-
سلف صالحین کے نزدیک علما ء اور اساتذہ کی تعظیم وتوقیر کے چند نمونے استاد کا احترام اور ان کی تعظیم و توقیر ایک مسلّم فطری اصول ہے جو عام کائناتی نظام کا حصہ ہے، دنیا میں بسنے والے تمام مذاہب وافکار کے حاملین اور ہر رنگ ونسل کے لوگ اپنے اپنے انداز میں اساتذہ اور علماء ومشائخ کا احترام کرتے ہیں، لیکن اسلام اور علمائے اسلام نے اساتذہ کرام اور علماء کو جو مقام دیا ہے وہ انتہائی قابل رشک اور اعلیٰ وارفع ہے ۔
زیر نظر مضمون میں نصوص کتاب وسنت سے قطع نظر سلف صالحین کے اقوال و آثار اور عملی نمونوں کی روشنی میں اہل اسلام کے نزدیک اساتذہ کی قدر و منزلت اور اعزاز واحترام کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
طاؤس بن کیسان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سنت یہ ہے کہ عالم کی تکریم و توقیر کی جائے‘‘[جامع بیان العلم و فضلہ : ۱؍ ۴۵۹]
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا گیا کہ آپ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی سواری کی رکاب تھامے ہوئے ہیں، تو آپ سے کہا گیا کہ:آپ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد ہیں اور آپ اس انصاری کی سواری کی رکاب تھامے ہوئے ہیں؟!تو آپ نے فرمایا:’’ضروری ہے کہ عالم کی تعظیم کی جائے اور انہیں مناسب مقام ومرتبہ عطا کیا جائے‘‘[الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب: ۱؍ ۱۸۸]
امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:’’زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی، اس کے بعد سواری کے لیے ان کے پاس ایک خچر لایا گیا، تو ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے آ کر اس کی رکاب تھام لی، یہ دیکھ کر زید بن ثابت نے فرمایا:اے رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد چھوڑ دیجیے!چھوڑ دیجیے!تو آپ نے فرمایا: علماء و فضلاء اور بزرگوں کے ساتھ ایسا ہی کیا جانا چاہیے‘‘۔
دوسری روایت میں ہے:زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’کیا آپ میرے خچر کی رکاب تھامیں گے جبکہ آپ رسول اللہ ﷺکے چچا زاد بھائی ہیں؟ تو آپ نے کہا:ہم علما کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں‘‘۔[ الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب: ۱؍ ۱۸۸]
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:’میں دو سال تک اپنے دل میں یہ خواہش لیے رہا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کروں، لیکن صرف آپ کی ہیبت کی وجہ سے ہمت نہیں جٹا پایا، یہاں تک کہ آپ ایک مرتبہ حج یا عمرہ کے موقع پر وادیٔ’’مر الظہران‘‘میں ایک درخت کے پاس اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر لوگوں سے پیچھے رہ گئے، پس جب آپ آئے اور مجھے آپ کے ساتھ خلوت نصیب ہوئی تو میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! میں دو سال سے آپ سے ایک حدیث کے بارے میں استفسار کرنا چاہتا ہوں، لیکن آپ کی ہیبت اور رعب کی وجہ سے ہمت نہیں ہوتی ہے، تو آپ نے فرمایا:آئندہ ایسا نہ کرنا،جب بھی کوئی سوال کرنا ہو تو کر لینا، اگر اس کے بارے میں مجھے علم ہوا تو بتا دوں گا، ورنہ کہہ دوں گا کہ میں نہیں جانتا، پھر تم کسی ایسے شخص سے پوچھ لوگے جو جانکار ہوگا، تو میں نے پوچھا کہ:وہ دو خواتین کون ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے رسول کے مقابلے میں ایک دوسرے کا تعاون کر رہی تھیں؟ آپ نے فرمایا:وہ عائشہ اور حفصہ تھیں‘‘۔[جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر:۱؍ ۱۵۶]
لیث بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سعید بن مسیب رحمہ اللہ دو رکعت نماز ادا کرکے مجلس میں بیٹھتے، تو مہاجرین وانصار میں سے اصحاب رسول ﷺ کے بچے آپ کے پاس حاضر ہوتے، لیکن ان میں سے کسی کو جرأت نہ ہوتی کہ آپ سے کوئی سوال کرے، یہاں تک کہ آپ خود ہی بات کا آغاز کرتے یا کوئی سائل آکر آپ سے سوال کرتا، چنانچہ وہ سنتے‘‘۔ [الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب :۱؍ ۴۰۰]
عبد الرحمن بن حرملہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ:کوئی بھی شخص سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتا یہاں تک کہ آپ سے اجازت لے لیتا جیسا کہ حکمران سے اجازت لی جاتی ہے‘‘ ۔[الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب: ۱؍ ۱۸۴]
محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میں نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کو دیکھا، آپ کے تلامذہ امیر اور حاکم کی طرح آپ کی تعظیم و تکریم کرتے اور سرداروں کا مقام دیتے تھے‘‘[الجامع للخطیب:۱؍۱۸۲]
امام اعمش بیان کرتے ہیں :’’کہ ہم لوگ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے ویسے ہی ڈرتے اور ہیبت زدہ رہتے تھے جیسے حکمران سے ڈرا اور خوف کھایا جاتا ہے‘‘۔ [تذکرۃ الحفاظ :۱؍ ۷۴]
ابو عبد اللہ المعیطی ذکر کرتے ہیں: ’’میں نے مکہ میں ابو بکر بن عیاش رحمہ اللہ کو دیکھا کہ آپ کے پاس سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ تشریف لائے اور آپ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے، اور ابو بکر رحمہ اللہ آپ سے حال احوال اور اہل وعیال کے بارے میں دریافت کرنے لگے، اسی دوران ایک شخص آیا اور سفیان بن عیینہ سے کسی حدیث کے بارے میں سوال کرنے لگا، تو آپ نے فرمایا کہ جب تک یہ شیخ بیٹھے ہیں کوئی سوال نہ کرنا‘‘۔[الجامع للخطیب: ۱؍ ۳۲۰]
حسن بن علی الخلال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہم لوگ معتمر بن سلیمان رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر تھے اور آپ ہمیں حدیث سنا رہے تھے، کہ اچانک عبد اللہ بن المبارک تشریف لائے، تو معتمر نے اپنی بات روک دی،جب آپ سے کہا گیا کہ: ہمیں حدیث سنائیے!تو فرمایا کہ ہم اپنے بڑوں کے سامنے بات نہیں کرتے ہیں‘‘۔[الجامع للخطیب :۱؍ ۳۲۱]
احمد بن سنان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’ جب عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اپنی مجلس میں تشریف فرما ہوتے، تو آپ کی مجلس میں نہ ہی کسی قسم بات کی جاتی، نہ قلم کی نوک تراشے اور سنوارے جاتے اور نہ ہی کوئی مجلس سے اٹھتا، سب ایسے بیٹھے رہتے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں (کہ ذرا سا ہلیں تو پرندے اڑ جائیں گے) یا وہ نماز میں ہیں‘‘۔[تذکرۃ الحفاظ:۱؍ ۳۳۱]
ابو عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’ہم لوگ ابن عون رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ہم سے حدیث بیان کر رہے تھے،اسی دوران ہمارے پاس سے ابراہیم بن عبد اللہ بن حسن رحمہ اللہ کے قافلے کا گزر ہوا۔ان دنوں اپنے بھائی محمد (بن عبد اللہ بن حسن النفس الزکیہ)کے قتل کے بعد آپ کو امام کہا جاتا تھا۔ لیکن صرف ابنِ عون رحمہ اللہ کی ہیبت اور رعب کی وجہ سے ہم میں سے کسی نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی جسارت نہیں کی، چہ جائیکہ مجلس سے اٹھ کر جاتا‘‘۔ [الجامع للخطیب:۱؍ ۱۸۵]
حرملہ بن یحییٰ التجیبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:’’جب امام شافعی رحمہ اللہ کے سامنے اصحاب الحدیث کا تذکرہ کیا گیا اور یہ شکوہ کیا گیا کہ وہ حصول علم کے دوران ادب کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے ہیں، تو میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: میں نے حدیث، قرآن، نحو اور ان کے علاوہ دیگر چیزوں کا جو کچھ بھی علم حاصل کیا ہے جن سے میں استفادہ کر رہا ہوں، ان کے سیکھنے میں یقینی طور پر میں نے ادب وآداب کا ضرور خیال رکھا، یہاں تک کہ یہ چیز میری طبیعت کا حصہ بن گئی، اور پھر جب مدینہ پہنچا اور امام مالک رحمہ اللہ کی ہیبت ورعب اور ان کا علم کی تعظیم و تکریم کرنا دیکھا تو میرے اندر یہ چیز مزید پروان چڑھ گئی، حتیٰ کہ بسا اوقات جب میں امام مالک کی مجلس میں ہوتا تو آپ کی ہیبت اور وقار کی وجہ سے انتہائی لطافت اور قرینے سے صفحات پلٹتا تھا تاکہ کہیں آپ اس کی آواز نہ سن لیں‘‘۔[توالی التأسیس بمعالی ابن ادریس:ص:۱۵۳]
ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’اللہ کی قسم میں نے کبھی بھی اس حالت میں پانی پینے کی جسارت نہیں کیا جب امام شافعی رحمہ اللہ میری طرف دیکھ رہے ہوں،محض آپ کی ہیبت اور رعب کی وجہ سے‘‘۔[مناقب الشافعی للبیہقی:۲؍ ۱۴۵]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ:’’میں مسلسل چار سال تک ہشیم (بن بشیر الواسطی)رحمہ اللہ کی صحبت میں رہا لیکن آپ کی ہیبت کی وجہ سے سوائے دو بار کے کبھی کوئی سوال نہ کر سکا‘‘۔ [تذکرۃ الحفاظ:۱؍ ۲۴۹]
عبدوس بن مالک العطار رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ: ایک روز ابو عبد اللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مجھے ہنستے ہوئے دیکھ لیا تھا، تب سے لے کر آج تک میں آپ سے شرماتا ہوں‘‘۔ [مناقب الإمام أحمد لابن الجوزی :ص:۲۷۳]
امام احمد بن اسحاق الفقیہ فرماتے ہیں کہ:’’میں نے محدثین میں ابراہیم بن ابی طالب رحمہ اللہ سے زیادہ با رعب اور پر حشمت کسی کو نہیں دیکھا، ہم آپ کے سامنے ایسے بیٹھتے تھے گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، ایک بار ابو زکریا العنبری کو چھینک آئی تو اس نے اسے دبانے کی کوشش کی،تو میں نے چپکے سے اس سے کہا کہ اپنی چھینک نہ دباؤ! تم اللہ کے سامنے نہیں ہو‘‘۔[ تذکرۃ الحفاظ للذہبی :۲؍ ۶۳۸]
ابو زکریا العنبری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:’’میں سن ۲۸۹ھ میں حسین بن محمد القبانی کے جنازے میں شریک ہوا، نماز جنازہ ادا کرنے کے لئے ابو عبد اللہ البوشنجی رحمہ اللہ بھی تشریف لائے اور نماز ادا کی، چنانچہ جب واپس لوٹنے کا ارادہ فرمایا تو آپ کی سواری لائی گئی، ابو عمرو الخفاف نے لگام تھام لی، ابو بکر محمد بن اسحاق نے رکاب پکڑ لیا، ابو بکر الجارودی اور ابراہیم بن ابی طالب آپ کا کپڑا سنوارنے اور سیدھا کرنے لگے، پھر آپ چلے گئے اور ان میں سے کسی سے بات نہ کی‘‘۔[معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:ص:۷۹، تہذیب التہذیب:۹؍۹]
احمد بن ازہر البلخی رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ:’’میں نے امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:میں بغداد آیا اور میرا مقصد صرف اور صرف احمد بن حنبل سے ملاقات کرنا تھا، چنانچہ وہ یحییٰ بن معین کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے، ہم لوگوں نے آپس میں مذاکرہ کیا، اس کے بعد احمد بن حنبل اٹھے اور میرے سامنے آ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ان چیزوں کو مجھے املا کرا دیجیے، پھر ہم نے باہم مذاکرہ کیا، اور آپ دوبارہ کھڑے ہو گئے اور پھر میرے سامنے آ کر بیٹھ گئے، میں نے کہا:اے ابو عبد اللہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں!تو آپ نے فرمایا کہ:آپ میری طرف توجہ نہ دیں، میں بس یہ کوشش کر رہا ہوں کہ اسی طرح علم حاصل کروں جس طرح کرنا چاہیے ‘‘۔[مناقب الإمام أحمد لابن الجوزی ص: ۷۱]
ادریس بن عبد الکریم بیان کرتے ہیں کہ خلف بن ہشام بن ثعلب نے فرمایا کہ:’’میرے پاس احمد بن حنبل رحمہ اللہ ’’حدیث أبی عوانۃ‘‘سننے کے لیے تشریف لائے،تو میں نے کوشش کی کہ آپ کی عزت افزائی کروں اور آپ کو اوپر مسند پر بٹھاؤں، لیکن آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میں تو (نیچے)آپ کے سامنے ہی بیٹھوں گا، کیونکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم جن سے علم حاصل کرتے ہیں ان کے سامنے انکساری اور فروتنی کا مظاہرہ کریں‘‘۔[مناقب الإمام أحمد لابن الجوزی:ص:۷۱]
اسحاق الشہیدی بیان کرتے ہیں کہ:’’میں یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کو دیکھتا تھا کہ آپ عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنی مسجد کے مینار کے ستون سے ٹیک لگا کر جلوہ افروز ہوتے تھے، اور آپ کے سامنے علی بن المدینی، شاذ کونی، عمرو بن علی، احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین وغیرہم کھڑے ہو جاتے، اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر ہی حدیثوں کے بارے میں سوال کرتے تھے، یہاں تک کہ مغرب کی نماز کا وقت ہو جاتا، آپ کسی سے بیٹھنے کو نہ کہتے اور آپ کی ہیبت اور تعظیم کی خاطر وہ لوگ خود بھی نہیں بیٹھتے تھے‘‘۔ [مناقب الإمام أحمد لابن الجوزی:ص:۷۱]
محمد بن مسلم بن وارہ بیان کرتے ہیں کہ:’’ہم لوگ ڈرتے تھے کہ کسی مسئلہ میں احمد بن حنبل کو جواب دیں، یا کسی بھی معاملے میں آپ سے بحث و مباحثہ کریں، یعنی آپ کی عظمت و جلالت اور اس رعب داب کی وجہ سے جو اسلام کی وجہ سے آپ کو حاصل ہوا تھا‘‘۔[مناقب الإمام أحمد لابن الجوزی :ص: ۲۷۳]
ابو بکر المروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’ ’’جسر‘‘کے امیر حسن بن احمد نے کہا جو کہ ہمارے پڑوس میں رہتے تھے کہ میں اسحاق بن ابراہیم اور فلاں فلاں سلاطین کے پاس گیا اور ان سے ملا لیکن احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے زیادہ عظمت و جلالت اور رعب داب والا کسی کو نہیں پایا، ایک بار میں ان سے کسی معاملے میں بات کرنے کے ارادے سے گیا لیکن جب انہیں دیکھا تو ہیبت کی وجہ سے کانپ اٹھا مانو جیسے مجھ پر بجلی گر گئی ہو‘‘۔[ مناقب الإمام أحمد لابن الجوزی : ص:۲۹۱]
امام احمد رحمہ اللہ کے فرزند صالح فرماتے ہیں کہ:’’ایک مرتبہ میرے والد امام شافعی رحمہ اللہ کے خچر کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ یحییٰ بن معین نے انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو انہوں نے والد محترم کو پیغام بھیجا کہ:اے ابو عبد اللہ مجھے آپ کا شافعی کے خچر کے ساتھ چلنا بالکل پسند نہیں ہے!تو آپ نے فرمایا:اے ابو زکریا اگر آپ بھی ان کے خچر کے دوسرے جانب سے ہو کر چلیں تو یہ آپ کے لئے بھی بہت نفع بخش ہوگا۔مزید فرمایا:یہ سب چھوڑیئے اور اگر آپ بھی فقہ سیکھنا چاہتے ہیں تو مضبوطی سے خچر کی دم پکڑ لیجئے ‘‘۔[طرح التثریب فی شرح التقریب:۱؍ ۹۶، سیر أعلام النبلاء:۱۰؍ ۸۶]
محمد بن رافع بیان کرتے ہیں کہ:’’میں احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کے ساتھ عبد الرزاق صنعانی کے یہاں قیام پذیر تھا کہ عید الفطر کا دن آیا تو ہم عبد الرزاق کے ساتھ عید گاہ گئے، ہمارے ساتھ بہت لوگ تھے، چنانچہ جب ہم عید گاہ سے لوٹے تو عبد الرزاق نے ہمیں کھانے پر بلایا، اور جب ہم ان کے ساتھ کھانا کھانے لگے تو احمد اور اسحاق رحمہما اللہ سے فرمایا کہ:آج میں نے آپ دونوں کی جانب سے عجیب فعل کا صدور ملاحظہ کیا ہے کہ آپ دونوں تکبیر نہیں پکار رہے تھے!تو احمد اور اسحاق نے فرمایا کہ:اے ابو بکر ہم آپ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اگر آپ تکبیر پکارتے ہیں تو ہم بھی پکاریں گے، لیکن جب ہم نے دیکھا کہ آپ تکبیر نہیں پکار رہے ہیں تو ہم بھی رک گئے، عبد الرزاق نے فرمایا:اور میں آپ دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کیا آپ تکبیر پکار رہے ہیں کہ میں بھی پکاروں‘‘۔ [سیر أعلام النبلاء: ۱۲؍ ۲۱۶]
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’میں نے یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے زیادہ محدثین کی تعظیم و تکریم کرنے والا کسی کو نہیں پایا‘‘۔[الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع:۲؍ ۱۸۲]
ابو عبد اللہ یحییٰ بن عبد الملک الموصلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’میں نے مدینہ میں امام مالک رحمہ اللہ کا دربار دیکھا تو ایسا لگا کہ گویا بادشاہ کا دربار ہے‘‘۔[تذکرۃ الحفاظ للذہبی :۱؍ ۲۰۸]
عبد اللہ بن المعتز فرماتے ہیں کہ:’’طالب علموں میں جو متواضع ہوتا وہ ان میں زیادہ صاحب علم ہوتا ہے، جیسا کہ جو نشیبی زمین ہوتی ہے اس میں دوسری زمینوں کی نسبت پانی زیادہ ٹھہرتا ہے‘‘۔ [الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب:۱؍ ۱۹۸]
عمرو بن قیس الملائی کو جب کسی کے بارے میں معلوم ہوتا کہ ان کے پاس حدیث کا علم ہے، اور آپ ان سے علم حاصل کرنا چاہتے، تو ان کے پاس تشریف لے جاتے، ان کے سامنے بیٹھتے اور نہایت عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرماتے:’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، اللہ نے جو علم آپ کو عطا کیا ہے ان میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیں‘‘۔ [تذکرۃ السامع والمتکلم: ص:۹۰]
شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’جب میں کسی سے حدیث سنتا ہوں، تو جب تک وہ زندہ رہتے ہیں میں ان کا غلام بن جاتا ہوں‘‘۔[تاریخ بغداد :۹؍ ۱۳۴]
ابو معاویہ الضریر (نابینا)رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:’’ایک روز میں نے ہارون الرشید کے ساتھ کھانا کھایا، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ایک شخص نے ہاتھ دھلنے کے لیے میرے لئے پانی انڈیلا جسے میں پہچان نہ سکا، تو ہارون الرشید نے کہا کہ:کیا آپ جانتے ہیں آپ کے لیے کون پانی انڈیل رہا تھا ؟ میں نے کہا نہیں، فرمایا: میں خود، میں نے کہا:امیر المؤمنین آپ ؟!فرمایا: ہاں، علم کی تعظیم و تکریم کے لئے!‘‘۔[ المنتظم فی التأریخ :۸؍ ۳۲۲، سیر أعلام النبلاء: ۹؍ ۲۸۸]
ابو بکر محمد بن الادمونی نحوی فرماتے ہیں کہ:’’جب انسان کسی عالم سے علم حاصل کرتا ہے اور ان کے علمی فوائد سے مستفید ہوتا ہے تو وہ ان کا غلام بن جاتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{وإذْ قالَ مُوسٰی لِفَتاہُ}اور جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہاآیت کریمہ میں’’فتاہ‘‘سے مراد’’یوشع بن نون‘‘ہیں، وہ گرچہ موسیٰ علیہ السلام کے شاگرد اور ہم سفر ومتبع تھے لیکن خادم نہیں تھے، اس کے باوجود شاگرد ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خادم اور غلام کے لفظ سے ان کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح کی بات فراء نحوی نے بھی کہی ہے‘‘۔ [الفقیہ والمتفقہ :۲؍ ۲۹۹]
بیان کیا جاتا ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے فرزند کو اصمعی کے پاس بھیجا تاکہ آپ انہیں علم اور ادب سکھائیں، چنانچہ ایک روز ہارون الرشید نے دیکھا کہ اصمعی وضو کرتے ہوئے اپنا پیر دھل رہے ہیں اور خلیفہ کا بیٹا ان کے پیر پر پانی ڈال رہا ہے، توآپ اس کی وجہ سے اصمعی پر برہم ہوئے اور کہا کہ:میں نے اسے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے تاکہ آپ اسے علم اور ادب سکھائیں، لہٰذا آپ نے اسے یہ حکم کیوں نہ دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کا پیر دھلے؟‘‘۔
احمد بن حمدون بیان کرتے ہیں کہ:’’خلیفہ واثق کے استاد اور مؤدب’’ہارون بن زیاد‘‘ واثق کے پاس آئے، تو خلیفہ نے ان کی خوب تعظیم و تکریم فرمائی، اور جب ان سے پوچھا گیا کہ:اے امیر المومنین یہ کون ہیں جن کی آپ نے اس قدر عزت افزائی فرمائی؟ تو واثق نے کہا:یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مجھے اللہ کا ذکر کرنا سکھایا اور رحمت الٰہی سے قریب کیا‘‘۔ [تاریخ الخلفاء للسیوطی: ۱؍ ۲۵۰]
بیان کیا جاتا ہے کہ جب سفیان ثوری رحمہ اللہ کو امام اوزاعی رحمہ اللہ کے آنے کی خبر پہنچی تو آپ ان کے استقبال کے لیے نکل پڑے، یہاں تک کہ مقام ’’ذی طویٰ‘‘میں جا کر ان سے ملے اور قافلہ کے اونٹوں کی قطار سے امام اوزاعی کے اونٹ کی لگام کھول کر اپنے کندھے پر ڈال لیا اور شتر بان کے مثل آگے آگے چلنے لگے، چنانچہ جب بھی کسی بھیڑ سے ہو کر گزرتے تو فرماتے کہ ’’شیخ کے لیے راستہ دو، شیخ کے لیے راستہ دو‘‘۔[تہذیب الأسماء واللغات النووی:۱؍ ۳۰۰، وفیات الأعیان لابن خلکان:۳؍ ۱۲۷]
محمد بن حمدون بن رستم بیان کرتے ہیں کہ جب امام مسلم بن الحجاج رحمہ اللہ امام بخاری کے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ کو کہتے ہوئے سنا کہ:’’اے استادوں کے استاد، محدثین کے سردار اور حدیث کی علتوں کے طبیب مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے پیروں کو چوم لوں‘‘۔[سیر أعلام النبلاء :۱۲؍ ۴۳۲]
عاصم بن ابی النجود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’میں جب بھی کسی سفر سے لوٹ کر ابو وائل کے پاس گیا انہوں نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا‘‘۔[سیر أعلام النبلاء :۵؍ ۲۵۷]
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’میں عروۃ بن الزبیر کے دروازے پر آتا کچھ دیر بیٹھتا اور پھر اندر داخل ہوئے بنا لوٹ جاتا تھا، اگر میں چاہتا تو اندر جا سکتا تھا لیکن آپ کی تعظیم کی خاطر ایسا نہیں کرتا تھا‘‘۔[حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم الأصبہانی:۲؍ ۲۳]
مزید فرماتے ہیں کہ :’’میں نے (اپنے استاد)عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ کی بہت زیادہ خدمت کی، جس کی وجہ سے آپ کے خادم اور لونڈی مجھے بھی آپ کا خادم ہی سمجھتے تھے، حتیٰ کہ آپ کے وضو کا پانی بھی میں ہی لاتا تھا‘‘۔ [الحلیۃ:۲؍ ۲۳ ]
بیان کیا جاتا ہے کہ خلیفہ مامون الرشید کے دو بیٹے ’’فراء‘‘ نحوی کے پاس نحو کی تعلیم حاصل کرتے تھے، ایک بار وہ کسی کام کے لئے مسند تدریس سے اٹھے، تو دونوں شہزادے دوڑ پڑے کہ جوتیاں سیدھی کرکے استاد کے آگے رکھیں، چونکہ دونوں ساتھ پہنچ گئے تھے اس لیے پہلے تو جھگڑا ہوا پھر خود ہی طے کرکے ہر ایک نے ایک ایک جوتی سامنے لا کر رکھ دی، مامون نے ایک ایک چیز نوٹ کرنے کے لیے پرچہ نویس مقرر کر رکھے تھے، چنانچہ پرچہ نویسوں نے اس واقعہ کی بھی خبر پہنچائی، مامون کو جب اطلاع ہوئی تو ’’فراء ‘‘بڑی شان سے دربار میں طلب کیے گئے، مامون نے ’’فراء‘‘سے پوچھا کہ سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ ’’فراء‘‘نے کہا:سب سے زیادہ معزز امیر المومنین ہیں، مامون نے کہا: کیوں نہیں، سب سے زیادہ معزز تو وہ ہیں کہ جب وہ اٹھیں تو ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے مسلمانوں کے دو ولی عہد آپس میں جھگڑا کریں اور پھر دونوں ایک ایک کرکے سیدھی کریں‘‘۔[تاریخ بغداد للخطیب:۱۴؍ ۱۵۰، المنتظم لابن الجوزی:۱۰ ؍ ۱۷۹، سیر أعلام النبلاء:۱۰؍۱۱۹]
ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:احمد بن حنبل رحمہ اللہ کسی بیماری کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اسی دوران آپ کے سامنے ابراہیم بن طہمان کا تذکرہ کیا گیا، تو آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ:’’مناسب نہیں ہے کہ صالحین کا ذکر ہو اور ہم ٹیک لگا کر بیٹھے رہیں‘‘۔ [الأنساب للسمعانی:۲؍۳۸، الآداب الشرعیۃ والمنح المرعیۃ: ۲؍۲۴]
امام احمد رحمہ اللہ اپنے استاد امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:’’میں چالیس سالوں سے اپنی نمازوں میں شافعی کے لیے دعائیں کرتا ہوں، میں کہتا ہوں کہ اے میرے معبود تو مجھے میرے والدین کو اور شافعی کو بخش دے‘‘[ تھذیب الأسماء واللغات للنووی: ۱؍ ۶۰]
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’خلیفہ ہارون الرشید نے یہ مطالبہ کرتے ہوئے مجھے پیغام بھیجا کہ میں انہیں حدیث سناؤں، میں نے کہا:اے امیر المومنین! علم کے پاس آیا جاتا ہے وہ خود چل کر نہیں جاتا، تو وہ میرے گھر تشریف لائے اور میرے ساتھ دیوار پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، میں نے کہا:اے امیر المومنین!اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ سفید پوش وسفید ریش بزرگوں کی تکریم کی جائے، چنانچہ وہ میرے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے‘‘۔ [الحث علٰی طلب العلم للعسکری:ص:۸۴]
امام ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’ میں عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی مجلس میں بیٹھا تو دیکھا کہ ان کے شاگرد ان کی اس طرح تعظیم و توقیر کرتے ہیں جیسے وہ کوئی امیر ہوں‘‘[تاریخ دمشق لابن عساکر :۳۶؍ ۹۰]
سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’ایک شخص نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے میراث کے کسی مسئلہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ سعید بن جبیر کے پاس جاؤ وہ مجھ سے زیادہ حساب جانتا ہے‘‘۔ [الطبقات الکبریٰ لابن سعد : (۶؍ ۲۶۹)]
غور کریں عبد اللہ بن عمر خود صحابیٔ رسول، خلیفہ کے بیٹے اور جلیل القدر عالم ہیں لیکن علم اور اہل علم کی قدر و منزلت سے واقف ہیں اس لیے ایک کم عمر غلام زادہ تابعی جو ان کے شاگرد ہیں لیکن چونکہ علم و معرفت سے مسلح ہیں اس لیے سائل کو ان سے فتویٰ پوچھنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔
اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے جب کوئی کوفی سوال کرنے آتا تو فرماتے کہ کیا تمہارے یہاں ’’ابن الدہماء ‘‘عطاء بن رباح نہیں ہے؟ مطلب اس سے فتویٰ پوچھنے کے بجائے تم یہاں کیوں آئے ہو۔[سیر أعلام النبلاء ط الرسالۃ: ۴؍۳۲۵]
حالانکہ آپ حبر الامہ، ترجمان القرآن اور جلیل القدر صحابی رسول ہیں اس کے باوجود اپنے شاگرد اور تابعی سے سوال پوچھنے کی نصیحت کرتے ہیں جو کہ صرف اور صرف علم و ادب اور فقہ وبصیرت کے پیش نظر ہے۔
ابو قیس الاودی فرماتے ہیں کہ :’’میں نے ابراہیم نخعی کو دیکھا آپ علقمہ کی سواری کی رکاب تھامے ہوئے تھے‘‘ [معجم حفاظ القرآن عبر التاریخ:۱؍ ۴۳۶]
سلمہ بن کہیل فرماتے ہیں کہ:’’ جب بھی امام شعبی اور ابراہیم نخعی رحمہما اللہ کسی مجلس میں جمع ہوتے، شعبی کا احترام کرتے ہوئے ابراہیم نخعی خاموش ہو جاتے تھے‘‘۔ [تاریخ دمشق لابن عساکر :۲۵؍ ۳۶۷]
حالانکہ یہ سب تابعین عظام ہم عصر تھے اور عموماً ایک ہی طبقہ سے تعلق رکھتے تھے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’جب میں بصرہ پہنچا تو ’’محمد بن بشار بندار‘‘ کی مجلس میں حاضر ہوا، جب انہوں نے مجھے دیکھا تو فرمایا:کہاں سے ہو برخوردار؟ میں نے کہا:بخارا سے، تو مجھ سے پوچھا: ابو عبد اللہ یعنی بخاری کیسے ہیں؟ انہوں نے آپ کو نہیں پہچانا، اور آپ سے بخاری کے بارے میں پوچھنے لگے حالانکہ خود بخاری ان کے سامنے کھڑے تھے۔تو میں خاموش ہو گیا اور کچھ نہ بولاپھر لوگوں نے کہا:اللہ آپ پر رحم یہی ابو عبد اللہ ہیں، تو آپ اپنے مسند سے اٹھے میرا ہاتھ پکڑا مجھ سے معانقہ کیا اور فرمایا:خوش آمدید اس شخص کو جن پر میں سالوں سے فخر کر رہا تھا۔ [تاریخ بغداد: ۲؍ ۱۷]
قارئین کرام! سلف صالحین، ائمہ دین اور علمائے مسلمین سے اس طرح کے ایسے بے شمار اقوال و آثار اور واقعات منقول ہیں جن سے ان کے دلوں میں اساتذہ اور علما ومشائخ کا جو احترام، تعظیم و تکریم اور مقام ومرتبہ پایا جاتا تھا اس کی عکاسی ہوتی ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ دور حاضر میں جو لوگ زور وشور سے خود کو سلف صالحین کی راہ پر چلنے والے کہلاتے ہیں ان کے اندر یہ چیزیں ادنیٰ درجے میں بھی موجود نہیں ہیں، جبکہ اس کے برعکس اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی، انہیں الٹے سیدھے سوالات کے ذریعے پریشان کرنا، ان کی کمیاں خامیاں اور علمی لغزشیں بیان کرنا، اپنی قابلیت وصلاحیت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کم تر ثابت کرنا، لوگوں کے سامنے ان کی غیبت اور چغلی کرنا، ان کی موجودگی میں شور مچانا اور بآ واز بلند باہمی گفتگو میں مشغول رہنا طالب علموں کی عام عادت بن چکی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اساتذہ کا احترام واکرام اور ان کی تعظیم و تکریم کرنے، اور ہمارے اوپر ان کے جو حقوق مرتب ہوتے ہیں انہیں پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین