-
کچھ خود نہیں کرتے تو …… انسان واقعتاً بے صبرا پیدا کیا گیا ہے، اللہ نے انسان کو ’’ظَلُوماً جَھُولاً‘‘اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والا کہا ہے، انسان سرکش ہے، متکبر اور انا پرست ہے، خودی میں مست رہنے والی مخلوق ہے، اپنے فائدے کے آگے کسی دوسرے کا فائدہ نہیں سوچتا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کے اندر اچھائیاں نہیں ہیں، انسان بلند اخلاق کا حامل بھی ہوتا ہے، عادل اور منصف بھی ہوتا ہے، مطیع و منقاد بھی ہوتا ہے نیز اس کے اندراور بہت سی دوسری خوبیاں بھی ہوتی ہیں، مگر آج ہم گفتگو کر رہے ہیں ان انسانوں کے تعلق سے جو انسان تو بے شک ہیں لیکن انسان ہو کر بھی انسانوں کی اور ان کی خدمات کی قدر نہیں کرتے ہیں،جو خود تو کچھ اچھا نہیں کرتے ہیں لیکن اگر کوئی اچھا کرتا ہے تو یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر اُن اچھا کرنے والوں کے تئیں رقابت اور حسد کا دھواں سلگ رہا ہوتا ہے، جو دوسروں کی اچھائیوں کو برداشت نہیں کرتے ہیں، اور اگر کسی طرح برداشت کر بھی لیں تو کھلے دل سے ان کا اعتراف نہیں کرتے اور نہ ہی اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ ان کے کاموں میں نکتہ چینی اور تنقید ہی کو مقدم رکھتے ہیں، ان کی نگاہ صرف اسی چیز پر جا کر ٹکتی ہے جہاں ذرا سی خامی یا کمی رہ جاتی ہے بالکل اس مکھی کی طرح جو تمام اچھی چیزوں کو چھوڑ کر سب سے پہلے گندگی ہی کی طرف اپنا رخ کرتی ہے، یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو صرف اسی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب اور کہاں موقع ملے کہ میں کسی کے سامنے، کسی کے مضمون پر یا کسی کی باتوں پر تنقید کر دوں یا اس میں کچھ خامیاں نکال کر لوگوں پر اپنی صلاحیت کی دھاک بٹھا دوں۔
میں ایسے چند لوگوں کو بہت قریب سے جانتا ہوں جن کا پیشہ ہی یہی ہے اور وہ اسی چیز کا کاروبار کرتے ہیں، یقیناً آپ بھی کچھ ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ انسان کسی کے بھی کاموں کا کھلے دل سے اعتراف کرے، اچھا کرنے والوں کا حوصلہ بڑھائے، اپنی ذات یا مال سے آگے بڑھ کر ایسے لوگوں کی مدد کرے اور ان کے قدم سے قدم ملاکر چلنے کی کوشش کرے اور اگر کہیں کوئی قابلِ اعتراض چیز نظر بھی آئے تو اسے نظر انداز کر دینا چاہئے یا پیار اور محبت کی زبان میں اس غلطی کی نشاندہی کر دے یا اسے مزید بہتر بنانے کا مشورہ دے دے یا خود ہی بتا دے کہ یہ اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا، لیکن آج کل یہ چیز ہمارے معاشرے سے بالکل ختم ہونے کی دہلیز پر ہے،ہمارے سماج میں تنقید اور نکتہ چینی کرنے والے تو بہت ہیں لیکن غلطی کی اصلاح کیسے کی جائے یہ بتانے والے دور دور تک نظر نہیں آتے ، جبکہ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے ، بالکل اس طرح کہ ایک ایسا بندہ جسے کچھ نہ آتا ہو لیکن پھر بھی وہ رب کے حضور رکوع و سجدے کرتا ہے تو اللہ یہ نہیں کہتا کہ تو نے کچھ نہیں پڑھا اس لئے تیری نماز قبول نہیں کی جائے گی، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر توجہ نہیں دیتا، کیوں؟ کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس کا آغاز ہے، دھیرے دھیرے سیکھ جائے گا۔
اگر ہم خود کچھ نہیں کرتے ہیں تو دوسروں کی خامیوں یا کوتاہیوں پر نگاہ نہ رکھیں، خاموشی کو لازم پکڑیں کہ یہ بھی ایک اچھی چیز ہے اور حدیث رسول کی روشنی میں خاموشی میں ہی نجات ہے خود انسان کی اپنی ذات کے لئے بھی فائدے مند ہے اور سماج کے لئے بھی، جوانسان کچھ اچھا کر رہا ہے اسے کرنے دیں،خامیوں یا کمیوں پر نگاہ ٹکا کر نہ رکھیں ہاں اگر واقعی کوئی نمایاں غلطی ہے، کوئی ایسی بات ہے جس سے انسان کے عقیدے پر، اس کی ذات پر، اس کے ایمان پر، اس کے وطن پر، اس کے دین پر یا اس کے اخلاق پر حرف آسکتا ہے، دین کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو آپ ٹوکیں اور ضرور ٹوکیں، بالکل اعتراض کریں، اس غلطی پر اسے ضرور متنبہ کریںمگر پیار، محبت اور نرمی کے ساتھ، آپ کے رویے یا الفاظ سے ایسا نہ لگے کہ آپ اسے سمجھانے کی بجائے ڈانٹنے کا کام کر رہے ہیں لیکن اگر لفظی غلطی ہو، جملے اور مفہوم پر فرق نہ آتا ہو تو اپنی زبان اور قلم کو کنٹرول میں رکھیں، جو کر رہا ہے اسے اپنا کام کرنے دیں، ورنہ میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ کتنی ہی صلاحیتیں صرف اس وجہ سے برباد ہو گئیں کہ دوسروں کے بے جا اعتراضات نے انہیں دلبرداشتہ کرنا شروع کر دیا تھا، کتنی جانیں صرف اس وجہ سے ہلاک ہو گئیں کہ اس کی کلاس یا سماج کے لوگ اسے کسی چیز کا طعنہ دیتے ہیں، اسے غلط ناموں یا القاب سے پکارتے تھے۔
یاد رکھیں کہ ہم اگر کسی کے کام پر اس کی تعریف نہیں کر سکتے ہیں تو ہمیں اس کے کام پر اعتراض کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔کسی کا مضمون پڑھنے، کام دیکھنے اور بات سننے کے بعد اگر ضمیر گوارا کرے تو قبول کر لیں، ہضم کر سکتے ہوں تو کر لیں ورنہ ڈکار لے کر بلا وجہ کسی کو ڈرانے کی کوشش نہ کریں۔ بس بات اتنی سی ہے کہ : ’’کچھ خود نہیں کرتے تو چپ کیوں نہیں رہتے‘‘۔
٭٭٭