Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • بیس(۲۰) رکعات تراویح سے متعلق تمام روایات کا جائزہ

           بیس رکعات سے متعلق جوروایات پیش کی جاتی ہیں ان کی دوقسمیں ہیں:

       قسم اول : مرفوع روایات ۔

        قسم ثانی: موقوف روایات۔

        قسم ثالث: مقطوع روایات۔

     قسم اول: مرفوع روایات

    ذخیرہ احادیث میں صرف دو مرفوع روایات ملتی ہیں جن سے بیس رکعات تراویح کی دلیل لی جاتی ہے ، ذیل میں ان دونوں مرفوع روایات کا جائزہ پیش خدمت ہے:

    ٭ پہلی مرفوع روایت:

    امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی458)نے کہا:

    أنبأ أبو سعد الماليني ثنا أبو أحمد بن عدي الحافظ ثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز ثنا منصور بن أبى مزاحم ثنا أبو شيبه عن الحكم عن مقسم عن بن عباس قال : كان النبى ﷺيصلي فى شهر رمضان فى غير جماعة بعشرين ركعة والوتر تفرد به أبو شيبه إبراهيم بن عثمان العبسي الكوفي وهو ضعيف (السنن الکبری للبیہقی: 2/ 496 )۔

    یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بغیرجماعت کے بیس رکعات پڑھتے تھے۔

    اس کی سند میں موجود راوی ابوشیبہ ،إبراہیم بن عثمان بن المخارق سخت ضعیف ومتروک اوربعض نے تو جھوٹاقراردیا ہے (عام کتب رجال) لہٰذا یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے تفصیل کے لئے دیکھئے سلسلہ الاحادیث الضعیفہ رقم 560۔

    أنور شاہ رحمہ اللہ (المتوفی1353) کہتے ہیں:

    وأما النبى – صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فصح عنه ثمان ركعات، وأما عشرون ركعة فهو عنه بسند ضعيف وعلي ضعفه اتفاق (العرف الشذی للکشمیری: 2/ 208)۔

    یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعات والی روایت صحیح ہے رہی بیس رکعات والی روایت تو وہ ضعیف سند سے منقول ہے اور اس کے ضعف پرسب کا اتفاق ہے۔

    انورشاہ کشمیری کے علاوہ اوربھی بہت سارے حنفی اکابرین اور مستندمحدثین نے اسے ضعیف قراردیا ہے تفصیل کے لئے علامہ املوی رحمہ اللہ کی کتاب انوارمصابیح کی طرف مراجعت کی جائے۔

    ٭ دوسری مرفوع روایت:

    أبو القاسم حمزۃ بن یوسف بن إبراہیم السہمی القرشی الجرجانی (المتوفی427) نے کہا:

    حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْقَصْرِيُّ الشَّيْخُ الصَّالِحُ رَحِمَهُ اللَّهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحنازِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَتِيكٍعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النبى صلى اللَّه عليه وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّي النَّاسُّ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلاثَةٍ . (تاریخ جرجان :ص 317 ).

    یعنی جابررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رمضان میں ایک رات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورلوگوں کو چوبیس رکعات تراویح اورایک رکعت وترپڑھائی۔

    یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اس کی سند میں محمدبن حمید ہے جسے خود حنفی حضرات نے کذاب قراردیا ہے دیکھئے رسول اکرم کاطریقہ نماز از مفتی جمیل صفحہ ۳۰۱ ۔

    مزید تفصیل کے لئے حافظ زبیرعلی زئی کی کتاب رکعات قیام رمضان دیکھیں۔

     قسم ثانی :موقوف روایات

        بیس رکعات تراویح سے متعلق پیش کردہ احادیث کی دوسری قسم موقف روایات ہیں ، یعنی وہ روایات جو صرف صحابہ کی طرف منسوب ہیں ، یہ کل چار صحابہ کرام ہیں

        عمربن الخطاب رضی اللہ پر موقوف روایت۔

        علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت۔

        عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت۔

          عبدالرحمن بن ابی بکرہ پرموقوف روایت۔

     پہلی موقوف روایت

    (عمربن الخطاب رضی اللہ پرموقوف)

     پہلا طریق :از ابی بن کعب رضی اللہ عنہ

    امام ضیاء المقدسی رحمہ اللہ (المتوفی643)نے کہا:

    أخبرنا أبو عبدالله محمود بن أحمد بن عبدالرحمن الثقفي بأصبهان أن سعيد بن أبى الرجاء الصيرفي أخبرهم قراء ة عليه أنا عبدالواحد بن أحمد البقال أنا عبيدالله بن يعقوب بن إسحاق أنا جدي إسحاق بن إبراهيم بن محمد بن جميل أنا أحمد بن منيع أنا الحسن بن موسي نا أبو جعفر الرازي عن الربيع بن أنس عن أبى العالية عن أبى بن كعب أن عمر أمر أبيا أن يصلي بالناس فى رمضان فقال إن الناس يصومون النهار ولا يحسنون أن ( يقرؤا ) فلو قرأت القرآن عليهم بالليل فقال يا أمير المؤمنين هذا ( شيء ) لم يكن فقال قد علمت ولكنه أحسن فصلي بهم عشرين ركعة (الأحادیث المختارۃ للضیاء المقدسی 2/ 86)۔

    یعنی عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے حکم سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیس رکعات پڑھاتے تھے۔

    یہ روایت ضعیف ہے ، سند میں موجود ابو جعفرالرازی سی الحفظ ہے ۔

    امام أبو زرعۃ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی264)نے کہا:

    شیخ یہم کثیرا(الضعفاء لابی زرعہ الرازی: 2/ 443)۔

    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی354)نے کہا:

    کان ممن ینفرد بالمناکیر عن المشاہیر لا یعجبنی الاحتجاج بخبرہ إلا فیما وافق الثقات (المجروحین : 2/ 120)۔

     دوسرا طریق: از سائب بن یزید رضی اللہ عنہ

    اس طریق سے تین لوگوں نے روایت کیا ہے:

    ٭ پہلی روایت : از حارث بن عبدالرحمان:

    امام عبد الرزاق رحمہ اللہ (المتوفی211)نے کہا:

    عَنِ الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِيَامِ عَلَي عَهْدِ عُمَرَ، وَقَدْ دَنَا فُرُوعُ الْفَجْرِ، وَكَانَ الْقِيَامُ عَلَي عَهْدِ عُمَرَ ثَلَاثَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً (مصنف عبد الرزاق: 4/ 261)۔

    یہ روایت موضوع ہے تفصیل کے لئے دیکھئے مضمون :آٹھ(۸) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق اورشبہات کا زالہ۔

    ٭ دوسری روایت: از یزید بن خصیفہ:

    علی بن الجَعْد بن عبید البغدادی (المتوفی230ھ)نے کہا:

     أنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كَانُوا يَقُومُونَ عَلَي عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَء ُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ (مسند ابن الجعد:ص: 413)۔

    یہ روایت شاذ ہے تفصیل کے لئے دیکھئے مضمون:آٹھ (۸) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق اورشبہات کا زالہ۔

    ٭ تیسری روایت: از محمدبن یوسف:

    امام عبد الرزاق رحمہ اللہ (المتوفی211) نے کہا:

    عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، ” أَنَّ عُمَرَ: جَمَعَ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ عَلَي أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَعَلَي تَمِيمٍ الدَّارِيِّ عَلَي إِحْدَي وَعِشْرِينَ رَكْعَةُ يَقْرَء ُونَ بِالْمِئِينَ وَيَنْصَرِفُونَ عِنْدَ فُرُوعِ الْفَجْرِ “(مصنف عبد الرزاق: 4/ 260)۔

    یہ روایت ضعیف ومنکرہے تفصیل کے لئے دیکھے مضمون : آٹھ (۸) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق اورشبہات کا زالہ۔

    تیسرا طریق : از مسقوط روای:

    اس طریق سے چار لوگوں نے روایت کیا ہے:

    ٭ پہلی روایت: از یزید بن رومان:

    امام مالک رحمہ اللہ (المتوفی179)نے کہا:

    وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً (موطأ مالک ت عبد الباقی: 1/ 115)۔

    یہ روایت منقطع ہے یزید بن رومان نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے۔

    نیموی حنفی اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں:

    یزید بن رومان لم یدرک عمربن الخطاب (آثارالسنن:253)۔

    ٭ دوسری روایت: از یحیی بن سعید:

    امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ(المتوفی235)نے کہا:

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً (مصنف ابن أبی شیبۃ: 2/ 163 رقم 7682)۔

    یہ روایت بھی منقطع ہے یحیی بن سعید نے عمربن الخطاب کو نہیں پایا ہے۔

    نیموی حنفی اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں:

    یحیی بن سعد الانصاری لم یدرک عمر (آثارالسنن:253)۔

    یعنی یحیی بن سعید نے عمرفاروق کا زمانہ نہیں پایا۔

    ٭ تیسری روایت: ازعبدالعزیزبن رفیع:

    امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی235)نے کہا:

    حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ: كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ (مصنف ابن أبی شیبۃ: 2/ 163 رقم 7684)۔

    یہ روایت بھی منقطع ہے عبدالعزیز نے ابی بن کعب کو نہیں پایا۔

    ٭ چوتھی روایت: از محمدبن کعب القرضی:

    امام مروزی رحمہ اللہ (المتوفی294)نے کہا:

    وقال محمد بن كعب القرظي : كان الناس يصلون فى زمان عمر بن الخطاب رضى الله عنه فى رمضان عشرين ركعة يطيلون فيها القراء ة ويوترون بثلاث (قیام رمضان لمحمد بن نصر المروزی ص: 21، ۔

    یہ روایت بھی منقطع ہے محمدبن کعب نے ابی بن عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔

     تنبیہ:

    امام أبوداؤد رحمہ اللہ (المتوفی275)نے کہا:

    حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَمَعَ النَّاسَ عَلَي أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَلَا يَقْنُتُ بِهِمْ إِلَّا فِي النِّصْفِ الْبَاقِي، فَإِذَا كَانَتِ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ تَخَلَّفَ فَصَلَّي فِي بَيْتِهِ، فَكَانُوا يَقُولُونَ أَبَقَ أُبَيٌّ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَهَذَا يَدُلُّ عَلَي أَنَّ الَّذِي ذُكِرَ فِي الْقُنُوتِ لَيْسَ بِشَيْء ٍ، وَهَذَانِ الْحَدِيثَانِ يَدُلَّانِ عَلَي ضَعْفِ حَدِيثِ أُبَيٍّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ فِي الْوِتْرِ (سنن أبی داود: 1/ 454 رقم 1429)۔

    اس روایت میں بیس رات کا ذکر ہے لیکن کچھ لوگوں نے اس میں تحریف کرکے اسے بیس رکعات بنالیا ، لیکن بہر صورت یہ روایت ضعیف ہی ہے کیونکہ حسن بصری کی ملاقات عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے نہیں نیز وہ مدلس ہیں اوروایت عن سے ہے۔

     دوسری موقوف روایت

    (علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پرموقوف)

    یہ روایت دو طریق سے مروی ہے:

     پہلاطریق: ابوعبدالرحمان السلمی:

    امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی458)نے کہا:

    أخبرنا أبو الحسن بن الفضل القطان ببغداد أنبأ محمد بن أحمد بن عيسي بن عبدك الرازي ثنا أبو عامر عمرو بن تميم ثنا أحمد بن عبد الله بن يونس ثنا حماد بن شعيب عن عطاء بن السائب عن أبى عبد الرحمن السلمي عن على رضى الله عنه قال : دعا القراء فى رمضان فأمر منهم رجلا يصلي بالناس عشرين ركعة قال وكان على رضى الله عنه يوتر بهم وروي ذلك من وجه آخر عن علي (السنن الکبری للبیہقی: 2/ 496)۔

    یہ روایت سخت ضعیف ہے ۔

    اس کی سند میں موجود حماد بن شعیب پر محدثین نے سخت جرح کی ہے مثلا:

    امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی256)نے کہا:

    حماد بن شعيب التميمي أبو شعيب الحماني عن أبى الزبير يعد فى الكوفيين فيه نظر (التاریخ الکبیر للبخاری 3/ 25)۔

    امام بخاری رحمہ اللہ کا  فیہ نظر کہنا سخت جرح ہے۔

    امام أبو زرعۃ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی264):

    واہی الحدیث حدث عن أبی الزبیر وغیرہ بمناکیر(الضعفاء لابی زرعہ الرازی: 2/ 436)۔

    اس سند میں اور بھی علتیں ہیں۔

     دوسرا طریق :از ابوالحسناء :

    امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی458)نے کہا:

    أنبأ أبو عبد الله بن فنجويه الدينوري ثنا أحمد بن محمد بن إسحاق بن عيسي السني أنبأ أحمد بن عبد الله البزاز ثنا سعدان بن يزيد ثنا الحكم بن مروان السلمي أنبأ أبو الحسن بن على بن صالح عن أبى سعد البقال عن أبى الحسناء : أن على بن أبى طالب أمر رجلا أن يصلي بالناس خمس ترويحات عشرين ركعة وفي هذا الإسناد ضعف والله أعلم (السنن الکبری للبیہقی: 2/ 497)۔

    یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ ابوالحسناء مجہول ہے۔

    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی852)نے کہا:

    أبو الحسناء بزيادة ألف قيل اسمه الحسن وقيل الحسين مجهول (تقریب التہذیب لابن حجر: 1/ 541)۔

     تیسری موقوف روایت

    (عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ پرموقوف روایت)

    امام مروزی رحمہ اللہ (المتوفی294)نے کہا:

    أخبرنَا يحيي بن يحيي أخبرنَا حَفْص بن غياث عَن الْأَعْمَش عَن زيد بن وهب، قَالَ: (كَانَ عبد الله بن مَسْعُود يُصَلِّي لنا فِي شهر رَمَضَان) فَيَنْصَرِف وَعَلِيهِ ليل، قَالَ الْأَعْمَش:كَانَ يُصَلِّي عشْرين رَكْعَة ويوتر بِثَلَاث ) ( قیام اللیل للمروزی بحوالہ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری 11/ 127)۔

    یہ رویات منقطع ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دور نہیں پایا ہے

     چوتھی موقوف روایت

    (عبد الرحمن بن أبی بکرۃ رضی اللہ عنہ پرموقوف روایت)

    امام ابن أبی الدنیا رحمہ اللہ (المتوفی281)نے کہا:

    حدثنا شجاع ، ثنا هشيم ، أنبا يونس ، قال : شهدت الناس قبل وقعة ابن الأشعث وهم فى شهر رمضان ، فكان يؤمهم عبد الرحمن بن أبى بكر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وسعيد بن أبى الحسن ، ومروان العبدي ، فكانوا يصلون بهم عشرين ركعة ، ولا يقنتون إلا فى النصف الثاني ، وكانوا يختمون القرآن مرتين وزاد المروزي : فإذا دخل العشر زادوا واحدة (فضائل رمضان لابن ابی الدنیا: ص: 53، قیام رمضان لمحمد بن نصر المروزی ص: 21 )۔

    یونس بن عبید العبْدی البصری کہتے ہیں کہ میں نے اشعث کے فتنہ سے قبل ماہ رمضان میں لوگوں دیکھا انہیں صحابی رسول عبدالرحمان بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ، سعیدبن ابی الحسن اورمروان العبدی امامت کرواتے اوریہ انہیں بیس رکعات پڑھاتے تھے اورآدھے رمضان کے بعد ہی وتر پڑھتے تھے اور دو دفعہ قران ختم کرتے تھے ۔ امام مروزی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جب آخری عشرہ آتا تھا تو چاررکعات مزید اضافہ کرلیتے ۔

    ٭ اولا:

    ہماری نظر میں یہ روایت ضعیف ہے اوراس کی سند کے ساتھ مذکورہ متن کا الحاق کسی راوی کا وہم ہے اس کی دلیل یہ ہے عین اسی طریق سے دیگر اوثق لوگوں نے روایت کیا تو اس میں دیگر متن کا ذکر ہے ، چنانچہ سب سے پہلے اس طریق پرغور کریں جویوں ہے:

    حدثنا شجاع ، ثنا ہشیم ، أنبا یونس بن عبید قال۔۔۔

    اورعین اسی طریق سے اس روایت کو امام ابوداؤد جیسے ثقہ وثبت نے روایت کیا تو اس میں اسی طریق سے حسن بصری کی روایت یوں منقول ہے:

    امام أبوداؤد رحمہ اللہ (المتوفی275)نے کہا:

    حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَمَعَ النَّاسَ عَلَي أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَلَا يَقْنُتُ بِهِمْ إِلَّا فِي النِّصْفِ الْبَاقِي، فَإِذَا كَانَتِ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ تَخَلَّفَ فَصَلَّي فِي بَيْتِهِ، فَكَانُوا يَقُولُونَ أَبَقَ أُبَيٌّ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَهَذَا يَدُلُّ عَلَي أَنَّ الَّذِي ذُكِرَ فِي الْقُنُوتِ لَيْسَ بِشَيْء ٍ، وَهَذَانِ الْحَدِيثَانِ يَدُلَّانِ عَلَي ضَعْفِ حَدِيثِ أُبَيٍّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ فِي الْوِتْرِ (سنن أبی داود: 1/ 454 رقم 1429)۔

    ظن غالب یہی ہے کہ اس طریق کے ساتھ ابوداؤد رضی اللہ عنہ کی روایت ہی درست ہے اس کی دلیل یہ ہے عین اسی طریق سے امام ابن ابی الدنیا نے دوسرے مقام یوں نقل کیا:

    حدثنا شجاع بن مخلد ، قال: ثنا هشيم ، قال منصور : أنبا الحسن ، قال:كانوا يصلون عشرين ركعة ، فإذا كانت العشر الأواخر زاد ترويحة شفعين (فضائل رمضان ص:56 )۔

    اس روایت پر غورکریں کہ یہ بھی شجاع ہی کے طریق سے اور اس میں حسن بصری کی روایت منقول ہے نیز اس روایت کے اخیرمیں یہ صراحت ہے کہ :

    فإذا كانت العشر الأواخر زاد ترويحة شفعين

    یہ بالکل وہی الفاظ ہیں جو زیربحث روایت میں بھی منقول ہیں جیساکہ امام مروزی کے حوالہ سے شروع میں ہی درج کیا گیا ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فی الحقیقت زیربحث روایت حسن بصری والی ہی روایت ہے جس میں کسی راوی کے وہم سے دوسری غیر معلوم السند روایت بھی ضم ہوگی ہے ۔

    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ سند گرچہ بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے مگراس میں مخفی علت یہ ہے کہ اس کے متن میں راوی کے وہم کی وجہ سے دوسری روایت ضم ہوگئی ہے جس کی اصل سند نامعلوم ہے ، اوراس روایت کے ساتھ جو سند ہے وہ حسن بصری کی روایت والی سند ہے جو کہ منقطع ہے ، لہٰذایہ روایت ضعیف ہے۔

    شجاع بن مخلد کی متابعت کا جائزہ:

    بعض حضرات کا کہنا ہے کہ سریج بن یونس نے شجاع بن مخلد کی متابعت کی ہے جیساکہ ابن عساکر نے کہا:

    امام ابن عساکر رحمہ اللہ (المتوفی571)نے کہا:

    أخبرنا أبو غالب بن البنا أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو عبد الله الحسين بن عمر بن عمران بن حبيش الضراب نا حامد بن محمد بن شعيب البلخي نا سريج بن يونس نا هشيم أنا يونس بن عبيد قال شهدت وقعة ابن الأشعث وهم يصلون فى شهر رمضان وكان عبد الرحمن بن أبى بكرة صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وسعيد بن أبى الحسن وعمران العبدي فكانوا يصلون بهم عشرين ركعة ولا يقنتون إلا فى النصف الثاني وكانوا يختمون القرآن مرتين (تاریخ مدینۃ دمشق 36/ 13)۔

    عرض ہے کہ یہ متابعت بجائے خود مختلف المتن ہے اس لئے کہ یہ جس طریق سے منقول ہے عین اسی طریق اسی روایت کو امام ابن الجوزی نے بھی نقل کیا تو یہ متن نہ بیان کرکے حسن بصری کی روایت والا متن بیان کیا چنانچہ التحقیق لابن الجوزی میں عین اسی طریق کے ساتھ یہ رویت یوں ہے:

    امام ابن الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی597)نے کہا:

    أخبرنا به أبو المعمر أنبأنا محمد بن مرزوق أنبأنا أبو بكر أحمد بن على أنبأنا أبو محمد الجوهري أنبأنا محمد بن عبد الملك عن الجوهري أنبأنا الحسين بنعمر أنبأنا يونس الضراب حدثنا حامد بن محمد بن شعيب حدثنا سريج بن يونس حدثنا هشيم أنبأنا يونس عن الحسن أن عمر بن الخطاب جمع الناس على أبى بن كعب فكان يصلي بهم عشرين ليلة من الشهر ولا يقنت بهم إلا فى النصف الثاني فإذا كان العشر الأواخر تخلف فصلي فى بيته (التحقیق فی أحادیث الخلاف لابن الجوزی: 1/ 459)۔

    معلوم ہوا کہ اس طریق کے متن میں بھی وہی اختلاف ہے جو شجاع بن مخلد کے طریق میں ہے یعنی اس طریق سے بھی دونوں روایت نقل کی گئی ہیں ، ایسی صورت میں مشکل یہ ہے کہ سریج بن یونس کی اس متابعت کو شجاع کے بیان کردہ کس متن کا متابع قراردیں گے ؟؟؟

    ہم تو کہتے کہ اس متابعت کا بھی مختلف المتن ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ زیربحث روایت کا متن صحیح طور سے ضبط نہیں کیا جاسکا ہے اور اس میں کسی دوسری روایت کے متن کی بھی آمیزش ہوگئی ہے ہے ، یاد رہے کہ یہ طریق صرف اسی روایت میں معروف ہے اور اس سے دیگر دیگرروایات منقول نہیں ہوئی ہیں لہٰذا تعدد متن اورتعدد روایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ لازمی بات یہی ہے کہ اس طریق سے نقل ہونے والا متن ایک ہی ہے  اور ہماری نظر میں راجح بات یہ ہے کہ یہ متن حسن بصری والی روایت ہی کا متن ہے اوروجہ ترجیح وہی ہے جو ہم نے اوپربیان کی ہے۔

    اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ شجاع بن مخلد کے طریق سے اصل روایت وہی ہے جو ابوداؤ میں ہے یعنی حسن بصری کی روایت ہے اوریہ روایت ضعیف ہے نیز اس میں عشرین لیلہ کے بجائے عشرین رکعہ ہے ۔

    ٭ ثانیا:

    یادرہے کہ اگراس روایت کوصحیح بھی مان لیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ بیس رکعات سنت سمجھ کرپڑھ رہے تھے کیونکہ روایت میں ایسی کوئی صراحت نہیں ہے بلکہ امام مروزی کی روایت سے پتہ چلتاہے کہ یہ لوگ سنت نہیں بلکہ مطلق نفل ہی کی نیت سے بیس رکعات پڑھتے تھے چنانچہ:

    امام مروزی رحمہ اللہ (المتوفی294)نے کہا:

    يُونُسُ رَحِمَهُ اللَّهُ: أَدْرَكْتُ مَسْجِدَ الْجَامِعَ قَبْلَ فِتْنَةِ ابْنِ الْأَشْعَثِ يُصَلِّي بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ , وَعِمْرَانُ الْعَبْدِيُّ كَانُوا يُصَلُّونَ خَمْسَ تَرَاوِيحَ , فَإِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ زَادُوا وَاحِدَةً , وَيَقْنُتُونَ فِي النِّصْفِ الْآخِرِ , وَيَخْتِمُونَ الْقُرْآنَ مَرَّتَيْنِ (قیام رمضان لمحمد بن نصر المروزی ص 222)۔

    اس روایت میں ہے کہ فَإِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ زَادُوا وَاحِدَۃً ہے یعنی آخری عشرہ میں ایک ترویحہ یعنی چاررکعات کا اوراضافہ کرلیتے تھے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ نفل سمجھ کی ہی پڑھتے تھے لہٰذا اگراس روایت کوصحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے بلاتعیین آٹھ رکعات سے زائد تراویح پڑھنے کا ثبوت ملتاہے۔

     قسم ثالث: مقطوع روایات

    بعض لوگ بیس رکعات تراویح کی مسنونیت میں بعض تابعین اور بعض اہل علم کے آثار پیش کرتے ہیں ۔

    عرض ہے کہ تابعین اور بعد کے اہل علم کے اثار بالاتفاق حجت نہیں ہے ، لہٰذا ان کی استنادی حالت پر بحث کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

    خلاصہ کلام یہ کہ بیس رکعات تراویح پڑھنا نہ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی صحابی سے ، اس کے برعکس اللہ کے نبی ﷺ اور صحابی کرام سے آٹھ رکعات تراویح ہی کاثبوت ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings