-
دوران حمل ہمبستری کرنے پر حمل کی صحت وتندرستی میں اضافہ اگر حاملہ عورت سے و طی کی جائے تو نطفہ وخون کا اثر بچے پر پڑتا ہے، اب یہ نطفہ ڈائریکٹ بچہ پر اثرانداز ہوتا ہے یاماں کے جسم وخون میں اثرانداز ہونے کے بعد بچے پربھی اثر ڈالتا ہے ، یہ اللہ ہی بہترجانتاہے لیکن حدیث سے اتنا توطے ہے کہ حاملہ کے ساتھی وطی کرنے پراس کے حمل پر نطفہ وخون کااثر ہوتا ہے ۔
چنانچہ اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہے:
’’لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَّسْقِيَ مَاء َهُ زَرْعَ غَيْرِهِ يَعْنِي:إِتْيَانَ الْحَبَالَي‘‘
’’اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے ، آپﷺکا مطلب حاملہ لونڈی سے جماع کرنا تھا‘‘
[سنن أبی داؤد:رقم :۲۱۵۸،وحسنہ الالبانی]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس حدیث سے استدال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ومن فوائد الحديث:’’الإشارة إلى أن الجماع يزيد فى الحمل، لقوله:يسقي ماء ه زرع غيره، ومعلوم أن الماء إذا سقي به الزرع فإن الزرع ينمو ويزداد‘‘
اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ:’’ دوران حمل ہمبستری سے حمل بڑھتا ہے ، کیونکہ اللہ کے نبیﷺ کے الفاظ ہیں:دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے اور یہ بات معلوم ہے کہ پانی سے جب کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے تو کھیتی کی نشو نما ہوتی ہے اور وہ بڑھتی ہے‘‘
[فتح ذی الجلال والإکرام بشرح بلوغ المرام ط المکتبۃ الإسلامیۃ:۵؍۱۲۹]
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے ، لکھتے ہیں:
’’ومعلوم أن الماء الذى يُسْقي به الزرع يزيد فيه، ويتكوّن الزرع منه‘‘
’’اور یہ بات معلوم ہے کہ جس پانی سے کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے اس سے کھیتی میں اضافہ ہوتا ہے اور کھیتی اس سے پھلتی پھولتی ہے ‘‘
[تہذیب سنن أبی داؤد:۱؍۴۶۰]
ایک دوسری حدیث ہے:
عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ:’’ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ أَتَي بِامْرَأَةٍ مُجِحٍّ عَلٰي بَابِ فُسْطَاطٍ، فَقَال:لَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُلِمَّ بِهَا، فَقَالُوا:نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنًا يَدْخُلُ مَعَهُ قَبْرَهُ، كَيْفَ يُوَرِّثُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟ كَيْفَ يَسْتَخْدِمُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟‘‘
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:’’ نبی ﷺ(ایک غزوہ کے موقع پر )ایک خیمہ کے دروازے پر گزرے اور وہاں ایک (حاملہ لونڈی)عورت کو دیکھا کہ قریب جننے کے ہے تو آپ ﷺنے فرمایا:کہ شاید وہ شخص اس سے ارادہ جماع کا رکھتا ہے۔ (یعنی جس کے پاس ہے)لوگوں نے کہا:ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا:میں نے چاہاکہ اس کو ایسی لعنت کروں جو لعنت قبر تک اس کے ساتھ رہے وہ کیونکر اس لڑکے کا وارث ہو سکتا ہے حالانکہ وہ اس کو حلال نہیں ،اور اس لڑکے کو غلام کیسے بنا دے گا حالانکہ وہ اس کو حلال نہیں‘‘
[صحیح مسلم :رقم :۱۴۴۱]
امام ابن القیم رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
يعني:’’أنه إن استلحقه وشركه فى ميراثه، لم يحل له، لأنه ليس بولده، وإن أخذه مملوكا يستخدمه لم يحل له لأنه قد شرك فيه لكون الماء يزيد فى الولد‘‘
یعنی :’’اس حاملہ عورت کے حمل سے جو بچہ پیدا ہوگا اگر اس نے اسے اپنا بیٹا اور وارث بنالیا تو یہ اس کے لیے حلال نہیں ہے کیونکہ یہ اس کا بچہ نہیں ہے (اس لیے کہ لونڈی اس کی ملکیت میں آنے سے قبل ہی حاملہ تھی )، اور اگر اس نے اس بچے کو غلام اور اپنا خادم بنالیا تو یہ بھی اس کے لیے جائز نہیں کیونکہ (اس کی ماں سے ہمبستری کے بعد ) اس بچے میں اس کا خون بھی شامل ہوگیا ہے ، اس لیے کہ حاملہ سے وطی کرنے کے بعد نطفہ حمل میں شامل ہوتا ہے‘‘۔
[زاد المعاد، ن مؤسسۃ الرسالۃ:۵؍۱۴۲]
ایک دوسری کتاب میں امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وقد دلَّت المشاهدةُ على أنَّ الحامل إذا وُطِئت كثيرًا جاء الولد عَبْلًا ممتلئًا، وإذا هُجِر وطؤها جاء الولد ضئيلًا ضعيفًا‘‘
’’اور مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جب حاملہ سے بکثرت جماع کیا جائے تو بچہ صحت مند اور ہرا بھرا پیدا ہوتا ہے، اور جب حاملہ سے ہمبستری ترک کردی جائے تو بچہ کمزور ونحیف پیدا ہوتاہے ‘‘
[التبیان فی أیمان القرآن ۔ط عطاء ات العلم :۱؍۵۳۸]
امام ابن القیم رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں:
’’لأنَّ الوطء يزيد فى خِلْقَة الولد، كما قال الإمام أحمد:الوطء يزيد فى سمع الولد وبصره ‘‘
’’حاملہ سے ہمبستری بچے کی صحت میں اضافہ کرتی ہے جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ :دوران حمل ہمبستری سے بچے کی سماعت اور بصارت مضبوط ہوتی ہے‘‘
[التبیان فی أیمان القرآن:۱؍۵۳۶]
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ماقبل میں مذکور سنن ابی داؤد کی حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ کے قول کی دلیل قرار دیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں: قال الإمام أحمد:
’’الوطء يزيد فى سمعه وبصره۔وقد صرَّح النبيُّ ﷺ بهذا المعني فى قوله:لا يحلّ لرجلٍ أن يسقي ماء َه زرعَ غيرِه۔ومعلوم أن الماء الذى يُسْقي به الزرع يزيد فيه، ويتكوّن الزرع منه‘‘
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ:’’دوران حمل ہمبستری سے بچے کی سماعت وبصارت میں اضافہ ہوتا ہے ، اور اللہ کے نبیﷺ نے اسی مفہوم کی صراحت اپنی اس حدیث میں کی ہے کہ :کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے ، اور یہ بات معلوم ہے کہ جس پانی سے کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے اس سے کھیتی میں اضافہ ہوتا ہے اور کھیتی اس سے پھلتی پھولتی ہے‘‘
[تہذیب سنن أبی داؤد:۱؍۴۶۰]
مذکورہ تفصیل سے شریعت کے اس حکم کی حکمت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ حاملہ عورت سے وضع حمل سے قبل شادی کرنا جائز نہیں ہے ۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ ماقبل میں مذکور صحیح مسلم کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وفي هذا دلالة ظاهرة على تحريم نكاح الحامل سواء كان حملها من زوج أو سيد أو شبهة أو زني ‘‘
’’ اس حدیث میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حاملہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے خواہ اس کا حمل شوہر سے ہو ، یا آقا سے ہو ، یا شبہ سے ہو(یعنی انجانے میں اس کے ساتھ کسی نے وطی کی ہو)، یا زنا سے ہو‘‘
[زاد المعاد، ن مؤسسۃ الرسالۃ:۵؍۱۴۲]
یاد رہے کہ اگرکسی عورت کے ساتھ زناکیا گیا اور پھراسے حمل ٹھہرگیا تو وضع حمل(یعنی بچے کی پیدائش) سے پہلے اس عورت سے وہ زانی بھی شادی نہیں کرسکتا جس کے نطفہ سے یہ حمل ٹھہرا ہے ۔
کیونکہ مذکورہ حکم کے عموم میں یہ بھی شامل ہے نیز زانیہ کا حمل حرام نطفے کا ہوتا ہے اور اس حالت میں اس کے ساتھ شادی کی جائے گی تو اس کے ساتھ حلال نطفے کا اختلاط ہوگا اور بچہ حرام اور حلال خون کا مجموعہ ہوگا اس بناپر بھی یہ شادی جائز نہیں ہے۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعض وہ اہل علم جوعدم تنازع کی صورت میں زنا سے نسب کو ثابت مانتے ہیں وہ بھی زانیہ حاملہ سے اس کے زانی کی شادی وضع حمل سے پہلے جائز نہیں مانتے تاکہ حرام اور حلال خون کا اختلاط نہ ہو۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ جو عدم تنازع کی صورت میں نسب کے اثبات کو ترجیح دیتے ہیں وہ لکھتے ہیں:
’’ولأنّ ماء الزاني وإن لم يكن له حُرْمة فماء الزوج محترم، فكيف يسوغ له أن يخلطه بماء الفجور؟‘‘
’’کیونکہ زانی کے نطفہ(خون)کا گرچہ کوئی احترام نہیں ہے لیکن شوہر کا نطفہ (خون)قابل احترام ہے ، تو شوہر کے لیے کیسے جائز ہوسکتاہے کہ حرام نطفہ (خون)کے ساتھ اپنے حلال نطفہ (خون)کو خلط ملط کرے‘‘
[تہذیب سنن أبی داؤد۔ط عطاء ات العلم :۱؍۴۵۳]
مالکہ اورحنابلہ کی یہی رائے ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، امام ابن القیم ، شیخ بن باز اور شیخ البانی رحمہم اللہ وغیرہم کی بھی یہی رائے ہے اور ہماری نظر میں یہی بات راجح ہے ۔واللہ اعلم