-
غصہ کی خطرناکیاں ،اثرات وعلاج غصہ کو عربی زبان میں غضب کہتے ہیں ، ابن فارس’’ معجم مقاییس اللغة‘‘ میں لکھتے ہیں :
الغين والضاد والباء أصلٌ صحيح يدلُّ على شدَّة وقُوّة۔يقال: إنَّ الغَضْبة:الصَّخرة الصُّلبة۔ قالوا: ومنه اشتُقَّ الغَضَب، لأنَّه اشتدادُ السُّخط ۔ يقال: غَضِب يَغْضَبُ غَضَباً، وهو غضبانُ وغَضُوب ۔ويقال: غَضِبْتُ لفلانٍ، إذا كان حيّاً، وغضبت به، إذا كان ميّتا۔قال دُرَيد: أنَّا غِضابٌ بمعبدِ۔ ويقال: إنَّ الغَضُوب: الحيَّة العظيمة۔
یعنی ، غضب کا لغوی معنیٰ قوت وشدت کے ہیں، اور سخت چٹان کو غضبہ کہا جاتا ہے ،کیونکہ اس میں زیادہ سختی ہوتی ہے، اسی سے غضب کا لفظ مشتق ہے اس لیے کہ اس میں سخت ناراضگی وخشمناکی ہے، اور اصطلاح میں غصہ کہتے ہیں : ’’ثوران دم القلب وغليانه لإرادة الإنتقام ‘‘’’ انتقام کے جذبے سے دل کے خون کاکھولنا اور جوش مارنا‘‘
محمد بن اسماعیل صنعانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’والغضب غريزة فى الإنسان فمهما قصد او نوزع فى غرض ما اشتعلت نار الغضب وثارت حتي يحمر الوجه والعينان من الدم لأن البشرة تحكي لون ماوراء ها وهذا اذا غضب على من دونه واستشعر القدرة عليه وإن كان ممن فوقه تولد منه انقباض الدم من ظاهرالجلد إلى جوف القلب فيصفر اللون خوفا وان كان على النظير تردد الدم بين انقباض وانبساط فيحمر ويصفر والغضب يترتب عليه تغير الباطن والظاهر‘‘
’’غیظ وغضب، اورغصہ کرنا یہ انسان کی فطرت وجبلت ہے ، لہٰذا جب کسی وجہ سے نزاع ہو یا ان بن سی کیفیت ہوتو غصہ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور انتقامی جذبہ شعلہ زن ہوجاتا ہے یہاں تک کہ چہرہ اور دونوں آنکھ خون سے سرخ ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ جلد یا چمڑا یا ظاہری سطح کی چیز اس رنگ میں رنگ جاتی ہے جو اس کے باطن وداخل میں ہوتے ہیں، اور سرخ رنگ کی یہ تبدیلی اس حالت میں ہوتی ہے جب اپنے ماتحت ،نیچے چھوٹے یا اپنے سے کمزور ہو، اور اگر اپنے سے بڑے شخص پر غصہ آئے توچمڑے کے ظاہری حصہ سے لے کر اندر تک خون میں سکڑن وانقباض آجاتا ہے اور خوف سے زرد رنگ میں رنگ جاتا ہے، اور اگر اپنے ہمسر اور کفو وبرابری والے انسان پر غضبناک ہوتو خون میں انقباض وانبساط دونوں کیفیت ہوتی ہیں ،لہٰذا کبھی سرخ رنگ تو کبھی زرد رنگ میں مصبوغ ہوتا ہے، اور ایک بات یہ بھی جان لیجیے کہ غصہ کے آثار ظاہری وباطنی دونوں شکل میں مترتب ہوتے ہیں ،ظاہر ہوتے ہیں‘‘
[ سبل السلام: ۴؍۱۵۶۷]
محترم قارئین : غصہ کرنے سے دل میں کینہ پیدا ہوتا ہے، جلن کڑھن جنم لیتا ہے، لوگوں میں حسد ونفرت اور سب شتم ہونے لگتی ہے، بغض وحقد ،عداوت، دشمنی ،جھگڑا ، دنگا ،دھینگا مشتی اور سرپھٹول و لڑائی ہوتی ہے ، انسان ایک دوسرے سے مقاطعہ کرتا ہے، شوہر اپنی بیوی سے ناراض ہوکر طلاق دے دیتا ہے، مارپیٹ یہاں تک کہ قتل کی نوبت آجاتی ہے،انسان اپنے بال بچوں اوراہل وعیال کے لیے بد دعا کرنے لگتا ہے، اور کبھی اس کی بددعا قبولیت کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے،پھر تو بددعا گو کو ندامت وپشیمانی ہوتی ہے، غصہ کی حالت میں قسم کھانے والا جب اپنی قسم کو پورا نہیں کرتا تو اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے اہل علم کا یہی قول ہے ۔
محترم قارئین: غصہ پر قابو پانا سب سے بڑی بہادری ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ:
{ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ }
’’اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں‘‘
[الشوریٰ:۳۷]
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر یہ صفت بیان کی ہے کہ:
’’وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ‘‘
’’اور وہ غصہ پی جانے والے ہیں‘‘
[ آل عمران:۱۳۴]
ایک روایت ہے:
عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَي أَنْ يُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَي رُء ُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّي يُخَيِّرَهُ اللّٰهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ مَا شَاءَ‘‘
’’ یعنی کہ جو شخص غصہ پی گیا حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے کی طاقت بھی رکھتا تھا تو روزِقیامت اسے تمام مخلوقات کے سامنے بلا کر اختیار دیا جائے گا کہ جو چاہے جنتی عورت پسند کرلے‘‘
[ سنن ابی داؤد :۴۷۷۷]
غصہ قلب وضمیر میں شعلہ کی مانند ہے، غصہ جب حد سے بڑھ جائے تو سخت ٹینشن آجاتا ہے، بلڈپریشر ہائی ہوجاتا ہے، جسم پھول جاتا ہے، رگ پھڑپھڑانے لگتا ہے، جسم کا ایک ایک بال کھڑا ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی تو انسان مرجاتا ہے یا خطرناک امراض سے دوچار ہوجاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث سے غصہ کے نقصانات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْصِنِي، قَالَ: لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ: ’’لَا تَغْضَبْ‘‘
ایک آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر فرمایا،مجھے کچھ وصیت فرمائیے ،آپ ﷺ نے فرمایا: غصہ مت کرو،اس نے بارہا اسی جملہ کو دہرایا،آپﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو‘‘
[صحیح البخاری:۶۱۱۶]
معزز قارئین: یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے اور انتہائی اہم ہے، ذیل میں علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں،
قال الجرداني رحمه اللّٰه:’’إن هذا الحديث حديث عظيم، وهو من جوامع الكلم،لأنه جمع بين خيري الدنيا والآخرة‘‘
’’یقینا یہ حدیث انتہائی عظیم الشان حدیث ہے، اور یہ جوامع الکلم میں سے ہے، اس لیے کہ اس میں دنیا وآخرت دونوں جہاں کے خیر وبرکت کو جمع کردیا گیا ہے‘‘
[ الجواہر اللؤلؤیۃ شرح الأربعین النوویۃ :۱۵۴]
قال ابن التين رحمه اللّٰه:’’ جمع فى قوله(لا تغضب) خير الدنيا والآخرة،لأن الغضب يؤول إلى التقاطع ومنع الرفق، وربما آل إلى أن يؤذي المغضوب عليه، فينقص ذلك من الدين ‘‘
ابن التین رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’کہ اس حدیث کے لفظ ’’لاتغضب‘‘ یہ مشار الیہ ہے کہ دنیا وآخرت کی بھلائی غصہ نہ کرنے ہی میں ہے، اس لیے غضب کے نتائج تقاطع وتدابر قطع رحمی، اور احسان وبھلائی نہ کرنا ہے، اور بعض دفعہ توغاضب مغضوب کو تکلیف دینے لگتا ہے اور چوٹ پہنچاتا ہے، اور یہ چیزیں ان کے دین میں نقصان وکمی کا باعث ہوجاتی ہے‘‘
[ فتح الباری:۱۰؍۵۳۶]
قال ابن حجر الهيتمي رحمه اللّٰه:’’هذاالحديث من بدائع جوامع كلمه التى خص بها صلى اللّٰه عليه وسلم‘‘
’’یہ حدیث عمدہ جوامع الکلم میں سے ہے جس کی تخصیص رسول اللہ ﷺ نے کی ہے‘‘
[ فتح المبین:۱۳۸]
قال الفشني رحمه اللّٰه: ’’هذا الحديث عظيم يتضمن دفع أكثر شرور الإنسان، لأن الشخص فى حال حياته بين لذة وألم، فاللذة سببها ثوران الشهوة أكلًا وشربًا وجماعًا ونحو ذلك، والألم سببه ثوران الغضب، فإذا اجتنبه يدفع عنه نصف الشر، بل أكثر‘‘
’’ یہ عظیم حدیث متضمن ہے انسانوں کے بہت سارے شرور و خسیس عادتوں کو ختم کرنے میں، اس لیے کہ انسان کی زندگی میں دو حالت ہوتی ہے یاتو وہ لذت وبہجت فرح وسرور میں ہوتا ہے یا وہ دکھ والم قلق وغم میں ہوتا ہے، چنانچہ لذت ولطف اکل وشرب چٹورپنی وجماع اور دیگر چیزوں کی خواہشات کے مشتعل ہونے کے سبب ہوتا ہے۔
اور دکھ والم، حسرت ویاس کا سبب غیض وغضب کا مشتعل ہونا ہے، لہٰذا اگر کوئی انسان غصہ سے دور رہے تو آدھا بلکہ اس سے زیادہ شر اس سے دفع ہوجائے گا‘‘
[ المجالس السنیۃ:۹۶]
قال المناوي رحمه اللّٰه:’’حديث الغضب هذا ربع الإسلام؛ لأن الأعمال خير وشر، والشر ينشأ عن شهوة أو غضب، والخير يتضمن نفي الغضب، فتضمن نفي الشر، وهو ربع المجموع‘‘
امام مناوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :’’کہ یہ حدیث ربع الاسلام (اسلام کا چوتھائی) ہے، اس لیے کہ اعمال خیر وشر دونوں طرح کے ہوتے ہیں، لہٰذا شر کا وجود شہوت یاغضب سے ہوتا ہے، اور خیر تو غضب کے نفی ہے ، چنانچہ شر کی نفی ہوگئی ‘‘
[ فیض القدیر :۶؍۵۳۷]
ونقل ابن حجر رحمه اللّٰه عن بعضهم قال: ’’تفكرت فيما قال: أى قول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم:(لا تغضب) فإذا الغضب يجمع الشر كله‘‘
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا ہے :’’کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے اس قول ’’لاتغضب‘‘ پر غور کیا تو پتہ چلا کہ تمام شر کا جامع غیظ وغضب ہے‘‘
خلاصۃ الکلام یہ ہے کہ معاشرہ وسماج میں بڑھتی ہوئی نفرتوں ،عداوتوں، کدورتوں کا سبب غصہ ہے، طیش ہے، غیظ وغضب ہے۔ دیکھئے کہ آج سماج کدھر جارہا ہے! انحطاط وپستی زوال اور تباہی کے کگار پر ہے ، کمزوروں اورضعیفوں پر کس قدر چیرہ دستیاں ہورہی ہیں، بیٹا باپ پر غصہ کرکے قطع تعلق کررہا ہے، باپ بیٹے سے الگ ہورہاہے، خاندانوں، رشتے داروں میں ذرا سی بات پر غیظ وغضب کا کس قدر طوفان !
سریع الغضب ،غضوب ،بات بات پر منہ بنانے اور پیٹ پھلانے والے انسان بہت ملیں گے لیکن سریع الفیئہ والرجوع والے، مصالحت اور صلح وصفائی والے خال خال ہی ملیں گے ، غصہ کرکے سماج میں فوضویت ، بے قدری ، ادھم مچانا شور و غوغا کرنا یہ آج کے نوجوانوں کا مشغلہ بن گیا ہے۔ ھداھم اللہ
غصہ کا علاج :
علاج ودوا کی دو قسمیں ہیں :
دوا دافع یعنی وقوع سے قبل ہی اس کو دفع کر دینا ۔
جیسے غصہ کو پی جانا ، ضبط کرلینا ،روک لینا اور اسی طرح غصہ کو چھپا لینا ،اندر ہی اس کو مسل دینا ،ختم کر دینا۔
اور ایک ہے دواء رافع یعنی بعد الوقوع کیسے دفع کیا جائے؟
درج ذیل امور پر غور کریں اور اس پر عمل کریں۔
۱۔ اللہ کا ذکر:
ذکر واذکار سے انسان میں اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے،اور اللہ کی فرمانبرداری ہوتی ہے،اور اس کا غصہ کافور ہوجاتا ہے رب تعالیٰ نے فرمایا:
{وَاذْکُرْ رَبَّکَ إِذَا نَسِیتَ} ’’
جب بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرو‘‘
[ الکہف:۲۴]
اس آیت کی تفسیر میں عکرمہ رحمہ اللہ نے نسیان کا معنی غصہ بیان کیا ہے، یعنی جب تم غصہ میں ہو اور اس کے اثر کو زائل کرنا چاہو تو اپنے پروردگار کو یاد کرلیا کرو ۔
۲ ۔ غصہ ضبط کرنے والی آیتوں اور احادیث پر غور وفکر کرنے سے بھی غصہ زائل ہوجاتا ہے:
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا:’’مجھے کوئی ایسا عمل بتادیں جو مجھے جنت میں داخل کردے، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو تمہارے لیے جنت ہے‘‘
[طبرانی:۲؍۲۰۱۱]
۳۔ انسان اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا رہے:
بایں طور پر کہ غصہ ور انسان اپنے آپ سے یہ کہے میں فلاں انسان پر جس طرح غصہ ہوں اس سے بڑھ کر رب تعالیٰ مجھ پر غصہ ہوگااور میں اس کے عذاب کی لپٹ میں آجاؤں گا،جب غصہ ور کی فکر یہ ہوگی تو وہ اپنی اس قبیح عادت سے باز آجائے گا۔
۴ ۔ انسان اپنے بالمقابل کے انتقام پر غور وخوض کرے:
اوراپنی کہی ہوئی بات پر کہ ہم کسی سے کم نہیں یاپدرم سلطان بود ،تو دوسرا انسان جس سے وہ غصہ میں آکر انتقام لینا چاہتا ہے، وہ بھی انتقام لینے والے سے تو کسی قسم کی بات کہہ سکتا ہے بدلہ لینے کا موقع تلاش کرسکتا ہے،ایسی صورت میں انسان اپنے غصہ پر قابو پا لے گا۔
۵ ۔ جب کسی انسان کو غصہ آئے تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگے:
چنانچہ بخاری شریف میں سلیمان بن صرد سے ایک حدیث مروی ہے،وہ کہتے ہیں کہ دو آدمی اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے گالی گلوچ کررہے تھے اور ہم لوگ آپ ﷺ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے،ایک آدمی جو اپنے ساتھی کو گالی دے رہا تھا،اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا، اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: مجھے ایک کلمہ معلوم ہے اگر یہ شخص اس کلمہ کو پڑھ لیتا تو اس کا غصہ کافور ہوجاتا اور وہ کلمہ یہ ہے: ’’أعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم ‘‘ صحابہ نے اس آدمی سے جب یہ کہا کہ اللہ کے رسولﷺ نے جو فرمایا کیا تم نے نہیں سنا ؟ اس شخص نے کہا کہ میں پاگل اور مجنوں تھوڑے ہی ہوں کہ اس کلمہ کو پڑھوں ۔
[صحیح البخاری :۶۱۱۵]
۶۔ غصہ کی حالت میں انسان عقل سلیم سے کام لے اور انجام کو مدنظر رکھے ، شیطان کے فتنہ سے نجات ملے گی ۔
۷ ۔ غصہ کرنے والا انسان اپنی حالت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے:
اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، اگر بیٹھا ہے تو لیٹ جائے ،اگر غصہ رخصت نہ ہو تو وضو کرے اور ناک میں پانی ڈالے ، اوراگر اس پربھی غصہ کنٹرول میں نہ آئے تو جگہ بدل لے ،کہیں چلے جائے۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ غسل کرلے ۔
فأخرج ابن عساكر موقوفاً:’’الغضب من الشيطان والشيطان خلق من النار والماء يطفء النار فإذا غضب أحدكم فليغتسل ‘‘
[سبل السلام:۴؍۱۵۶۸]
۸ ۔ غصہ کے وقت انسان خاموشی اختیار کرے:
اور یہ غصہ کا بہترین علاج ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب تم سے کسی شخص کو غصہ آئے تو وہ خاموش رہے‘‘
[مسند احمد: ۲۰۲۹]
یقینا انسان کو جب غصہ آتا ہے تو بہت کچھ رف اور ٹف و اُول فول بول جاتا ہے پھر وہ نادم ہوتا ہے۔
۹ ۔ غصہ کرنے والا عفو و درگزر کرنے کے ثواب کو یاد کرے:
ایسا کرنے سے غصہ کی تباہی سے نجات پائے گا ،حدیث میں ہے :’’کہ طاقتور وہ نہیں جو کشتی کے وقت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو اپنے نفس پر قابو پا لے اور غصہ کو ترک کردے‘‘
[بخاری:۶۱۱۴]
۱۰ ۔ غصہ کرنے والا اپنا چہرہ بوقت غصہ آئینہ میں دیکھے کہ وہ کس قدر بدصورت ،ابشع ا وربگڑا ہوا نظر آرہا ہے :
اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے چہرے کی بد صورتی بہرحال اسے کسی حدتک غصہ کرنے سے روکے گی ۔
آخر میں قارئین سے گزارش ہے کہ اپنے اندر ایسی عادت پیدا کریں جس سے حتی الوسع غصہ وناراضگی سے بچا جا سکے،مثلاً ، عفو و درگزر،صبر واستقامت، حلم وبردا شت اور ہر حال میں خوش رہنا وغیرہ، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین یا رب العالمینغصہ کو عربی زبان میں غضب کہتے ہیں ، ابن فارس’’ معجم مقاییس اللغة‘‘ میں لکھتے ہیں :
الغين والضاد والباء أصلٌ صحيح يدلُّ على شدَّة وقُوّة۔يقال: إنَّ الغَضْبة:الصَّخرة الصُّلبة۔ قالوا: ومنه اشتُقَّ الغَضَب، لأنَّه اشتدادُ السُّخط ۔ يقال: غَضِب يَغْضَبُ غَضَباً، وهو غضبانُ وغَضُوب ۔ويقال: غَضِبْتُ لفلانٍ، إذا كان حيّاً، وغضبت به، إذا كان ميّتا۔قال دُرَيد: أنَّا غِضابٌ بمعبدِ۔ ويقال: إنَّ الغَضُوب: الحيَّة العظيمة۔
یعنی ، غضب کا لغوی معنیٰ قوت وشدت کے ہیں، اور سخت چٹان کو غضبہ کہا جاتا ہے ،کیونکہ اس میں زیادہ سختی ہوتی ہے، اسی سے غضب کا لفظ مشتق ہے اس لیے کہ اس میں سخت ناراضگی وخشمناکی ہے، اور اصطلاح میں غصہ کہتے ہیں : ’’ثوران دم القلب وغليانه لإرادة الإنتقام ‘‘’’ انتقام کے جذبے سے دل کے خون کاکھولنا اور جوش مارنا‘‘
محمد بن اسماعیل صنعانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’والغضب غريزة فى الإنسان فمهما قصد او نوزع فى غرض ما اشتعلت نار الغضب وثارت حتي يحمر الوجه والعينان من الدم لأن البشرة تحكي لون ماوراء ها وهذا اذا غضب على من دونه واستشعر القدرة عليه وإن كان ممن فوقه تولد منه انقباض الدم من ظاهرالجلد إلى جوف القلب فيصفر اللون خوفا وان كان على النظير تردد الدم بين انقباض وانبساط فيحمر ويصفر والغضب يترتب عليه تغير الباطن والظاهر‘‘
’’غیظ وغضب، اورغصہ کرنا یہ انسان کی فطرت وجبلت ہے ، لہٰذا جب کسی وجہ سے نزاع ہو یا ان بن سی کیفیت ہوتو غصہ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور انتقامی جذبہ شعلہ زن ہوجاتا ہے یہاں تک کہ چہرہ اور دونوں آنکھ خون سے سرخ ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ جلد یا چمڑا یا ظاہری سطح کی چیز اس رنگ میں رنگ جاتی ہے جو اس کے باطن وداخل میں ہوتے ہیں، اور سرخ رنگ کی یہ تبدیلی اس حالت میں ہوتی ہے جب اپنے ماتحت ،نیچے چھوٹے یا اپنے سے کمزور ہو، اور اگر اپنے سے بڑے شخص پر غصہ آئے توچمڑے کے ظاہری حصہ سے لے کر اندر تک خون میں سکڑن وانقباض آجاتا ہے اور خوف سے زرد رنگ میں رنگ جاتا ہے، اور اگر اپنے ہمسر اور کفو وبرابری والے انسان پر غضبناک ہوتو خون میں انقباض وانبساط دونوں کیفیت ہوتی ہیں ،لہٰذا کبھی سرخ رنگ تو کبھی زرد رنگ میں مصبوغ ہوتا ہے، اور ایک بات یہ بھی جان لیجیے کہ غصہ کے آثار ظاہری وباطنی دونوں شکل میں مترتب ہوتے ہیں ،ظاہر ہوتے ہیں‘‘
[ سبل السلام: ۴؍۱۵۶۷]
محترم قارئین : غصہ کرنے سے دل میں کینہ پیدا ہوتا ہے، جلن کڑھن جنم لیتا ہے، لوگوں میں حسد ونفرت اور سب شتم ہونے لگتی ہے، بغض وحقد ،عداوت، دشمنی ،جھگڑا ، دنگا ،دھینگا مشتی اور سرپھٹول و لڑائی ہوتی ہے ، انسان ایک دوسرے سے مقاطعہ کرتا ہے، شوہر اپنی بیوی سے ناراض ہوکر طلاق دے دیتا ہے، مارپیٹ یہاں تک کہ قتل کی نوبت آجاتی ہے،انسان اپنے بال بچوں اوراہل وعیال کے لیے بد دعا کرنے لگتا ہے، اور کبھی اس کی بددعا قبولیت کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے،پھر تو بددعا گو کو ندامت وپشیمانی ہوتی ہے، غصہ کی حالت میں قسم کھانے والا جب اپنی قسم کو پورا نہیں کرتا تو اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے اہل علم کا یہی قول ہے ۔
محترم قارئین: غصہ پر قابو پانا سب سے بڑی بہادری ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ:
{ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ }
’’اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں‘‘
[الشوریٰ:۳۷]
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر یہ صفت بیان کی ہے کہ:
’’وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ‘‘
’’اور وہ غصہ پی جانے والے ہیں‘‘
[ آل عمران:۱۳۴]
ایک روایت ہے:
عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَي أَنْ يُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَي رُء ُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّي يُخَيِّرَهُ اللّٰهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ مَا شَاءَ‘‘
’’ یعنی کہ جو شخص غصہ پی گیا حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے کی طاقت بھی رکھتا تھا تو روزِقیامت اسے تمام مخلوقات کے سامنے بلا کر اختیار دیا جائے گا کہ جو چاہے جنتی عورت پسند کرلے‘‘
[ سنن ابی داؤد :۴۷۷۷]
غصہ قلب وضمیر میں شعلہ کی مانند ہے، غصہ جب حد سے بڑھ جائے تو سخت ٹینشن آجاتا ہے، بلڈپریشر ہائی ہوجاتا ہے، جسم پھول جاتا ہے، رگ پھڑپھڑانے لگتا ہے، جسم کا ایک ایک بال کھڑا ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی تو انسان مرجاتا ہے یا خطرناک امراض سے دوچار ہوجاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث سے غصہ کے نقصانات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْصِنِي، قَالَ: لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ: ’’لَا تَغْضَبْ‘‘
ایک آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر فرمایا،مجھے کچھ وصیت فرمائیے ،آپ ﷺ نے فرمایا: غصہ مت کرو،اس نے بارہا اسی جملہ کو دہرایا،آپﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو‘‘
[صحیح البخاری:۶۱۱۶]
معزز قارئین: یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے اور انتہائی اہم ہے، ذیل میں علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں،
قال الجرداني رحمه اللّٰه:’’إن هذا الحديث حديث عظيم، وهو من جوامع الكلم،لأنه جمع بين خيري الدنيا والآخرة‘‘
’’یقینا یہ حدیث انتہائی عظیم الشان حدیث ہے، اور یہ جوامع الکلم میں سے ہے، اس لیے کہ اس میں دنیا وآخرت دونوں جہاں کے خیر وبرکت کو جمع کردیا گیا ہے‘‘
[ الجواہر اللؤلؤیۃ شرح الأربعین النوویۃ :۱۵۴]
قال ابن التين رحمه اللّٰه:’’ جمع فى قوله(لا تغضب) خير الدنيا والآخرة،لأن الغضب يؤول إلى التقاطع ومنع الرفق، وربما آل إلى أن يؤذي المغضوب عليه، فينقص ذلك من الدين ‘‘
ابن التین رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’کہ اس حدیث کے لفظ ’’لاتغضب‘‘ یہ مشار الیہ ہے کہ دنیا وآخرت کی بھلائی غصہ نہ کرنے ہی میں ہے، اس لیے غضب کے نتائج تقاطع وتدابر قطع رحمی، اور احسان وبھلائی نہ کرنا ہے، اور بعض دفعہ توغاضب مغضوب کو تکلیف دینے لگتا ہے اور چوٹ پہنچاتا ہے، اور یہ چیزیں ان کے دین میں نقصان وکمی کا باعث ہوجاتی ہے‘‘
[ فتح الباری:۱۰؍۵۳۶]
قال ابن حجر الهيتمي رحمه اللّٰه:’’هذاالحديث من بدائع جوامع كلمه التى خص بها صلى اللّٰه عليه وسلم‘‘
’’یہ حدیث عمدہ جوامع الکلم میں سے ہے جس کی تخصیص رسول اللہ ﷺ نے کی ہے‘‘
[ فتح المبین:۱۳۸]
قال الفشني رحمه اللّٰه: ’’هذا الحديث عظيم يتضمن دفع أكثر شرور الإنسان، لأن الشخص فى حال حياته بين لذة وألم، فاللذة سببها ثوران الشهوة أكلًا وشربًا وجماعًا ونحو ذلك، والألم سببه ثوران الغضب، فإذا اجتنبه يدفع عنه نصف الشر، بل أكثر‘‘
’’ یہ عظیم حدیث متضمن ہے انسانوں کے بہت سارے شرور و خسیس عادتوں کو ختم کرنے میں، اس لیے کہ انسان کی زندگی میں دو حالت ہوتی ہے یاتو وہ لذت وبہجت فرح وسرور میں ہوتا ہے یا وہ دکھ والم قلق وغم میں ہوتا ہے، چنانچہ لذت ولطف اکل وشرب چٹورپنی وجماع اور دیگر چیزوں کی خواہشات کے مشتعل ہونے کے سبب ہوتا ہے۔
اور دکھ والم، حسرت ویاس کا سبب غیض وغضب کا مشتعل ہونا ہے، لہٰذا اگر کوئی انسان غصہ سے دور رہے تو آدھا بلکہ اس سے زیادہ شر اس سے دفع ہوجائے گا‘‘
[ المجالس السنیۃ:۹۶]
قال المناوي رحمه اللّٰه:’’حديث الغضب هذا ربع الإسلام؛ لأن الأعمال خير وشر، والشر ينشأ عن شهوة أو غضب، والخير يتضمن نفي الغضب، فتضمن نفي الشر، وهو ربع المجموع‘‘
امام مناوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :’’کہ یہ حدیث ربع الاسلام (اسلام کا چوتھائی) ہے، اس لیے کہ اعمال خیر وشر دونوں طرح کے ہوتے ہیں، لہٰذا شر کا وجود شہوت یاغضب سے ہوتا ہے، اور خیر تو غضب کے نفی ہے ، چنانچہ شر کی نفی ہوگئی ‘‘
[ فیض القدیر :۶؍۵۳۷]
ونقل ابن حجر رحمه اللّٰه عن بعضهم قال: ’’تفكرت فيما قال: أى قول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم:(لا تغضب) فإذا الغضب يجمع الشر كله‘‘
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا ہے :’’کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے اس قول ’’لاتغضب‘‘ پر غور کیا تو پتہ چلا کہ تمام شر کا جامع غیظ وغضب ہے‘‘
خلاصۃ الکلام یہ ہے کہ معاشرہ وسماج میں بڑھتی ہوئی نفرتوں ،عداوتوں، کدورتوں کا سبب غصہ ہے، طیش ہے، غیظ وغضب ہے۔ دیکھئے کہ آج سماج کدھر جارہا ہے! انحطاط وپستی زوال اور تباہی کے کگار پر ہے ، کمزوروں اورضعیفوں پر کس قدر چیرہ دستیاں ہورہی ہیں، بیٹا باپ پر غصہ کرکے قطع تعلق کررہا ہے، باپ بیٹے سے الگ ہورہاہے، خاندانوں، رشتے داروں میں ذرا سی بات پر غیظ وغضب کا کس قدر طوفان !
سریع الغضب ،غضوب ،بات بات پر منہ بنانے اور پیٹ پھلانے والے انسان بہت ملیں گے لیکن سریع الفیئہ والرجوع والے، مصالحت اور صلح وصفائی والے خال خال ہی ملیں گے ، غصہ کرکے سماج میں فوضویت ، بے قدری ، ادھم مچانا شور و غوغا کرنا یہ آج کے نوجوانوں کا مشغلہ بن گیا ہے۔ ھداھم اللہ
غصہ کا علاج :
علاج ودوا کی دو قسمیں ہیں :
دوا دافع یعنی وقوع سے قبل ہی اس کو دفع کر دینا ۔
جیسے غصہ کو پی جانا ، ضبط کرلینا ،روک لینا اور اسی طرح غصہ کو چھپا لینا ،اندر ہی اس کو مسل دینا ،ختم کر دینا۔
اور ایک ہے دواء رافع یعنی بعد الوقوع کیسے دفع کیا جائے؟
درج ذیل امور پر غور کریں اور اس پر عمل کریں۔
۱۔ اللہ کا ذکر:
ذکر واذکار سے انسان میں اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے،اور اللہ کی فرمانبرداری ہوتی ہے،اور اس کا غصہ کافور ہوجاتا ہے رب تعالیٰ نے فرمایا:
{وَاذْکُرْ رَبَّکَ إِذَا نَسِیتَ} ’’
جب بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرو‘‘
[ الکہف:۲۴]
اس آیت کی تفسیر میں عکرمہ رحمہ اللہ نے نسیان کا معنی غصہ بیان کیا ہے، یعنی جب تم غصہ میں ہو اور اس کے اثر کو زائل کرنا چاہو تو اپنے پروردگار کو یاد کرلیا کرو ۔
۲ ۔ غصہ ضبط کرنے والی آیتوں اور احادیث پر غور وفکر کرنے سے بھی غصہ زائل ہوجاتا ہے:
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا:’’مجھے کوئی ایسا عمل بتادیں جو مجھے جنت میں داخل کردے، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو تمہارے لیے جنت ہے‘‘
[طبرانی:۲؍۲۰۱۱]
۳۔ انسان اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا رہے:
بایں طور پر کہ غصہ ور انسان اپنے آپ سے یہ کہے میں فلاں انسان پر جس طرح غصہ ہوں اس سے بڑھ کر رب تعالیٰ مجھ پر غصہ ہوگااور میں اس کے عذاب کی لپٹ میں آجاؤں گا،جب غصہ ور کی فکر یہ ہوگی تو وہ اپنی اس قبیح عادت سے باز آجائے گا۔
۴ ۔ انسان اپنے بالمقابل کے انتقام پر غور وخوض کرے:
اوراپنی کہی ہوئی بات پر کہ ہم کسی سے کم نہیں یاپدرم سلطان بود ،تو دوسرا انسان جس سے وہ غصہ میں آکر انتقام لینا چاہتا ہے، وہ بھی انتقام لینے والے سے تو کسی قسم کی بات کہہ سکتا ہے بدلہ لینے کا موقع تلاش کرسکتا ہے،ایسی صورت میں انسان اپنے غصہ پر قابو پا لے گا۔
۵ ۔ جب کسی انسان کو غصہ آئے تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگے:
چنانچہ بخاری شریف میں سلیمان بن صرد سے ایک حدیث مروی ہے،وہ کہتے ہیں کہ دو آدمی اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے گالی گلوچ کررہے تھے اور ہم لوگ آپ ﷺ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے،ایک آدمی جو اپنے ساتھی کو گالی دے رہا تھا،اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا، اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: مجھے ایک کلمہ معلوم ہے اگر یہ شخص اس کلمہ کو پڑھ لیتا تو اس کا غصہ کافور ہوجاتا اور وہ کلمہ یہ ہے: ’’أعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم ‘‘ صحابہ نے اس آدمی سے جب یہ کہا کہ اللہ کے رسولﷺ نے جو فرمایا کیا تم نے نہیں سنا ؟ اس شخص نے کہا کہ میں پاگل اور مجنوں تھوڑے ہی ہوں کہ اس کلمہ کو پڑھوں ۔
[صحیح البخاری :۶۱۱۵]
۶۔ غصہ کی حالت میں انسان عقل سلیم سے کام لے اور انجام کو مدنظر رکھے ، شیطان کے فتنہ سے نجات ملے گی ۔
۷ ۔ غصہ کرنے والا انسان اپنی حالت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے:
اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، اگر بیٹھا ہے تو لیٹ جائے ،اگر غصہ رخصت نہ ہو تو وضو کرے اور ناک میں پانی ڈالے ، اوراگر اس پربھی غصہ کنٹرول میں نہ آئے تو جگہ بدل لے ،کہیں چلے جائے۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ غسل کرلے ۔
فأخرج ابن عساكر موقوفاً:’’الغضب من الشيطان والشيطان خلق من النار والماء يطفء النار فإذا غضب أحدكم فليغتسل ‘‘
[سبل السلام:۴؍۱۵۶۸]
۸ ۔ غصہ کے وقت انسان خاموشی اختیار کرے:
اور یہ غصہ کا بہترین علاج ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب تم سے کسی شخص کو غصہ آئے تو وہ خاموش رہے‘‘
[مسند احمد: ۲۰۲۹]
یقینا انسان کو جب غصہ آتا ہے تو بہت کچھ رف اور ٹف و اُول فول بول جاتا ہے پھر وہ نادم ہوتا ہے۔
۹ ۔ غصہ کرنے والا عفو و درگزر کرنے کے ثواب کو یاد کرے:
ایسا کرنے سے غصہ کی تباہی سے نجات پائے گا ،حدیث میں ہے :’’کہ طاقتور وہ نہیں جو کشتی کے وقت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو اپنے نفس پر قابو پا لے اور غصہ کو ترک کردے‘‘
[بخاری:۶۱۱۴]
۱۰ ۔ غصہ کرنے والا اپنا چہرہ بوقت غصہ آئینہ میں دیکھے کہ وہ کس قدر بدصورت ،ابشع ا وربگڑا ہوا نظر آرہا ہے :
اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے چہرے کی بد صورتی بہرحال اسے کسی حدتک غصہ کرنے سے روکے گی ۔
آخر میں قارئین سے گزارش ہے کہ اپنے اندر ایسی عادت پیدا کریں جس سے حتی الوسع غصہ وناراضگی سے بچا جا سکے،مثلاً ، عفو و درگزر،صبر واستقامت، حلم وبردا شت اور ہر حال میں خوش رہنا وغیرہ، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین