Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اخلاص کا فقدان …ایک لمحہء فکریہ

    نیت ہر شرعی عمل کی صحت ودرستی اور عند اللہ اس کے مقبول وباعثِ ثواب ہونے کے لیے ایک باطنی معیار ہے، لہٰذا کسی بھی عمل کے صحیح ہونے کے لیے نیت کی اصلاح اور درستی اولین شرط ہے، اسی طرح اس عمل پر اجر وثواب کا حصول بنیادی طور پر اخلاص نیت ہی پر موقوف ہے۔
    اخلاصِ نیت درحقیقت نفس امّارہ کی بدعنوانیوں، عمل میں در آئے شیطانی وسوسوں نیز دنیوی اغراض وشوائب اور نفسانی خواہشات ومفادات سے دل کویکسر خالی رکھنے کا دوسرا نام ہے، البتہ یہ بڑا صبر آزما اور دشوار کن کام ہے، بڑی ریاضت اور مجاہَدوں کے بعد ہی یہ بیش بہا دولت ہاتھ آسکتی ہے، کسی عمل کو انجام دیتے وقت رضائے الہٰی کا استحضار اور دل کو ریا ونمائش سے خالی اور اخلاص سے لبریز رکھنا کسرِنفسی اور شان بے نیازی چاہتا ہے، حظوظِ نفس اور ذاتی منافع ومطامع کو تیاگ دینے کا تقاضہ کرتا ہے، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’مَا عَالجتُ شيئًا أشَدّعَلَيَّ من نيتي، أنَّهَا تَقَلّبُ علي‘‘’’ یعنی مجھے اپنی نیت کے سلسلے میں جو مشقت اٹھانی پڑی وہ کسی اور چیز میں نہیں کیونکہ یہ پلٹ جایا کرتی ہے‘‘
    [الجامع لأخلاق الراوی:۲؍۳۱۷]
    اسی طرح بعض سلف کا کہنا ہے کہ:
    ’’تخلیصُ النیۃ من فسادہا أشدُّ علی العاملین من طول الاجتہاد‘‘’’ یعنی نیت کو خراب ہونے سے بچانا عمل کرنے والوں کے لیے عمل کی طویل محنت ومشقت سے زیادہ شاق اور دشوار ہے‘‘
    امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ عمل میں نیت کس طرح ہو؟ تو انہوں فرمایا: ’’يُعالِجُ نفسَه؛ إذا أراد عملاً، لا يريد به الناس‘‘’’ یعنی بندہ اپنے نفس پر غالب آنے کی کوشش کرے چنانچہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے لوگوں کے لیے نہ کرے‘‘
    مگر آج ہمارا حال اس کے برعکس ہے، ہمارے اکثر وبیشتر اعمال، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، دکھاوے کی نذر ہو چکے ہیں اور تحدیثِ نعمت کی آڑ میں تعلّی وخودستائی، جلوہ آرائی وخود نمائی اور تفاخُر وتکاثُر ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔
    فقدانِ اخلاص کے باعث شیطان نے ہمارے وجود کو اپنے شر وفساد، مکر وعناداور دجل وفریب کا نشیمن بنالیا ہے، ہمارے یہاں حق وباطل کی شناخت، غلط اور صحیح کی پہچان اور کھرے وکھوٹے کی تمیز کا پیمانہ ہی بدل گیا ہے، رجال واشخاص کو ناپنے اور آنکنے کا معیار صلاحیت ولیاقت، اخلاق و کردار، کارنامے اور کمالات کے بجائے شہرت وعوامی مقبولیت اور ڈگری ومنصب ہو کر رہ گیا ہے، معاشرہ کے بڑے لوگوں کے یہاں افراد کی قدر دانی کی بنیاد جوہر وخوبی اور ہنر مندی وحسن کارکردگی کے بجائے خوشامد وچاپلوسی اور جی حضوری وکاسہ لیسی ہو کر رہ گئی ہے۔
    شہرت وناموری کی ہوس، تحسین وآفریں کی خواہش، کرسی ومنصب کی حرص اور کھنکتے سکوں کی لالچ نے بے پناہ صلاحیتوں، اعلیٰ ترین لیاقتوں اور غیرمعمولی ذہانتوں کو مفلوج اور اپاہج بنادیا ہے، زبان وقلم کی رفعتوں کو داغدار اور خامہ وقرطاس کی حرمتوں کو پامال کردیا ہے، تقریر وخطابت کو نغمہ سرائی وسخن آرائی کا مرقع اور لذتِ سمع وتفریحِ طبع کا سامان بنا دیا ہے، یہ مقدس عمل زیادہ تر لطیفوں کی رنگا رنگی، کہانیوں کی بوقلمونی، زبان کے چونچلوں اور بیان کے چٹخاروں سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے۔
    اخلاص سے دوری نے ہمیں خود غرضی ومفاد پرستی اور عصبیت وگروہ بندی کے حصار میں مقید کردیاہے، جس کی وجہ سے ہمارے اجتماعی تانے بانے بکھرتے جارہے ہیں اور ہماری دینی وملی وحدت پاش پاش ہوتی جارہی ہے، ہمارے تعلیمی وتربیتی ادارے، رفاہی وفلاحی تنظیمیں، دعوتی واصلاحی جماعتیں اور دینی وملی جمعیتیں اندرونی سازش وبے اعتمادی کا شکار اور بدترین انتشار وخلفشار سے دوچار ہیں، مناصحت اور تعمیری تنقید کے بجائے تشہیر وتعییر، طعن وتشنیع اور دل آزاری وکردار کشی ہمارا محبوب مشغلہ بن چکا ہے، متنازعہ مسائل کو باہمی گفت وشنید اور مفاہمت کی بنیاد پر حل کرنے کے بجائے اہانت وتضحیک اور دشنام طرازی وتہمت تراشی ہماری پہچان ہو گئی ہے۔
    اخلاص کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے کہ آج طلبِ علم کا مقصد تعمیرِ شخصیت، تزکیۂ نفس، دعوتِ حق اورخدمت خلق کے بجائے زیاد تر دنیاوی ترقی اور مادی منفعت کا حصول ہو کر رہ گیا ہے۔
    بنابریں ہمارے یہاں دلِ بے تاب وچشمِ پُرآب ناپید اورجذبِ دروں وسوزِفزوں معدوم ہیں، ہماری روحیں مردہ اور ضمیر مرجھا چکے ہیں اور نفس کے آستانے پر ہماری حیاتِ مجروح اپنے گھٹنے ٹیک چکی ہے، ہماری عبادتیں روحانیت سے محروم، ہماری مناجاتیں لذت فریاد سے ناآشنا اور ہمارے سجدے بے ذوق ہو چکے ہیں۔
    صفیں کج، دل پریشاں سجدہ بے ذوق۔۔۔کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے۔
    لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کریں، اپنے دلوں میں اخلاص پیدا کریں اور اپنے ہر عمل میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضاجوئی کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں کہ یہی اخلاص ہے جو ہمارے دلوں کو جِلا دیتا اور ہمارے عمل کو فرش سے اٹھا کرعرش پر لے جاتاہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings