Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عرفہ کا روزہ ذی الحجہ کی نو(۹) تاریخ کے ساتھ خاص ہے

    بعض حضرات کا کہنا ہے کہ عرفہ کے روزے کا جو حکم دیا گیا اس کا ذی الحجہ کی نوتاریخ سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ جس دن حجاج کرام عرفہ میں وقوف کریں گے ، اسی دن ساری دنیا کے لوگ روزہ رکھیں گے۔
    عرض ہے کہ یہ بات محل نظر ہے کیونکہ قرآن کے مطابق عرفہ صرف نو تاریخ کے ساتھ خاص ہے۔
    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَالْفَجْرِ۔ وَلَيَالٍ عَشْرٍ۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ}
    ’’قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی‘‘ ( جوناگڈھی)
    ’’فجر کی قسم ، اور دس راتوں کی ،اور جفت اور طاق کی‘‘ (جالندھری)
    ’’قسم ہے فجر کی،اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی‘‘ (مودودی)
    ’’اس صبح کی قسم ، اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی‘‘ (احمد رضا) [الفجر:۱۔۳]
    مذکورہ آیت میں وَالْوَتْرِ کا مطلب طاق ہے اور اس سے مراد یوم عرفہ ہے، جیساکہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
    ملاحظہ ہو:
    امام احمد رحمہ اللہ (المتوفی:۲۴۱)نے کہا:
    حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنِي خَيْرُ بْنُ نُعَيْمٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’ إِنَّ الْعَشْرَ عَشْرُ الْأَضْحَي، وَالْوَتْرَ يَوْمُ عَرَفَةَ، وَالشَّفْعَ يَوْمُ النَّحْرِ‘‘
    [مسند أحمد:۲۲؍۳۸۹، رقم:۱۴۵۱۱، واخرجہ ایضا النسائی فی السنن الکبریٰ:۴؍۱۹۴ و :۱۰؍۳۳۴ و: ۱۰؍ ۳۳۵، و الطبری فی تفسیرہ:۲۴؍۳۹۷ والحاکم فی المستدرک علی الصحیحین:۴؍۲۴۵ وصححہ ووافقہ الذھبی ، و البیھقی فی شعب الإیمان:۵؍۳۰۴ و فضائل الأوقات: ص:۳۴۰ و البزار کما فی کشف الأستار عن زوائد البزار:۳؍۸۱ و الشجری فی ترتیب الأمالی الخمیسیۃ :۲؍۷۸ کلھم من طریق زیدبن الحباب بہ]
    اس روایت کے سارے رجال ثقہ ہیں ۔
    امام ہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۰۷) نے کہا:
    ’’رواه البزار وأحمد ورجالهما رجال الصحيح غير عياش بن عقبة وهو ثقة‘‘
    [مجمع الزوائد للہیثمی:۷؍۴۵]
    اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے صحیح کہا ہے۔
    امام ابو جعفر النحاس أحمد بن محمد (المتوفی:۳۳۸ہـ) دیکھئے: [تفسیر القرطبی:۲۰؍۴۰ ، البحر المحیط فی التفسیر: ۱۰؍۴۷۰]
    امام حاکم رحمہ اللہ (المتوفی:۴۰۵)، دیکھئے: [المستدرک علی الصحیحین للحاکم:۴؍۲۴۵]
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸)، دیکھئے: [تعلیق علی المستدرک حوالہ سابق]
    امام ابن رجب رحمہ اللہ (المتوفی:۷۹۵)، دیکھئے: [تفسیر ابن رجب الحنبلی:۲؍۵۶۲، و:لطائف المعارف لابن رجب: ص:۲۶۸]
    لیکن مذکورہ سند میں ایک کمزوری یہ ہے کہ اس میں ابوالزبیرمدلس ہے اورانہوں نے عن سے روایت کیا ہے۔
    لیکن یہی بات ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بسندصحیح منقول ہے اورظن غالب یہی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ماخذ حدیث رسول ہی ہے ، لہٰذا اس سے مذکورہ روایت کی تائید ہوجاتی ہے ۔
    ملاحظہ ہو ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت :
    امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۰)نے کہا:
    حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ، قَالَ: ثنا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، قَالَ: ثنا زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَي، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ’’الشَّفْعُ: يَوْمُ النَّحْرِ، وَالْوَتْرُ: يَوْمُ عَرَفَةَ‘‘
    [تفسیر الطبری = جامع البیان ط ہجر :۲۴؍۳۴۹]
    یہ سند بالکل صحیح ہے اس میں کوئی کمزوری نہیں ، اس کے سارے رواۃ کتب ستہ کے رواۃ ہیں اورثقہ ہیں، مختصر تعارف ملاحظہ ہو:
    زرارۃ بن اوفی العامری الحرشی۔
    امام ابن سعد رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۰)نے کہا:
    ’’كان ثِقَةً‘‘ [الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ط العلمیۃ:۷؍۱۱۰]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲)نے کہا:
    ’’ثقة عابد‘‘ [تقریب التہذیب لابن حجر:۱؍۲۱۵]
    عوف بن ابی جمیلۃ العبدی الہجری۔
    امام احمد رحمہ اللہ (المتوفی:۲۴۱)نے کہا:
    ’’ثِقَة صَالح الحَدِيث ‘‘ [العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد روایۃ ابنہ عبد اللّٰہ:۱؍۴۱۰]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲)نے کہا:
    ’’ثقۃ رمی بالقدر‘‘ [تقریب التہذیب لابن حجر:۱؍۳۴۹]
    اسماعیل بن ابراہیم الاسدی ، المعروف بابن علیۃ۔
    امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۹۸)نے کہا:
    ’’ثقۃ‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۲؍۱۵۳ وسندہ صحیح]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲)نے کہا:
    ’’ثقۃ حافظ‘‘ [تقریب التہذیب لابن حجر:۱؍۱۰۵]
    یعقوب بن إبراہیم بن کثیر، العبدی القیسی۔
    خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۶۳)نے کہا:
    ’’کان ثقۃ حافظًا متقنًا‘‘[تاریخ بغداد للخطیب البغدادی:۱۶؍۴۰۴]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲)نے کہا:
    ’’ثقۃ ‘‘[تقریب التہذیب لابن حجر:۱؍۵۱۹]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو صحیح قراردیا ہے ، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
    ’’وأخرج عن ابن عباس من طريق صحيحة أنه قال: الوتر يوم عرفة والشفع يوم الذبح۔ وفي رواية أيام الذبح۔‘‘
    [فتح الباری لابن حجر:۶؍۳۶۵]
    تنبیہ :
    وَترکی تفسیرکے سلسلے میں دیگر روایات بھی منقول ہیں مگر میرے ناقص علم کے مطابق ان میں سے ایک بھی بسند صحیح ثابت نہیں ، جیساکہ متعدد محدثین نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
    ابو حیان الاندلسی (المتوفی:۷۴۵ـ) کہتے ہیں:
    وَاخْتَارَهُ النَّحَّاسُ۔ وَقَالَ حَدِيثُ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ: هُوَ الَّذِي صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَصَحُّ إِسْنَادًا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ۔
    [ البحر المحیط فی التفسیر :۱۰؍۴۷۰]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲)نے کہا:
    وقد أخرج الترمذي من حديث عمران بن حصين أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم سئل عن الشفع والوتر فقال:’’هي الصلاة، بعضها شفع، وبعضها وتر‘‘ورجاله ثقات إلا أن فيه راويا مبهما ، وقد أخرجه الحاكم من هذا الوجه فسقط من روايته المبهم فاغتر فصححه۔
    [فتح الباری لابن حجر:۸؍۷۰۲]
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن کی روشنی میں عرفہ نو تاریخ کے ساتھ خاص ہے ، صرف یہی تفسیر احادیث و آثار سے بسندصحیح ثابت ہے۔
    امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    وقوله: (والشفع والوتر) قد تقدم فى هذا الحديث أن الوتر يوم عرفة، لكونه التاسع، وأن الشفع يوم النحر لكونه العاشر۔ وقاله ابن عباس، وعكرمة، والضحاك أيضا۔
    [تفسیر ابن کثیر ت سلامۃ :۸؍۳۹۱]
    اگرکوئی کہے کہ ان دلائل سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرفہ نوتاریخ کو ہے لیکن عرفہ کا روزہ بھی نو تاریخ کو یہ صراحت اس میں نہیں ۔
    تو عرض ہے کا روزے کا حکم عرفہ کے دن ہے اورعرفہ کا دن قرآنی آیت کے مطابق جفت تاریخ میں ممکن ہی نہیں ۔
    لہٰذا جب جفت تاریخ میں عرفہ ممکن ہی نہیں ، تو پھر جفت تاریخ میں ہم عرفہ کا روزہ بھی نہیں رہ سکتے ۔
    واضح رہے کہ انڈیا وغیرہ میں حجاج کے وقوف کی رعایت کرتے ہوئے ، عرفہ کا جو رزہ رکھا جاتا ہے وہ بہر صورت انڈیا ہی کے دنوں میں رکھا جاتا ہے نہ کہ مکے والے دن کے حساب سے ، اس لیے کہ مکہ والے دن اورانڈیا والے دن میں سورج کے طلوع آفتاب میں فرق ہے یعنی سحری وافطار میں ہم اپنے یہاں کے دن کا اعتبار کرتے اوراپنے یہاں کا یہ دن طاق نہیں جفت ہوتا ہے ۔
    اورقرآن کے مطابق عرفہ کا تعلق صرف طاق تاریخ کے ساتھ ہے، لہٰذا جفت تاریخ میں رکھا گیا روزہ عرفہ کا روزہ نہیں کہلایا جاسکتا۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings