-
آخری آسمانی کتاب ’’قرآن‘‘ اسلام کی عظمت کا نشاں ہے قرآن
عرفان کی اک جوئے رواں ہے قرآن
آیا ہے جو سب توڑ کے باطل کے طلسم
توحید کی وہ روحِ رواں ہے قرآن
ہے عدل و مساوات پہ مبنی جو نظام
اُس نظم کا پیغام رساں ہے قرآن
قرآن مجید کیا ہے؟
قرآن مجید اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے جو ساری انسانیت کی خاطر اور رہتی دنیا تک کے لیے نازل کیا گیا ہے ۔ زمین پر یہی ایک آسمانی کتاب ہے جو اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے۔دنیا میں اﷲکی مرضیات کو جاننے کا راست ذریعہ یہی قرآنِ مجیدہے۔قرآن ہدایت، رحمت ، نور ، فرقان اور برہان، اس میں تذکیر و موعظت ہے یہ شفائٌ لما فی الصدور ہے، ذکر للعالمین ، ھدی للناس، بشریٰ للمومنین اور تبیاناً لکل شئی ہے۔یہ حبل اﷲاور احسن الحدیث ہے، یہ فتنوں سے بچانے والی کتاب ہے، اس میں ماضی کا تذکرہ ہے، مستقبل کی خبریں ہیں، باہمی معاملات کے لیے احکام و فیصلے ہیں۔ اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوسکتے ، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے، اس کی تاثیر کبھی ختم نہیں ہوسکتی، جو اس کتاب کو چھوڑدے ا ﷲاسے برباد کردیتا ہے، اسے چھوڑ کر راستہ تلاش کرنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ جس نے قرآن کی بنیاد پرگفتگو کی اس نے سچ کہا، جس نے اس پر عمل کیا اس کو اجر دیا جائے گا، جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا اور جس نے اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی اس نے دراصل صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔
اللہ تعالیٰ لوگوں کو قرآن کریم کی عظمت اور فضیلت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے:
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَائَ تْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاء ٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًي وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ۔ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ}
’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی کتاب آگئی ہے جو سراپا نصیحت ہے،اور وہ سینوں میں پائی جانے والی بیماریوں کو شفا دینے والی ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ اے رسول! لوگوں کو آگاہ کرو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے عطا ہوئی ہے ۔پس اس نعمت کے حصول پر انہیں خوش ہونا چاہیے۔کیونکہ یہ کتاب اُس مال سے جو وہ جمع کر رہے ہیں کہیں بہتر ہے‘‘
[یونس:۵۷،۵۸]
قرآن مجید اللہ کی وہ سچی اور آخری کتاب ہے جس سے ایمان بڑھتا ہے اور دلوں کے زنگ اترتے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا باعثِ برکت اور ثواب ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہماری اکثریت تلاوت قرآن مجید سے غافل ہے۔ دنیا کے کاموں میں اپنا وقت لگانے سے گریز نہیںکرتے ہیں جبکہ تلاوت قرآن کے لیے وقت نہیں ملتا کا بہانہ کیا جاتا ہے۔ یقین جانیں تلاوتِ قرآنِ پاک سے اللہ وقت میں برکت ڈالتا ہے۔
آپ اس بات کا بھی علم رکھیں کہ قرآن کریم کی تلاوت بجائے خود اجر و ثواب کا باعث ہے، چاہے پڑھنے والا اس کے معانی و مطالب کو سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو۔ اس کے ایک ایک حرف پردس دس نیکیاں ہر پڑھنے والے کو ملیں گی۔ چنانچہ آج سے یہ عہد کریں کہ ان شا ء اللہ قرآن مجید کی تلاوت کے لیے روزانہ وقت نکال کر کم از کم پندرہ بیس آیتیں تلاوت کریں گے اور اس کو سمجھیں گے۔ اور زیادہ بہتر یہ بات ہوگی کہ اس کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں تا کہ پتہ چلے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کیا فرماتے ہیں۔
قارئین کرام! یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ محض قرآن پڑھنے سے تلاوت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اِنسان اِس کو غور اور تَدبّر سے پڑھے ،ساتھ ہی ساتھ اس بات کا علم رکھے کہ یہ قرآن ہمیں کیا پیغام سناتا ہے، اس کتاب میں کیا کیا اوامر و نواہی ہیں، انبیاء کرام کے قصوں کو بیان کرنے کا کیا مقصد ہے اور خصوصی طور پر ایسے امور جو فرائض سے تعلق رکھتے ہوں ان آیات کا علم ہم مسلمانوں کے لیے بہت ضروری ہے، لہٰذا ہم اس مضمون میں مختصراً معلومات حاصل کریں گے۔
قرآن پاک کی سچائی اس مقدس کتاب میں ایک انسان کو انسان کی طرح زندگی گزارنے اور جس مقصد کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے اس کی جانکاری حاصل کرنے نیز دنیا اور آخرت دونوں زندگی میں مکمل کامیابی حاصل کرنے کے طریقے بتائے گئے ہیں ۔ اس میں انسان کو اپنے اصلی دشمن یعنی کہ ابلیس سے چوکنا رہنے اور اس کو شکست دینے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔ یہ کتاب پچھلی امتوں پر نازل کی گئی ساری آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان سب کا خلاصہ پیش کرتی ہے، اس طرح اللہ کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ساری آسمانی کتابوں میں آخری اور مکمل کتاب (قرآن) ہے ۔ لہٰذا اس کو رہتی دنیا تک اصل حالت میں باقی اور محفوظ رکھنے کی ذمہ داری اللہ تبارک تعالیٰ نے خود لی ہے ۔
فرمان الہٰی ہے:
{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ}
’’یعنی کہ اللہ فرماتا ہے ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ‘‘
[الحجر:۹]
اس مقدس کتاب میں جھوٹ کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ اس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے اس طرح کیا ہے ۔
{لَا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ}
’’باطل اس کے سامنے اور اس کے پیچھے (کسی طرف) سے بھی اس کے پاس نہیں آسکتا۔ (وہ قرآن) اس کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے جو حکمت والا تعریف کے لائق ہے۔‘‘
[فصلت:۴۲]
یہ مقدس کتاب سچے معنوں میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس کی توضیح اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے ۔
{وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ۔بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ}
[العنکبوت:۴۸۔۴۹]
یعنی کہ اس سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے ، اس وقت البتہ باطل پرست شک کرتے۔ بلکہ وہ روشن آیتیں ہیں ان کے دلوں میں جنہیں علم دیا گیا ہے، اور ہماری آیتوں کا صرف ظالم ہی انکار کرتے ہیں۔
قرآن میں قصوں کے بیان کرنے کا مقصد :
فرمان ربانی ہے :
{فَجَعَلْنٰهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَ مَا خَلْفَهَا وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ}
’’تو ہم نے اسے اگلے اور پچھلے والوں کے لیے عبرت بنا دیا اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت‘‘
[البقرہ:۶۶]
قارئین! اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب(قرآن )اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے نازل ہوئی ۔ قرآن پاک کا موضوع کہانیاں اور قصے بیان کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ’’انسان‘‘ہے جسے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ نے جب انسان کو عقل کی نعمت عطا فرمائی ہے تو انہیں فانی دنیا اور آخرت کی ابدی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ان تک اپنے احکامات اور ہدایات بھی پہنچاتا رہا ۔ یہ احکامات اور ہدایات اپنے پیغمبروں کے ذریعہ بھیجتا رہا جو ہم انسانوں کو حق کا راستہ بتائیں اور گمراہی کی راہ سے بچنے کی تلقین کریں۔
لہٰذا اسی کی تائید کے لیے گزری ہوئی قوموں اور امتوں کے واقعات بیان کرکے انہیں یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ جن قوموں نے اپنے پیغمبروں کی تعلیمات اور ہدایات کو تسلیم کیا اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر اپنی زندگی گزاری ان کو دنیا کی بھی کامیابی ملی اور آخرت میں بھی ۔
ان واقعات کو قصوں کی شکل میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گزری ہوئی قوموں کے حالات پر غور و فکر کرنا اور ان سے نصیحت اور عبرت حاصل کرنا ہے ۔
خصوصاً وہ ساری سورتیں اور وہ قصے جن میں عقل والوں کے لیے نصیحت اور عبرت ہے ۔ قرآن میں مذکور قصے اور واقعات جھوٹی یا گڑھی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ پہلے کی بھیجی ہوئی ساری آسمانی کتابوں کی تصدیق ہے اور دین کے بارے میں ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرنے والی کتاب ہے جو ایمان والوں لیے ہدایت اور رحمت ہے ۔
قرآن کاپیغام (عام لوگوں کے لیے):
* اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اس کی بندگی کرو جس نے تمہیں ایک شخص (حضرت آدم علیہ السلام ) سے پیدا کیا پھر اسی سے ( حضرت حواء ) کو ان کے لیے جوڑا بنا دیا ۔ ان کے بعد ان دونوں سے ان گنت مردوں اور عورتوں کو پیدا کر کے پوری دنیا میں پھیلا دیا ۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بچو اللہ تعالیٰ تم پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ فرمان ربانی ہے :
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء ً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِي تَسَائَ لُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا }
’’اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلادئیے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘
[النساء:۱]
*اے لوگو! تم اس بات کو جانو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش اور امتحان کی چیزیں ہیں ،اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے پاس اجر عظیم ہے ۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
{وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ }
’’اور جان لوکہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے اور یہ کہ اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے‘‘
[الانفالم :۲۸]
تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم لوگ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہ بنا لو بلکہ صرف اسی کی بندگی کرو ۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو اگر تمہارے پاس ان میں کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں ’’ اُف‘‘ تک نہ کہو۔ نہ انہیں پلٹ کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو ۔ اور نرمی کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ اے اللہ ان پر ویسا ہی رحم کر جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے بڑے ہی پیار و محبت کے ساتھ پالا اور شفقت کے ساتھ میری پرورش کی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَقَضَي رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا۔ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا}
’’اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور تمہاری موجودگی میں اگر تمہارے والدین یا ان دونوں میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ اور ان سے’’اُف‘‘ تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا نہ ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان سے خوبصورت لہجے میں ، نرمی سے بات کرنا۔ اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا اور پرورش کی‘‘
[الاسراء: ۲۳۔۲۴]
*رشتہ داروں، مسکین اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو اور اسراف (فضول خرچی) سے بچو فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا و نافرمان ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
{وَآتِ ذَا الْقُرْبٰي حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا۔ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا }
’’ اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو اور اسراف یعنی بیجا خرچ سے بچو بیجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ۔ اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی نا شکرا ہے ‘‘
[الاسراء:۲۶۔۲۷]
قرآن کا پیغام (خاص ایمان والوں کے لیے) :
* اے ایمان والو اللہ سے اتنا ڈرو جتنا (تمہاری طاقت کے مطابق) اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا اللہ کی رسی مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو افرا تفری نہ مچاؤ بلکہ امن و سلامتی پیدا کرو۔
[آل عمران:۱۰۲۔۱۰۳]
* اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو ،آپس میں اختلافات نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
[الانفال:۴۶]
*اے ایمان والو! یہ بڑھتا چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پا جاؤ گے۔ [آل عمران: ۱۳۰]
*اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے ۔
[البقرۃ:۲۷۶]
*اے ایمان والو!اس راستے پر دوڑ کر چلو یعنی ( competition )کرو جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتا ہے اس کی وسعت میں زمین و آسمان جیسی ہے اور وہ ان پرہیز گار لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو آفات اور تنگی کے موقع پر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جو غصہ کو پی جاتے ہیں ۔ اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اللہ ایسے ہی نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔
[آل عمران:۱۳۳۔۱۳۴،الحدید:۲۱]
*اے مومنوں مایوس نہ ہو اور نہ غم کرو ( دل چھوٹا نہ کرو ) یقیناً تم ہی غالب رہوگے ۔
[آل عمران :۱۳۹]
*آسمان اور زمین کا غیب صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اور قیامت کا معاملہ تو ایسا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔
[النحل:۱۷۷]
*اے مو منو! جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے پہنچی ہے بہت کچھ تو اللہ سبحانہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔
[شوریٰ:۳۰]
مضمون کو ختم کرتے ہوئے یہی کہنا چاہوں گی کہ انسان کو چاہیے کہ قرآن مجید کثرت سے پڑھے۔ جب اس میں دعا کا مقام آئے تو دعا کرے اور خود بھی رب العزت سے وہی طلب کرے جو اس دعا میں طلب کی گئی ہو اور جہاں عذاب کا مقام آئے تو اُس سے پناہ مانگے۔ اور اُن برائیوں اور بد اعمالیوں سے بچے جن کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی۔ دل کی سختی ہو تو اسے نرم کرنے کے لیے یہی بہترین طریقہ ہے کہ قرآن مجید کو ہی بار بار پڑھا جائے ۔جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت یہی نعمت مجھے بھی ملے لہٰذا ایک مومن کو چاہیے کہ وہ اپنا رشتہ قرآن سے مضبوط کرے، زیادہ سے زیادہ قرآن سے لگاؤ رکھے عادتاً یا بطورِ سبق نہیں بلکہ عبادتاً اور شوقیہ پڑھے۔
دنیا کی خرافات میں مغرور ہوئے ہیں
ہم لوگ تلاوت سے بہت دور ہوئے ہیں
گھر گھر نظر آتے ہیں طاقوں میں قرآن
ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے مسلمان ؟
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن کا سچا اور با عمل قاری (پڑھنے والا)بنا ئے قرآن کو محض ایک کتاب نہیں بلکہ اپنی زندگی کی کنجی سمجھتے ہوئے اس پر مکمل طور سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین
٭٭٭