Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • فکر آخرت ضروری کیوں ؟

    یومِ آخرت پر ایمان اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے ،ا س کے بغیر کوئی بھی دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا، آخرت پر یقینِ کامل ہی دنیاوی عمل کا محرک ہے۔ جن اقوام وملل میں اخروی زندگی کا تصور نہیں ہے ان کی بے راہ روی اور بد عملی جگ ظاہر ہے، تصورِ آخرت کے بغیر انسان دنیاوی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے اور اسے پر تعیش بنانے، اپنی خواہشات کی تکمیل کرنے اورسامان عیش وعشرت جٹانے کے لیے جائز وناجائز اور حلال وحرام کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
    {بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا۔وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقٰي}
    ’’لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت بہت بہتر اور بہت بقا والی ہے‘‘
    [الاعلیٰ:۱۶]
    آج لوگوں کا دنیاوی عیش وعشرت کی چاہت اور مال وزر کی ہوس میں دنیا کے پیچھے دیوانہ وار بھاگنا اور دنیا دنیا کی رٹ لگانا اسی فکرِ آخرت سے لا پرواہی کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں آتا ہے: ’’لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ ذَهَبٍ لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ ثَالِثٌ، وَلَا يَمْلَأُ فَاهُ إِلَّا التُّرَابَُ‘‘
    ’’اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں بھی ہو جائیں تب بھی اس کی یہی خواہش ہوگی کہ اسے (کسی طرح) تیسری بھی مل جائے، انسان کے (لالچی) پیٹ کو سوائے (قبر کی) مٹی کے اور کوئی چیز بھر نہیں سکتی‘‘
    [جامع الترمذی: ۲۳۳۷، وصححہ الألبانی]
    اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورہ تکاثر میں اس طرح بیان فرمایا ہے: {أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ۔ حَتّٰي زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ}
    ’’زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے‘‘
    [التکاثر:۱۔۲]
    مرنے کے بعد بروزِ قیامت دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جانا، رب کائنات کے سامنے اپنے اچھے برے عمل کے لیے جوابدہ ہونا پھر اس کے مطابق جنتی یا جہنمی قرار دیا جانا یہی وہ بنیادی عقائد وایمانیات ہیں جو انسان کو دنیا میں برے کاموں سے روکتے اور نیک عمل کرنے پر ابھارتے ہیں۔ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی لالچ اورعذابِ جہنم کی ہولناکیوں کا خوف ہی مومنوں کو راہِ اعتدال پر قائم اور صراطِ مستقیم پر گامزن رکھتا ہے۔ جو کہ اسلام کے علاوہ دیگر ادیان ومذاہب کے ماننے والوں میں معدوم ہے۔ کیونکہ ان کے یہاں اپنی موت اوردنیا کے زوال پذیر ہونے پر یقین تو ہے لیکن مرنے کے بعد کی اخروی زندگی اور اس میں اپنے کئے ہوئے دنیاوی اعمال کی جزا وسزا کا تصور نہیں۔ اس لیے ان کی ساری بھاگ دوڑ کا محور دنیا اور اس کی لذتوں کا حصول ہے اور بس۔
    ان کے برعکس اہلِ ایمان کے دل ہمیشہ ذکر الٰہی اور فکر آخرت سے موجزن ہوتے ہیں ،وہ اہلِ دنیا کی طرح شیطانی بہکاوے میں آکر دنیا کی دل فریبیوں اور رعنائیوں سے لو نہیں لگاتے، نہ ہی اس کی چمک دمک، مال ومتاع، جاہ ومنصب اور عزت وشہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ دنیا اور اس میں موجود تمام چیزیں عارضی اور ناپائیدار ہیں، جو ایک دن بہرِ صورت فنا ہو جائیں گی۔ اس کے بعد جو آخرت کی زندگی شروع ہوگی وہی ناختم ہونے والی اورپائیدار ہے۔
    بندۂ مومن کی نگاہ ہمہ وقت اس حقیقت پر ہوتی ہے کہ یہ دنیا بہرحال دارِ فانی ہے اور اس میںکسی کو بقا ودوام حاصل نہیں، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے : {كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۔ وَيَبْقَي وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ}
    ’’جو (مخلوق) زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے ۔اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات (بابرکات) جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گی‘‘
    [الرحمٰن: ۲۶۔۲۷]
    ہر کسی کو ایک نہ ایک دن یہاں سے کوچ کرنا ہے پھر حشر کے دن انہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا، جہاں دربارِ الہٰی میں ان کی پیشی ہوگی اور ان سے دنیاوی زندگی کا پورا پورا حساب لیا جائے گا ،فرمان الٰہی ہے:
    {كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّامَتَاعُ الْغُرُورِ}
    ’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے‘‘
    [آل عمران:۱۸۵]
    پس جس نے دنیا میں ذرہ برابر بھی نیک عمل کیا ہوگا وہ اس کا بہتر بدلہ پائے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہوگی اسے اس کر سزا ملے گی۔فرمان الٰہی ہے :
    {فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ۔ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ}
    ’’پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا‘‘
    [الزلزلۃ:۷۔۸]
    اسی وجہ سے ایک صاحب ِایمان دنیا سے کبھی دل نہیں لگاتا نہ ہی اس سے دھوکہ کھاتا ہے، اس کے نزدیک یہ دنیا دار العمل ہے’’الدنيا مزرعة الآخرة‘‘،[المقاصد الحسنۃ للسخاوی:۳۵۱] اور آخرت دار الجزاء ۔ وہ دنیا کو لہو ولعب اور دھوکے کے سامان سے زیادہ حیثیت نہیں دیتااور اپنی ساری توجہ اخروی زندگی کو سنوارنے اور اسے خوشگوار بنانے پر مرکوز رکھتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کے اندر کئی مقامات پر دنیا کی بے ثباتی کو اجاگر کرکے اسے کھیل، تماشے اور دھوکے کا سامان قرار دیا ہے۔جیسا کہ اللہ نے فرمایا : {اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ}
    ’’خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل، تماشا ،زینت اور آپس میں فخر (و غرور) اور مال واولاد میں ایک کا دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وہ خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وہ بالکل چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی تو نہیں‘‘
    [الحدید:۲۰]
    اور نبی کریم ﷺ نے اپنی بے شمار احادیث میں امت کو دنیا کی الفت ومحبت سے دور رہنے اور اپنی زندگی کا ہر لمحہ آخرت کی فکر میں گزارنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا وہ شخص دانشمند اور دوراندیش ہے جو دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور اپنی عاقبت کی کامیابی وسرخروئی کے لیے کوشاں رہے۔اللہ کا فرمان ہے:
    {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ }
    ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے‘‘
    [الحشر:۱۸]
    در اصل جب انسان کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ بروز قیامت اسے رب العالمین کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے تو دن کا اجالا ہو یا رات کی تاریکی وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ دنیا والوں کی اس پر نظر ہو نہ ہو پر مالک کائنات اسے ضرور دیکھ رہاہے۔ لہٰذا برائی کی طرف اس کے بڑھتے ہوئے قدم بھی رک جائیں گے اور وہ ہر طرح کی برائی سے اپنے دامن کو بچاکر رکھے گا اور اپنے صحیفۂ اعمال میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کرنے کی کوشش کرے گاتاکہ آخرت کی رسوائی سے اپنے آپ کو بچا سکے۔
    قرآن وحدیث کی اَن گنت آیات واحادیث ایسی ہیں جو دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے دنیاوی امور سے دوری اختیار کرنے اورتاخروی معاملات کی فکر کرنے پر ابھارتی ہیں۔ نیز تراجم وسیر کی کتابیں صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اکابرین امت کے واقعات سے بھری پڑی ہیں جن کی دنیا سے بے رغبتی اورآخرت کی فکر کا یہ عالم ہوتا تھا کہ جب بھی ان کے سامنے جنت وجہنم یا آخرت کے تذکرے ہوتے وہ زار وقطار رونے لگتے، ان کی سسکیاں نکل جاتیں اور کئی دنوں تک ان کے دلوں کا سکون اور آنکھوں کی نیندیں غائب ہو جاتیں، جب کبھی کسی قبرستان سے ان کا گزر ہوتا یا کسی جنازے میں شریک ہوتے تو مرنے کے بعد کی زندگی کے تصور سے ہی ان پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی، آنکھیں بھر آتیں اور وہ دنیا کی لذتوں سے دوری اختیار کر لیتے۔
    چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دنیا اوراس کی لذتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اکثر دنیا سے مخاطب ہوکر کہتے:’’غیری غیری…‘‘،[نہج البلاغۃ لشریف رضی:۲؍۱۵۸] جا میرے علاوہ کسی اور کا پیچھا کر (میں تیری چکا چوند سے بہکنے والا نہیں)، میں نے تجھے طلاق بائن دے دیا ہے، جس کے بعد میرے لئے رجوع کرنا جائز نہیں۔ اور اہل دنیا کو یاد دلاتے ہوئے فرماتے:’’دنیا کی الٹی گنتی (یعنی دنیا اپنے اختتام کی جانب تیزی سے رواں دواں ہے) جاری ہے اور آخرت برابر ہماری طرف بڑھی چلی آ رہی ہے جبکہ دنیا وآخرت دونوں کے کچھ بیٹے (پیچھے بھاگنے والے) ہیں۔ تو تم دنیا کے پرستار نہ بنو، بلکہ آخرت کی فکر کرنے والے بنو۔ کیونکہ آج دنیا میں عمل کرنے کا موقع ہے، حساب نہیں اور کل قیامت کے دن حساب وکتاب ہوگا عمل نہیں‘‘
    [صحیح البخاری:۶۴۱۷]
    اورنبی علیہ الصلاۃ والسلام نے اسی کو ایک بہترین مثال کے ذریعہ یوں سمجھایا:’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے، یعنی یہاں جو بوؤگے کل قیامت کے دن وہی کاٹوگے‘‘ (قد سبق مصدرہ)۔
    اسلام نے دنیا کو آخرت کے لیے گزرگاہ قرار دیا ہے، یعنی ایسی جگہ جہاں سے زادِ آخرت لے کرآگے نکل جانا ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو یہ تاکید فرمائی:
    ’’كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ‘‘
    ’’کہ دنیا میں تم ایک اجنبی یا مسافر کی طرح زندگی گزارو‘‘
    [صحیح البخاری:۶۴۱۶]
    یعنی دنیا میں تمہاری زندگی کا سفر ایک مسافر کے سفر کی مانند ہونا چاہئے، جس طرح مسافر کے لیے زادِ راہ کا ہونا لازمی ہے اسی طرح ایک مومن کے لیے اس دنیاوی سفر میں آخرت کا توشہ (نیک عمل) ضروری ہے اور جس طرح مسافر کا مطمح نظر راستہ نہیں بلکہ اس کی منزل ہوتی ہے اسی طرح مومن کی منزل مقصود دنیا نہیں بلکہ آخرت ہونی چاہئے۔
    دنیا کے فتنوں سے بچنے اور آخرت کی یاد تازہ رکھنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ موت کو بکثرت یاد کیا جائے اور قبرستان کی زیادہ سے زیادہ زیارت کی جائے۔ جیساکہ فرمان نبوی ہے: ’’أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ:يَعْنِي الْمَوْتَ ‘‘
    ’’کہ لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو بکثرت یاد کیا کرو‘‘
    [سنن ابن ماجۃ:۴۲۵۸،والترمذی:۲۳۰۷]
    اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا:’’زُورُوا الْقُبُورَ، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمُ الْآخِرَةَ‘‘
    ’’قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی رہیں گی‘‘
    [ سنن ابن ماجۃ:۱۵۶۹،صحیح ]
    لہٰـذا ہمیں دنیا کی آلائشوں سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے اپنی زندگی کے لمحات فکر آخرت، ذکر الٰہی اور اطاعت رسول میں گزارنی چاہئے، تاکہ رب کی خوشنودی حاصل ہو اور ہماری اخروی زندگی جنت کی نعمتوں سے شاد کام ہو سکے۔ رب العالمین ہمیں اس کی توفیق ارزانی بخشے۔آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings