Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • رمضان المبارک کا آخری عشرہ فضائل و مسائل

    عشرۂ اخیرہ کے فضائل:
    پورے عشرہ ٔاخیرہ کی فضیلت:
    رمضان المبارک کا پورا مہینہ خیرو برکت اور فضل و شرف کا مہینہ ہے مگر اس کے آخر ی دس دن خصوصیت کے ساتھ بڑے ہی فضل و شرف اور برکت و فضیلت والے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ ان آخری دس دنوں کو خصوصی اہمیت دیتے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ثابت ہے:
    ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ ﷺ جس قدر محنت رمضان میں فرماتے اتنی دوسرے مہینوں میں نہ کرتے تھے اور رمضان کے آخری عشرہ میں جتنی کوشش فرماتے تھے رمضان کے اور دوسرے دنوں میں نہ کرتے تھے۔
    [صحیح مسلم :۱۱۷۵]
    اس عشرہ کی فضیلت ہی کے پیش ِنظر آپ ﷺ نے اس پورے عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے اور شب وروز مسجد میں گوشہ نشین ہوکر اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ بعض علماء کہتے ہیں رمضان کا یہ آخری عشرہ سال کے تمام دنوں میں سب سے افضل ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عشرۂ ذی الحجہ کو چھوڑ کر باقی تمام دنوں میں یہ عشرہ سب سے ا فضل ہے اور بعض نے تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں عشرے فضیلت و برکت والے ہیں لیکن عشرۂ رمضان کی راتیں عشرۂ ذی الحجہ کی راتوں سے افضل ہیں اور عشرۂ ذی الحجہ کے دن عشرۂ رمضان کے دنوں سے افضل ہیں۔
    [ مجموع الفتاویٰ : ۲۵؍ ۲۸۷،۲۸۸،۲۸۹]
    طاق راتوں کی فضیلت:
    جس طرح اللہ کے نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرہ کو خاص اہمیت دیتے تھے اسی طرح اس عشرہ کی خصوصاً طاق راتوں کو کچھ زیادہ ہی بابرکت اور قیمتی بتلاتے تھے ان میں ذکر و عبادت کا بطور خاص حکم دیتے اور فرماتے کہ شب قدر جیسی بابرکت اور ا فضیلت والی رات کو انہیں طاق راتوں میں تلاش کرو۔
    ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘
    [صحیح بخاری:۲۰۱۷]
    صحابی رسول ﷺ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’شب قدر رمضان کی اکیسویں یا تیئسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا آخری رات میں تلاش کرو۔
    [سنن ترمذی:۷۹۱، بسند صحیح]
    شب ِقدر کی فضیلت :
    شب ِقدر بڑی ہی بابرکت اور فضیلت والی رات ہے۔ اس کی کئی خصوصیات ہیں:
    (۱) اس کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اسی مقدس رات میں قرآن کریم کا نزول ہوا جو اللہ کی آخری کتاب اور انسانیت کے لیے تاقیامت رشد و ہدایت کا منبع اور مکمل دستورِ حیات ہے۔
    (۲) اس رات کی عظمت و فضیلت اس قدر ہے کہ اس کی تہہ تک مخلوق کی پوری رسائی نہیں ہو سکتی اس کا صحیح اور مکمل علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
    (۳) اس رات کی عبادت ہزار مہینوں ( ۸۳سال ۴ ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے۔
    (۴) اس رات فرشتے اور جبرئیل علیہ السلام زمین پر نازل ہوتے ہیں۔
    (۵) یہ رات سراسر سلامتی والی ہوتی ہے۔
    (۶) یہ بڑی برکت والی رات ہے۔
    (۷) اس رات میں ہر مخلوق کے سال بھر کی قسمت کے فیصلے صادر ہوتے ہیں۔
    (۸) اس رات میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرنے والے کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔
    (۹) اس رات کی خیر و برکت سے محروم رہنے والا شخص بڑا ہی نا مراد اور بد قسمت ہے۔ ملاحظہ ہوں ان چیزں کے دلائل:
    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ یقینا ہم نے اس(قرآن)کو شب قدر میں نازل فرمایا۔ تمہیں کیا معلوم شب قدر کیا ہے؟ شب قدر(کی عبادت) ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں ( ہر کام) کے سرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح( جبرئیل ) اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے‘‘
    [القدر:۹۷]
    دوسری جگہ اللہ کا ارشاد ہے:’’حم‘‘ قسم ہے کتابِ مبین کی ، بے شک ہم نے اسے بڑی بابرکت رات میں نازل کیا ہے، بے شک ہم لوگوں کو ڈرانے والے ہیں، اسی رات میں ہر امر کا حکیمانہ فیصلہ صادر ہوتا ہے ‘‘
    [ الدخان :۱۔۴]
    صحابیِ رسولﷺ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جس نے شب قدر میں ایمان اور اجر وثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں‘‘
    [صحیح بخاری:۱۹۰۱]
    صحابی رسول ﷺانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان کی آمد کے موقع پر اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:’’ یہ مبارک مہینہ تمہیں حاصل ہو رہا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس رات سے محروم ہو گیا تو وہ ہر خیر سے محروم رہا اور محروم (بد قسمت) شخص ہی اس رات کے خیر سے محروم ہو سکتا ہے۔
    [صحیح ابن ماجہ: ۱۳۳۳]
    عشرۂ اخیرہ کے اعمال :
    پورے عشرہ کے اعمال :
    عام عبادت: عشرۂ اخیرہ کی فضیلت میں بخاری کے حوالے سے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ذکر کی جاچکی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں آپ ﷺکے دیگر ایام کی نسبت عبادات اور ذکر الٰہی میں زیادہ محنت کرتے تھے اور دن کے اکثر اوقات میں بالکل چاق و چوبند رہتے تھے اس حدیث میں جس محنت و کوشش کا ذکر ہے اس میں ہر طرح کی عبادات شامل ہیں۔ مثلاً نماز یں، صدقہ و خیرات ، تلاوت قرآن ، ذکر واذکار، دعا و استغفار، تسبیح وتہلیل، تکبیر وتحمید ، صلوٰۃ و سلام، احسان و ہمدردی ، اطاعت و فرماں برداری ،دعوت و تذکیر اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ۔ اس عشرہ میں اللہ کے نبی ﷺ خود بھی عبادت کرتے اور اپنی بیویوں کو بھی عبادت پر ابھارتے تھے۔
    اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آجا تا تو آپ ﷺ عبادت کے لئے اپنی کمر کس لیتے راتوں کو جاگتے اور اپنی بیویوں کو بھی جگاتے تھے ۔
    [صحیح بخاری:۲۰۲۴]
    اعتکاف: عشرۂ اخیرہ کی خاص عبادت اعتکاف ہے آپ ﷺ ہر رمضان کے آ خری عشرہ میں اعتکاف فرماتے اور دن رات عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے تھے ۔ آپ ﷺ نے پوری زندگی اس کا اہتمام کیا ۔
    [صحیح بخاری: ۲۰۲۶]
    اعتکاف کے مختصر مسائل یہ ہیں:
    (أ) اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔ یہ مرد و عورت سب کے لئے مشروع ہے۔
    (ب) اعتکاف کے ارکان دو ہیں: (۱) تقرب الہٰی کی نیت (۲) مسجد میں ٹھہرنا
    (ج) اعتکاف کو باطل کرنے والے امور تین ہیں: (۱) بلاضرورت قصد اًمسجد سے باہر نکلنا (۲) عقل کا زائل ہوتا (۳) حیض و نفاس یا جماع سے دو چار ہونا ۔
    (د) اعتکاف کی شرطیں چار ہیں: (۱) مسلمان ہونا (۲) عاقل ہوتا سن تمیز یعنی کم از کم سات سال کی عمر کا ہونا (۳) جنابت اور حیض و نفاس سے پاک ہونا ۔
    (ہ) حالت اعتکاف میں اعتکاف کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے اوقات کو اللہ کی عبادت میں گزارے، فرائض کے ساتھ ساتھ اپنا زیادہ تر وقت نفلی نماز و تلاوت قرآن تسبیح و تہلیل، تکبیر وتحمید، ذکر واذکار، صلوٰۃ و سلام ، تو بہ استغفار اور انابت الی اللہ میں گزارے۔
    (و) حالت اعتکاف میں ناجائز اور ممنوع امور یہ ہیں:(۱) جماع اور اس کے مقدمات (۲) مریض کی عیادت (۳) جنازہ میں شرکت (۴) بلا ضرورت خاص قصد اً مسجد سے نکلنا (۵) لا یعنی قول و فعل ، لہو و لعب اور کثرت کلام (۶) لڑائی جھگڑا ، گالی گلوج اور جملہ منکرات (۷) خرید و فروخت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ کمائی۔
    (ذ) حالت اعتکاف میں جائز اور مباح امور یہ ہیں: (۱) اشد ضرورت کے تحت مسجد سے نکلنا (۲) مسجد میں آنے والے زائرین سے گفتگو کرنا اور ان کو بھیجنے کے لئے مسجد کے دروازہ تک جانا (۳) بالوں کو کنگھی کرنا، سر دھلنا، ناخن وغیرہ تر اشنا ، خوشبو وغیرہ استعمال کرنا ، اچھے کپڑے پہننا (۴) بغیر شہوت کے بیوی کو چھونا (۵) بوقت ضرورت وعظ و نصیحت کرنا (۶) گزرتے ہوئے مریضوں کا حال پوچھنا (۷) استحاضہ اور سلسل البول کی بیماری میں اعتکاف برقرار رکھنا ۔ ( قرآنی آیات و کتب ستہ کی متعدد احادیث صحیحہ، تفصیل کے لئے دیکھئے مسائل اعتکاف از شمیم احمد خلیل السلفی )
    صدقۃ الفطر: رمضان کے آخری عشرہ میں صدقۃ الفطر کا نکالنا بھی واجب ہے اس کی ادائیگی کا وقت صلوٰۃ عید سے قبل ہے خواہ عید کے دن نکالیں یا عید سے ایک دن قبل یا دو دن قبل یا تین دن قبل نکالیں ۔
    [ صحیح بخاری:۱۵۱۱، فتح الباری :۳؍۴۸۰]
    اور اگر کوئی شخص بغیر صدقۃ الفطر نکالے عید کی نماز پڑھ لے تو اس کے لئے صدقۃ الفطر معاف نہیں ہو جائے گا۔بلکہ عید کے بعد بھی اس کے ذمہ صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب ہوگا یہ اور بات ہے کہ اس کا ثواب کافی حد تک کم ہو جائے گا۔ علامہ سید سابق فرماتے ہیں :
    ’’واتفقت الائمة علٰي أن زكاة الفطر لا تسقط بالتاخر بعد الوجوب بل تصير دينا ۔ فى ذمة من لزمته حتي تؤدي و لو فى آخر العمر‘‘
    ’’یعنی ائمہ کا اتفاق ہے کہ وجوب کے بعد تاخیر کی وجہ سے صدقۃ الفطر ساقط نہیں ہوگا بلکہ جس کے اوپر وہ لازم ہے اس پر ادا کرنے تک قرض ہو گا خواہ آخری عمر میں ادا کر لے‘‘
    [فقہ السنۃ]
    صدقۃ الفطر کے مختصر احکام و مسائل یہ ہیں:
    (۱) صدقۃ الفطر عید الفطر کے آنے کی وجہ سے فرض ہوتا ہے اسی لیے اس کا نام صدقۃ الفطر رکھا گیا ہے۔ اس کی فرضیت ۲؁ ھ ماہِ رمضان میں عید سے دو دن قبل ہوئی۔ [ مرعاۃ:۶؍۱۸۶]
    (۲) صدقۃ الفطر ہر مرد و عورت ، چھوٹے بڑے، امیر وغریب یتیم ومسکین ، آزاد اور غلام مسلمان پر فرض ہے۔ بشرطیکہ ان کے پاس ایک روز ( صبح و شام) کے کھانے سے زائد مال ہو۔ اس میں نصاب کی شرط نہیں ہے، اس کی ادائیگی گھر کے مالک اور سر پرست کے ذمہ ہے۔[صحیح بخاری:۵۱۰۳ ، و دارقطنی :۲۲۰ بسند صحیح ]
    (۳) احادیث میں اس کی دو حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک روزہ کی حالت میں روزہ دار سے جو لغو اورفحش باتیں ہو جاتی ہیں ان کی تطہیر اور صفائی ، دوسری فقراء اور مساکین کے ساتھ تعاون اور ان کے لیے کھانے کا انتظام ۔[سنن ابیداؤد :۱۶۰۹، بسند حسن ]
    (۴) صدقۃ الفطر ایک صاع حجازی ( تقریباً ڈھائی کلو ) نکالنا واجب ہے اسے اپنے صاف ستھرے اور عام کھانوں میں سے نکالنا چاہئے۔ احادیث و آثار میں جو ، کھجور، پنیر اور کشمش وغیرہ کا تذکرہ ہے تا ہم اس کے قائم مقام دیگر غذائی اشیاء مثلاً چاول وغیرہ بھی نکال سکتے ہیں غذائی اشیاء کی جگہ قیمت ادا کرنا درست نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی سخت مجبوری اور شدید عذر ہو ۔[ صحیح بخاری : ۱۵۰۶، مرعاۃ:۶؍۲۰۱]
    (۵) صدقۃ الفطر صرف فقراء و مساکین ہی کا حق ہے لہٰذا انہیں چھوڑ کر دوسرے مدوں میں یہ صدقہ صرف کرنا درست نہیں۔
    طاق راتوں کے اعمال:
    عام عبادات: رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اللہ کے نبی ﷺ نے بطور خاص عبادت کی تاکید کی ہے اور فرمایا ہے کہ شب قدر جیسی با برکت رات انہیں راتوں میں سے کوئی ایک رات ہو سکتی ہے۔
    اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:’’شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘
    [ صحیح بخاری: ۲۰۱۷]
    صحابیِ رسول ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’شب قدر رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، اکیسویں رات میں ، تیئیسویں رات میں، پچیسویں رات میں ‘‘
    [صحیح بخاری:۲۰۲۱]
    صحابیِ رسول ﷺ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:’’شب قدرا کیسویں میں یا تیئیسو یں میں یا پچیسویں میں یا ستائیسویں میں آخری رات میں تلاش کرو‘‘
    [ترمذی:۷۹۱، بسند صحیح]
    ان احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاق راتوں میں بطور خاص عبادت کا حکم اس لیے ہے تا کہ شب قدر جیسی با برکت رات حاصل ہو جائے ۔ لہٰذا ان راتوں میں وہی عبادت مشروع ہے جو شب قدر کی عبادت ہے اور شب قدر کی عبادت سے عام عبادات مراد ہیں ۔چنانچہ ’’ لیلۃ القدر خیر من الف شہر‘‘ کی تفسیر میں علماء کرام نے یہی کہا ہے کہ شب قدر کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔یعنی عبادت کو عام رکھا ہے اسی طرح صحابی رسول نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث:’’ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ ‘‘[صحیح ابن ماجہ :۱۳۳۳] میں ’’ خیر ‘‘ عام ہے جو تمام نیکیوں اور عبادتوں کو شامل ہے ۔ لہٰذا ان راتوں میں ہر قسم کی عبادتیں انجام دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً نمازیں ، دعائیں ، ذکر واذکارتوبہ و استغفار، تلاوت قرآن اور وعظ و نصیحت وغیرہ۔
    قیام اللیل (رات کی نماز )
    طاق راتوں میں شب قدر کو تلاش کرتے ہوئے ہر قسم کی عبادتیں انجام دی جاسکتی ہیں۔ تاہم ان میں قیام (نمازیں) ادا کرنے کی بطور خاص ترغیب دلائی گئی ہے۔
    صحابیِ رسول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اجر و ثواب کی نیت سے قیام کرے گا اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے ‘‘۔
    [ صحیح بخاری:۱۹۰۱]
    اور درج ذیل دو حد یثوں پر عمل کر لیا جائے تو تھوڑی سی عبادت سے بھی پوری رات کے قیام کا ثواب مل سکتا ہے۔ صحابیِ رسول ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے (رمضان میں) امام کے واپس ہونے تک امام کے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز تراویح با جماعت ادا کی) اس کے لئے ساری رات قیام کا ثواب لکھا جائے گا۔
    [ترمذی:۸۰۳سند صحیح]
    صحابیِ رسول عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :’’جس نے عشاء کی نماز با جماعت ادا کی اس نے گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے ( نماز عشاء با جماعت ادا کرنے کے بعد ) فجر کی نماز با جماعت ادا کی اس نے گویا ساری رات قیام کیا۔
    [صحیح مسلم]
    دعاء شب قدر :
    طاق راتوں میں سے کسی ایک میں شب قدر کا ہونا لازم ہے لہٰذا ان میں شب قدر کی مخصوص دعا پڑھتے رہنا چاہئے جس کا بیان اس حدیث میں ہے :
    اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا اگر میں شب قدر پالوں تو کون سی دعا پڑھوں ؟ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہو:
    ’’اَللّٰهُمَّ اِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي‘‘
    ’’ اللہ تو معاف کرنے والا ہے، معاف کر نا پسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف فرما‘‘
    [سنن ترمذی:بسند صحیح]
    شب قدر کے اعمال :
    شب قدر کوئی مخصوص رات نہیں ہے بلکہ یہ طاق راتوں ہی میں سے کوئی ایک رات ہے لہٰذا اس کے اعمال بھی وہی ہیں جو طاق راتوں کے اعمال ہیں۔
    عشرۂ اخیرہ کی بدعات :
    رمضان المبارک کے آخری عشرہ سے متعلق بہت سی بدعات و خرافات ایجاد کر لی گئی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
    (۱) بعض مسلمان اس عشرہ کے آخری جمعہ کو ’’جمعۃ الوداع‘‘ یا جمعۃ التیمیہ‘‘ کا نام دیتے ہیں اور اس کے مخصوص فضائل بیان کرتے ہیں بلکہ اس جمعہ کے خطبہ کے دوران بعض مخصوص اعمال بھی انجام دیتے ہیں مثلاً چند کاغذوں پر کچھ خود ساختہ دعا ئیں لکھتے ہیں جن کا بعض حصہ شرک و کفر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے ’’حفائظ‘‘کا نام دیا جاتا ہے۔ اور ائمہ حضرات بھی اس آخری جمعہ کے خطبہ میں اس جمعہ کے فراق پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں خود ساختہ دعائیں کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
    یہ سب باتیں بے اصل ہیں۔ کتاب وسنت میں اس آخری جمعہ سے متعلق ایسی کوئی چیز منقول نہیں۔ دیکھیں :
    [البدع الحوالیۃ :ص :۳۳۷]
    (۲) بعض حضرات ماہ رمضان کے (اختتام کے)پانچ دن قبل یا تین دن قبل الوداعی محفل سجاتے ہیں جس میں رمضان المبارک کو الوداع کہتے ہیں اس محفل میں بہت سی خرافات انجام دی جاتی ہیں مثلاً نظم خوانی ہوتی ہے، قوالیاں ہوتی ہیں ، چیخ وپکار بلند ہوتی ہے، مساجد کی حرمتیں پامال ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ
    [ البدع الحولیۃ :ص:۳۳۷]
    (۳) رمضان کے آخری عشرہ میں جس رات تراویح میں قرآن ختم ہوتا ہے اس رات میں بھی کچھ مخصوص بدعات ایجاد کر لی گئی ہیں چنانچہ بعض لوگ اس رات کو تراویح کی آخری رکعت میں تمام قرآنی دعاؤں کو یکجا کر کے پڑھتے ہیں۔ اسی طرح سجدوں والی آیات ،تہلیل والی آیات اور مزعومہ حرس والی آیات بھی یکجا کر کے پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس رات مسجدیں بے حد سجائی جاتی ہیں ، خوب چراغاں کیا جاتا ہے، طرح طرح کے پکوان تیار کئے جاتے ہیں ، عجیب و غریب رسمیں ادا کی جاتی ہیں ، خوب شور و غوغا اور ہنگامہ آرائی کا ماحول ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی بدعات ہیں جو اس عشرہ میں انجام دی جاتی ہیں۔تفصیل کے لئے دیکھئے:
    [ البدع الحولیۃ: ص: ۳۲۵۔۳۴۰]
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings