ضروری چیز ماننے سے انکار کیا ہے۔ شیخ نے فضل الصلاۃ علی النبی للازدی کی تحقیق کی ہے، اور اس کے مقدمے میں بھی کتاب کی سنداور اس کے روات کے حالات کو بیان کیا ہے، لیکن علما ء کے منہج سے کوئی غافل شخص کوئی غلط نتیجہ نہ اخذ کر لے اس لئے بڑے ہی واضح الفاظ میں اس غلط فکر کی تردید کی ہے۔ شیخ کے الفاظ ہیں:
    ’’شهرة الكتاب عند العلماء وتدوالهم إياه واعتمادهم عليه يغني عن البحث فى إسناده، فإذا ثبت فهو قوة على قوة، وإلا لم يضره، ولذلك كان من المصادر الأولي إن لم يكن الأول لكل من صنف فى موضوعه كالعلامة ابن القيم فى كتابه جلاء الأفهام والحافظ السخاوي فى القول البديع وغيرهما‘‘
    ’’علما ء کے نزدیک کتاب کا مشہور ومتداول ہونا، اور ان کا اس پر اعتماد کرنا اس کی سند کی تلاش وجستجو سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اگر سند ثابت ہو جائے تو اس سے مزید قوت مل جاتی ہے، لیکن ثابت نہ ہو تو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اسی لئے جنہوں نے بھی اس موضوع پر کوئی کتاب لکھی یہ کتاب ان کا پہلا مصدر نہ سہی ان کی اول ترین مصادر میں ضرور رہی ، جیسے کہ علامہ ابن القیم کی جلاء الافہام میں، حافظ سخاوی کی القول البدیع میں اور ان دونوں کے علاوہ دوسروں کے نزدیک بھی یہ اول ترین مصادر میں رہی‘‘۔
    (فضل الصلاۃ علی النبی للازدی کی تحقیق میں شیخ کا مقدمہ:ص:۱۳)
    شیخ رحمہ اللہ کا یہ قول روز روشن کی طرح واضح اور صریح ہے کہ علماء اگر کسی کتاب پر اعتماد کرتے ہوں، اس سے نقل واستفادہ کرتے ہوں جیسے کہ فضل الصلاۃ علی النبی للازدی سے علامہ ابن القیم اور حافظ سخاوی وغیرہما نے نقل واستفادہ کیا ہے تو ایسی صورت میں اس کتاب کی سند کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر مل جائے تو نورٌ علیٰ نور ہے، نہ ملے تو اس کی صحتِ نسبت پر ذرہ برابر کوئی آنچ نہیں آتی۔
    خود شیخ البانی رحمہ اللہ نے متعدد کتب کی تحقیق کی ہے لیکن ان میں سے تمام کتب میں اس طرح کتاب کی سند اور اس کے روات کے حالات کو بیان کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا ہے۔ بطور مثال الایمان لابن ابی شیبہ کو لیں۔ شیخ نے اس کتاب کی تحقیق کی ہے اور اس کے مقدمہ (ص۸) میں اس کے مخطوط کی حالت بیان کی ہے۔ اور کہا ہے کہ جس نسخے پر انہوں نے اعتماد کیا ہے وہ حافظ محمد بن یوسف بن محمد البرزالی الاشبیلی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جسے انہوں نے ۶۲۳ ہجری میں لکھا ہے۔ لیکن ان کے اور امام ابن ابی شیبہ کے درمیان کی سند کیا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے، حالانکہ دونوں کے مابین تقریباً چار سو سال کا فاصلہ ہے۔
    اسی طرح اس کے بعد اسی صفحے میں انہوں نے الایمان لابی عبید کے قلمی نسخے کی حالت بیان کی ہے۔ یہ کتاب بھی شیخ کی تحقیق سے چھپی ہوئی ہے۔ اس کے مخطوط کی حالت بیان کرتے ہوئے شیخ نے کہا ہے کہ انہوں نے ایک ہی قدیم نسخے پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی تحقیق کی ہے جو سنہ ۴۸۸ہجری میں ابو محمد عثمان بن ابی نصر کے نسخے سے لکھا گیا تھا۔ لکھنے والا کون تھا اس کا انہوں نے کوئی نام ذکر نہیں کیا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ لکھنے کے بعد اصل نسخے سے اس کا تقابل بھی کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس میں بہت زیادہ غلطیاں ہیں۔
    یہاں کاتبِ نسخہ کا نام تک پتہ نہیں، اس میں بہت زیادہ غلطیاں بھی ہیں، اور کاتب ومصنف کے مابین سند کا بھی کوئی اتہ پتہ نہیں، اس کے باوجود شیخ اسے ابو عبید کی طرف منسوب کرکے تحقیق کر رہے ہیں، اور نشر کر رہے ہیں۔ اگرموصوف برادر کے بقول یہ شیخ کے نزدیک ضروری امر ہوتا تو اس کی شیخ کو تحقیق ہی نہیں کرنی چاہئے تھی اور نہ ابو عبید کی جانب منسوب کرکے نشر کرنا چاہئے تھا۔
    یہی حال اکثر وبیشتر کتبِ اسلاف کا ہے، ان کی اسانید کا یا تو پتہ نہیں، یا وہ اسانید متکلم فیہ ہیں۔ کتبِ حدیث میں تو ایک حد تک ان کی روایات کا اہتمام ملتا بھی ہے، لیکن دوسرے فنون مثلًا تاریخ، لغت، فقہ، اصول وغیرہ میں تو یہ تقریباً ناپید ہی ہے۔ اگر اس نئے خود ساختہ اور غیر معقول وغیر مقبول منہج کو کوئی اہمیت دی جائے تو اس طرح پوری اسلامی تراث مشکوک بلکہ نیست ونابود تک ہو سکتی ہے۔ اسی سے اس کی سنگینی اور خطرناکی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
    شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابوں نے ایوانِ باطل میں جو زلزلہ پیدا کیا ہے وہ کسی اہل حق پر مخفی نہیں۔ اگر خود ان کی کتابوں پر یہ خود ساختہ اصول فٹ کیا جائے تو ان کے تراث کے ایک عظیم حصے سے ہمیں ہاتھ دھونا پڑیگا۔ ابھی حال ہی میں مشہور محقق شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ نے ان کی بے شمار کتابوں کی تحقیق کی ہے اور انہیں منظر عام پر لاکر پوری امت پر عظیم احسان کیا ہے جس کے لئے ہم شیخ کے ممنون ومشکور ہیں۔ شیخ نے جامع المسائل لشیخ الاسلام ابن تیمیہ کے شروع میں اپنے مقدمہ میں ان قلمی نسخوں کا جو تعارف پیش کیا ہے صرف انہیں ہی دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس مسئلہ میں علماء اور محققین کا کیا منہج و معیار ہے۔ اور یہ خود ساختہ اصول کس قدر باطل اور نا قابلِ التفات ہے۔ شیخ نے جن قلمی نسخوں پر اعتماد کرکے ان کتب کی تحقیق کی ہے ان میں سے بہتوں کے بارے میں یہ تک پتہ نہیں کہ ان کے لکھنے والے کون ہیں اور کب لکھے گئے ہیں۔ لیکن اہل علم جو اس فن سے کچھ شد بد رکھتے ہیں کبھی بھی اس طرح کی بے تکی باتیں کرکے ان پر کلام نہیں کرتے، اور انہیں مشکوک نظروں سے نہیں دیکھتے۔
    خلاصۂ کلام یہ کہ کتاب کی نسبت کسی مصنف کی طرف آنکھ بند کرکے قبول بھی نہیں کی جائیگی، اور سند کے معدوم ہونے یا صحیح نہ ہونے کی وجہ سے رد بھی نہیں کی جائیگی، بلکہ علماء کے نزدیک اس کے خاص اصول وضوابط ہیں جو اس مضمون کے شروع میں بیان کئے گئے، ان کے مطابق جانچ پڑتال کی جائیگی اور نسبت کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائیگا۔ واللہ اعلم۔
    اللہ ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو ہدایت دے، اور صحیح علم حاصل کرنے واسے نشر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings