Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • ’’ولاء ‘‘اور ’’براء‘‘ اسلام کا بنیادی عقیدہ

    {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاء}
    ’’ اے ا یمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ‘‘
    [ الممتحنہ :۱]
    اسلام ایک ہمہ گیر مذہب ہے جس کی بنیاد عقائد پر ہے اور عقائد کا باب نہایت ہی وسیع ہے جو اللہ واحد کی عبادت اور اس سے محبت سے لے کر صرف اسی کے لیے محبت اور اسی کے لیے نفرت تک پھیلا ہوا ہے۔
    محترم قارئین! اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادیٔ افکار و عمل کا جو اختیار دیا ہے اس میں اس کی بہت بڑی آزمائش ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے {اِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرََا وَّ اِمَّا كَفُوْرََا} کہہ کر انسانوں پر حجت تمام کردی ہے اور اسی آزمائش میں دوستی و دشمنی کا اختیار بھی شامل ہے۔
    محبت و نفرت دل کے گوشوں میں پنپتے وہ انسانی جذبات ہیں جن سے کوئی انسانی دل خالی نہیں، ہر انسان خواہ اس کے نزدیک محبت و نفرت کا جو بھی تصور و معیار ہو لازمی طور پر ان متضاد جذبات کو اپنے اندر پاتا ، محسوس کرتا اور اسی کی بنیاد پر عمل بھی کرتا ہے اور یہ بھی ناممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کہیں محبت میں مغلوب ہو کر جان وارتا ہے تو دوسری طرف نفرت کی زد میں جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
    آئیں ملاحظہ کرتے ہیں کہ اسلام نے محبت و نفرت کی کیا حدود و قیود مقرر ہیں جن پر عمل کی صورت میں ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور جن کو پسِ پشت ڈال کر بجز فتنے و فساد کے کچھ ہاتھ نہیں آتی۔
    آئیں عنوان کی مختصر وضاحت کے ساتھ بات آگے بڑھاتے ہیں،’’ ولاء‘‘ کہتے ہیں دوستی، محبت اور قربت کواور ’’براء‘‘ اس کی ضد ہے یعنی دشمنی، نفرت اور برأت کو۔
    ایک کلمہ گو مسلمان کی محبت کا سب سے زیادہ حقدار اللہ وحدہ لاشریک ہے جس کی وحدانیت کا کلمہ پڑھ کر وہ مسلمان ہوا ہے اور اس کی توحید کا شیدائی بن کر معبودانِ باطلہ نیز ان کے پرستاروں سے اس نے اظہارِ برأت کیا ہے، اس کا عملی نمونہ قرآن مجید میں اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے حوالے سے موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
    {قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآء ُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَائُ أَبَدًا حَتَّي تُؤْمِنُوا بِاللّٰهِ وَحْدَه}
    ’’(مسلمانو!) تمہارے لیے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد کے)منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت ظاہر ہوگئی‘‘
    [الممتحنۃ:۴]
    پتہ چلا کہ محبت و نفرت کا سب سے اعلیٰ معیار توحید باری تعالیٰ ہے، جو اس پر قائم ہے وہ زمین و آسمانوں میں محبتوں کا امین ہے وہ اس قابل ہے کہ اس سے دوستی کی جائے، اس سے اللہ کے لیے محبت رکھی جائے اور اس کی صحبت کو باعث شرف سمجھا جائے اور جو اس کے مقابل شرک کی آلودگیوں میں ملوث ہے وہ دلی دوستی، محبت اور قربت کا سرے سے مستحق ہے، اس کے لیے استغفار ہے نا ہی دعائے نجات چاہے وہ نوح علیہ السلام کا بیٹا رہا ہو یا ان کی بیوی ، ابراہیم علیہ السلام باپ ہو یا لوط علیہ السلام کی بیوی یا محمد رسول اللہ ﷺکا چچا ابو طالب جن کی زندگی کی ساری کاوشیں توحید سے محرومی کے سبب ناکامی کی نذر ہوگئیں اور محمدﷺکی ذات عقیدہ ولاء اور براء کے تحت بحیثیت نبی بھی چچا کے لیے سود مند ثابت نہ ہوئی۔
    تھوڑا اور آگے بڑھیں اور سوچیں۔۔۔۔!!!اللہ اکبر وہ کیسا عالم ہوگا جب خیر الوریٰ اور افضل الانبیاء کو ماں باپ کے لیے دعائے بخشش سے روک دیا گیا۔
    کیونکہ نبی ﷺآئے ہی اس لیے کہ لوگوں کو ولاء اور براء کا صحیح معیار بتائیں اور ان کو پرکھنے کے لیے ایک پیمانہ مہیا کریں یہی سبب ہے کہ نبی ﷺکی زندگی میں ایسے درجنوں واقعات موجود ہیں جن میں عملی ثبوت بھی آپ ﷺنے پیش کیا۔اور اپنے اصحاب کی تربیت بھی ایسی خوب ترین کی کہ وہ بھی عقیدہ ولاء اور براء میں کامل اترے ،بطور مثال ہم کچھ اشارے کرتے ہیں ۔
    (۱) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں اپنے فرزند ارجمند کے قتل کے درپے کھڑے ہوگئے۔(۲) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا، ام المومنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے مشرک باپ پر دنیا کی سب سے معزز ہستی اپنے سر تاج کی محبت کو ترجیح دی اور گھر آئے باپ کو نبی ﷺکے بستر پر بٹھانا گوارا نہیں کیا۔(۳) مصعب بن عمیر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما بھی اس باب کے روشن پہلو ہیں جنہوں نے مشرکہ ماں سے بے اعتنائی برت کر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو غالب کیا۔(۴) ام حکیم رضی اللہ عنہا جیسی خاتونِ اسلام کو کون فراموش کرسکتا ہے جنہوں نے قبولِ اسلام کے بعد مشرک شوہر کو خیر باد کہا اور تعلق بحال کرنے کے لیے اسلام کی شرط لگائی۔
    غور کریں مذکورہ سارے واقعات قرابت داروں سے ہی متعلق ہے جن کے درمیان فقط توحید و شرک سے ایک دیوار کھڑی ہوگئی۔
    توحیدِ باری تعالیٰ کے بعد نبی ﷺکی ذات اقدس اور آپ کے طرائق ہماری محبت کا محور ہیں اور جو شخص ان کو اپنا محبوب بنائے ہم اس کے محب ہیں اور جو ان سے دشمنی رکھے ان کی گستاخی کرے تو ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ اس سے قطعِ تعلق اور اظہارِ نفرت کریں اور ممکن بھر نبی ﷺ کے دفاع میں کمر بستہ کھڑے ہو جائیں۔
    اسی طرح دشمنانِ اسلام بھی ہماری نفرت کے لائق ہیں جو آئے دن اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کرتے ہیں اور اس کو پسپا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، چاہے وہ امریکہ کی سوپر پاور حکومت ہو یا بنی اسرائیل کے یہودی یا پھر ختم نبوت کے منکر قادیانی یا پھر نام نہاد مسلمان جنہوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام کو بدنام کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے اور آستین کے سانپ کا کردار ادا کرتے ہوئے ناصبی، رافضی، اخوانی اور صوفیوں کے نام سے خود کو مسلمانوں میں شمار کرتے ہیں۔
    اسلام نے ہمیں اپنی دوستی اور محبت کو صرف کرنے کے لئے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے بعد اہل ایمان و توحید کو مرکز بنایا ہے، فرمایا:{وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ} ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں‘‘ [التوبہ :۷۱]
    چاہے یہ قرابت داروں میں سے ہوں یا غیر قرابت داروں میں سے بلکہ اگر جغرافیائی اعتبار سے میلوں کا فیصلہ ہو تب بھی اسلامی اخوت قائم ہوتی ہے۔اور یہی اخوت دوستی و محبت کو پروان چڑھاتے ہوئے عقیدہ ولاء کی جڑیں مضبوط کرتی ہے اور ایمان کی تکمیل کا سبب بنتی ہے۔جیسا کہ نبی کریمﷺکا فرمان ہے :
    ’’مَنْ أَحَبَّ لِلّٰهِ، وَأَبْغَضَ لِلّٰهِ، وَأَعْطَي لِلّٰهِ، وَمَنَعَ لِلّٰهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ‘‘
    ’’جس نے اللہ ہی کے رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کے رضا کے لیے منع کر دیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا‘‘
    [سنن ابی داؤد:۴۶۸۱،صحیح]
    لیکن حد درجہ افسوس کی بات ہے کہ آج عقیدہ ولاء اور براء کو سمجھنے اور بروئے کار لانے والے برائے نام رہ گئے، عقائد کو صرف ایمانیات سے جوڑکر باقی عقائد جیسے ولاء اور براء ، مسئلۂ شفاعت اور علمِ غیب کے باب میں تساہل برتا جارہا ہے نتیجتاً روادری کے نام پر کئی ایسے امور دھڑلے سے عمل میں آرہے ہیں جن کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ غیر قوم کے وہ شعار مانے جاتے ہیں۔ رواداری ہی کے نام پر ہنود کی عیدوں میں شرکت کی جانے لگی ، مزے سے دیوالی کی مٹھائیاں کھائی جانے لگیں، پٹاخے پھوڑ کر اظہار یکجہتی ہونے لگی۔ نعوذ باللّٰہ من ذالک
    مزید آگے بڑھ کر دیکھیں پچھلے سالوں ہندوستان کی مسلم نوجوان لڑکیوں میں ارتداد کی جو لہر دوڑ پڑی اس کا بھی بنیادی سبب اسی عقیدہ ولاء اور براء سے ناواقفیت تھی۔
    یہ لوگ جتنی مرضی ان کو قریب کیا جائے اسلام کے حوالے سے مخلص ہرگز ثابت نہیں ہوسکتے ،اس کی مثالیں آئے دن ہم اپنے وطن عزیز میں دیکھتے رہتے ہیں پھر کس بنیاد پر ان سے دلی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں؟
    معزز قارئین! اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ دشمنان اسلام سے دوستی کی ممانعت بیان کی ہے ،فرمایا :
    { يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَاء وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ}
    ’’مسلمانو! ان لوگوں کودوست نہ بناو جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں(خواہ)وہ ان میں سے ہوںجو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں ،اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو‘‘
    [المائدہ :۵۷]
    کیا آج یہی کچھ نہیں ہو رہا ہے ؟
    عالمی سطح پر یہود اور ملکی سطح پر ہنود ہمارے دین سے کھیل رہے ہیں۔ اس کے باوجود مسلم معاشرے میں غیر قوم سے تعلقات بنانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں رہی حالانکہ ہمارے اسلاف وہ تھے جو عقائد باطلہ کے حامل ایک کلمہ گو مسلمان سے بھی دلی تعلق کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
    افسوس کہ آج رواداری کے نام پر یہ بھی ہمارے ہاں ہونے لگا ہے ،انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
    بالاختصار یہ کہ ولاء اور براء ہمارے ایمان و دین کا جزء ہے اس کی خرابی نہ صرف کسی ذات بلکہ مسلم امت کی ذلت کا سبب ہے۔
    ’’ولاء ‘‘اور’’ براء‘‘ کا تقاضا ہے کہ ہم اللہ ، اس کے رسول ، اس کے دین اور دین سے منسلک لوگوں کی محبت کو لازم کرلیں، ان کے دفاع میں سرگرم رہیں، ان کے دشمنوں کو نفرت کے قابل ہی سمجھیں ان سے دلی محبت اللہ کی نافرمانی ہے، البتہ ہم خیر امت ہونے کے ناطے ان تک دین پہنچانے سے بھی گریز نہیں کریں گے ایسے لوگ جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف محاذ نہیں کھولتے یہ ہماری محبت تو نہیںلیکن رحم دلی کے ضرور مستحق ہیں اور رحم دلی کا تقاضا ہے کہ ان کی ہدایت کے لیے فکر اور کوشش کی جائے اور ان کے سامنے دعوتِ اسلام پیش کی جائے۔
    ولاء اور براء کے تقاضوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اغیار میں مشہور ہر اُس طور طریق سے اجتناب کیا جائے جس سے ان کی مشابہت لازم آتی ہے اور ان کی مشابہت حدیث رسول ﷺکے مطابق انہی میں شمولیت کی وعید ہے۔
    اللہ رب العالمین سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم تمام کو’’الحب فى اللّٰه والبغض فى اللّٰه‘‘ میں کامل بنائے اور اس سے دوری کے سبب پیدا ہونے والے تمام فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین ثم آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings