-
قول و فعل میں تضاد ایک خبیث خصلت ہر مومن و مسلمان کی خصلت و عادت یہ ہونی چاہئے کہ اسے جس بھی دینی علم کی جس قدر معرفت ہو، جس بھی سنت کا صحیح علم ہواس پر وہ خود عمل کرے اوردوسروں کو بھی عمل کرانے کے لیے اس کی اچھے سے تبلیغ کرے، ایسا کرنے سے جہاں اس کی تبلیغ کا اثر سامنے والوں پر پڑے گا وہیں وہ عمل کرنے اور کرانے کا مکمل ثواب بھی پائے گا، لیکن اگر وہ علم کے بعد خود عمل کرنے کے بجائے صرف لوگوں کو تبلیغ اور نصیحت ہی کرتا پھرے گا تو جہاں اس کی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں دِکھنے والا وہیں اُس کا یہ عمل اللہ کی نظر میں مبغوض بھی ہوگا، کیونکہ:
قول و عمل میں تضاد یعنی جو بات کہنی یا نصیحت کرنی ہے اس پر خود عمل نہ کرنا یہ بہت ہی بری خصلت و عادت ہے۔
٭ قرآن کی روشنی میں یہ یہودیوں کی ایک بری عادت کے مترادف ہے، جیسا کہ اللہ نے یہودیوں کی عادت کے تعلق سے فرمایا :
{ اَتَاْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ اَنفُسَكُمْ وَاَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ اَفَلاَ تَعْقِلُونَ}
’’ کیا تم لوگ دوسروں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہواور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟جبکہ تم لوگ کتاب بھی پڑھتے ہو کیا تم لوگوں کو عقل نہیں‘‘؟
[ البقرۃ:۴۴]
٭ قول و فعل میں تضاد اللہ کو ناراض کرنے والی بات ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا :
{يَا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ۔ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ}
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے یہ بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں‘‘۔
[الصف:۲۔۳]
٭ قول و فعل میں تضاد منافقین کا عمل ہے ،جسے ہم عملی نفاق سے تعبیر کرسکتے ہیں،حدیث میں منافقین کی جو تین نشانیاں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آدمی زبانی طور سے کچھ عہد و پیمان تو کرے لیکن عملی طور پر اس پر وہ خود کاربند نہ ہو،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: ’’إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَان‘‘
منافق کی تین نشانیاں ہیں:’’جب وہ گفتگو کرے توجھوٹ بولے، جب وہ وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے‘‘
[صحیح بخاری:۳۳]
٭ قول و فعل میں تضاد گمراہ اورمختلف قسم کی وادیوں میں بھٹکے ہوئے شعراء کی مذموم صفت ہے ، جیسا کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا :
{وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ}
’’اور وہ لوگ وہ باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں‘‘
[الشعراء:۲۲۶]
٭ مزیدقول و فعل میں تضادیعنی کہی ہوئی باتوں پر عمل نہ کرنا خطرناک عذاب کو دعوت دینا ہے، چنانچہ حدیث رسول ﷺمیں ہے کہ:
عَنْ اُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:’’ يُوْتَي بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُلْقَي فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ اَقْتَابُ بَطْنِهِ، فَيَدُورُ بِهَا كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِالرَّحَي، فَيَجْتَمِعُ إِلَيْهِ اَهْلُ النَّارِ، فَيَقُولُونَ: يَا فُلَانُ مَا لَكَ؟ اَلَمْ تَكُنْ تَاْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَي عَنِ الْمُنْكَرِ؟ فَيَقُولُ: بَلٰي، قَدْ كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ، وَاَنْهَي عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ‘‘۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:’’ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جس سے اس کے پیٹ کی آنتیں نکل آئیں گی ،وہ آنتوں کو لے کر اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا چکی کو لے کر گھومتا ہے، دوزخ والے اس کے پاس اکٹھے ہو کر کہیں گے: اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ (یعنی آج تو کس حالت میں ہے؟) کیا تو لوگوں کو نیکی کا حکم نہیں دیتا اور برائی سے نہیں روکتا تھا؟ وہ کہے گا : ہاں میں لوگوں تو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود اس نیکی پر عمل نہیں کرتا تھا اور لوگوں کو برائی سے منع کرتا تھا لیکن میں خود برائی میں مبتلا تھا‘‘۔
[صحیح مسلم:۲۹۸۹]
اس لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے اندر قول و فعل کا تضاد پیدا نہ کریں ، جس بات کی تبلیغ و نصیحت کریں پہلے اس پر خود عمل کریں، تاکہ ہم یہودیوں ،منافقوں اور بھٹکے ہوئے شعراء کی بری خصلت و عادت سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی ناراضگی اور اس کے خطرناک عذاب سے بچا سکیں ۔
نیز ہمارا دینی اور شرعی تقاضا ہے کہ ہم خاص کر علماء جو انبیاء کے وارث ہیں جس بات کی دینی و شرعی تعلیم لوگوں کو دیں اُسے خود عملی جامہ بھی پہنائیں تاکہ کوئی ہماری طرف یہ کہہ کر انگلی نہ اٹھا سکے کہ یہ دیکھو خود تو عمل کرتے نہیں اور چلے ہیں نصیحت کرنے۔