Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے نکاح اور رخصتی کی عمر (قسط اول)

    اسلام سیاسی، مذہبی، ملکی، تاریخی ہر قسم کی جملہ خوبیوں کا حامل دین ہے۔ اس میں جہاں تہذیب اور تزکیہء نفس کی تعلیم دی گئی ہے، وہاں گزشتہ اَقوام و ملل کے حالات و واقعات بھی بتلائے گئے ہیں۔ جس طرح قرآن و حدیث میں اَمثال و عبر اور بصائر و حکم ذکر کئے گئے ہیں، اسی طرح اُمم سابقہ کے اَخبار وقصص بھی جا بجا بیان کئے گئے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ اسلام میں مذہبی اَسفار و کتب کے علاوہ تواریخ وسیر میں بھی بے شمار کتابیں علماء ِ اسلام کی لکھی ہوئی موجود ہیں۔ کیونکہ مذہبی حیثیت سے انہیں ان جملہ علوم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔جس طرح ا ن کے پاس مذہبی اَحکام و مسائل کا ایک نہایت اہم او رجامع مجموعہ ہے، اسی طرح تاریخی معلومات کا بھی اہم ذخیرہ ان کے پاس موجود ہے۔
    چنانچہ وہ مغربی اَقوام جنہیں آج اپنے علم و فضل اور تاریخ دانی پر بڑا ناز ہے، انہوں نے صاف لفظوں میں اس امرکا اعتراف کیا ہے کہ اہل اسلام نے اپنے مذہب کے ماتحت اس فن میں جو کمال دکھایا ہے اور اپنے بزرگوں کی تاریخ کاجس قدر عظیم الشان ذخیرہ جمع کیاہے وہ تمام دنیا کے لیے قابل حیرانگی ہے۔
    ائمہ اسلام کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ ان بزرگوں نے نہ صرف قرآن و حدیث کے جمع وتدوین اور اس کی تالیف و تصنیف تک اپنی مساعی جمیلہ کو پھیلایابلکہ تین سو برس تک کے ہزاروں لاکھوں امامانِ دین اور حاملانِ شریعت کے ہر ہر واقعہ کو قلمبند کردیا۔ اور ولادت سے وفات تک ان کے واقعات کو مع تاریخ و سال کتابی صورت میں جمع کر دیا۔
    جس قوم کا مذہبی اور تاریخی معیار اس قدر بلند اور ہمہ گیر ہو کہ اس نے اپنی جماعت کے حالات وواقعات کے جمع و ترتیب میں اس قدر سعی بلیغ کی ہو اور تفتیش و تحقیق میں کسی قسم کا تغافل نہ برتا ہو، کیا اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جیسی مقدس اور محترم ہستی کی نسبت اس قسم کا تغافل برتے کہ بجائے۱۶؍ برس کے آپ کے نکاح کی عمر کو ۶؍برس اور آپ کی رخصتی کی عمر کو ۱۹؍برس کے بجائے صرف ۹؍برس لکھ دے۔ اور پھر چودہ صدیوں کے تمام مسلمان ایک خلافِ واقعہ امر کو آنکھ بند کئے مانتے چلے آئے ہوں۔ اور اسی طرح اس چودھویں صدی میں اس کا انکشاف ہواکہ آپ کے نکاح کی صحیح تاریخ۱۶؍برس اور رخصتی ۱۹؍برس ہے۔
    گویا آج تک کے تمام علماء ِ اسلام ،کیا فقیہ ،کیا محدث ،کیا مفسر اورکیا مؤرخ سب کے سب اس واقعہ کے متعلق دس برس کی نہایت زبردست اور فاش غلطی کے جرم کا ارتکاب کرتے آئے۔(معاذ اللہ) کیونکہ سلف سے خلف تک کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقت نکاح ۱۶؍برس اور بوقت ِرخصتی۱۹؍برس کی تھی۔ بلکہ سب کے سب اس امر پر متفق ہیں کہ جناب عائشہ کا نکاح چھ یا سات برس کی عمر میں ہوا تھا اور آپ کی رخصتی ۹؍برس کی عمر میں عمل میں آئی تھی۔
    آپ کی تاریخ ازدواج کے متعلق کتب ِاسلامیہ کا متفقہ بیان:
    چونکہ آپ کے واقعۂ نکاح کو مذہب، اَخلاق، معاشرت ہرایک سے یکساں تعلق تھا، اس لئے علماء ِ حدیث، فقہ، اوراصحابِ سیرت ہر ایک نے آپ کے واقعۂ نکاح کو لیا ہے اور سب نے یہی بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر بوقت ِنکاح چھ یا سات برس کی تھی اور بوقت ِرخصتی ۹؍برس ۔ چنانچہ صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، ابوداؤد اور نسائی ان چاروں کتابوں کی متفقہ روایت یہ ہے :
    عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، قَالَت:’’تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، فَقَدِمْنَا المَدِينَةَ فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الحَارِثِ بْنِ خَزْرَجٍ، فَوُعِكْتُ فَتَمَرَّقَ شَعَرِي، فَوَفَي جُمَيْمَةً فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ، وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ، وَمَعِي صَوَاحِبُ لِي، فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا، لاَ أَدْرِي مَا تُرِيدُ بِي فَأَخَذَتْ بِيَدِي حَتَّي أَوْقَفَتْنِي عَلَي بَابِ الدَّارِ، وَإِنِّي لَأُنْهِجُ حَتَّي سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي، ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاء ٍ فَمَسَحَتْ بِهِ وَجْهِي وَرَأْسِي، ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ فِي البَيْتِ، فَقُلْنَ عَلَي الخَيْرِ وَالبَرَكَةِ، وَعَلَي خَيْرِ طَائِرٍ، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ، فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًي، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ‘‘
    [صحیح البخاری:ج:۵،ح:۳۸۹۴ ،وصحیح مسلم:ج:۲،ح:۱۴۲۲،وسنن ابن ماجۃ:ج:۱،ح:۱۸۷۶]
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس وقت آنحضرت نے مجھ سے نکاح کیا، اس وقت میری عمر چھ برس کی تھی۔ اس کے بعد ہم لوگ (ہجرت کرکے) مدینہ گئے اور وہاں قبیلۂ بنی حارث میں قیام ہوا۔ ا س کے بعد مجھے ایسا بخار آیا کہ سر کے تمام بال جھڑ گئے، پھر (از سر نو نکل کر)کندھوں تک ابھی پہنچے تھے کہ میری ماں (اُمّ رومان) میرے پاس آئیں اور میں اس وقت لڑکیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی۔ میں ماں کے پاس چلی گئی۔ مجھے کچھ خبر نہیں کہ آج کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر دروازہ پر (تھوڑی دیر) رکے رہیں۔ میری سانس (کھیل کی وجہ سے) چڑھ رہی تھی۔ جب سکون ہوا تو ماں نے پانی لے کر میرا منہ اور سر دھویا۔ پھر مکان میں لے کر گئیں۔(گھر میں پہنچ کر دیکھتی ہوں کہ )اَنصار کی عورتیں وہاں موجود ہیں، وہ مجھے دعاء ِ خیر اور مبارک باد دینے لگیں۔ ماں نے مجھے ان عورتوں کے حوالہ کیا، انہوں نے میرا بناؤ سنگھار کیا۔ اب تک مجھے کچھ خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کودیکھا۔ اور پھر مجھے ان عورتوں نے آپ کے سپرد کردیا۔ اور اس وقت میری عمر کل ۹؍برس کی تھی۔
    ابوداؤد، نسائی، صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی یہ متفقہ روایت ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس واقعہ کی راوی بھی خود حضرت عائشہ ہی ہیں اور آپ خود اپنا واقعہ اپنی زبان سے بیان فرما رہی ہیں۔ اور نہایت صراحت کے ساتھ بتلا رہی ہیں کہ مکہ مکرمہ میں چھ برس کی عمر میں میرا آنحضرت سے نکاح ہوا۔ اور مدینہ منورہ میں ۹؍ برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔ کیا ایسی پختہ اور معتبر روایت مل جانے کے بعد بھی کسی اور طرف نظر کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ کیونکہ یہ حدیث نہ صرف سنن کی ہے بلکہ صحیحین کی بھی ہے جس میں صحیح بخاری بھی شامل ہے۔ اور صحیح بخاری کی صحت اور اعتبار کا جو درجہ اسلام میں تسلیم کیا گیاہے کسی سے مخفی نہیں کہ روئے زمین پر قرآن شریف کے بعد سب سے زیادہ معتبر کتاب صحیح بخاری ہے۔
    تمام فقہاء ِ امت بھی نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اسی عمر کے قائل ہیں۔ اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کتنے مسائل کی کتب ِفقہ میں تفریع کی گئی ہے۔
    ’’ کتاب الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب‘‘ جو صحابہ کے حالات میں نہایت جامع، مبسوط اور معتبر کتاب ہے، اس میں بھی آپ کی عمر یہی مذکور ہے ۔ چنانچہ آپ کے ترجمہ میں اس کتاب کی عبارت یہ ہے:
    عن عائشة بنت أبي بكر الصديق زوج النبى تزوجها رسول اللّٰه بمكة قبل الهجرة بسنتين هذا قول أبي عبيدة وقال غيره بثلاث سنين وهى بنت ست سنين وقيل سبع سنين وابتني بها بالمدينة وهى ابنة تسع لاأعلمهم اختلفوا فى ذلك۔
    [استیعاب فی معرفۃ الاصحاب:ج:۴،ص:۱۸۸۲، الإصابۃفی تمییز الصٓحابۃ:ج:۸،ص:۲۳۲]۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا(آپ)حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔ آپ کا نکاح رسول اللہ ﷺکے ساتھ مکہ میں ہواتھا۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہجرت کے دو سال قبل یہ نکاح ہوا تھا اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ تین سال قبل ہوا تھا۔ اس وقت آپ کی عمر چھ برس کی تھی اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سات برس کی تھی۔ اور جس وقت آپ کی جناب رسول اللہ ﷺکے گھر رخصتی ہوئی ہے، اس وقت آپ کی عمر کل نو برس کی تھی۔ مجھے اس بارے میں کسی کا اختلاف معلوم نہیں۔
    یعنی آپ کے نکاح کی عمر میں تو ذرا سا اختلاف ہے کہ کسی نے چھ، کسی نے سات برس کی عمر بتلائی ہے مگر رخصتی کی عمر سب کے نزدیک ۹؍برس مسلم ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اب رہا یہ چھ سات کا اختلاف تو اہل نظر کے نزدیک کچھ اہم نہیں ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اپنی کتاب اصابہ میں لکھتے ہیں:
    عن عائشة بنت أبي بكر الصديق ولدت بعد المبعث بأربع سنين أو خمس فقد ثبت فى الصحيح أن النبى تزوجها وهى بنت ست وقيل سبع و يجمع بأنها كانت أكملت السادسة ودخلت فى السابعة ودخل بها وهى بنت تسع۔
    [الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ:ج:۸،ص:۲۳۲]
    عائشہ حضرت ابوبکرکی لڑکی ہیں۔ نبوت کے چوتھے یا پانچویں سال آپ کی ولادت ہوئی ہے کیونکہ صحیح حدیث سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جب آنحضرت نے آپ کے ساتھ نکاح کیا تھا تو اس وقت آ پ کی عمر چھ برس یا بقول بعض سات برس کی تھی۔ اور ان دونوں اَقوال میں کچھ اختلاف نہیں۔اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ چھ برس کی عمر پوری کرکے ساتویں برس میں داخل ہوچکی تھیں۔ اور آپ کی رخصتی ہوئی جبکہ آپ کی عمر ۹؍ برس کی تھی۔
    یعنی یہ اختلاف کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ چھ برس کی ہوچکیں تو ساتویں سال میں پہنچ گئیں۔ لہٰذا جس نے چھ سال کہا، اس نے کامل سال مراد لیا اور جس نے سات سال بتلایا، اس نے اس نئے سال کو بھی داخل کرلیا۔ الغرض آپ کی نکاح کی یہ عمر بالکل صحیح اور یقینی ہے۔ اور ان کتب مذکورہ کے علاوہ بھی جتنی کتابیں حدیث و سیر کی ہیں، سب میں آپ کی عمر یہی مذکور ہے کہ بوقت ِنکاح چھ برس اور بوقت ِرخصتی نو برس تھی۔
    موجودہ صدی کی نئی تحقیق کی واضح غلطی:
    اس اہم اور مشہور واقعہ پراسلام کی تیرہ صدیاں گزر چکیں مگر کسی نے اس واقعہ کی تاریخ کو غلط ثابت کرنے کی ہمت نہیں کی۔ کیونکہ اسلام کے جملہ دوادین و کتب میں کہیں ایک حرف بھی اس کے خلاف نہیں ہے۔ کتب ِاسلامیہ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نکاح کی عمر چھ برس اور رخصتی کی عمر نو برس ہے مگر آج کے بعض تجدد پسند اصحاب نے، مشکوٰۃ کے اخیر میں جو ایک رسالہ امام خطیب کا لگا ہوا ہے، اس کی ایک عبارت دیکھ کر فوراً یہ لکھ دیا اور اخباروں کے ذریعہ تمام ملک میں اس کی اشاعت بھی کردی کہ حضرت عائشہ کی عمر بوقت نکاح۱۶؍؍برس اور بوقت ِرخصتی ۱۹؍ برس تھی۔
    امام خطیب (مولفِ مشکوٰۃ )کی جس عبارت سے یہ اخذ کیا گیا ہے ، وہ حضرت اسماء جو حضرت عائشہ کی بڑی بہن تھیں، کا ترجمہ (حالات ِزندگی) ہے ۔ اس کی اصل عبارت یوں ہونی چاہئے :
    ’’هي أكبر من أختها عائشة بعشرين سنين وماتت وله مائة سنة وذلك سنة ثلاث وسبعين
    ‘‘[الاکمال:ص:۳، ملحقہ مشکوٰۃشریف]
    اسماء بنت ابی بکر اپنی بہن حضرت عائشہ سے بیس برس بڑی تھیں،۷۳؍ ہجری میں ایک سو برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔
    امام خطیب کی اصل عبارت تو یوں تھی جو ہم نے درج کی لیکن اللہ کاتب پررحم کرے کہ اس نے ’’عشرون‘‘ کی جگہ ’’عشر‘‘ لکھ دیا جس سے عدد کا فرق پڑ گیا۔ یعنی بیس کی بجائے دس ہوگیا۔ اب اس عبارت کا ترجمہ یہ ہوگیا کہ حضرت اسماء حضرت عائشہ سے صرف دس برس بڑی تھیں۔
    اور اس صورت میں حضرت عائشہ جو اپنی بہن اسماء سے بیس برس چھوٹی تھیں، عمرمیں صرف دس برس کم رہ گئیں۔ اور یہاں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت اسماء ایک ہجری میں ۲۷؍برس کی تھیں۔ کیونکہ ۷۳؍ ہجری میں آ پ کی عمر سو برس کی ٹھہری تو ایک ہجری میں ۲۷؍برس یقینی امر ہے۔ اسی غلطی پر بنیاد بناتے ہوئے جب حضرت عائشہ کی عمر ایک ہجری میں نکالی جائے تو دس برس چھوٹی ہونے کی وجہ سے ۱۷؍برس بنتی ہے ۔اگر عمر کا فرق ۲۰؍ برس کا ہو تو ایک ہجری میں حضرت عائشہ کی عمر ۷؍برس بنی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہمارے واقعہ نگار کو غلطی لگی۔
    لیکن ہمارے عجلت پسند بزرگ اسی رسالہ کا وہ مقام دیکھ لیتے جو خاص حضرت عائشہ ہی کے ترجمہ کے ساتھ مخصوص ہے تو ہرگز اس فاش غلطی کا ارتکاب نہ کرتے۔چنانچہ یہی امام خطیب اسی رسالہ میں حضرت عائشہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ :
    عائشة الصديقة أم الموئمنين:’’عائشة بنت أبي بكر الصديق خطبها النبى وتزوجها بمكة فى شوال سنة عشر من النبوة قبل الهجرة بثلاث سنين وأعرس بها بالمدينة فى شوال سنة اثنتين من الجهرة على رأس ثماني عشر شهراً ولها تسع سنين وقيل دخل بها بالمدينة بعد سبعة أشهر من مقدمه وبقيت معه تسع سنين ومات عنها ولها ثماني عشرة سنة‘‘
    [الاکمال :ص۲۸]۔
    عائشہ صدیقہ اُمّ المومنین ہیں: یہ عائشہ حضرت ابوبکرکی لڑکی ہیں، آنحضرت نے آپ کو نکاح کا پیغام دیا اور آپ سے مکہ میں شوال کے مہینہ میں نکاح کیا۔ (یہ واقعہ) ۱۰؍نبوت میں ہوا یعنی ہجرت سے تین برس پہلے اور آپ نے ان کو ۱۸؍مہینہ گزرنے کے بعد ۲؍ہجری میں اپنی دلہن بنایا جس وقت آپ کی عمر کل ۹؍برس کی تھی اور بعض کا بیان ہے کہ یہ خلوت مدینہ میں تشریف آوری کے صرف سات ماہ بعد واقع ہوئی اور آنحضرت کے ساتھ آپ کا قیام بھی (مکہ کے قیام کی طرح) صرف ۹؍ہی برس رہا اور آنحضرت کی وفات کے وقت آپ کی کل عمر صرف اٹھارہ برس کی تھی۔
    اس صاف و صریح بیان کے بعد کہ ۶؍برس کی عمر میں نکاح ہوا اور ۹؍برس کی عمر میں رخصتی ہوئی اور ۱۸؍برس کی عمر میں بیوگی کا صدمہ اٹھایا، کیا کوئی منصف اور عقل مند شخص اس کے بعد اس امر کے یقین کرنے میں تامل کرسکتا ہے کہ حضرت اسماء کے ترجمہ میں ’’عشرین‘‘ کی بجائے ’’عشر‘‘ کا لفظ،محض کتابت کی غلطی ہے۔ ہمیں سخت تعجب ہے کہ لائق مضمون نگار نے اس اصل مضمون سے کیونکر غفلت کی اور ایک غلط عبارت کے ذریعہ تمام دنیا کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔ اگر واقعتہً یہ مقام آپ کی نظر سے نہیں گزرا تو یہ ایک اہل علم کے لئے یہ ناقابل معافی جرم ہے۔کیونکہ یہ مضمون اسی رسالہ میں ہے جس میں سے آپ مضمون لکھ رہے ہیں اوریہی مقام آپ کے ماخذ کا اصل سرچشمہ ہے۔ اور اگر دیدہ ودانستہ اس بددیانتی کا ارتکاب کیا گیا ہے تو ہمارے خیال میں اس سے بڑھ کر ظلم و خیانت کی شاید کوئی اور مثال نہیں ملے گی۔ اب رہا کتابت میں اس قسم کی غلطیوں کا ہوجانا یہ تو روز مرہ کی بات ہے، اہل نظر کے لئے ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، اکائی دہائی کی آئے دن غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مگر قرائن بھی تو کوئی چیز ہیں خصوصاً اس حالت میں کہ اسی واقعہ کو دوسری جگہ بالکل صاف اور واضح کردیا گیا ہو اور جملہ دوادین و کتب بھی اس کی تصدیق کرتی ہوں۔
    اس موقع پر ہمیں اپنے ان محترم معاصرین سے بھی شکایت ہے جنہوں نے اس صحیح مسلک کی تائید کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ امام خطیب سے اس جگہ غلطی ہوگئی ہے یا یہ کہا گیا کہ یہ رسالہ کوئی ایسا اہم رسالہ نہیں ہے۔ کیونکہ جب تک کسی کی غلطی یقینی طور پر معلوم نہ ہو، تب تک اس قسم کا لفظ بولنا بالکل غیر موزوں ہے بالخصوص امام خطیب جیسے بلند پایہ شخص کی طرف جو اس میدان کا اعلیٰ شہسوار ہے۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح پر عقلی اعتراضات:
    اہل اسلام میں جب تک وسعت ِعلم اور دقت ِنظر کا عنصرغالب رہا، کسی فرد نے اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس عمر میں شادی کو غیر معقول خیال نہیںکہا۔ مگر آج جبکہ ہر طرف کفر والحاد کا غلبہ ہے اور تجددو نیچریت کا دور دورہ ہے، اس نکاح پر عقلی اعتراضات وارد کئے جارہے ہیں۔ اس موقع پر جو سوالات آج کل عموماً اٹھائے جاتے ہیں ، وہ درج ذیل ہیں:
    ٭(۱)حضرت عائشہ جیسی کمسن لڑکی سے آنحضرت کو شادی کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟
    ٭(۲)آیا اس عمر کی لڑکی دلہن بننے اور ازدواجی ضرورت کے رفع کر نے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں؟
    ٭(۳)کیا رسول اللہ ﷺکواس سے زیادہ عمر کی لڑکی نہیں مل سکتی تھی کہ اس کمسن بچی کے ساتھ عقد کیا؟
    یہی وہ شکوک و اوہام ہیں جو بطریق سوال پیش کئے جارہے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اس موقعہ پر ان کا جواب بھی دے دیا جائے۔
    پہلا سوال اور اس کا جواب:
    یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ آنحضرت کی بعثت تمام دنیا کے واسطے تھی اور ہے۔ اور دین اسلام کی تکمیل آپ ہی کے ہاتھوں ہونے والی تھی اور ہوئی۔ ایسی صورت میں یہ ضروری تھا کہ طبقہ اناث کو احکام ومسائل بتلانے کے لئے آپ کے عقد میں جہاں کئی ایک عمر رسیدہ خواتین ہوں، وہاں ایک کمسن خاتون بھی ضرور ہونی چاہئے تاکہ وہ کمسن اور کنواری بچیاں جو فرطِ حیا سے ماں برابر جیسی عورتوں سے اپنے مخصوص مسائل پوچھنے میں حیا محسوس کریں،وہ خاص طور پرآپ سے مل کر اپنے حالات کا اظہار کرکے اپنی تشفی کرسکیں۔ اور اس کے لئے صرف حرم نبوی میں داخل ہونا ہی ضروری نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی قابلیت کا پایا جانا بھی ضروری تھا جو احکام و مسائل کے سمجھنے میں کافی مدد دے سکے۔
    حالات و واقعات اس امر پر شاہد ِعدل ہیں کہ اس مخصوص انداز میں جو حضرت عائشہ کو قدرتی طور پر فضیلت حاصل تھی، وہ ازواجِ مطہرات میں سے کسی اور کو باوجود زیادتی سن کے حاصل نہ تھی۔ اوریہی وجہ ہے کہ جس قدر احکام و مسائل حضرت عائشہ سے منقول ہیں، کسی اور بیوی سے اس کا عشرعشیر بھی نہیں پایا جاتا۔ اسی لئے تمام دنیائے اسلام بھی آپ کے فضل و کمال کی معترف ہے۔ الاستیعاب میں عطار بن ریاح جیسے جلیل القدر بزرگ سے مروی ہے کہ:
    ’’كانت عائشةأفقه الناس وأعلم الناس وأحسن الناس رأيا فى العامة‘‘
    [استیعاب فی معرفۃ الاصحاب :ج:۴،ص:۱۸۸۳]
    ’’حضرت عائشہ تمام لوگوں میں زیادہ سمجھدار اور سب سے زیادہ علم والی اور عام طور پر نہایت پختہ رائے رکھنے والی تھیں‘‘
    اسی کتاب میں امام ابوالضحیٰ سے مروی ہے کہ حضرت مسروق فرماتے تھے کہ :
    ’’رأيت مشيخة من أصحاب رسول اللّٰه الأكابر يسئلونها عن الفرائض‘‘
    ’’میں نے آنحضرت کے بڑے بڑے جلیل القدر اصحاب کو دیکھا کہ وہ حضرت عائشہ سے فرائض کے مسائل دریافت کیا کرتے تھے‘‘
    [الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب:ج:۴،ص:۱۸۸۳،والاصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ج:۱، ص:۵۶]
    ہشام بن عروہ کا بیان ہے کہ میرے والد مکرم فرمایا کرتے تھے:
    ’’ما رأيت أحدا أعلم بفقه ولا بطب ولا بشعر من عائشة رضي اللّٰه عنها‘‘
    ’’میں نے کسی کو حضرت عائشہ سے زیادہ عالم نہیں پایا۔ فقہ، طب، شعر ان میں سے کسی ایک میں بھی کوئی ان کا ہم پلہ عالم نہ تھا‘‘
    امام زہری جوصحابہ کرام کے حالات سے بہترین واقفیت رکھنے والے اور علم حدیث اور فقہ کے مسلمہ امام ہیں، ان کا بیان ہے کہ:
    ’’لو جمع علم عائشة إلى علم جميع أزواج النبى وعلم جميع النساء لكان علم عائشة أفضل‘‘۔
    ’’اگر حضرت عائشہ کا علم ایک پلہ میں رکھا جائے اور تمام ازواجِ مطہرات اور دیگر تمام عورتوں کا دوسرے پلہ میں اور یہ تمام علم سے آراستہ ہو کر آئیں تو پھر بھی حضرت عائشہ ہی کے علم کا پلہ بھاری رہے گا‘‘۔
    ابوبرد ہ اپنے والد ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرماتے تھے:
    ’’ما أشکل علینا أمر فسألنا عنہ عائشۃإلا وجدنا عندہا فیہ علما‘‘
    ’’مشکل سے مشکل مسئلہ بھی حضرت عائشہ سے دریافت کیا جاتا تو اس کے متعلق بھی علم کا خزانہ ان کے پاس موجود نظر آتا تھا‘‘
    [سنن الترمذی :ج:۵،ح:۳۸۸۳،باب من فضل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا،والاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ:ج:۸،ص:۲۳۳]
    یہ تمام حالات کتا ب الاستیعاب اورالاصابہ سے لئے گئے ہیں جو اس فن کی اعلیٰ درجہ کی معتبر کتابیں شمار ہوتی ہیں۔ان واقعات و حالات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ حضرت عائشہ کو قدرت کی طرف سے ایسی مافوق العادت استعداد و قابلیت ودیعت کی گئی تھی کہ عرب کیا ساری دنیا کی عورتوں میں اب تک اس کی نظیر نہیں پائی گئی۔ حتیٰ کہ وہ ازواجِ مطہرات جو آپ سے قبل آنحضرت ﷺکے فیض صحبت سے مستفیض ہو رہی تھیں اور ان میں سے اکثر کا تعلق اعیانِ قریش اور صنادید عرب ہی سے تھا، ان میں سے ہر ایک نے آنحضرت کی صحبت بھی آپ سے کہیں زیادہ پائی تھی مگر پھر بھی جو فضل و کمال اس کمسن اور خورد سال میں پایا گیا، وہ کسی اور معمر، عمررسیدہ میں نظر نہ آیا۔ ایسی صورت میں جبکہ قدرت نے پہلے ہی سے آپ کو فضل و کمال کے بے انتہا محاسن عطا کر رکھے تھا اورنکاح کے بعد آپ کی ذات ِ گرامی سے وہ علم و فضل کے چشمے جاری ہوئے کہ اس وقت سے لے کر آج تک کے تمام اہل اسلام اس کے بغیر تشنہ کام نظر آرہے ہیں، کیا کسی کو یہ کہنا سزاوار ہے کہ آپ نے تمام عرب میں سے اسی کمسن اور خورد سال بچی کو کیوں منتخب فرمایا؟
    امرواقعہ بھی یہ ہے کہ جس قدرت کی طرف سے آپ کے اندر فضل وکمال کے یہ جواہرات ودیعت کئے گئے تھے اور دنیا کی ہدایت کے لئے آپ کی ذاتِ گرامی کو منتخب کیا گیاتھا، اسی کی طرف سے آنحضرت ﷺکو رسم ازدواجی کے پورا کرنے کا اشارہ بھی فرما دیا گیا تھا۔ چنانچہ حافظ ابن عبدالبر الاستیعاب میں لکھتے ہیں کہ:۔
    ’’كان رسول اللّٰه قدر أى عائشةفي المنام فى سرقة من حرير فتوفيت خديجةفقال إن يكن هذا من عند اللّٰه يمضه فتزوجها بعد موت خديجة‘‘
    ’’آنحضرت ﷺنے حضرت عائشہ کو ریشم کے کپڑے میں خواب میں دیکھا۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ خواب خدا کی طرف سے ہے تو وہ اس کو سچا کر دکھائے گا (چنانچہ ایسا ہی ہواکہ) حضرت خدیجہ کے بعد آپ نے حضرت عائشہ سے نکاح کیا‘‘
    [شرح النووی علٰی مسلم:ج:۱۵،ص:۲۰۲، والاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب :ج:۴،ص:۱۸۸۱،والاصابۃ فی تمییز الصحابۃ:ج:۴،ص:۱۵۷]
    الاصابہ میں حافظ ابن حجراس خواب کا ذکر خود حضرت عائشہ ہی کی زبان سے نقل کرتے ہیں کہ آپ کہا کرتی تھیں:
    ’’أعطيت خلالا ما أعطيتها امرأة:ملكني رسول اللّٰه وأنا بنت سبع وأتاه الملك بصورتي فى كفه لينظر إليهاو بني بي لتسع‘‘الخ۔
    [الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ:ج:۸،ص:۲۳۴]
    مجھے بعض ایسی فضیلتیں عطا کی گئیں کہ وہ کسی اور بی بی کو نصیب نہ ہوئیں:
    (ایک) : یہ کہ سات سال کی عمر میں آپ نے مجھے اپنی بیوی بنایا۔
    (دوسرے): یہ کہ فرشتہ میری صورت اپنی ہتھیلی میں لے کر آپ ﷺکو دکھلانے کے لئے لایا۔
    (تیسرے ): یہ کہ ۹؍برس کی عمر میں میرے ساتھ آپ نے خلوت کی ۔الخ
    بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو بار آپ کو اس نکاح کی طرف بذریعہ خواب توجہ دلائی گئی۔ چنانچہ حضرت عائشہ کی ہی زبانی آنحضرت کا بیان ان لفظوں میں مذکور ہے:
    ’’أريتك فى المنام مرتين إذا رجل يحملك فى سرقة حرير فيقول هذه امرأتك فأكشفها فإذا هي أنت فأقول إن يكن هذا من عنداللّٰه يمضه‘‘
    [صحیح البخاری:ج:۵،ح:۳۸۹۵]
    ’’تم مجھے دو بار خواب میں اس طرح سے دکھلائی گئیں کہ ایک شخص تم کو ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر دکھلاتا ہے کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ میں جب کپڑا اٹھا کر دیکھتا تو تمہاری صورت نظر آتی تھی۔ میں نے کہا کہ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو پورا ہو کر رہے گا‘‘۔
    بعض روایات میں تین بار کا بھی ذکر آیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قدرت کو پہلے ہی سے یہ بات منظور تھی کہ آپ کی ذات سے اسلام کو تقویت ہو۔ چنانچہ اس کا ثبوت ان خوابوں سے واضح ہوگیا۔ کیونکہ اسلامی مفاد مدنظر نہ ہوتا تو بذریعہ خواب آنحضرت کو بشارت دیے جانے کی ضرورت نہ تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ پہلے ہی سے آپ کے روحانی اور جسمانی حالات قدرتی طور پر مافوق العادت ترقی پذیر تھے۔ قدرت کی یہ تربیت خاص انداز میں آپ کے ساتھ اسی لئے تھی کہ آپ سے بڑے بڑے کام اس کو لینا منظور تھے۔ چنانچہ دنیا نے اس کو دیکھ لیا کہ آپ باوجود کمسن اورصنف ِ نازک ہونے کے بڑے بڑے فقہاصحابہ سے علمی طور پر برترتھیں۔
    جاری ہے ……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings