-
کیا قدم سے قدم ملانا سنت نہیں ہے؟ ارئین کرام! بعض حضرات کا کہنا ہے کہ نماز میں قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملانا سنت نہیں ہے ، سنت صرف یہ ہے کہ صف کو سیدھا رکھا جائے اور بیچ میں خلل نہ چھوڑا جائے ۔
تو آیئے سب سے پہلے ہم چند احادیث دیکھتے ہیں۔
۱۔ ’’ أقیموا صفوفکم، وتراصوا ‘‘
’’ اپنی صفیں برابر کر لو اور خوب مل کر کھڑے ہو جاؤ ‘‘
[صحیح البخاری :۷۱۹]
۲۔ ’’أَقِيمُوا الصُّفُوفَ، وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ، وَسُدُّوا الْخَلَلَ، وَلِينُوا بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ، وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللّٰهُ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللّٰهُ‘‘
’’ صفوں کو درست کر لو ، کندھوں کو برابر رکھو ، درمیان میں فاصلہ نہ رہنے دو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم بن جاؤ اور شیطان کے لیے خلا نہ چھوڑو ، جس نے صف کو ملایا اللہ اسے ملائے اور جس نے صف کو کاٹا اللہ اسے کاٹے ‘‘
[سنن أبی داؤد :۶۶۶،صحیح]
۳۔ ’’رُصُّوا صُفُوفَكُمْ، وَقَارِبُوا بَيْنَهَا، وَحَاذُوا بِالْأَعْنَاقِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرَي الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ مِنْ خَلَلِ الصَّفِّ كَأَنَّهَا الْحَذَفُ ‘‘
’’ اپنی صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو، انہیں قریب قریب بناؤ اور گردنوں کو بھی برابر رکھو ، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں دیکھتا ہوں کہ شیطان تمہاری صفوں کی خالی جگہوں میں گھس آتا ہے گویا وہ بکری کا بچہ ہو ‘‘
[ سنن أبی داؤد:کِتَابُ الصَّلَاۃِ : تَفْرِیعُ أَبْوَابِ الصُّفُوفِ ، بَابٌ : تَسْوِیَۃُ الصُّفُوفِ :۶۶۷]
۴۔ ’’ أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ قَالَ:يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ، وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ‘‘
’’ تم اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح بارگاہ الہٰی میں فرشتے صف بستہ ہوتے ہیں؟ ہم نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! فرشتے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کس طرح صف بندی کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے کے ساتھ خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں ‘‘
[ صحیح مسلم :کِتَابٌ : الصَّلَاۃُ، بَابٌ : الْأَمْرُ بِالسُّکُونِ فِی الصَّلَاۃِ :۴۳۰]
علماء لغت کے یہاں ’’تَرَاصّ ‘‘کا معنی :
علماء لغت نے ’’تراص ‘‘ کا جو معنی بیان کیا ہے وہ یہ ہے :
ایک دوسرے سے ملنا ۔
ایک دوسرے سے چپک جانا ۔
بطور مثال دیکھیں :
ابو عبید قاسم بن سلام کہتے ہیں :
’’ تراصوا بينكم فى الصلاة لا تتخللكم الشياطين كأنها بنات حذفٍ‘‘۔قال الكسائي :’’ التراص أن يلصق بعضهم ببعضٍ حتي لا يكون بينهم خلل‘‘
[غریب الحدیث: ۳؍۲۰۵]
امام خلیل الفراھیدی کہتے ہیں :
’ رَصَصْتُ البُنيانَ رَصًّا اذا ضَمَمْتُ بعضَه الي بعض۔ورجلٌ أرَصُّ الأسنانِ أيْ رَكبَ بعضُها بعضًا، ومنه التَّراصُّ فى الصفِّ ‘‘
[ العین : ۷؍۸۳ ]
امام الرازی کہتے ہیں :
’’’’رَصَّ الشَّيْئَ ألْصَقَ بَعْضَهُ عَلٰي بَعْضٍ، وتَراصَّ القَوْمُ فِي الصَّفِّ أيْ: تَلاصَقُوا‘‘
[ مختار الصحاح : ۱؍۱۲۳ ]
ابن منظور کہتے ہیں:
’’ تَراصَّ القومُ : تضامُّوا وتلاصَقُوا، وفِي الحَدِيثِ:’’تَراصُّوا فِي الصَّلاة‘‘ أى تلاصَقُوا۔قالَ الكِسائِيُّ: التَّراصُّ أن يَلْصَقَ بعضُهم ببعضٍ حَتّي لا يَكُونَ بَيْنَهُمْ خَلَلٌ ولا فُرَجٌ، وأصله تراصَصُوا مِن رَصّ البِناء يَرُصُّه رَصًّا إذا ألْصَقَ بعضَه بِبَعْضٍ فأُدْغِم‘‘
[لسان العرب : ۷؍۴۰ ]
احمد مختار عمر کہتے ہیں : :’’ تراص المصلون: ارتصوا ، انضم بعضهم إلى بعض‘‘[ معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ : ۲؍۸۹۹]
لفظ ’’ تَرَاصُّوا‘‘ اور ’’ رُصُّوا ‘‘کا معنی صحابہ کرام کے نزدیک :
جب رسول اکرم ﷺنے صحابہ کرام کو حکم دیتے ہوئے فرمایا :’’ أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، وَتَرَاصُّوا ‘‘ اور’’ رُصُّوا صُفُوفَكُمْ، وَقَارِبُوا بَيْنَهَا، وَحَاذُوا بِالْأَعْنَاقِ‘‘ تو صحابہ کرام نے اس سے وہی معنی سمجھا جو لغویوں نے بیان کیا ہے ۔
جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا :
’’ أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَائِ ظَهْرِي۔ وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ‘‘
’’ صفیں برابر کر لو ، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں، چنانچہ ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملا دیتا تھا ‘‘۔
[ صحیح البخاری : کِتَابُ الْأَذَان:بَابُ إِلْزَاقِ الْمَنْکِبِ بِالْمَنْکِبِ :۷۲۵]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
’’ وأفاد هذا التصريح أن الفعل المذكور كان فى زمن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وبهذا يتم الاحتجاج به على بيان المراد بإقامة الصف وتسويته‘‘
’’اس صراحت سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ مذکورہ عمل رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں موجود تھا نیز اس بات کی دلیل بھی مل جاتی ہے کہ صفوں کو قائم یا سیدھا کرنے سے کیا مراد ہے؟ ‘‘
[ فتح الباری:۲؍۲۱۱]
سو لغت اور صحابہ کرام کے عمل سے یہ ثابت ہو گیا کہ نماز میں اپنے ٹخنے کو دوسرے کے ٹخنے سے اور اپنے کندھے کو دوسرے کے کندھے سے ملانا اور چپکا لینا ہے ۔
علماء کے اقوال :
۱۔ علامہ عبد الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وهكذا حال أكثر النّاس فى هذا الزّمان، فإنه لو فعل بهم ذلك، لنفروا كأنهم حمر وحش! وصارت هذه السنّة عندهم، كأنها بدعة- عياذًا باللّٰه- فهداهم اللّٰه تعالٰي، وأذاقهم حلاوة السنّة ‘‘
’’اس دور میں اکثر لوگوں کا یہی حال ہے ، اگر ان کے ساتھ صف بندی کی جائے تو وہ جنگلی گدھوں کی طرح بھاگتے ہیں ، گویا وہ – نعوذ اللہ – اس سنت کو بدعت سمجھتے ہیں، اللہ انہیں ہدایت دے اور سنت کی مٹھاس عطا فرمائے‘‘
[ أبکار المنن فی نقد آثار السنن: ص۲۴۵]
۲۔ صاحب ’’ التعلیق المغنی ‘‘ کہتے ہیں :
’’فهذه الأحاديث فيها دلالة واضحة على اهتمام تسوية الصفوف، وأنها من إتمام الصلاة، وعلي أنه لا يتأخر بعضه على بعض، ولا يتقدم بعضه على بعض، وعلي أنه يلزق منكبه بمنكب صاحبه، وقدمه بقدمه، وركبته بركبته، لكن اليوم تُركت هذه السنَّة! ولو فعلت اليوم لنفر الناس كالحُمُر الوحشية‘‘!
[ عون المعبود :۲؍۲۵۶]
’’ ان احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صفوں کی درستی کا اہتمام ہونا چاہیے اور یہ کہ صف بندی سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے اور یہ بھی کہ نماز میں آگے پیچھے نہیں کھڑے ہونا چاہیے بلکہ ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا، قدم سے قدم اور گھٹنے سے گھٹنا چپکا کر کھڑے ہونا چاہیے، لیکن آج یہ سنت ترک کر دی گئی ہے اور اگر آپ اس پر عمل کریں گے تو لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بھاگیں گے ‘‘
[ عون المعبود :۲؍۲۵۶]
۳۔ علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’كل ذلك يدل دلالة واضحة علٰي أن المراد باقامة الصف وتسويته أنما هو اعتدال القائمين علٰي سمت واحد وسد الخلل والفرج فى الصف بإلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم، وعلٰي أن الصحابة فى زمنه صلى اللّٰه عليه وسلم كانوا يفعلون ذلك، وأن العمل برص الصف والزاق القدم بالقدم وسد الخلل كان فى الصدر الأول من الصحابة وتبعهم، ثم تهاون الناس به‘‘
’’ یہ تمام الفاظ واضح طور پر دلالت کرتے ہیں کہ صفوں کی درستی سے مراد نمازیوں کا ایک قطار میں کھڑا ہونا، کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر خالی جگہ پر کرنا ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کے زمانے میں صحابہ ایسا کرتے تھے اور صف کو اچھی طرح ملانے اور پاؤں سے پاؤں چمٹانے کا عمل اسلام کے صدر اول یعنی صحابہ و تابعین میں موجود تھا، ہاں ! بعد میں لوگ سستی اور کا ہلی کا شکار ہو گئے‘‘
[ مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:۵؍۴]
مزید فرماتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ’’الزاق‘‘ کو مجازی معنی پر محمول کرنا محتاج قرینہ ہے، نیز ’’الزاق‘‘ کی یہ تفسیر کرنا کہ دو نمازیوں کے درمیان تیسرے آدمی کی جگہ نہ ہو، اس پر کوئی عقلی اور شرعی دلیل موجود نہیں ہے ۔
نیز ہمارے پاس صرف ’’الزاق‘‘ ہی کا لفظ نہیں ہے بلکہ ’’ تراص ، سد خلل ، اور شیطان کے لیے خالی جگہ چھوڑنے پر ممانعت جیسے الفاظ نبوی بھی موجود ہیں جن میں سے ہر ایک’’الزاق‘‘ کو حقیقی معنی پر محمول کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔
[ مرعاۃ المفاتیح:۴؍۶]
۴۔ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان احادیث میں بہت سے اہم فوائد موجود ہیں ۔
۱۔ یہ کہ صفیں قائم کرنا، ان کو سیدھا کرنا اور انہیں اچھی طرح ملانا واجب ہے، اس بارے میں نبی اکرم ﷺ کا حکم موجود ہے ۔ حکم میں اصل وجوب ہی ہوتا ہے الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی دلیل مل جائے ۔
۲۔ یہ کہ صفیں برابر کرنے سے مراد یہی ہے کہ کندھے سے کندھا اور پورے پاؤں کے ساتھ پورا پاؤں اچھی طرح ملا لیا جائے کیونکہ صحابہ کو جب صفیں قائم کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔
[ سلسلۃ أحادیث الصحیحۃ: ۱؍ ۷۲]
آگے فرماتے ہیں :
’’ ومن المؤسف أن هذه السنة من التسوية قد تهاون بها المسلمون، بل أضاعوها إلا القليل منهم، فإني لم أرها عند طائفة منهم إلا أهل الحديث، فإني رأيتهم فى مكة سنة (۱۳۶۸) حريصين على التمسك بها كغيرها من سنن المصطفي عليه الصلاة والسلام بخلاف غيرهم من أتباع المذاهب الأربعة – لا أستثني منهم حتي الحنابلة – فقد صارت هذه السنة عندهم نسيا منسيا، بل إنهم تتابعوا على هجرها والإعراض عنها،ذلك لأن أكثر مذاهبهم نصت على أن السنة فى القيام التفريج بين القدمين بقدر أربع أصابع، فإن زاد كره كما جاء مفصلا فى ’’الفقه على المذاهب الأربعة ‘‘(۱ ؍ ۲۰۷)، والتقدير المذكور لا أصل له فى السنة، وإنما هو مجرد ر أى ‘‘
’’ افسوس کہ اس سنت کو اکثر مسلمانوں نے اہمیت نہیں دی بلکہ انہوں نے اسے ضائع کر دیا ہے۔ میں نے یہ سنت مسلمانوں کے صرف ایک گروہ اہل حدیث کے پاس دیکھی ہے ۔ میں نے انہیں مکہ مکرمہ میں۱۳۶۸ھ میں دیکھا تھا، وہ رسول اللہ ﷺ کی دوسری سنتوں کی طرح اس سنت کے بھی شیدائی ہیں ان کے علاوہ دوسرے لوگ مذاہب اربعہ کے پیروکار ، میں ان میں سے حنابلہ کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیتا ، ان لوگوں نے بھی اس سنت کو بالکل بھلا دیا ہے اور مسلسل اس سنت کو چھوڑا ہوا ہے اور اس سے اعراض کیا ہوا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مذاہب کی اکثر کتابوں میں لکھا ہے کہ دو اشخاص کے پاؤں میں چار انگلیوں کے برابر فاصلہ رکھنا سنت ہے۔ اگر اس سے زیادہ فاصلہ ہوگا تو مکروہ ہوگا، اس کی تفصیل ’’ الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘ میں موجود ہے۔ حالانکہ اس فاصلے کی سنت رسول میں کوئی دلیل موجود نہیں ۔ یہ محض اپنی رائے ہے ‘‘
[ سلسلۃ أحادیث الصحیحۃ:۱؍۷۳]
۵۔ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الواجب على المصلين إقامة الصفوف وسد الفرج بالتقارب وإلصاق القدم بالقدم من غير أذي من بعضهم لبعض. والواجب على الإمام تنبيههم على ذلك ‘‘
’’قریب قریب کھڑے ہوکر اور بغیر ایک دوسرے کو تکلیف دئے ہوئے قدم کو قدم سے ملا کر خالی جگہ کو پر کرنا اور صف کو قائم کرنا نمازیوں پر واجب ہے اور امام پر بھی واجب ہے کہ وہ لوگوں کو اس پر متنبہ کرے ‘‘
[ مجموع فتاوی ابن باز:۱۲؍۲۰۰]
۶۔ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا مصلی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ٹخنے کو بغل والے کے ٹخنے سے ملائے؟
تو آپ نے فرمایا :
’’ وأما إلصاق الكعبين بعضهما ببعض فلا شك أنه وارد عن الصحابة رضي اللّٰه عنهم فإنهم كانا يسوون الصفوف بإلصاق الكعبين بعضهما ببعض، أي:أن كل واحد منهم يلصق كعبه بكعب جاره لتحقق المحاذاة وتسوية الصف‘‘
’’ ٹخنے کو ایک دوسرے سے چپکا لینا تو بغیر کسی شک کے صحابۂ کرام سے وارد ہے کیونکہ وہ ٹخنے کو ایک دوسرے سے چپکا کر ہی صفوں کو برابر کرتے تھے ، یعنی ان میں سے ہر ایک اپنے ٹخنے کو اپنے بغل والے کے ٹخنے سے ملا دیتا تھا تاکہ صف سیدھی اور برابر ہو جائے ‘‘
[ فتاوی أرکان الإسلام:۱؍۳۱۱،ومجموع فتاویٰ ورسائل العثیمین:۱۳؍۵۱]
رہی بات ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے باب ’’بَابُ إِلْزَاقِ الْمَنْکِبِ بِالْمَنْکِبِ ‘‘ سے حقیقی معنوں میں ٹخنا ملانا مراد نہیں ہے ، بلکہ اس سے مقصود صفوں کو سیدھا کرنا اور درمیانی خلا کو پر کرنا ہے ۔
جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ المراد بذلك المبالغة فى تعديل الصف وسد خلله ‘‘
’’ اِلزاق ‘‘ سے مقصود تعدیل صف اور خلل پر کرنے کے لیے مبالغہ ہے‘‘
[فتح الباری:۲؍۲۱۱]
تو اس کے جواب میں درج ذیل باتیں پیش خدمت ہیں :
ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہاں ٹخنے سے ٹخنا ملانا مراد نہیں ہے ۔
بلکہ کہا ہے کہ الزاق سے مقصود تعدیل صف اور خلل پر کرنے کے لیے مبالغہ ہے ۔
سوال یہ ہے کہ تعدیل صف اور سد خلل کے لیے مبالغہ کی صورت کیا ہوگی؟
کیا دو لوگوں کے درمیان دو یا چار انچ یا اس سے زائد جگہ چھوڑ دینے پر’’سد خلل میں مبالغہ ‘‘کا اطلاق ہو سکتا ہے؟
یا پھر ٹخنے کو ٹخنے سے ملانے پر’’ سد خلل میں مبالغہ ‘‘ کا اطلاق ہوگا؟
نیز جب صرف انگلی سے انگلی ملانے پر تعدیل صف نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ قدم چھوٹے اور بڑے ہوتے ہیں تو پھر کیسے چار انچ جگہ چھوڑ کر کھڑے ہونے پر تعدیل صف اور سد خلل میں مبالغہ ہو جائے گا؟
نیز اس باب کے حدیث کے تحت ابن حجر رحمہ اللہ نے جو تبصرہ کیا ہے اسے کیوں نظر انداز کر دیا جاتا ہے؟
چنانچہ وہ صاف لفظوں میں فرماتے ہیں :
’’ وأفاد هذا التصريح أن الفعل المذكور كان فى زمن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وبهذا يتم الاحتجاج به على بيان المراد بإقامة الصف وتسويته ‘‘
[ فتح الباری:۲؍۲۱۱]
ابن حجر رحمہ اللہ کے اس تبصرے سے کہیں نہ کہیں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ ان کے قول’’المراد بذلك المبالغة فى تعديل الصف وسد خلل ‘‘سے لوگ جو مفہوم لے رہے ہیں وہ حقیقت میں ابن حجر رحمہ اللہ کا مقصود نہیں ہے ۔ واللہ اعلم ۔
مزید یہ کہ ہمارے پاس صرف ’’ الزاق‘‘ہی کا لفظ نہیں ہے بلکہ تراص ، سد خلل ، اور شیطان کے لیے خالی جگہ چھوڑنے پر ممانعت جیسے الفاظ نبوی بھی موجود ہیں ۔
تراص کا معنی اوپر بیان کر دیا گیا ہے نیز ’’ سد خلل اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑنے ‘‘ کے الفاظ بھی اسی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں کہ بالکل مل جل کر کھڑا ہوا جائے ۔
بصورت دیگر یہ تعیین کیا جائے کہ کتنا فاصلہ چھوڑنے پر ’’سد خلل اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑنے ‘‘کا اطلاق ہو سکتا ہے ؟
آخری بات یہ کہ اگر واقعی کسی کو ٹخنے سے ٹخنہ اور کندھے سے کندھا ملانے میں دقت اور تکلیف ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی مکمل طور سے نہیں ملا سکتا ہے تو جس قدر وہ ملا سکتا ہے ملائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا }
’’ اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ‘‘
[ البقرۃ:۲۸۶]
مزید فرماتا ہے :
{ فاَتَّقُوا للّٰهَ مَا سْتَطَعْتُمْ}
’’ طاقت بھر اللہ سے ڈرتے رہو ‘‘
[ التغابن :۱۶]
نوٹ: علامہ البانی، ابن باز اور دیگر علماء کے نزدیک صفوں کو درست کرنا اور مل کر کھڑے ہونا محض سنت نہیں بلکہ واجب ہے ۔ دیکھیں:
[ سلسلۃ أحادیث الصحیحۃ:۱؍۷۲، ومجموع فتاویٰ ابن باز:۱۲؍۲۰۰]
اور یہی راجح بھی معلوم ہوتا ہے ۔