Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • آؤ انسانیت عام کریں

    اسلام ایک ہمہ گیر، نظام فطرت سے ہم آہنگ، حقوق انسانی کا علمبردار اور آفاقی مذہب ہے۔ امن وامان کی حفاظت اور انسانی حقوق کی پاسداری اس کی اولین ترجیح ہے۔ اسلام کی تعلیمات پوری انسانیت کے لیے عام ہے، اس کا دروازہ ملک وعلاقہ اور رنگ ونسل کی حصاربندیوں سے آگے بڑھ کر ہر خاص وعام کے لیے ہمہ وقت کھلا ہے۔ بلا تفریق ملک وملت، نسل وقوم اور ذات وبرادری ہر کوئی جب چاہے اس میں داخل ہو سکتا ہے، اور اس کی پر امن تعلیمات کو اپنا کر دونوں جہانوں کی کامیابی سے سرخرو ہو سکتا ہے۔ اس کی آخری آسمانی کتاب قرآن کریم کا نزول بھی سارے انسانوں کی فلاح وبہبودی کے لیے ہوا ہے۔ اسی لیے اس کتاب ہدایت نے جا بجا ’’يَاأَيُّهَا النَّاسُ‘‘ اور ’’يَا بَنِيْ آدَمَ‘‘کہہ کر سارے انسانوں کو عمومی خطاب کیا ہے۔
    یہ پہلا سبق تھا کتاب ھدی کا کہ مخلوق ساری ہے کنبہ خدا کا ( مسدس حالی)
    خود پیغمبر اسلام محمد ﷺ پوری دنیائے انسانیت کے لیے ’’وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ‘‘ [ الأنبیاء ، الآیۃ:۱۰۷] سراپا رحمت وہدایت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ جنہوں نے حجۃ الوداع کے موقع پر سارے انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے حقوق انسانی کا سب سے پہلا چارٹر پیش کیا تھا اور اسلام کی طرف سے انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’يا أيها الناس! إن ربكم واحد وإن أباكم واحد، ألا لا فضل لعربي على عجمي… [أخرجہ البیہقی فی شعب الایمان، وصححہ الألبانی فی السلسلۃ الصحیحۃ، رقم الحدیث:۲۷۰۰]  ’’فَإِنَّ دِمَاء َكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا…‘‘ (متفق علیہ) اسی طرح صحابۂ کرام اور سلف صالحین نے اپنے بلند کردار اور حسن اخلاق سے دنیا کو اسلام کی حقانیت وانسانیت نوازی کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا تھا۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف کرام نے دنیا والوں کے سامنے اپنے کردار کا جتنا ہی اعلیٰ نمونہ پیش کیا تھا، آج ہمارا کردار اتنی ہی پستی میں چلا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ سچ ہے:
    وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر ( علامہ اقبال، جواب شکوہ)
    اسلام اپنے ماننے والوں کو روئے زمین پر حقوق انسانی کی پاسداری کرنے اور انسانیت دوستی کا درس دینے کا حکم دیتا ہے اور کسی پر بھی ظلم وزیادتی کو گناہ عظیم ٹھہراتے ہوئے مظلوم کی بد دعا سے’’اتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللّٰهِ حِجَابٌ‘‘ [ صحیح البخاری: رقم الحدیث:۲۴۴۸] ہر ممکن بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ اور یہ اعلان عام کرتا ہے کہ جو زمین والوں پر الفت ومحبت اور رحم وکرم سے پیش نہیں آئے گا آسمان والا اس سے اپنی نظر کرم پھیر لے گا۔ فرمایا گیا: ’’ مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ‘‘(متفق علیہ)
    کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر ( الطاف حسین حالی)
    اور یہی نہیں بلکہ اسلام نے خود اپنی تبلیغ واشاعت کے لیے بھی کسی پر زور وزبردستی اور سختی کو روا نہیں رکھااور ہر ایک کے ساتھ مساویانہ وبرادرانہ سلوک کرنے اورمحبت وہمدردی سے پیش آنے کی تاکید کی ہے۔ انسان تو انسان اسلام نے تو جانوروں اور پرندوںکے ساتھ بھی الفت ومحبت سے پیش آنے اور حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ حدیث کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ:’’ایک عورت بلی کو بھوکی پیاسی رکھنے کی پاداش میں واصل جہنم ہوئی، وہیں ایک دوسری خاتون بد عمل ہونے کے باوجود صرف ایک کتے کو بھوک وپیاس سے بچانے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوئی‘‘۔(کتے کو پانی پلانے کا واقعہ الفاظ کے فرق کے ساتھ صحیح بخاری میں، جبکہ بلی کا واقعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم دونوں میں موجود ہے)
    تاہم دین اسلام کی ان ساری تعلیمات وہدایات کے باوجود آج جب ہم مسلمانوں کی صورتحال پر غور کرتے ہیں اوران کے کردار ورویے کا جائزہ لیتے ہیں تو کچھ اور ہی تصویر سامنے آتی ہے۔ جس امت کو پوری دنیا میں امن وامان قائم کر پیغام انسانیت عام کرنے کے لیے برپا کیا گیا تھا آج وہ امت خود باہم دست بگریباں ہے۔ مسلمان ہی مسلمانوں کا دشمن بنا ہوا ہے۔ آج غیروں سے زیادہ ان کو اپنوں سے شکایت ہے۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمیں اپنے بھائی بہن کو بھی خوشحال وپرسکون دیکھنا گوارہ نہیں۔ خود کے دوست واحباب اور رشتہ داروں کی خوشی بھی ہم سے دیکھی نہیں جاتی، انہیں فارغ البال دیکھ کر ہمیں جلن ہونے لگتی ہے اور ہم ان کی آزمائش وپریشانی کی کامنا کرنے لگتے ہیں اور انہیں مصیبت زدہ وکبیدہ خاطر دیکھ کر دل ہی دل خوش ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارا دین کسی سے بھی بغض وحسد کرنے اور نفرت وعداوت سے پیش آنے کی اجازت نہیں دیتا اور ایسا کرنے والوں کے ایمان کو غیر یقینی ٹھہراتا ہے: ’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّي يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ‘‘[صحیح البخاری :۱۳،صحیح مسلم:۴۵] مذہب اسلام روئے زمین پر بسنے والے جملہ اہل اسلام کو ایمانی اخوت وبھائی چارہ کی لڑی میں پروتے ہوئے’’تَرَي المُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَي عُضْوًا تَدَاعَي لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّي‘‘ [صحیح البخاری :۶۰۱۱] انہیں جسم واحد سے تعبیر کرتا ہے۔ جس طرح جسم کے کسی بھی حصے میں درد وتکلیف ہونے پر پورا جسم اسے محسوس کرتا ہے، اسی طرح دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کر مصیبت میں ان کا ساتھ دینا اور بوقت ضرورت ان کے کام آنا ہی اصل انسانیت ہے اور یہی اسلام کو مطلوب ہے۔
    اسلام میں حقوق العباد کے عنوان سے باضابطہ ایک مستقل باب ہے، جس میں ہر زاویے سے بندوں کے حقوق بالتفصیل بیان کئے گئے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے واالوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے، حتیٰ کہ یہ تک کہا گیا کہ بندوں کے حقوق کی پامالی کرنے والوں کو اللہ بھی نہیں بخشے گا تا آنکہ وہ حق ادا کردے یا صاحب حق سے معافی مانگ لے۔
    معاملہ چاہے مسلمانوں کا ہو یا غیر مسلموں کا، اپنوں کا ہو یا پرائے کا، پڑوسیوں کا ہو یا عام انسانوں کا، انسان ہونے کے ناطے انسانی اقدار کا تحفظ ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اسلام ان کے خلاف جانے کی اجازت کبھی نہیں دیتا۔ رسول اکرم ﷺ کی پوری زندگی احترام انسانیت کی بہترین مثال ہے۔ آپ ﷺ نے حیات انسانی کے ہر شعبہ میں امت کی رہنمائی کی اور اپنے قول وعمل سے اعلیٰ انسانی قدروں کو ہمیشہ بڑھاوا دیا۔ ہجرت مدینہ کے بعد نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا مہاجرین وانصار کے بیچ مؤاخات کرانا، یہود مدینہ سے معاہدہ کرنا، جنگی اصول وقوانین ترتیب دینا، یہ سارے اقدامات باہمی تعاون وہمدردی کے فروغ، امن وامان کی بحالی اور انسانی قدروں کے تحفظ کے لیے ہی تھے۔ وہ عرب جہاں انسانی اقدار کی پامالی میں ساری حدیں ٹوٹ چکی تھیں، انسانیت کراہ رہی تھی اور اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اسے اسلام نے اپنی جگمگاتی ہوئی تعلیمات سے تحفظ انسانیت کا مرکز اور امن وامان کا گہوارہ بنا دیا۔ پوری انسانی تاریخ میں ایسا چمتکار کہیں اور دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی رواداری کا سلوک کرنے اور عدل وانصاف کا دامن نہ چھوڑنے کا حکم دیتا ہے، خواہ حالت جنگ ہی کیوں نہ ہو۔ ’’وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلٰي أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَي وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ‘‘
    [ المائدۃ:۸]
    نبی ﷺ نے ان لوگوں کی امانتیں لوٹائیں جو قتل کے ارادے سے آپ کے گھر کی گھیرابندی کئے ہوئے تھے اور فتح مکہ کے موقع پر ’’لا تثريب عليكم اليوم، اذهبوا فانتم الطلقاء‘‘ [أخرجہ الألبانی، فی السلسلۃ الضعیففۃ، رقم الحدیث:۱۱۶۳] یہ حدیث سنداً ضعیف ہے، لیکن اس معنی ومفہوم کے بہت سارے صحیح شواہد موجود ہیں) کہتے ہوئے اپنے جانی دشمنوں کے لیے بھی عام معافی کا اعلان کر دیا۔ پڑوسیوں کے حقوق بتلاتے ہوئے فرمایا: ’’مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِي جَارَهُ‘‘[ صحیح البخاری:۵۱۸۵]اسی طرح اسلام کی نظر میں کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ کی ایذا رسانی سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور حقیقی مومن وہ ہے جس سے لوگ مامون رہیں۔ ہمارا دین سراپا خیر خواہی کا نام ہے، یہ ہمیں ہر ایک کے ساتھ نصیحت وخیر خواہی کرنے کا حکم دیتا ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات کا پیروکار بنائے اور ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی توفیق دے۔آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings