Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • دولتِ دنیا اور علمائے دین

    ما ل ودولت اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت ہے ،مال ودولت ہی پر انسانی زندگی کا انحصار ہے انسان اسے ضروریاتِ زندگی اور جائز لذتوں کے حصول میں خرچ کرتا ہے ، مال سے آخرت کی زندگی سنوارنے کے لیے خیر کے امکانات متوقع ہوتے ہیں ،ایک مالدار مسلمان اپنے مال کے ذریعہ بہت سے کار ِخیر انجام دینے کے مواقع پالیتا ہے جس کا ایک غریب آدمی تصور تک بھی نہیں کرسکتا، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مال ودولت کے حصول کی مختلف شکلیں بیان کرنے کے ساتھ جائز شکلوں سے حصولِ مال کی خصوصی تاکید فرمائی ، اسلام کی انہی رہنمائیوں کی وجہ سے خیرالقرون میں لوگ حصولِ مال ودولت کے لیے اپنی بساط بھر کوشش کرتے اور اپنے جمع شدہ مال سے امور خیر انجام دیتے اور جو لوگ مال ودولت سے محروم رہتے انہیں اس کا قلق رہتا کہ ہم اگر مالدار ہوتے تو اپنے مال سے کارِخیر میں مالداروں کی طرح حصہ لیتے اور اجروثواب میں ان کے برابر ہوتے ، جیسا کہ اسی طرح کا ایک واقعہ صحابۂ کرام کے حوالے سے ملتا ہے ،جو درج ذیل حدیث میں موجود ہے:
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: ’’جَاء َ الفُقَرَاء ُ إِلَي النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ مِنَ الأَمْوَالِ بِالدَّرَجَاتِ العُلَا، وَالنَّعِيمِ المُقِيمِ يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَلَهُمْ فَضْلٌ مِنْ أَمْوَالٍ يَحُجُّونَ بِهَا، وَيَعْتَمِرُونَ، وَيُجَاهِدُونَ، وَيَتَصَدَّقُونَ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ إِنْ أَخَذْتُمْ أَدْرَكْتُمْ مَنْ سَبَقَكُمْ وَلَمْ يُدْرِكْكُمْ أَحَدٌ بَعْدَكُمْ، وَكُنْتُمْ خَيْرَ مَنْ أَنْتُمْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِ إِلَّا مَنْ عَمِلَ مِثْلَهُ تُسَبِّحُونَ وَتَحْمَدُونَ وَتُكَبِّرُونَ خَلْفَ كُلِّ صَلاَةٍ ثَلاَثًا وَثَلاَثِين‘‘
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:’’ کہ کچھ نادار لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مال دار لوگ تو بڑے بڑے درجات اور دائمی عیش لے گئے کیونکہ ہماری طرح وہ نماز پڑھتے ہیں اور ہماری طرح وہ روزے بھی رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہے جس سے وہ حج ، عمرہ ،جہاد اور صدقہ وخیرات بھی کرتے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا :کیا میں تمہیں ایسی بات نا بتا دوں کہ اس پر عمل کرکے تم ان لوگوں تک پہنچ جاؤگے جو تم سے سبقت لے گئے اور تمہارے بعد تمہیں کوئی بھی نا پاسکے گا اور تم جن لوگوں میں ہو ان سے بہتر ہو جاؤ گے سوائے اس شخص کے جو اس کے مثل عمل کرے ، ہر نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ الحمد للہ اور۳۳ مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو ۔
    [صحیح بخاری:۸۴۳]
    مذکورہ حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث میں مزید یہ بھی ہے کہ کچھ دن بعد پھر انہی غریب صحابہ نے نبی ﷺ کے پاس آکر عرض کیا کہ ہمارے بھائیوں کو بھی وہ اذکارمعلوم ہوگئے اور ان لوگوں نے بھی وہی اذکار پڑھنا شروع کردیا ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا:
    {ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ}
    ’’ یہ اللہ کا فضل ہے اللہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ‘‘
    [صحیح مسلم:۵۹۵]
    مذکورہ حدیث سے صحابۂ کرام کا مال سے خیر کے کام میں آگے بڑھنے کا جذبہ معلوم ہونے کے ساتھ مال ودولت کو نبیﷺ کا ’’ فضل اللہ‘‘ سے تعبیر کرنا اس کی اہمیت کے لیے ایک ٹھوس دلیل ہے، صاحب ِ مال کااپنے مال سے غریبوں کو قرضِ حسنہ دینا یامعاف کردینا یا کسی قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے انسان کے قرض کے بوجھ کو اتار کر اسے قرض سے نجات دلانا ،بیواؤں ،یتیموں کا خیال رکھنا ، اپنے قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں سے غریب محتاج لوگوں کی دست گیری کرنا دینی اداروں کے تعاون اور مسجد کی تعمیر میں حصہ لینا ، خیراتی اداروں میں شریک ہونا غرضیکہ اس طرح مالی اخراجات سے حصولِ ثواب کے ذرائع وسیع ہیں جن کے لیے مال کی ضرورت ہواکرتی ہے۔ چنانچہ صحابۂ کرام میں سے کئی اصحاب نے اپنے مال سے اسلام اور مسلمانوں کی انتہائی نازک حالات میں مدد فرمائی اور ان کی اس کوشش کو نبی ﷺ نے قدر کی نگاہوں سے دیکھا اور ان کے لیے حوصلہ افزا باتیں کیں مثلا ًبئرِ رومہ خرید کر وقف کرنے کا موقع ہو یا مختلف غزوات بالخصوص غزوۂ تبوک کے موقع پر مال کی فراہمی میں اس کی شاندار مثالیں کتب ِسیرت میں موجود ہیں ، اسلام یہ نہیں چاہتا کہ انسان غربت وافلاس کی زندگی گزارے بلکہ انسان معاشی اعتبار سے درست رہے یہ اسلام کا مطلوب ہے اسی لیے اسلام نے زکوٰۃ وصدقات اور معاشی توازن برقرار رکھنے کی مختلف تدابیر بیان کی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام نے اپنے پاس مال ودولت اکٹھا کرنا اور اپنی اولاد کو مالدار اور غنی پوزیشن میں چھوڑنا بہتر قرار دیا جیسا کہ نبی ﷺ کی واضح حدیث ہے ،حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ حجۃ الوداع میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے میں اس وقت مکہ میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔نبی ﷺ نے فرمایا کہ :
    ’’إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ‘‘
    ’’تم اپنے وارثوں کو اپنے بعد مالدار چھوڑو تویہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں‘‘
    [صحیح بخاری:۱۲۹۵]
    ان حقائق سے ما ل ودولت کی فراہمی میں اسلام کا مزاج بآسانی معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر مسلمان کو مال ودولت کے حصول کی کوشش کرنا چاہیے بلکہ جمعہ جیسے مقدس دن نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اس سلسلے کی کوشش کرنے کی ترغیب دی گئی ۔
    {فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ }
    ’’جب نماز ادا ہوجائے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘
    [ الجمعہ:۱۰]
    دور ِحاضر کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک عام آدمی مال ودولت کے لیے کوشش کرے تو اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اسی مقصد کے لیے ایک عالم دین کوشش کرے تو اسے سماج معیوب گردانتا ہے بلکہ مال ودولت کو علمائے دین کے لیے شجر ِممنوعہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک عام آدمی کے مقابلے میں ایک عالم کا مالدار ہونا زیادہ ضروری ہے کیونکہ حلت وحرمت کا علم ہونے کی وجہ سے حلال وپاکیزہ روزی علم ومعرفت رکھنے والے کے لیے کمانا آسان ہے جبکہ ایک عامی کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ حلال وحرام کے معاملے میں شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مال کمائے ،اسی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمان جاری کردیا تھا کہ:
    ’’ لَا يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِي الدِّينِ‘‘
    ’’کہ جو دین کے بارے میں جانکاری نہیں رکھتا وہ ہمارے بازار میں تجارت ناکرے‘‘
    [ سنن ترمذی:۴۸۷]
    ظاہر سی بات ہے کہ دین اور تجارت کے باب میں علماء کے بالمقابل عوام کی معرفت کم ہی ہوا کرتی ہے اس لیے علماء اس میدان کے زیادہ اہل ہیں ، اسی طرح ایک عالم جب معاشی اعتبار سے مضبوط ہو تو اس کی دعوتِ دین کے اثرات الگ ہی مرتب ہوتے ہیں اور جب وہ معاشی بحران کا شکار ہو اور اس کے معاش کا معاملہ قوت لایموت کی شکل میں کسی فرد یا سوسائٹی پر منحصر ہو تو ناتو کماحقہ دین کی نشرواشاعت ہوسکتی ہے اور ناہی حق بیانی اور بے باکی کی وہ صفت پیدا ہوسکتی ہے جو مالدار اور بے نیاز داعیان دین کے اندر عموماً ہواکرتی ہے اور کبھی تو صلاحتیں بھی غربت کی نذر ہوکر برباد ہوجاتی ہیں اور امت کا علم سے مزین یہ اثاثہ ضائع اور برباد ہوجاتا ہے، اسی لیے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ اپنا مال اہل علم پر خرچ کرتے تاکہ علماء مال ودولت سے تہی دامن نا ہوں بلکہ بے نیازی کے ساتھ دعوتِ دین کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیںاور جب ان سے اس بابت سوال کیا گیا تواس وقت انہوں نے جو جملہ کہا اس میں یہی سبب واضح کیا، چنانچہ آپ نے فرمایا:
    ’’وإن أغنيناهم نشروا العلم لأمة مُحَمَّد صلى اللّٰه عليه وسلم ولا أعلم بعد النبوة درجة أفضل من بث العلم‘‘
    ’’کہ اگر انہیں ہم مال ودولت سے بے نیاز کردیں گے تو یہ لوگ امت میں علم کی نشرواشاعت کا کام انجام دیں گے اور میرے نزدیک نبوت کے بعد سب سے افضل درجہ علم دین کی نشرواشاعت ہے‘‘
    [ تہذیب الکمال:۱۶؍۲۰]
    یہی وجہ تھی کہ صحابۂ کرام اور بعد کے اسلاف حصول مال ودولت کے لیے ایک بابرکت پیشہ تجارت سے وابستہ تھے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا تجارت کرنا مشہور ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مال ودولت کمانے میں انہماک کا اندازہ درج ذیل روایت سے بخوبی ہوتا ہے :
    عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ:’’ أَنَّ أَبَا مُوسَي الأَشْعَرِيَّ اسْتَأْذَنَ عَلٰي عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، وَكَأَنَّهُ كَانَ مَشْغُولًا، فَرَجَعَ أَبُو مُوسٰي، فَفَرَغَ عُمَرُ، فَقَالَ: أَلَمْ أَسْمَعْ صَوْتَ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ قَيْسٍ ائْذَنُوا لَهُ، قِيلَ: قَدْ رَجَعَ، فَدَعَاهُ فَقَالَ: كُنَّا نُؤْمَرُ بِذَلِكَ ، فَقَالَ: تَأْتِينِي عَلٰي ذٰلِكَ بِالْبَيِّنَةِ، فَانْطَلَقَ إِلٰي مَجْلِسِ الأَنْصَارِ، فَسَأَلَهُمْ، فَقَالُوا: لَا يَشْهَدُ لَكَ عَلٰي هٰذَا إِلَّا أَصْغَرُنَا أَبُو سَعِيدٍ الخُدْرِيُّ، فَذَهَبَ بِأَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، فَقَالَ عُمَرُ: أَخَفِيَ هٰذَا عَلَيَّ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ يَعْنِي الخُرُوجَ إِلٰي تِجَارَةٍ‘‘
    عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ:’’ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملنے کی اجازت چاہی لیکن اجازت نہیں ملی ، غالباً اس وقت کام میں مشغول تھے اس لیے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے ،پھر عمر رضی اللہ عنہ فارغ ہوئے تو فرمایا کیا میں نے عبد اللہ بن قیس ( ابو موسیٰ اشعری) کی آواز نہیں سنی تھی ، انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو ، بتایا گیا کہ وہ لوٹ کر چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بلوایا ، ابو موسیٰ نے کہا کہ ہمیں اسی کا حکم تھا (یعنی نبی ﷺ نے بتایا تھا کہ تین مرتبہ اجازت طلب کرنے پر اجازت ناملے تو واپس ہوجاؤ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث پر کوئی گواہ لاؤ، چنانچہ ابو موسیٰ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے اس حدیث سے متعلق پوچھا ، ان لوگوں نے کہا کہ اس کی گواہی تو تمہارے ساتھ وہ دے گا جو ہم سب میں بہت ہی کم عمر والا ہے چنانچہ وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لے گئے ،یہ (گواہی) سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی ﷺ کاایک حکم مجھ سے پوشیدہ رہ گیا، افسوس کہ مجھے بازاروں کی خریدوفروخت نے مشغول رکھا یعنی تجارتی مشاغل کی وجہ سے اس حدیث کا علم ناہوسکا ‘‘
    [ صحیح بخاری:۲۰۶۲]
    حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا مال ودولت کے معاملے میں مقام واضح ہے بئر رومہ کو خرید کر لوگوں کے لیے وقف کرنے سے لے کر مسجد نبوی کی توسیع کے کل اخراجات اکیلے برداشت کرنے اور جنگ تبوک کے موقع پر کئی بار مال دینے پر بزبان رسول ﷺ یہ بشارت پائی:
    ’’ مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ اليَوْمِ ‘‘
    ’’ آج کے بعد عثمان جو کچھ بھی کریں ان کا کوئی کام انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا ‘‘
    [ سننترمذی:۳۷۰۱]
    اصحاب رسول نے مختلف مشکل اوقات میں مسلمانوں اور اسلام کی بے مثال مالی مدد فرمائی جو کتب حدیث اور تاریخ کی معتبر شہادتوں کی شکل میں معروف ومشہور ہے ۔
    مال ودولت کا حصول نبی ﷺ کے زمانے اور بعد کے ادوار میں صحابۂ کرام میں ایک مستحسن اقدام تھا ،یہی وجہ تھی کہ مدینہ میں مال دار صحابہ کی ایک اچھی تعداد تھی جن میں حضرت زبیر بن عوام ،طلحہ بن عبید اللہ اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
    یہ وہ حقائق ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مال ودولت کو جمع کرنے کا تصور خیر القرون میں تھا اور اسے زہد و تقویٰ کے منافی نہیں سمجھا جاتا تھا، خیر القرون کے ادوار پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف مال ودولت خود بھی حاصل کرتے اور دوسروں کو بھی حصول دولت کی تاکید فرماتے اور انسانی زندگی میں مال ودولت کی ضرورت پر روشنی ڈالتے تھے، چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ:
    ’’ دِيْنُكَ لِمَعَادِكَ، وَدِرْهَمُكَ لِمَعَاشِكَ، وَلَا خَيْرَ فِي أَمْرٍ بِلَا دِرْهَمٍ ‘‘
    ’’یعنی تمہارا دین (اصلاً)تمہاری اخروی زندگی کے لیے ہے اور تمہارا مال تمہاری دنیاوی زندگی کی ضرورت ہے اور مال کے بغیر کسی معاملے میں کوئی بھلائی نہیں ہے‘‘
    [شعب الایمان: ۱۱۹۶]
    اسی طرح سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے متعلق اس حوالے سے ایک مشہور دعا درج ذیل ہے:
    ’’اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي مَالًا أَسْتَعِينُ بِهِ عَلٰي فِعَالٍ، فَإِنَّهُ لَا فِعَالَ إِلَّا بِالْمَالِ‘‘
    ’’اے اللہ تو مجھے مال عطا فرما جس سے امور پر مدد لے سکوں کیونکہ امور بغیر مال کے طے نہیں پاتے ہیں‘‘
    [اصلاح المال لابن ابی الدنیا:۵۳]
    اسی طرح مال ودولت سے متعلق سفیان ثوری رحمہ اللہ کے متعدد اقوال ملتے ہیں جو مال کی ضرورت واضح کرتے ہیں ،آپ فرمایا کرتے تھے:
    ’’لأَنْ أُخَلِّفَ عَشْرَةَ آلاَفِ دِرْهَمٍ يُحَاسِبُنِي اللّٰهُ عَلَيْهَا، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحتَاجَ إِلَي النَّاسِ‘‘
    ’’ میں دس ہزار درہم چھوڑ کر دنیا سے جاؤں جن سے متعلق اللہ کے یہاں مجھے حساب دینا ہو یہ میرے لیے بہتر ہے کہ میں لوگوں کا محتاج رہوں ‘‘
    اسی طرح رواد بن الجراح کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا :
    ’’ كَانَ المَالُ فِيْمَا مَضَي يُكْرَهُ، فَأَمَّا اليَوْمَ، فَهُوَ تُرْسُ المُؤْمِنِ‘‘
    ’’مال پچھلے لوگوں میں ناپسند کیا جاتا تھا لیکن آج مال ودولت مومن کے لیے ڈھال کی مانند ہے ‘‘
    ایسے ہی محمد بن عبد اللہ الباہلی کہتے ہیں کہ :
    ایک آدمی سفیان ثوری رحمہ اللہ سے حج کے سلسلے میں مشورہ لینے آیا تو آپ نے اس شخص کو کچھ مفید مشورے دیئے اور جب ایک آدمی کی نظر آپ کے ہاتھ میں موجود دینار پر پڑی اور اس نے حیرت کا اظہار کیا تو آپ نے اسے خاموش رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ:
    ’’فَلَوْلَاهٰذِهِ الدَّنَانِيْرُ لَتَمَنْدَلَ بِنَا هٰؤلَائِ المُلُوْكُ ‘‘
    ’’کہ اگر ہمارے پاس مال ناہوتا تو امراء اور بادشاہ ہمیں رومال بنالیتے ‘‘
    [ تہذیب الکمال:۱۱؍۱۶۸، سیر أعلام النبلاء:۷؍۲۴۱]
    یہ سطور اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مال ودولت مسلمانوں کی نگاہ میں ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہونا چاہیے، عوام اور اہل علم ہر طبقے کے مسلمانوں کو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے حلال اور پاکیزہ روزی کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے بالخصوص موجودہ دور میں اہلِ علم طبقہ بھی اسے حاصل کرنے کو ناتو خود عیب تصور کرے اور نا ہی عوام کو اہل علم کے لیے اس کام کو خلافِ معمول اور معیوب گرداننا چاہیے البتہ مال ودولت کے حصول کے موقع پر حلال طریقے سے حاصل کرنے کا مزاج ہو، حلال راستوں میں خرچ کیا جائے اوراپنے مال کو اللہ کی نعمت تصور کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس کی آمد وخرچ سے متعلق سوال کرے گا ،مال سے دنیا بنانے کے بالمقابل اللہ کی رضا کے کاموں میں خرچ کرکے آخرت سنوارنے کا نظریہ ملحوظ رہے کہ یہی مال کے استعمال کا بہترین مصرف ہے ۔
    اللہ ہم سب کو مال حلال کمانے کی توفیق دے ۔ آمین
    ٭٭٭
    ٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings