Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مدارس اسلامیہ : اہمیت وافادیت

    زخم جب غیر دیں اورچوٹ جب اجنبی سے لگے تو صبر وشکیب کی ہمت ہوتی ہے، لیکن جب ستم اپنوں کے ہوں اور زخم بھی اپنوں کے ہوں تو صبرو ضبط کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔
    ادھر کچھ عرصہ سے مدارس پر شک کے کانٹے ، مدارس کے نظام، مدارس کے نصاب، مدارس کے طلبہ اور ان کے مستقبل کے سلسلے میں مختلف تبصرے ،اندیشے اور تجویزیں سامنے آرہی ہیں، اندیشوں کی وجہ کچھ تو مدرسوں سے ناواقفیت ہے اور کچھ دینی تعلیم سے بے اعتنائی بلکہ بیزاری ہے، چنانچہ کچھ لوگ مدارس کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھ کر اس تعلیم سے وابستہ افراد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، ان میں کچھ اپنے بھی ہیں اور کچھ پرائے بھی ۔
    غیروں کا تو یہ زعم ہے(جوکہ باطل ومسترد ہے ،حقیقت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں)کہ مدرسے دہشت گردی کے اڈے ہیں ، ملک کی سا لمیت اور یکجہتی کے لیے بڑا خطرہ ہیں ، کردار سازی کے بجائے ہتھیار سازی کا یہاں کام ہوتا ہے، اخلاقی تربیت کے بجائے یہاں فوجی تربیت کا نظم کیا جاتا ہے، ہندؤوں کے خلاف نفرت کا یہاں بیج بویا جاتا ہے اور ملک سے غداری کا سبق یہاں پڑھایا جاتا ہے۔
    لیکن افسوس کہ ہم میں سے کچھ سَر پھرے بھی ان کے سُر میں سُر ملانے کی کوشش کرتے ہیں، گلے گلے میں فرق ہوتا ہے ، چنانچہ سُر تھوڑی بدل جاتی ہے، لیکن کچھ فرق کے ساتھ اپنا اثر وہی دکھاتے ہیں اور مدارس کے بارے میں بدگمانی پھیلانے میں مخالفین کا ساتھ دیتے ہیں، اپنوں کا کہنا یہ ہے کہ مدرسوں میں مسلمان بچوں کی ایک بڑی تعداد کو ناکارہ بنایا جا رہا ہے،ان کو ایک اندھیرے مستقبل کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے، مدرسوں کے فارغین کے لیے کام کاکوئی میدان نہیں ہے اور روزی کمانے کا ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ، لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حصول علم کا مقصد کیا صرف معدے کی دنیا آباد کرنا ہے؟
    حقیقت کیا ہے؟ مدرسہ کیا ہے ؟ اس کا مقصد وہدف کیا ہے؟ مدرسہ سے فارغ ہونے والوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ آئیے اس مضمون کے حوالے سے جانتے ہیں۔
    مدرسہ کیا ہے؟
    مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اور مردم سازی کاکام ہوتا ہے، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلامی کا بجلی گھر (پاور ہاؤس )ہے،جہاں سے اسلامی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اور ذہن ودماغ ڈھلتے ہیں، مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے، جہاں کا فرمان پورے عالم پر نافذ ہے، عالم کافرمان اس پر نافذ نہیں ، مدرسہ کا تعلق کسی تقویم ،کسی تمدن ،کسی عہد ، کسی کلچر اورزبان وادب سے نہیں کہ اس پر قدامت کا شبہ ہو اور اس کے زوال کاخطرہ ہو ،اس کاتعلق براہِ راست نبوت محمدی سے ہے، جو عالمگیر بھی ہے اور زندہ جاوید بھی، اس کا تعلق اس انسانیت سے ہے جو ہر دم جواں ہے، اس زندگی سے ہے جو ہمہ وقت رواں اور دواں ہے،مدرسہ درحقیقت قدیم اور جدید بحثوں سے بالاتر ہے، وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں نبوت محمدی کی ابدیت اور زندگی کا نمو اور حرکت دونوں پائے جاتے ہیں۔بحوالہ:( پاجا سراغ زندگی :صفحہ نمبر:۹۰)
    مدارس و جامعات سے ملک کی حفاظت، سلامت ، جان ومال، عزت وآبرو ، عقل ودین اورمذہب کی حفاظت وصیانت کی آواز بلند کی جاتی ہے، وہاں تعلیم دی جاتی ہے کہ غریبوں، مسکینوں، فقیروں اورقلاشوں کی مدد کرو، خدمت خلق اور اعانت ملہوفین ومستغیثین بلاتفریق مسلم وکافر کا پاٹھ پڑھایا جاتا ہے، اور دہشت گردی ، پھوٹ، تفرقہ، فساد وغبن ، فتنہ ،کرپشن وانارکی ،جھوٹ اور دھوکہ ،قتل ومرڈر ، زناکاری،بلتکاری وبدکاری ،اور ہر وہ چیز جو انسانیت کو چوٹ پہنچائے اور جس سے ملک کی سا لمیت پر ضرب لگے سخت سزا کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر ہمارے ملک میں کوئی بدامنی،انتشار ، ،ڈکیتی ، لوٹ کھسوٹ کرتا ہے ، تو یہ مدارس و جامعات اور اس سے متعلق لوگ ملک کی حفاظت اور اعانت و مددمیں آگے آگے رہتے ہیں، ان مدارس میں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ کیسے ایک پرامن شہری کی حیثیت سے زندگی گزارا جائے،کیسے ملک کو گراوٹ سے ہر طرح کے حملوں سے محفوظ رکھا جائے۔
    مولانا مختار ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
    ’’آج ہندو متعصب طبقہ مدارس کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ رہا ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ انگریزوں سے ملک کی آزادی کے لیے لڑنے والے مدارس کے علماء اور طلباء نے ہندو دھرم شالوں کو صدیوں پیچھے ڈال دیا ہے، اور آج اگر خدانخواستہ ملک کو کسی قربانی کی ضرورت پڑی تو یہ اپنے لاکھوں مدارس کی سرزمین ہند کو بچانے اور محفوظ رکھنے میں اپنے سلف صالحین کے نقش قدم پر چل کر ملک کو بچانے میں سب سے آگے رہیں گے۔
    جو لوگ ان مدارس میں دہشت گردی کی بو محسوس کررہے ہیں ان کی ناک خود بدبودار ہوچکی ہے اور وہ اپنے اندر کی غلاظت ہی اپنی ناک سے سونگھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدارس اسلامیہ،امن ومحبت اور خدا ترسی کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور سچ یہ ہے کہ یہی مدارس ملک میں پھیلی ہوئی بدامنی ،اخلاقی انارکی ، لوٹ مار ،قتل وغارت گری اور غنڈہ گردی کا تریاق ہیں ، انہی مدارس سے ملک کا آبرو باقی ہے، ملک میں روحانیت،خدا ترسی ،تقویٰ اور پرہیز گاری کا جو آج تھوڑا بہت سرمایہ باقی ہے وہ انہی مدارس کی بدولت ہے‘‘۔بحوالہ( مجلہ البلاغ :ستمبر۲۰۰۱ ، صفحہ نمبر:۸)
    مدارس کی اہمیت:
    ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    ’’ہماری ملی وجماعتی زندگی میں دینی مدارس کی اہمیت غیر معمولی ہے، یہیں سے وہ افراد تیار ہوتے ہیں جن کے ذریعے زندگی میں حرکت وسرگرمی پیدا ہوتی ہے اور مستقبل کے منصوبے تکمیل پذیر ہوتے ہیں،یہیں پر کتاب وسنت کی تعلیم ہوتی ہے اور عقیدہ وعمل کی باریکیاں سمجھائی جاتی ہے، اللہ اور رسول کے حقوق سے واقفیت ہوتی ہے، تہذیب و تمدن اور علم و ثقافت کی تحریک کو سمتِ سفر ملتی ہے، افراد وجماعت کاذہن اور سیرت وکردار کی تشکیل ہوتی ہے، انہی تعلیم گاہوں سے ہماری تاریخ کی وہ عظیم شخصیات پیدا ہوئی ہیں جن پر ملت وجماعت کو فخر ہے اور جن کی دینی و علمی خدمات ہندوستان کی علمی تاریخ کا روشن باب ہے،ان مدارس کا ملک کی آزادی اور نئی نسل کی تربیت ورہنمائی میں بھی نمایاں حصہ ہے، یہاں کے علماء نے وطن اور عوام کی بے لوث خدمت کا جو معیار قائم کیا ہے آج مفاد پرست دنیا کے لیے اس کا تصور بھی مشکل ہے، بر صغیر میں اسلام اور اسلامی علوم کی بقاء وتحفظ کے اسباب پر غور کیا جائے تو پہلا نام’’ اسلامی مدارس‘‘ کا ہی آتا ہے‘‘۔(ہندوستانی مدارس میں عربی اور اسلامیات کی تعلیم تنظیم نو ،ضرورت اور امکانات :صفحہ نمبر:۲۰)
    مدرسہ کا مقصد ِقیام ہی یہ ہے کہ وہ انسانی سوسائٹی کو درجۂ کمال تک پہنچا دے ،صحیح تربیت کرے ،اچھی تعلیم دے اور سوسائٹی کے افراد کو سوسائٹی کے لیے نافع و مفید بنائے ۔
    محترم قارئین! ہندوستان جیسے ملک میں مدارس و جامعات کی اہمیت ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی ، یہ ملک قوموں اور تہذیبوں کا مدفن ہے،یہاں جو قوم آئی وہ ضم ہوگئی ،جو تہذیب آئی وہ مٹ گئی ،اگر مدرسوں کا یہ نظام ہمارے بڑوں نے نہ چلایا ہوتا تو شاید اب تک ہم بھی اپنی شناخت کھو چکے ہوتے اور اپنی خصوصیات اور تشخصات سے دستبردار ہوکر یہاں کی تہذیب وثقافت کو اپنا چکے ہوتے،شاید یہی وجہ ہے کہ یہ مدارس اربابِ اقتدار کی نظر میں کانٹا بن کر چبھتے ہیں۔
    مدرسے کی اہمیت کی گواہی اگر اس شخص کی زبانی ہو جو عصری تعلیم گاہوں کے لیے سرمایۂ افتخار ہو ،جس کے علم وادب کے آگے دنیا جھکتی ہو ، جس نے مغربی دانش کدوں میں اپنی زندگی کے سالہاسال بتائے ہوں ، جس نے مسلمانوں کے عروج وزوال کی صرف داستان ہی نہ سنی ہو بلکہ ان کے آثار کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بھی کیا ہو ،جو تاریخ سے نہ صرف واقفیت رکھتا ہو بلکہ تاریخ سے نتائج نکالنے کا ہنر بھی جا نتاہو ،زوال کے اسباب پر جس کی نظر ہو ، عروج کی تمنا جس کے دل میں ایک شعلہ کی طرح دہک رہی ہو ، جس کا ایک ایک لمحہ مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کر کرب میں گزرا ہو ، جس نے نہ مدرسے میں پڑھا ہو اور نہ مدرسے میں پڑھایا ہو ،لیکن اس کے باوجود انسانیت کی اس ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کے لیے اس کی نگاہ کسی کی طرف اٹھتی ہو تو وہ اپنی تمام خامیوں کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود’’مدرسہ‘‘ہی ہو،آئیے دیکھتے ہیں،آج سے ستّر اسّی سال قبل ڈاکٹر محمد اقبال جیسی مغرب ومشرق کے احوال سے واقف اور دونوں نظامہائے حیات کا تجربہ ر کھنے والی شخصیت نے ان دینی مدرسوں کو کس امید بھری نظر سے دیکھا تھا، وہ کہتے ہیں :
    ’’ان مکتبوں اور مدرسوں کو اسی حالت میں رہنے دو ،غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدرسوں میں پڑھنے دو ، کیونکہ اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ اب جو کچھ ہوگا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ،اگر ہندوستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیرووں اور اسلامی تہذیب کے اثرات کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا ‘‘۔(منقول از ،دعوت فکر ونظر :صفحہ :۱۴۹ تا۱۵۰)
    ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ نے فرمایا:
    ’’مسئلہ صرف طلبہ کے مستقبل کے اقتصادی پہلو سے متعلق نہیں ہے کہ اسے محفوظ بنایا جائے یا انہیں سرکاری عہدوں کے قابل بنایا جائے،بلکہ اس سے کہیں زیادہ بڑا اور قابل توجہ ہے،یعنی مسلمانوں کی دین اور ان کی تہذیب وتمدن کی حفاظت ،اسلامی اصولوں اور اللہ پر ایمان لانے والوں کے لیے یہ موت وحیات کا مسئلہ ہے، اسلام کی بقاء کتاب وسنت کے سمجھنے پر مبنی ہے اور یہ فہم عربی زبان اور ان علوم کی تعلیم ہی سے ممکن ہے جو شرعی مقاصد کی معرفت اور احکام کے مستنبط کے ذرائع ہیں اور یہ بات انہی دینی عربی مدارس ہی سے حاصل ہوسکتی ہے جو فی الواقع دین کے قلعے ہیں، مسلمانوں کی زندگی اور ان کی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے، یہاں قرآن وسنت اور دیگر معاون علوم سکھائے جاتے ہیں،اوران کے نکلے ہوئے افراد لوگوں کے اندر دینی شعور اور اسپرٹ پیدا کرتے ہیں، انہی مدارس کے علماء گمراہ فرقوں،باطل نظریات اور غلط مقاصد والے لوگوں سے مقابلہ کرتے ہیں اور لوگوں کے ذہن ودماغ کو ان تباہ کن خیالات وافکار سے محفوظ رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو بلند اقدار اور اخلاقی اصولوں پر فرد اور جماعت کی تعمیر کرتے ہیں، حق وانصاف کے راستے میں قربانی پیش کرنا، خدا سے تعلق استوار کرنا اور صلاح وتقویٰ کے اعمال کی اشاعت لوگوں کو سکھلاتے ہیں، انہی کی مساعیٔ جمیلہ سے مادہ پرستی اور دنیاداری سے لوگوں کے دلوں کو محفوظ کیا جاتا ہے‘‘۔(بحوالہ ہندوستانی مدارس میں عربی اور اسلامیات کی تعلیم تنظیم نو ،ضرورت اور امکانات: صفحہ نمبر:۴۳)
    محترم قارئین! مدرسہ ملت اسلامیہ کی روح ہے ، معاشرہ وسماج کی اصلاح اورملک وطن کی تعمیر وترقی میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک میں مدارس کی اہمیت وافادیت میں کیسے اضافے ہوں، بعض اپنوں یا غیروں کو جوزعم ہوچلا ،جو بدظنی ہوگئی ہے ان کو کیسے دور کیا جائے، دعوت وتبلیغ کے مہم کو کیسے وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے۔
    بعض مدارس کو بہرحال اپ ٹوڈیٹ کرنے کی بھی ضرورت ہے ، حالات کی تبدیلی اور وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں دین کی حفاظت کے طریقے کوبہتر اوردین ودعوت کے اسلوب کو مو ثر بنانے کے لیے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے، نئے سے نئے اور بہتر سے بہتر وسائل کا استعمال کرنا ہوگا ،لیکن یہ خیال رکھتے ہوئے کہ نصاب میں اضافہ اور طریقۂ کار کی یہ تبدیلی مدارس کے مزاج ان کی روح ،اور ان کے مقاصد سے پوری طرح ہم آہنگ ہونیز مقصد کی تکمیل میں معاون ومددگار ثابت ہو ، اس سلسلہ میں ہمیں رائج زبانوں،وقت کے تقاضوں اور معاشرہ کی ضرورتوں سے بھی واقف ہونے کی ضرورت ہے، ابلاغ وترسیل کے نئے ذرائع کے استعمال کی ضرورت ہے ، کردار کو اس طرح اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا کرداراور ہماری عادات واطوار ہمارے مقاصد میں حائل نہ ہوسکے، چنانچہ ہمیں اپنے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اور اپنی مذہبی وملی ذمہ داریوں کا پورا خیال رکھتے ہوئے تبدیلیوں پر غور کرنا چاہیے۔
    ورنہ خطرہ اس بات کا ہے کہ مدارس اپنی افادیت کھو بیٹھیں اور اس کے فارغین اپنی ضرورت تو پوری کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اپنے مذہب اور اپنی قوم کی ضروریات پوری کرنے کے لائق نہ رہیں ، شاید اسی خطرہ کومحسوس کرتے ہوئے مولانا عبد السلام قدوائی نے اسی بات کی طرف توجہ دلائی ہے،وہ لکھتے ہیں:
    ’’عربی مدارس کے قیام کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ یہاں دین وملت کے ایسے سپاہی تیار کیے جائیں جو ہر حال میں اسلام کی حفاظت کرسکیں اور الحاد وبے دینی کے بڑھتے سیلاب کو روک سکیں ،آغاز کار کے وقت ان درس گاہوں نے اس زمانے کے حالات کے مطابق مفید وموثر لائحۂ عمل تیار کیا تھا، اور نصاب ونظام تعلیم کے ایسے خاکے بنائے تھے جو اس وقت کی ضرورت کے مطابق تھے،جب تک وہ فضا قائم رہی یہ نظام تعلیم مفید وکارگر ثابت ہوا، لیکن اب جبکہ عرصہ سے حالات بدل چکے ہیں تو ضرورت ہے کہ ہماری درس گاہوں میں انقلاب ہو ، زمانے کی نئی ضرورتوں کے مطابق پھر سے نصاب تعلیم مرتب ہواور تعلیم وتربیت کے ایسے اسلوب اختیار کیے جائیںجو طلبہ کو وقت کی ضرورتوں کے مطابق زندگی کے نئے میدانوں کے لیے تیار کرسکیں ، قوم کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہوں گی اور یہی کشتیٔ ملت کے ناخدا ہوں گے‘‘۔(منقول از ، دعوت فکر ونظر :صفحہ نمبر:۱۵۴تا۱۵۵)
    محترم قارئین! لیکن دینی و عصری کے چکر میں کہیں تعلیمی مافیا نہ پھیل جائے اس پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے، بعض لوگوں کا مشغلہ ہے کہ ہمیشہ دینی ومنہجی علماء کو کوستے رہتے ہیں اور استخفاف واستحقار اتنے کہ مزاحیہ مضامین تحریر کرتے ہیں، کارٹون اور فنّی ویڈیوز بناتے ہیں، یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے، دینی علماء کو عصری علوم کی جانکاری نا ہو تو کوئی قابل ذکر نقصان نہیں ہوگا۔ وہ اپنا کام صحیح ڈھنگ سے کرتے رہیںکافی ہے، دیگر میدانوں کو ان کے اہل کے لیے چھوڑ دیں۔
    البتہ عصری علماء کو دینی اور شرعی علم نہ ہو تو ان کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوجائے گی۔
    مگر آج جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ زیادہ تر الٹی سمت میں چل رہی ہیں۔
    ہمارے دینی ادارے تو عصری کے چکر میں پریشان ہیں۔
    مگر عصری ادارے دینی تعلیم کے معاملے میں تقریباً صفر۔
    اس جانب اصل محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
    ورنہ اکثر لوگوں کو دیکھا گیا دینی اداروں کو کمرشیل بنانے کے لیے یہ شوشہ چھوڑتے ہیں اور آخر میں تجارت تو کچھ ہو ہی جاتی ہے مگر طلباء کہیں کے نہیں رہتے۔
    محترم قارئین ! مسلمانوں کے لیے یہ بات قطعی قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ ان کی زندگی مذہب سے بے تعلق کردی جائے، جس طرح یورپ وامریکہ میں اور ان کے ماننے والوں میں کردیا گیا ہے،اور انسان کو صرف مادی مصلحت کے اندر محدود کردیا جائے،اس کا تجربہ خود مغرب میں اخلاقی وانسانی احساسات وجذبات میں خود غرضانہ اور زندگی کے ہر معاملہ میں خالص مادی نقطۂ نظر کے پھیل جانے میں دیکھا جا سکتا ہے،جس کے خراب نتائج خود وہاں بھی محسوس کیے جانے لگے ہیں اور ساری دنیا بھی ان کے اثرات دیکھ رہی ہے اورپریشان ہے، ہمارے یہ ادارے، یہ مراکز اور جامعات ومعاہد جن کو ممتاز علماء دین اور دین وملت کی صحیح فکر رکھنے والے مسلم دانشوروں نے قائم کیا ہے چلا رہے ہیں اور ان سے دین اسلام کی حفاظت انجام پارہی ہے، ان کو مسلمانوں کے بد خواہوں کی طرف سے بار بار چیلنج کیا جا رہا ہے، اگر ہم اس چیلنج کے خطرہ کو نہیں سمجھ سکیں گے تو ہم بحیثیت مسلمان ختم ہو جائیں گے، اور مغربی قوموں کی صفوں میں ایک ذیلی قوم بن کررہ جائیں گے اس لیے ضرورت ہے کہ ہماری ان درس گاہوں کو جو مسلمانوں کی زندگیوں میں دین سے واقفیت پیدا کرنے اور اس سے اپنی وابستگی کو قائم رکھنے کے لیے پاور حیثیت سے کام کررہی ہیں ان کو اہمیت کی نظر سے دیکھا جائے۔
    چلتے چلتے مدارس پر کیے گئے ایک نامناسب تبصرہ پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جنرل ضمیر الدین شاہ کا جواب بھی سنیے:
    ’’مدارس ملک میں تعلیم کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہیں اور سماج کے محروم اور پسماندہ طبقات کے تعلیمی فروغ میں مدارس نے اہم خدمات انجام دی ہیں، انہوں نے کہا!کہ مدارس کے اساتذہ اور طلباء نے ہمیشہ بلند کردار اور بلند اخلاق کا مظاہرہ کیا ہے، اور وہ ہمیشہ کسی بھی قسم کے اسکینڈل سے دور رہے ہیںاور اس تناظر میں ان کے خلاف کسی بھی قسم کی الزام تراشی غیر اخلاقی ونامناسب ہے‘‘(منقول از، دعوت فکر ونظر :صفحہ نمبر:۱۵۵)
    معزز قارئین! اس وقت مسلم امہ کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سے سب سے بڑا مسئلہ مسلمان کے دین وعقائد ومنہج کا ہے، مسلمانوں کے لیے موجودہ دور مختلف قسم کی اہمیتوں اور تقاضوں کادور بن گیا ہے، فی الوقت عالمی پیمانے پر اس امت اسلامیہ کو بے اثر بلکہ بے نام ونشان کردینے کی کوشش ہورہی ہے،جگہ جگہ ان کی بقاء اور دین کے ساتھ ان کے تعلق کو ختم کردینے کی سازشیں چل رہی ہیں،کہیں علمی وفکری میدان میں، کہیں تمدنی وتاریخی میدان میں اورکہیں سیاسی وسماجی میدان میں، ایسے ایسے فتنے کھڑے کئے جارہے ہیں کہ اگر ان کے مقابلہ کے لیے راسخ ومخلص ومحنک اہل علم واعلیٰ صلاحیت کے علماء وفضلاء ودکاترہ تیار کرنے کا کام نہ کیا گیا تویہ ایک تنگ وتاریک سرنگ میں دھکیلنے اور دین منہج کو مٹانے کی ایک کامیاب سازش ہوگی۔اللہ امت اسلامیہ کی حفاظت فرمائے، مدارس و جامعات کو ہر طرح کے شروفتن اور حاسد وباغض وماکر سے بچائے ۔ اور ہم سبھی کو دین پر مضبوطی سے قائم ودائم رہنے کی سعادت نصیب فرمائے۔
    وباللہ التوفیق وصلی اللہ علیٰ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings