Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • زیادتیٔ ثقہ کے قبول و رد سے متعلق محدثین کا موقف

    محدثین کا موقف:
    زیادتی ثقہ سے متعلق محدثین کے یہاں کوئی مخصوص ضابطہ یا قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ محدثین اس کے قبول و رد کا فیصلہ قرائن کی بنیاد پر کرتے ہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ اہل فن نے اس بابت مختلف اقوال نقل کئے ہیں جن میں ایک قول یہ بھی ہے کہ زیادتی ثقہ کو علی الاطلاق قبول کیا جائے گا ، لیکن یہ قول شاذ ومتروک ہے نیز مجہول لوگوں کی طرف منسوب ہے اہل فن نے یہ قول ذکر تو کیا ہے لیکن اس کے قائلین کون ہیں؟ اس بارے میں کسی ایک بھی محدث کا نام یا اس کا طرزِعمل محفوظ نہیں ہے جو اس موقف کا حامل ہو اور اس پر عمل کیا ہو بلکہ بعض اہل علم نے تو اسے سرے سے محدثین کا موقف مانا ہی نہیں ہے بلکہ اسے فقہاء کی طرف منسوب کیا ہے ۔
    اوربعض نے محدثین میں سے امام ابن حبان اور خطیب بغدادی وغیرہ کے نام گنائے ہیں لیکن یہ غلط انتساب ہے کیونکہ یہ لوگ بھی اس متروک وشاذ موقف کے حامی نہ تھے جیساکہ ان کی دیگرتصریحات سے معلوم ہوتا ہے ۔
    الغرض یہ کہ زیادتیٔ ثقہ سے متعلق محدثین وائمۂ نقد کا موقف یہی ہے کہ اس کے قبول و رد میں قرائن کا اعتبار کیا جائے جیساکہ آگے ہم محدثین کی تصریحات پیش کریں گے۔
    ایک اہم نکتہ:
    یہاں پر ایک اہم نکتہ کی وضاحت بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے اور وہ یہ کہ ائمہ ناقدین جب کسی سچے ودیندار راوی کو ضعیف یا سیء الحفظ کہتے ہیں تو اس کی بنیاد یہی ہوتی ہے کہ وہ دیگر ثقہ یاثقات کے خلاف رویات کرتے ہوئے پایا جاتا ہے مثلاً منقطع کو متصل بناکر یا موقوف کو مرفوع بناکر یا مرسل کو موصول بناکر ۔ چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸ھ)نے کہا:
    ’’فإن كان الثَّبْتُ أرسَلَه مثلاً والواهي وصَلَه، فلا عبرة بوصلِه لأمرين: لضعفِ راويه، ولأنه معلولٌ بإرسال الثَّبْت له۔ثم اعلمْ أنَّ أكثَرَ المتكلَّمِ فيهم ما ضعَّفهم الحُفَّاظُ إلا لمخالفتهم للأثبات۔ وإن كان الحديثُ قد رَوَاه الثَّبْتُ بإسنادٍ، أو وَقَفَه، أو أَرسَلَه، ورفقاؤه الأثباتُ يُخالفونه: فالعِبرةُ بما اجتَمَع عليه الثقاتُ، فإنَّ الواحد قد يَغلَط۔وهنا قد ترجَّح ظهورُ غَلَطِه، فلا تعليل، والعِبرةُ بالجماع‘‘
    ’’اگرثقہ وثبت کسی حدیث کومرسل بیان کرے اور ضعیف راوی اسے موصول بیان کرے تو دو اسباب کی بناپر موصول کا اعتبار نہیں ہوگا: ایک یہ کہ موصول بیان کرنے والا راوی ضعیف ہے اور دوسرے یہ کہ یہ معلول ہے کیونکہ ایک ثقہ وثبت نے مرسل بیان کیا ہے ۔ اور یہ بات جان لیں کہ اکثر وہ رواۃ جن پر کلام کیا گیا ہے تو حفاظ نے انہیں اسی لیے ضعیف کہا کیونکہ انہوں نے ثقات واثبات کی مخالفت کی ۔اوراگرکسی حدیث کو ثقہ وثبت نے مسند یا موقوف یا مرسل بیان کیا لیکن اس کے دیگرثقہ وثبت ساتھی اس کی مخالفت کریں تو اعتبار اس سند کا ہوگا جس پر ایک جماعت متفق ہے کیونکہ ایک شخص سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اوریہاں غلطی کاظاہر ہونا ہی راجح ہے لہٰذا یہاں تعلیل کی صورت نہیں بلکہ یہاں جماعت(کے بیان)کا اعتبار ہوگا‘‘
    [الموقظۃ فی علم مصطلح الحدیث: ص:۵۲]
    یعنی رواۃ کے حفظ سے متعلق اکثر محدثین نے جو جرح کی ہے تو اس کی وجہ راوی کی زیادتی ہی ہے ۔
    بلکہ بعض محدثین نے تو جرح کرتے ہوئے راوی کے اس عیب کی صراحت کرتے ہوئے جرح کی ہے، چنانچہ:
    امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵ھ) نے ایک راوی پرجرح کرتے ہوئے کہا:
    ’’وليس بالقوي يحدث بأحاديث يسندها ويوقفها غيره‘‘
    ’’یہ راوی قوی نہیں ہے یہ ایسی احادیث کو مرفوع بیان کردیتاہے جسے دوسرے لوگ موقوف بیان کرتے ہیں ‘‘
    [سؤالات الحاکم للدارقطنی: ص:۲۱۵]
    اس قول میں غور کریں کہ امام دارقطنی نے راوی کو صرف ’’لیس بالقوی‘‘ نہیں کہا بلکہ اس کی وجہ بھی بیان کردی اوروہ یہ کہ یہ زیاتی بیان کرتاہے۔
    یہ حقیقت سامنے آنے کے بعد جو لوگ زیادتیٔ ثقہ کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں ان کی نظر میں محدثین کے اقوال جرح و تعدیل بھی مشتبہ ہوجانے چاہیے کیونکہ اکثر ان کی بنیاد راوی کی زیادتی ہی ہوتی ہے۔
    اصولِ حدیث میں ظاہریت:
    ماضی میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ فقہ واستنباط میں بس ظاہر ہی کو دیکھتے تھے اور اسی کے مطابق فیصلے صادر فرمادیتے تھے امت نے ان کے اس طرزعمل کو پسندنہیں کیا بلکہ انہیں اہل ظاہر کہا ، کچھ اسی طرح کی ظاہریت کا مظاہرہ کچھ لوگ اصول حدیث میں بھی کرتے ہیں اور محض ظاہری سند اور بظاہر اس کی صحت دیکھ کر یہ فیصلہ کربیٹھتے ہیں کہ حدیث صحیح ہے ۔ جو لوگ زیادتیٔ ثقہ کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں وہ بھی اسی قبیل سے ہیں اور بعض محدثین نے اس کی صراحت بھی کی ہے، چنانچہ:
    امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ (المتوفی۷۰۲ھ)نے کہا:
    ’’إن من حكي عن أهل الحديث أو أكثرهم أنه إذا تعارض رواية مرسل ومسند ، أو واقف و رافع ، أو ناقص وزائد: أن الحكم للزائد ، فلم يصب فى هذا الإطلاق، فإن ذلك ليس قانونا مطردا ،وبمراجعة أحكامهم الجزئية تعرف صواب ما نقول، وأقرب الناس إلى اطراد هذه القواعد بعض أهل الظاهر‘‘
    ’’یقینا جس نے محدثین سے یا ان کی اکثریت سے یہ نقل کیا کہ جب مرسل اور مسند یا مرفوع اور موقوف یا کمی وبیشی کا تعارض ہو تو زیادتی کرنے والی کی بات پر فیصلہ ہوگا تو اس نے اس طرح کی مطلق بات کہہ کر صحیح نہیں کیا کیونکہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے اورمحدثین کے جزئی احکامات کا مراجعہ کریں تو آپ کو میری بات کی درستی معلوم ہوجائے گی۔ اورسب سے زیادہ جو لوگ اس طرح کے قواعد کو قاعدہ کلیہ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ بعض اہل ظاہر ہیں‘‘
    [شرح الإلمام بأحادیث الأحکام لابن دقیق العید:۶۰۔۶۱]
    عرض ہے کہ شیخ الاسلام ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے بہت ہی خوبصورت بات کہی ہے کہ ہرجگہ زیادتی ثقہ کو قبول کرلینا یا اسے عام قاعدہ سمجھنا اہل ظاہر کا کام ہے چنانچہ آگے ہم ایک مثال ذکر کریں گے جس میں زیادتی ثقہ کو محدثین نے رد کردیا لیکن ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ نے اصول حدیث میں بھی ظاہریت کا ثبوت دیتے ہوئے اسے قبول کرلیا ہے، قارئین منتظر رہیں۔
    قرائن کی روشنی میں زیادتیٔ ثقہ کے مردود ہونے پر اہلِ فن کی تصریحات:
    اوپر ہم واضح کرچکے ہیں کہ زیادتیٔ ثقہ سے متعلق محدثین کے یہاں کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ محدثین قرائن کی روشنی میں ہرحدیث کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں ، ذیل میں اس بابت ہم چوٹی کے محدثین کے اقوال پیش کرتے ہیں:
    (۱) امام شافعی رحمہ اللہ (المتوفی۲۰۴ھ)نے کہا:
    ’’ويكون إذا شَرِك أحداً من الحفاظ فى حديث لم يخالفه، فإن خالفه وُجد حديثه أنقصَ: كانت فى هذه دلائل على صحة مخرج حديثه۔ ومتي ما خالف ما وصفت أضرَّ بحديثه، حتي لا يسع أحداً منهم قبول مرسله۔قال: وإذا وجدت الدلائل بصحة حديثه بما وصفت أحببنا أن نقبل مرسله‘‘
    ’’اورارسال کرنے والا اگرکسی حدیث کی روایت میں حفاظ کے ساتھ ہو تو اس حدیث کی روایت میں وہ مخالفت نہ کرے ۔ اوراگرمخالفت کرے تو اس کی حدیث میں نقص(کمی) ہی ہو (زیادتی نہ ہو)۔ تو ان صورتوں میں اس بات کی دلیل ہوگی کہ اس کی حدیث کا ماخذ صحیح ہے اور جب مرسل بیان کرنے والا اس طرح کی مخالفت کردے جسے میں نے بیان کیا ہے (یعنی حفاظ کے ساتھ کسی حدیث کی روایت کرے اور کچھ اضافہ کرکے مخالفت کرے) تو یہ چیز اس کی حدیث کے لیے نقصان دہ ہے‘‘
    [الرسالۃ للشافعی:۱؍۴۶۳]
    امام ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۴ھ)امام شافعی رحمہ اللہ کی اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’وهذا دليل من الشافعي رضي اللّٰه عنه علٰي أن زيادة الثقة عنده لا يلزم أن تكون مقبولة مطلقاً، كما يقوله كثير من الفقهاء من أصحابه وغيرهم، فإنه اعتبر أن يكون حديث هذا المخالف أنقص من حديث من خالفه ولم يعتبر المخالف بالزيادة وجعل نقصان هذا الرواي من الحديث دليلاً علٰي صحة مخرج حديثه، وأخبر أنه متي خالف ما وصف أضر ذلك بحديثه، ولو كانت الزيادة عنده مقبولة مطلقاً لم يكن مخالفته بالزيادة مضراً بحديثه‘‘
    ’’امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف سے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک زیادتیٔ ثقہ کی صورت میں یہ ضروری نہیں ہے کہ علی الاطلاق قابل قبول ہو جیساکہ ان کے ماننے والے بہت سے فقہاء وغیرہ کہتے ہیں۔ کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس بات کا اعتبار کیا ہے کہ یہ راوی جب روایت کرتے ہوئے مخالفت کرے تو اس کی حدیث اس راوی کی حدیث سے کم وناقص ہو جس کی یہ مخالفت کررہا ہے ۔اور اگر یہ زیادتی واضافہ کرکے مخالفت کرے تو امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کا اعتبار نہیں کیا ہے۔ اورامام شافعی رحمہ اللہ نے راوی کی طرف سے (مخالفت میں) ناقص بیان کردہ حدیث کو اس بات کی دلیل بنایا ہے کہ اس کا ماخذ صحیح ہے اور کہا کہ اگر زیادتی واضافہ کرکے مخالفت کرے گا تویہ چیز اس کی حدیث کے لیے نقصان دہ ہے ۔ معلوم ہوا کہ اگر امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ کی زیادتی مطلقاً مقبول ہوتی تو آپ زیادتی واضافہ کے ساتھ راوی کی مخالفت کو اس کی حدیث کے لیے مضر نہیں سمجھتے‘‘
    [الصارم المنکی فی الرد علی السبکی لابن عبدالھادی: ص:۱۰۹]
    یادہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ سب کچھ مرسل کی قبولیت کے ضمن میں کہا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ارسال کرنے والا بذات خود ثقہ ہوگا ورنہ اگرارسال کرنے والا ہی ضعیف ہو تو اس کی مرسل حدیث صرف مرسل ہی نہیں بلکہ ضعیف ہوجائے گی اور مرسل کی قبولیت کی بحث سے خارج ہوجائے گی۔
    مزید یہ کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے مرسل کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ :
    ’’إذا سمي من روي عنه لم يسمِّي مجهولاً ولا مرغوباً عن الرواية عنه‘‘
    ’’یعنی جب ارسال کرنے والا اپنے شیخ کانام لے تو وہ مجہول یا متروک الحدیث نہ ہو‘‘
    [الرسالۃ للشافعی:۱؍۴۶۳]
    حالانکہ ارسال کرنے والے کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ قید نہیں لگائی جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اسی مرسل حدیث کی بات کررہے ہیں جو بحیثیت مرسل ثابت شدہ ہو یعنی اسے بیان کرنے والا ثقہ ہو۔
    امام شافعی رحمہ اللہ (المتوفی۲۰۴ھ)نے دوسرے مقام پرکہا:
    ’’إِنَّمَا يُغَلَّطُ الرَّجُلُ بِخِلَافِ مَنْ هُوَ أَحْفَظُ مِنْهُ، أَوْ يَأْتِي بِشَيْئٍ فِي الْحَدِيثِ يُشْرِكُهُ فِيهِ مَنْ لَمْ يَحْفَظْ مِنْهُ مَا حَفِظَ، وَهُمْ عَدَدٌ، وَهُوَ مُنْفَرِدٌ‘‘
    ’’جب راوی اپنے سے احفظ کے خلاف روایت کرے تو اس کی تغلیط کی جائے گی یا اس وقت اس کی تغلیط کی جائے گی جب وہ اپنی روایت کردہ حدیث میں کوئی ایسی بات بیان کرے کہ اسی حدیث کو روایت کرنے والے دوسرے رواۃ اسے بیان نہ کریں اور یہ دوسرے رواۃ کئی تعداد میں ہوں جبکہ وہ منفرد ہو‘‘
    [اختلاف الحدیث (مطبوع ملحقا بالأم للشافعی:۸؍۶۷۴]
    (۲) امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۳ھ)نے کہا:
    ’’عيسٰي بن يونس يسند حديثا عن هشام عن أبيه عن عائشة أن النبى صلى اللّٰه عليه و سلم كان يقبل الهدية ولا يأكل الصدقة والناس يحدثون به مرسلا‘‘
    ’’عیسیٰ بن یونس ایک حدیث کو ہشام عن ابیہ عن عائشہ کے طریق سے مرفوع بیان کرتاہے کہ اللہ کے نبی ﷺ ہدیہ قبول کرتے تھے اورصدقہ نہیں کھاتے تھے ۔ لیکن دیگر رواۃ اسے مرسلاً بیان کرتے ہیں‘‘
    [تاریخ ابن معین، روایۃ الدوری:۴؍۲۸]
    (۳) امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی۲۵۶ھ)نے کہا:
    وَرَوَي أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَوْ غَيْرِهِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ، زَادَ فِيهِ: وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا …‘‘
    اورابوخالدنے ابن عجلان عن زیدبن اسلم او غیرہ عن ابی صالح عن ابی ہریرہ کے طریق سے نقل کیا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے ۔ اور اس نے اس میں یہ اضافہ کردیا اورجب امام قرأت کرے توتم خاموش رہو۔۔۔‘‘
    [القراء ۃ خلف الإمام للبخاری :ص:۶۳]
    امام بخاری رحمہ اللہ نے آگے مزید بحث کرکے ثقہ کی اس زیادتی کو مردود قرار دیا ہے ۔
    (۴) امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱)نے کہا:
    ’’أَن يروي نفر من حفاظ النَّاس حَدثنَا عَن مثل الزُّهْرِيّ أَو غَيره من الائمة بِإِسْنَاد وَاحِد وَمتْن وَاحِد مجتمعون على رِوَايَته فِي الاسناد والمتن لَا يَخْتَلِفُونَ فِيهِ فِي معنى فيرويه آخر سواهُم عَمَّن حدث عَنهُ النَّفر الَّذين وصفناهم بِعَيْنِه فيخالفهم فِي الاسناد أَو يقلب الْمَتْن فَيَجْعَلهُ بِخِلَاف مَا حكي من وَصفنَا من الْحفاظ فَيعلم حِينَئِذٍ أَن الصَّحِيح من الرِّوَايَتَيْنِ مَا حدث الْجَمَاعَة من الْحفاظ دون الْوَاحِد الْمُنْفَرد وان كَانَ حَافِظًا علٰي هَذَا الْمَذْهَب رَأينَا أهل الْعلم بِالْحَدِيثِ يحكمون فِي الحَدِيث مثل شُعْبَة وسُفْيَان بن عيينه وَيحيي بن سعيد وَعبد الرَّحْمَن بن مهْدي وَغَيرهم من أَئِمَّة أهل الْعلم‘‘
    ’’اگر حفاظ محدثین کی ایک جماعت امام زہری یا ان جیسے ائمہ سے ایک ہی سند اور ایک ہی متن سے کوئی روایت نقل کرے، یہ سب کے سب اس روایت کو نقل کرنے میں سند اور متن کے لحاظ سے متفق ہوں اورکسی معنی میں کوئی اختلاف نہ کریں ، ایسے میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا اسی روایت کو اسی استاذ سے بیان کرے جس سے بعینہٖ مذکورہ جماعت نے بیان کیا ہو اور سند میں مخالفت کرے یا متن کو پلٹ دے اور اسے مذکورہ حفاظ کی جماعت کے خلاف بنادے ، تو ایسی صورت میں جان لیا جائے گا کہ دونوں طرح کی روایات میں صحیح وہ روایت ہے جسے حفاظ کی جماعت نے ایک اکیلے شخص کے مخالف بیان کیا ہے گرچہ یہ اکیلا شخص حافظ ہی کیوں نہ ہو۔ ہم نے اسی موقف پر محدثین کو گامزن پایا ہے جیسے امام شعبہ ، امام سفیان بن عیینہ ، امام یحییٰ بن سعید اور امام عبدالرحمن بن مہدی وغیرہم‘‘
    [التمییز لمسلم: ص:۱۷۲]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’وَالتَّحْقِيقُ أَنَّهُمَا لَيْسَ لَهُمَا فِي تَقْدِيمِ الْوَصْلِ عَمَلٌ مُطَّرِدٌ بَلْ هُوَ دَائِرٌ مَعَ الْقَرِينَةِ فَمَهْمَا تَرَجَّحَ بِهَا اعْتَمَدَاهُ وَإِلَّا فَكَمْ حَدِيثٍ أَعْرَضَا عَنْ تَصْحِيحِهِ لِلِاخْتِلَافِ فِي وَصْلِهِ وَإِرْسَالِهِ‘‘
    ’’صحیح بات یہ ہے کہ امام بخاری اور امام مسلم کے یہاں موصول کو مقدم کرنے کے لیے کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ اس کا دار ومدار قرائن پر ہے ، پس جب ان کے نزدیک روایت کا موصول ہونا (قرائن کی روشنی میں) راجح قرار پاتا ہے تبھی وہ اس پر اعتماد کرتے ہیں ، ورنہ کتنی ایسی احادیث ہیں جنہیں امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے صحیح نہیں قرار دیا کیونکہ اسے موصول اور مرسل بیان کرنے میں رواۃ نے اختلاف کیا‘‘
    [فتح الباری لابن حجر:۱۰؍۲۰۳]
    (۵) امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵ھ)نے کہا:
    امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بہت سارے مقامات پر ثقہ کی زیادتی رد کردی ہے اوراس کی بہت ساری مثالیں ان کی کتب بالخصوص علل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
    (۶) امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ (المتوفی۷۰۲ھ)نے کہا:
    ’’إن من حكي عن أهل الحديث أو أكثرهم أنه إذا تعارض رواية مرسل ومسند ، أو واقف و رافع ، أو ناقص وزائد: أن الحكم للزائد ، فلم يصب فى هذا الإطلاق، فإن ذلك ليس قانونا مطردا ،وبمراجعة أحكامهم الجزئية تعرف صواب ما نقول، وأقرب الناس إلى اطراد هذه القواعد بعض أهل الظاهر‘‘
    ’’یقینا جس نے محدثین سے یا ان کی اکثریت سے یہ نقل کیا کہ جب مرسل اور مسند یا مرفوع اور موقوف یا کمی وبیشی کا تعارض ہو تو زیادتی کرنے والی کی بات پر فیصلہ ہوگا تو اس نے اس طرح کی مطلق بات کہہ کر صحیح نہیں کیا کیونکہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے اورمحدثین کے جزئی احکامات کا مراجعہ کریں تو آپ کو میری بات کی درستی معلوم ہوجائے گی۔ اورسب سے زیادہ جو لوگ اس طرح کے قواعد کو قاعدہ کلیہ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ بعض اہل ظاہر ہیں‘‘
    [شرح الإلمام بأحادیث الأحکام لابن دقیق العید:۶۰۔۶۱]
    (۷) امام ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۴ھ)نے کہا:
    ’’فإن قيل: قد رواها نعيم المجمر وهو ثقة والزيادة من الثقة مقبولة قلنا: ليس ذلك مجمعا عليه بل فيه خلاف مشهور فمن الناس من يقبل زيادة الثقة مطلقا ومنهم من لا يقبلها والصحيح التفصيل وهو أنها تقبل فى موضع دون موضع فتقبل إذا كان الراوي الذى رواها ثقة حافظا ثبتا والذي لم يذكرها مثله أو دونه فى الثقة كما قبل الناس زيادة مالك بن أنس قوله:من المسلمين فى صدقة الفطر واحتج بها أكثر العلماء وتقبل فى موضع آخر لقرائن تخصها ومن حكم فى ذلك حكما عاما فقد غلط بل كل زيادة لها حكم يخصها‘‘
    ’’اگرکہاجائے کہ اسے معمرنے روایت کیا ہے اور وہ ثقہ ہے اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے تو ہم کہیں گے کہ: یہ کوئی متفق علیہ بات نہیں ہے بلکہ اس میں مشہور اختلاف ہے چنانچہ کچھ لوگ مطلقاً زیادتیٔ ثقہ قبول کرتے ہیں اور کچھ قبول نہیں کرتے اور صحیح بات یہ ہے کہ اس بار ے میں تفصیل کی جائے اور وہ یہ کہ کبھی اسے قبول کیا جائے اور کبھی قبول نہ کیا جائے ۔ چنانچہ جب زیادتی کو روایت کرنے والا حافظ اورثبت ہو اور جس نے زیادتی بیان نہیں کی ہے وہ بھی ایسا ہی ہویا ثقاہت میں اس سے کمترہو تو ایسی صورت میں زیادتی قبول کی جائے گی جیساکہ لوگوں نے امام مالک سے ’’صدقۃ الفطر‘‘ والی روایات میں ’’والمسلمین‘‘ کی زیادتی قبول کی ہے اور اکثر علماء نے اس سے حجت پکڑی ہے ۔ اور دیگر ایسے مواقع پر بھی زیادتی ثقہ مقبول ہوگی جہاں مخصوص قرائن اس کی قبولیت کے حق میں ہوں ۔ لیکن جس نے اس سلسلے میں عام فیصلہ دے دیا تو اس نے غلط کیا اور صحیح بات یہی ہے کہ ہرزیادتیٔ کا مخصوص حکم ہے‘‘
    [نصب الرایۃ: ۱؍۲۶۱، نقلہ من کتابہ فی الجہر بالبسملۃ ]
    (۸) امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸ھ)نے کہا:
    ’’فإن كان الثَّبْتُ أرسَلَه مثلاً والواهي وصَلَه، فلا عبرة بوصلِه لأمرين: لضعفِ راويه، ولأنه معلولٌ بإرسال الثَّبْت له۔ثم اعلمْ أنَّ أكثَرَ المتكلَّمِ فيهم ما ضعَّفهم الحُفَّاظُ إلا لمخالفتهم للأثبات۔ وإن كان الحديثُ قد رَوَاه الثَّبْتُ بإسنادٍ، أو وَقَفَه، أو أَرسَلَه، ورفقاؤه الأثباتُ يُخالفونه: فالعِبرةُ بما اجتَمَع عليه الثقاتُ، فإنَّ الواحد قد يَغلَط. وهنا قد ترجَّح ظهورُ غَلَطِه، فلا تعليل، والعِبرةُ بالجماع‘‘
    ’’اگرثقہ وثبت کسی حدیث کومرسل بیان کرے اور ضعیف راوی اسے موصول بیان کرے تو دو اسباب کی بناپر موصول کا اعتبار نہیں ہوگا ایک یہ کہ موصول بیان کرنے والا راوی ضعیف ہے اور دوسرے یہ کہ یہ معلول ہے کیونکہ ایک ثقہ وثبت نے مرسل بیان کیا ہے ۔ اور یہ بات جان لیں کہ اکثر وہ رواۃ جن پر کلام کیا گیا ہے تو حفاظ نے انہیں اسی لیے ضعیف کہا کیونکہ انہوں نے ثقات واثبات کی مخالفت کی ۔اوراگرکسی حدیث کو ثقہ وثبت نے مسند یا موقوف یا مرسل بیان کیا لیکن اس کے دیگرثقہ وثبت ساتھی اس کی مخالفت کریں تو اعتبار اس سند کا ہوگا جس پر ایک جماعت متفق ہے کیونکہ ایک شخص سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اوریہاں غلطی کاظاہر ہونا ہی راجح ہے لہٰذا یہاں تعلیل کی صورت نہیں بلکہ یہاں جماعت( کے بیان) کا اعتبار ہوگا‘‘
    [الموقظۃ فی علم مصطلح الحدیث :ص:۵۲]
    (۹) امام ابن قیم رحمہ اللہ (المتوفی۷۵۱ھ) نے کہا:
    ’’إن هذه طريقة لا تقبل مطلقا ولا ترد مطلقا يجب قولها فى موطن ويجب ردها فى موضع ويتوقف فيها فى موضع فإذا كان الأئمة الثقات الأثبات قد رفعوا الحديث أو أسندوه وخالفهم من ليس مثلهم أو شذ عنهم واحد فوقفه أو أرسله فهذا ليس بعلة فى الحديث ولا يقدح فيه والحكم لمن رفعه وأسنده وإذا كان الأمر بالعكس كحال حديث سفيان بن حسين هذا وأمثاله لم يلتفت إليه ولا إلى من خالفهم فى وقفه وإرساله ولم يعبأ به شيء ولا يصير الحديث به مرفوعا ولا مسندا ألبته وأئمة أهل الحديث كلهم على هذا فإنه إذا كان الثقات الأثبات الأئمة من أصحاب الزهري دائما يروونه عنه موقوفا على سعيد ولم يرفعه أحد منهم مرة واحدة مع حفظهم حديث الزهري وضبطهم له وشدة اعتنائهم به وتمييزهم بين مرفوعه وموقوفه ومرسله ومسنده ثم يجيء من لم يجر معهم فى ميدانهم ولا يدانيهم فى حفظه ولا إتقانه وصحبته للزهري واعتنائه بحديثه وحفظه له وسؤاله عنه وعرضه عليه فيخالف هؤلاء ويزيد فيه وصلا أو رفعا أو زيادة فإنه لا يرتاب نقاد الآثار وأطباء علل الأخبار فى غلطه وسهوه ولا سبيل إلى الحكم له بالصحة والحالة هذه‘‘
    ’’زیادتیٔ ثقہ کو نہ تو مطلق قبول کیا جائے گا اور نہ ہی مطلق رد کیا جائے گا بلکہ بعض مقامات پر اس کا قبول کرنا ضروری ہوگا اور بعض مقامات پر اسے رد کرنا ضروری ہوگا اور بعض مقامات پر توقف کیا جائے گا ۔ چنانچہ جب ثقہ وثبت ائمہ کسی حدیث کو مرفوع اور موصول بیان کردیں اور ان کی مخالفت وہ لوگ کریں جو ان جیسے نہیں ہیں یا ایک شخص ان کے خلاف اسے موقوف یا مرسل بیان کرے تو یہ حدیث میں کوئی علت نہیں یا موجبِ قدح نہیں ہے بلکہ دریں صورت اعتبار اس کا ہوگا جس نے مرفوع یا موصول بیان کیا ہے ۔ لیکن اگر بات اس کے برعکس ہو مثلاً سفیان بن حسین یا ان جیسے لوگوں کا معاملہ ہو تو اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ان کی طرف جنہوں نے موقوف یا مرسل بیان کرنے میں مخالفت کی ہے، اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا، اس سے حدیث مرفوع یا موصول قطعاً نہ ہوگی، یہی موقف تمام محدثین کا ہے۔چنانچہ جب امام زہری کے ثقہ ثبت شاگرد ایک حدیث کو سعید پر موقوف بیان کریں اور ان میں سے کوئی ایک بار بھی اسے مرفوع بیان نہ کرے باوجود اس کے کہ انہوں نے امام زہری کی احادیث یاد کررکھی ہیں اور اسے ازبر کررکھا ہے اور وہ ان کے بہت قریبی ہیں نیز ان کی مرفوع وموقوف اور مرسل و موصول احادیث کی پہچان پر قادر ہیں ، پھر ایک دوسرا شخص ایسا آتا ہے جو ان کے میدان کا نہیں ہے اور حفظ و اتقان میں بھی ان کے ہم پلہ نہیں ہے اورامام زہری کی شاگردی اور ان کی احادیث کی طلب وحفظ میں بھی وہ نہیں رہا اور نہ امام زہری سے سوال وجواب کیے ۔ پھر ایسا شخص امام زہری کی حدیث میں اضافہ کرے موصول بیان کرکے یا مرفوع بیان کرکے یا کوئی اورزیادتی کرکے تو اس کی خطا وسہو سے متعلق ناقدین اور علل کے ماہرین کوئی شک نہیں کریں گے اورایسی حالت میں اس کی حدیث کو صحیح قرار دینے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا‘‘
    [الفروسیۃ: ص:۲۸۲]
    (۱۰) امام ابن الوزیر رحمہ اللہ (المتوفی۸۴۰ھ)نے کہا:
    ’’الحكم فى هذا لا يستمر بل يختلف باختلاف قرائن الأحوال وهو موضع اجتهاده‘‘
    ’’زیادتیٔ ثقہ سے متعلق ہمیشہ کوئی ایک ہی حکم نہیں لگتا بلکہ مختلف قرائن کی روشنی میں اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور یہ اجتہادی مسئلہ ہے‘‘
    [توضیح الأفکار لمعانی تنقیح الأنظار :۱؍۳۱۲]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲ھ)نے کہا:
    ’’والذي يجري علٰي قواعد المحدثين أنهم لا يحكمون عليه بحكم مستقل من القبول والرد، بل يرجحون بالقرائن كما قدمناه فى مسألة تعارض الوصل والإرسال‘‘
    ’’زیادتیٔ ثقہ سے متعلق محدثین کے قواعد پر جو بات جاری ہے وہ یہ کہ محدثین زیادتیٔ ثقہ پر قبول ورد کے اعتبارسے کوئی مستقل حکم نہیں لگاتے بلکہ قرائن کی روشنی میں ترجیح دیتے ہیں جیساکہ موصول اورمرسل کے تعارض کے مسئلہ میں ہم بیان کرچکے ہیں‘‘
    [النکت علٰی کتاب ابن الصلاح لابن حجر:۲؍۶۸۷]
    اس کے بعد آگے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو علی الاطلاق زیادتیٔ ثقہ کے مقبول ہونے کی بات کرتے ہیں۔
    واضح رہے کہ معاصرین میں بھی جن کبار اہل علم نے فن حدیث پر کام کیا ہے مثلاً علامہ البانی رحمہ اللہ وہ سب کے سب یہی موقف رکھتے ہیں، ہمیں معاصرین میں فنِّ حدیث سے جڑی ہوئی ایک بھی معتبر علمی شخصیت ایسی نہیں ملی نے زیادتیٔ ثقہ کو علی الاطلاق قبول کرنے والا موقف اختیار کیا ہو۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings