-
کسی معین کافر کو جہنمی کہنا ان دنوں سوشل میڈیا پر گاہے بگاہے یہ چیز نظر آتی ہے کہ لوگ کسی بھی ملحد یا بڑے مجرم اور ظالم کافر کی وفات پر اظہارِ خوشی کے ساتھ ساتھ اسے تعیین کے ساتھ جہنمی بھی قرار دیتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے، اس سلسلے میں چند باتیں یاد رکھنا ضروری ہے:
اول: کسی بھی غیر مسلم کافر کو کافر کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک کہ یقینی ذرائع سے اس کا مسلمان ہونا معلوم نہ ہوا ہو، چنانچہ یہود ونصاریٰ اور مشرکین وملحدین میں سے جو بھی وفات پائے گا وہ اس کی ظاہری حالت کے مطابق کافر ہی سمجھا جائے گا اور اس پر دنیا میں کافروں کے احکام مرتب ہوں گے۔
دوم: کسی بھی معین مسلمان کو اس وقت تک کافر نہیں کہا جا سکتا ہے جب تک کہ اس کے اندر تکفیر کے تمام شرائط نہ پائے جائیں اور تمام موانع معدوم نہ ہوں۔
سوم: کوئی ایسا شخص جو اپنے آپ کو مسلم تو کہتا ہو لیکن اسلامی شریعت، مسلمات دینیہ، رسول اللہﷺاور دیگر شعائرِ اسلام پر اعتراض اور نکتہ چینی کرتا ہو یا ان میں سے کسی چیز کا انکار اور استہزاء وتمسخر کرتا ہو تو اسے کافر کہنے اور اس کی موت پر خوش ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ طارق فتح کا معاملہ ہے، اسی طرح مسلم گھرانے میں پیدا ہونے والا شخص جو خود کو ملحد کہتا ہو اس کی تکفیر میں بھی تامل کی کوئی گنجائش نہیں ہے جیسا کہ نغمہ نگار ومنظر نویس جاوید اختر کا حال ہے۔
چہارم: جس طرح مطلق طور پر تمام صحابہ اور مومنین کو جنت کا مستحق قرار دینا چاہیے اسی طرح مطلق طور پر تمام کفار ومشرکین اور ملحدین کو جہنم کا مستحق قرار دینا چاہیے، چنانچہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہر کافر جہنمی ہے اور ہر مومن جنتی ہے لیکن بلا دلیل تعیین ممنوع ہے۔
پنجم: جس طرح کسی خاص مسلمان کے تعلق سے بغیر کسی دلیل کے جنت کی گواہی نہیں دی جا سکتی ہے اسی طرح کسی خاص کافر کے تعلق سے بھی بغیر کسی خاص دلیل کے جہنم کی گواہی نہیں دی جا سکتی ہے، چنانچہ جن لوگوں کے تعلق سے رسول اللہ ﷺ نے تعیین کے ساتھ جنت کی گواہی دی ہے صرف انہی کے تعلق سے معین طور پر گواہی دی جائے گی، ان کے علاوہ کسی اور مسلمان کے زہد و عبادت اور صلاح و تقویٰ کو دیکھ کر ان کے تعلق سے جنت کی گواہی نہیں دی جا سکتی خواہ وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو، مثال کے طور پر عشرۂ مبشرہ، بلال، ابن مسعود، حسن، حسین، ثابت بن قیس، اہل بدر اور اہلِ بیعت الرضوان میں سے ہر شخص کے لیے جنت کی گواہی دی جا سکتی ہے کیونکہ تعیین کے ساتھ ان کے تعلق سے دلائل موجود ہیں، جبکہ ان کے علاوہ جن کے تعلق سے دلائل موجود نہیں ہیں گواہی نہیں دی جا سکتی ہے، اسی طرح کا معاملہ بقیہ مومنین کا ہے۔
نیز جن کفار کے تعلق سے تخصیص کے ساتھ کتاب وسنت کے اندر دلائل موجود ہیں کہ فلاں فلاں جہنمی ہے صرف انہی کے بارے میں تعیین کے ساتھ جہنم کی گواہی دینا جائز ہے، مثال کے طور پر فرعون، نمرود، قارون، ہامان، ابو لہب، ابو جہل، ابو طالب اور عمرو بن لحی وغیرہم جن کے تعلق سے نصوص وارد ہیں،ان کے علاوہ دیگر کفار ومشرکین میں سے کسی بھی شخص کے تعلق سے تعیین کے ساتھ گواہی دینا صحیح نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اس مسئلے میں ائمۂ سلف سے صراحت کے ساتھ کوئی بات منقول نہیں ہے کہ کسی’’کافر اصلی‘‘کو تعیین کے ساتھ جہنمی کہا جا سکتا ہے یا نہیں! البتہ اہل السنہ کا ایک عام قاعدہ ہے کہ:’’لا نشهد لمعيَّنٍ بجَنَّةٍ ولا نارٍ إلَّا بدَليلٍ خاصٍّ‘‘ ’’ہم خاص دلیل کے بغیر کسی معین شخص کے تعلق سے جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دیتے ہیں‘‘ [مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ:۳۵؍۶۸]
نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے بعد کے علماء نیز بیشتر معاصر علماء اس بات کے قائل ہیں کہ بنا خاص دلیل کے تعیین کے ساتھ کسی کافر کو جہنمی نہیں کہا جا سکتا ہے، جن میں شیخ سلیمان بن سحمان نجدی، سلیمان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب، حمد بن ناصر آل معمر، امام البانی، ابن باز، ابن عثیمین، سعودی فتویٰ کمیٹی، ابن جبرین، صالح الفوزان، عبد الرحمن البراک، صالح العصیمی اور ناصر العقل وغیرہم ہیں۔
امام ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ رہی بات کافر ہونے کی گواہی دینے کی تو وہ کافر شخص جو علانیہ طور پر کفر کا ارتکاب کرتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے تودنیاوی اعتبار سے اس کے تعلق سے ہم گواہی دیں گے کہ وہ کافر ہے اور کفر پر مرا ہے جب تک کہ اس کی طرف سے توبہ کا ظہور نہ ہوا ہو، لیکن جہنم کی گواہی نہیں دیں گے کیونکہ یہ غیبی عمل ہے، ہو سکتا ہے آخری لمحے میں اس نے اسلام قبول کر لیا ہو اور ہمیں علم نہ ہوا ہو، لیکن کیا اگر ہم گواہی نہ دیں تو اسے کوئی فائدہ ہوگا اور وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا؟ ہر گز نہیں اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اگر وہ جہنمی ہے تو جہنمی ہی رہے گا خواہ ہم گواہی دیں یا نہ دیں، اس لیے کوئی فائدہ نہیں کہ ہم کہیں کہ وہ جہنم میں ہے یا جہنم میں نہیں ہے، دنیاوی اعتبار سے ہم حکم لگائیں کہ وہ کافر ہے حتیٰ کہ اگر کہا جائے کہ وہ اچھے کام کیا کرتا تھا اور ایسا ایسا کرتا تھا تب بھی، خاص طور سے جب وہ یہ سب دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کے نام پر کرتا ہو…اور جب ہم کہیں گے کہ وہ کفر پر مرا ہے تو اس کے لیے دعائے رحمت نہیں کریں گے اور نہ اس کے حق میں استغفار کریں گے اور یہی کافی ہے، لیکن یہ نہیں کہیں گے کہ وہ جہنم میں ہے یا جہنم کے علاوہ کہیں اور ہے، یہی اہل السنہ والجماعہ کا منہج رہا ہے کہ وہ کسی معین شخص کے لیے جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دیتے ہیں الا یہ کہ خود رسول اللہ ﷺنے گواہی دی ہو‘‘۔(لقاء الباب المفتوح کیسٹ نمبر:۱۶۵)
اس موقف پر ایک اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ کسی معین مومن کو جنتی یا جہنمی قرار دینے سے ممانعت کی وجہ اس کے حق میں دونوں طرح کے احتمالات کا پایا جانا ہے اس طور پر کہ اچھے اعمال اور مغفرت ورحمت الہٰی کے نتیجے میں وہ جنت میں داخل ہو سکتا ہے اور برے اعمال اور خفیہ معاصی کی بنیاد پر جہنم میں بھی داخل ہو سکتا ہے، جبکہ کافر کا معاملہ تو بالکل واضح ہے کہ وہ کسی بھی طور پر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا! پھر اس کے حق میں جہنم کی گواہی دینے سے ممانعت کا کیا فائدہ؟ کیا وہ بھی جنت جا سکتا ہے؟
اس کا جواب کئی طریقے سے دیا جا سکتاہے:
اول: کسی کافر کو معین طور پر جہنمی قرار دینے سے ممانعت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ جنتی ہے یا اس کے جنت میں داخل ہونے کا احتمال موجود ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے، دنیاوی اعتبار سے ظاہری احوال کو دیکھتے ہوئے کافر کو کافر کہنا ہمارا حق ہے لیکن آخرت میں اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا یہ اللہ کا حق ہے لہٰذا اگر ہم اللہ کے حق میں دخل اندازی کریں گے تو یہ’’ تألی علی اللہ ‘‘کے زمرے میں داخل ہوگا، ہاں مطلق طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہر کافر جہنمی ہے جیسا کہ قرآن وحدیث کے دلائل سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے۔
دوم: اس کا تعلق غیبیات سے ہے جس کا علم صرف اللہ کو ہے۔
سوم: کافر کے حق میں بھی یہ احتمال موجود ہے کہ آخری لمحے میں اس نے اسلام قبول کر لیا ہو اور ہمیں اس کا علم نہ ہوا ہو۔
چہارم: بہت سارے کفار ومشرکین اسلام قبول کر لیتے ہیں لیکن معاشرے کے خوف سے اس کا اعلان نہیں کرتے ہیں اور چھپ چھپ کر عبادات انجام دیتے ہیں، جبکہ ایسے لوگوں کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہوتا ہے، جیسا کہ آج کل سوشل میڈیا پر آ کر بہت سارے لوگ اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ میں نے کئی سال پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسی وقت سے چھپ چھپ کر نماز ادا کرتا رہا ہوں لیکن گھر والوں کو بتانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ کسی معین کافر کو بلا دلیل جہنمی قرار دینے سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ ایک تو یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے اور اقرب الی الصواب ممانعت والی بات معلوم ہوتی ہے، دوسرا احتیاط کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اس طرح کے سنگین مسائل میں خاموشی برتی جائے، نیز اس سے کسی قسم کا کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ بھی منسلک نہیں ہے کہ جس کے حصول کے ارادے سے ایسا کیا جائے۔ واللہ اعلم باالصواب