-
تبصرہ بر کتاب’’چاردن قربانی :کتاب و سنت کی روشنی میں ‘‘ (شیخ ابوالفوزان کفایت اللہ سنابلی) چار دن قربانی کتاب وسنت کی روشنی میں
کتاب کا نام : چار دن قربانی کتاب وسنت کی روشنی میں (اضافہ شدہ ایڈیشن) (سابقہ ایڈیشن کی جانب اشارہ ص :۲۵۴ پر ہے)
مؤلف : ابو الفوزان کفایت اللہ سنابلی
ناشر : اسلامک انفارمیشن سینٹر ، ممبئی
اشاعت :۲۰۱۹
صفحات:۳۴۶
تعداد : ایک ہزار
قیمت : سو روپے
کتاب ابواب وفصول پر مرتب ہے ۔ کل تین ابواب اور ایک ضمیمہ ہے ۔
باب اول : چار دن تک قربانی کی مشروعیت ۔
اس میں کل پانچ فصلیں ہیں :
اول : چار دن تک قربانی کی مشروعیت پر قرآنی آیات (یہ فصل ڈاکٹر مفضل مدنی کے ایک فتویٰ سے منقول ہے ۔ ص:۲۸ ۔ اسی طرح ص:۱۳۷۔۱۳۸ پر بھی آپ کا مضمون نقل کیا گیا ہے)
دوم : چار دن قربانی کی مشروعیت پر احادیث صحیحہ
سوم: چار دن تک قربانی کی مشروعیت پر اقوال صحابہ
چہارم: چار دن قربانی پر قیاس صحیح
پنجم : چار دن قربانی کی مشروعیت پر دلالت لغت ۔
باب دوم : چار دن قربانی سے متعلق اقوالِ سلف صالحین ۔
اس میں تین فصلیں ہیں :
اول : چار دن قربانی سے متعلق اقوالِ تابعین
دوم : چار دن قربانی اور ائمہ اربعہ
سوم : چار دن قربانی سے متعلق اقوال محدثین ومحققین
باب سوم : صرف تین دن قربانی کے موقف کی حقیقت
اس میں کل تین فصلیں ہیں :
اول : صرف تین دن قربانی کے موقف پر سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں
دوم : تین دن قربانی سے متعلق اقوال صحابہ پر بحث
سوم : اجماع کا غلط دعویٰ اور جمہور کی طرف غلط انتساب
ضمیمہ : دعائے قربانی’’ إنی وجہت وجہی للذی…‘‘ والی حدیث کی تحقیق ۔
عمومی بات :
حاشیہ میں کتاب کی جلد وصفحات کے نمبرات عموماً عربی میں ہیں ۔
سنابلی صاحب رواۃ حدیث کا کبھی مختصراً تو کبھی مفصلا ًتعارف کراتے ہیں ، اختلاف کا جواب بھی دیتے ہیں۔ مثلاً :
۱۔ عبد الرحمن بن ابی حسین نوفلی پر ص:۴۹ سے ۷۶ تک مفصل گفتگو کی ہے ۔
۲۔ معاویہ صدفی اور امام زہری سے ان کی روایت پر ص:۱۰۶ سے ۱۲۰ تک گفتگو کی ہے ۔
لیکن امام رامہرمزی کے والد کے حالات آپ کو نہیں ملے ۔ ص:۲۲۱
سنابلی صاحب نے اپنی کتابوں کا خوب حوالہ دیا ہے۔ دیکھیں :ص: ۳۱،۴۸،۶۱، ۷۷،۹۷، ۱۲۹،۱۶۹، ۱۸۰، ۱۸۶،۲۰۰،۲۴۹،۳۱۳،۳۳۷
محل شاہد کو بارز BOLD کیاگیا ہے ۔دیکھیں :ص:
۳۹،۴۳،۴۷،۵۷،۵۸،۱۱۳،۱۱۸،۱۶۳،۱۶۴،۱۶۵،۱۷۰،۱۸۱،۲۰۳،۲۰۴،۲۵۳،۲۵۶،۲۵۷،۳۱۱
اہم اقتباسات :
۱۔ جماعت المسلمین (فرقہ مسعودیہ) کے امیر محمد اشتیاق کے بارے میں سنابلی صاحب لکھتے ہیں :’’یہ محمد اشتیاق صاحب کی نری کم علمی ہے ، کیونکہ اس راوی کا تذکرہ تہذیب میں ہے ہی نہیں ، اشتیاق صاحب نے غفلت کی وجہ سے یہاں کسی اور راوی کو سمجھ لیا ہے ۔ بہر حال یہ راوی ثقہ ہیں اور ہمارے علم کی حد تک دنیا کے کسی بھی محدث نے ان پر سرے سے کوئی جرح کی ہی نہیں ہے ‘‘۔ ص:۳۵ (ص:۳۴ پر بھی اشتیاق صاحب پر کلام ہے)
۲۔ معترض (مخالف) کے رد میں سنابلی صاحب کا ایک اقتباس ’’اس تفصیل سے نہ صرف اصل صورت حال قارئین کے سامنے آجاتی ہے بلکہ اس طرح کے معترضین کا مبلغِ علم بھی آشکارا ہوجاتا ہے ، ایسے نامعلوم اور جہال کا جواب دینا میری عادت نہیں ہے اور نہ میری طبیعت اسے گوارا کرتی ہے لیکن بعض احباب کے اصرار پر یہ جوابات عرض کردیئے ہیں ‘‘ ۔ ص:۱۷۹
۳۔ سنابلی صاحب کا ایک اہم اقتباس ’’ووٹنگ کرکے کسی راوی کو ثقہ ثابت کرنا یہ عصر حاضر میں بعض الناس کا ایجاد کردہ طریقہ ہے جبکہ اہل فن کا منہج یہ ہے کہ وہ شخصیات کا وزن اور ان کا دور ، اقوال کی نوعیت اور ان کی قوت ، سیاق و سباق اور خصوصی اصطلاحات وغیرہ سب کو سامنے رکھ کر ہی راوی کے ثقہ یا ضعف ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ‘‘۔ ص:۲۴۶
موضوع سے متعلق سنابلی صاحب کے خاص مراجع :
۱۔ انعام اللہ صاحب قاسمی کی کتاب ’’ ایام قربانی ‘‘۔ ص:۲۷،۱۳۸
۲۔ ڈاکٹر مفضل مدنی کا مضمون ؍ فتوی طبع شدہ التوعیہ ستمبر۱۹۹۱۔ص:۲۸،۱۳۷۔۱۳۸
۳۔ ندوی صاحب کی ’’غایۃ التحقیق فی تضحیۃ أیام التشریق‘‘ ۔ ص:۳۹،۴۰،۴۳،۴۸۴۷،۱۱۱۱
۴۔ ندوی صاحب کی کتاب ’’ قصہ ایام قربانی کا‘‘ ۔ ص:۱۵۶،۲۰۱
۵۔ زبیر عالیاوی صاحب کا ایک مضمون ’’ قربانی کے تین دن اور صحابہ کرام کا علمی جائزہ ‘‘ بھی ص:۲۶۲،۲۷۸ پر ملحق ہے ۔
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد (ندیم ظہیر) کا خوب تذکرہ ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سنابلی صاحب نے تراجم کی کتابوں کے ساتھ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتابوں کو بھی بڑی دقت سے پڑھا ہے ۔
دیکھیں :ص :
۳۸،۴۱،۴۴،۴۵،۴۶،۴۹،۵۰،۷۴،۷۵،۷۶،۷۹،۸۰،۹۳،۹۴،۹۶،۱۲۳،۱۲۴،۱۲۷،۱۳۱،۱۳۳،۱۴۴،۱۴۵،
۱۴۶،۱۶۲،۱۶۳،۱۶۴،۱۶۵،۱۶۹،۱۷۲،۱۸۰،۱۸۴،۲۰۱،۲۰۴،۲۱۶،۲۲۷،۲۴۷،۲۴۸،۲۵۱،۲۵۲،۲۵۴،۲۵۵،
۲۵۶،۲۵۸،۲۶۲،۲۶۳،۲۶۵،۲۷۰،۲۷۳،۳۱۱،۳۱۲،
کبار علماء کے آڈیو دروس سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔ ص:۶۱
الزامی اور منطقی جوابات بھی ہیں ۔مثلاً ص:۶۲ اور۷۵ پر ۔
ضعیف حدیث دوسری ضعیف حدیث سے مل کر حسن لغیرہ ہوجاتی ہے ۔ حسن لغیرہ کو علی الاطلاق رد کردینے والا نظریہ عصر حاضر کی بدعت ہے ۔ ص:۱۲۳۔۱۲۴
کفایت اللہ سنابلی صاحب کا ذکر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے ایک فاضل شاگرد کی زبانی ص:۱۳۳
ص :۱۷۲ پر’’امسال(۲۰۱۷) میں ۔۔۔۔‘‘ اس عبارت سے لگتا ہے کہ فاضل مؤلف کو کتاب کی تصنیف ، ترتیب اور تدوین میں دو سال کا عرصہ لگا ۔
مکتبہ شاملہ والوں کی ایک غلطی کی توضیح جس سے حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے شاگرد دھوکہ کھاگئے ، شاملہ والوں نے بعد میں غلطی کی اصلاح کرلی ۔ ص:۱۸۳۔۱۸۴
امام ابن المبارک نے اخیر میں امام ابوحنیفہ سے روایت ترک کر دی تھی ۔ ص:۱۸۹
سنابلی صاحب مثالوں کے ذریعہ اپنی بات سمجھاتے ہیں۔ ص:۱۸۹،۱۹۳،۲۳۰
خلاصۂ کلام بھی ذکر کرتے ہیں ۔ ص:۱۹۴،۲۰۳،۲۱۲،۲۶۱
’’ یہ مخطوطہ اغلاط وتصحیفات سے پر ہے جیسا کہ مقدمہ میں محقق نے شہادت دی ہے اور پوری دنیا میں اس کتاب کے کسی دوسرے مخطوطے کا سراغ نہیں ملتا ‘‘ ۔ ص:۲۴۸
ایک دیوبندی عالم ظہور احمد حسینی نے ’’ تناقضات زبیر علی زئی ‘‘نامی کتاب لکھی ہے ۔ ص:۲۵۲
سنابلی صاحب کا کتاب کے سابقہ ایڈیشن کی جانب اشارہ ص:۲۵۴
ابو بکر غازی پوری کے مجلہ زمزم کا حوالہ ص:۲۵۹
سنن ابن ماجہ کے پانچ قلمی نسخوں کا عکس جمیل لگایا گیا ہے جن سے ابو عیاش زرقی کی تعیین کی گئی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنابلی صاحب مخطوطات پر بھی نظر کرم کرتے ہیں ۔ ص:۳۱۵۔۳۱۹
’’۔۔۔ مرویات کا سب سے بڑا سورس مدینہ ہے‘‘ ص:۳۳۳(انگریزی لفظ)
گزارشات :
سنابلی صاحب نے شبہات ذکر کرکے ان کے جوابات بھی دیئے ہیں ، یہ شبہات کِن کے ہیں ان کی جانب بھی اشارہ کرتے تو بہتر ہوتا ۔
چار دن قربانی سے متعلق اقوال محدثین و محققین میں کسی انڈین عالم کا قول بھی نقل کرتے تو بہتر ہوتا ۔ ص: ۱۴۹۔ ۱۵۲
سنابلی صاحب کی کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رواۃ کے تراجم اور اصول حدیث پر آپ کی اچھی نظر ہے لہذا آپ کو اصول حدیث پر ایک مستقل کتاب ؍ رسالہ ؍مفصل مضمون لکھنا چاہیے ۔ ایک دوسری کتاب ؍ رسالہ ؍ مفصل مضمون تراجم وتاریخ کی کتابوں سے استفادہ پر بھی آنا چاہیے ۔ واللہ الموفق ۔
ممکنہ اضافات :
کتاب میں چند چیزوں کا اضافہ مناسب ہوگا :
۱۔ سبب تالیف ۲۔ مصادر ومراجع کی فہرست ۳۔ اشاریہ اعلام
ملاحظات :
کور پیج کے اندرونی حصہ پر (اسلامک انفارمیشن سینٹر ، ممبئی کا تعارف والا صفحہ) نیچے سے پانچویں لائن میں ’’نیٹ ورک پھیلا دینے ‘‘ میں فاصلہ زیادہ ہوگیا ہے ۔
’’ کما سی أتی ‘‘ ص:۳۱ (صحیح : کما سیأتی)
فاضل مؤلف اپنی کتاب میں اصل مصدر کا حوالہ دیتے ہیں مگر ص:۶۳پر حبیب الرحمن اعظمی صاحب کی بات کا حوالہ آداب الزفاف کے واسطے سے دیا گیا ہے یعنی ان ڈایریکٹ حوالہ ہے ۔
اسی طرح ص:۱۰۹ پر امام بخاری کے قول کا حوالہ ان کی کتاب کے بجائے دیگر مورخین ومحدثین (مقدسی ، مزی ، ابن الملقن ، ہیثمی) کی کتابوں سے نقل کیا گیا ہے ۔
اسی طرح ص:۱۲۲،۱۲۶،۱۵۶ پر بھی اِن ڈایریکٹ حوالہ ہے ۔
ص :۵۲ پر نیچے سے دوسری لائن میں ’’میں ‘‘بھی بین القوسین ہونا چاہئے ۔
ص: ۵۹ پر حاشیہ نمبر دو میں ص کی جگہ س ہوگیا ہے ۔
ص:۶۲پر ’’ابن الملقن نے اپنی کل ستاسی(۸۷)سال کی عمر آٹھویں صدی ہجری میں گزاری ہے ‘‘۔ صحیح ستہتر (۷۷) سال ہے ۔
ص :۷۲ پر دوسری لائن میں ابن حزم کے بعد فاصلہ زیادہ ہوگیا ہے ۔
ص:۱۰۰پر دوسری لائن میں ’’یہ دونوں اساتذہ ہی ثقہ ہیں ‘‘۔ ’’ ہی‘‘زائد محسوس ہو رہا ہے ، یا’’ثقہ‘‘کے بعد ہونا چاہیے ۔
ص :۱۰۰ پر ’’ ثقہ کی زیادت‘‘۔ ثقہ کی زیادتی انسب ہے جیسا کہ اسی صفحہ پر مستعمل ہے ۔ (اسی صفحہ پر دو اور جگہوں پر’’ زیادت‘‘ ہے جہاں زیادتی ہونا چاہیے)
ص :۱۰۵پر ’’ امام زہری مدلس نہیں ہیں ‘‘ ۔ اس مضمون ؍ عنوان میں کوئی حوالہ مذکور نہیں ہے (غالباً اس کے لیے رضا حسن کے مضمون طبع شدہ اہل السنہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے ۔ص:۱۰۶)
ص:۱۱۳پر عربی عبارت میں ’’خاصۃ ما روی عنہ اسحاق بن سلیمان الرازی‘‘جبکہ اردو ترجمہ میں صرف ’’سلیمان الرازی ‘‘ ہے ، یعنی’’ اسحاق ‘‘چھوٹ گیا ہے ۔
ص :۱۱۴ پر’’نہ کے رے کے علاوہ۔۔۔۔‘‘صحیح ’’ نہ کہ ۔۔۔۔‘‘ ہونا چاہئے ۔
ص:۱۱۶۔۱۱۵پر ابن حبان کی المجروحین کی عبارت کا ترجمہ نہیں ہے ۔
ص:۱۳۰ پر نیچے سے چھٹی لائن میں ابن حجر کے بعد فاصلہ زیادہ ہوگیا ہے ۔
ص:۱۳۱پر ’’۔۔۔۔۔استوی کا مفہوم ’’ اسقر ‘‘ لکھا ہوا ہے ‘‘۔ س کے بعد ت چھوٹ گیا ہے یعنی ’’استقر ‘‘ہونا چاہئے ۔
ص:۱۳۱ پر حاشیہ نمبر تین میں …’’ مزید اسی کتاب کا صفحہ نمبر :۱۵۲ دیکھیں ‘‘۔ مطلوبہ صفحہ پر مجھے کوئی ایسی چیز نہیں ملی، البتہ ص:۱۴۹۔۱۵۲ پر چار دن قربانی سے متعلق محدثین ومحققین کے اقوال مذکور ہیں ۔
ص:۱۳۳ پر نیچے سے تیسری لائن میں ’’فی ‘‘ کے بعد ’’ ی‘‘ زائد ہے ۔
ص:۱۶۵پر ’’پیدایش ‘‘۔ ی کی بجائے ہمزہ ہونا چاہئے ۔
ص:۱۷۳،۱۷۵،۱۷۶،۱۷۷،۱۷۸ کے حواشی میں ’’ معترض کی تحریر ‘‘کا مطلب نہیں سمجھ سکا کہ اس سے کس کتاب کی جانب اشارہ ہے ۔
ص:۱۸۱ پر پہلی لائن میں ’’المدائنی ‘‘میں ن اور ی میں فصل ہوگیا ہے ۔
ص:۲۰۴پر ’’ ہشیم بن بشیر الواسطی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے طبقے کے ہیں ‘‘۔ اس عبارت میں’’ مدلس ‘‘کا اضافہ مناسب ہوگا ۔
ص:۲۱۶ پر پانچویں لائن میں ’’ضیف ‘‘ ہے ، ض کے بعد ع چھوٹ گیا ہے ، صحیح ’’ ضعیف ‘‘ہے ۔
ابو الزعراء عبد اللہ بن ہانی ص:۲۱۷۔۲۱۹ لیکن ص:۲۱۸ پر اوپر سے تیسری لائن اور نیچے سے دوسری لائن میں ’’ ہانی بن عبد اللہ‘‘ ہو گیا ہے یعنی قلب ہوگیا ہے ۔
ص :۲۴۰ پر نیچے سے دوسری لائن میں ’’سلمہ بن کھیل ‘‘ ہے ۔’’کہیل ‘‘ ہونا چاہئے جیسا کہ۲۴۱پر دو جگہوں پر ہے ۔
ص:۲۵۴ پر ’’اڈیشن ‘‘ ہے ،’’ ایڈیشن ‘‘ ہونا چاہئے جیسا کہ غلاف پر ہے ۔
ص:۲۷۷ پر ’’ چہ چائیکہ ‘‘۔ ج کی جگہ چ ہو گیا ہے ۔
ص :۲۸۱ پر قربانی کی دعا کے تمام صیغے مسلم کے حوالے سے مرقوم ہیں ، جبکہ بخاری۵۵۵۸میں بھی ’’یسمی ویکبر‘‘ کے الفاظ ہیں ، اور۵۵۶۵میں’’ سمی وکبر ‘‘ہے ۔ ان کی جانب بھی اشارہ مناسب ہوگا ۔
ص :۲۸۲ پر سورہ انعام کی آیت کا لفظی ترجمہ کیا گیا ہے۔’’حنیفا‘‘کا ترجمہ ’’یکسو ہوکر‘‘جملہ کے شروع میں ہونا چاہئے ، تاکہ اردو میں بھی’’ یکسو ہو کر ‘‘قائل کی صفت رہے نہ کہ رب کی ۔
…’’بالخصوص جبکہ ان کے شیخ الشیخ جابر رضی اللہ عنہ بھی مدنی ہیں ‘‘ ۔’’ ص:۳۳۳ شیخ الشیخ ‘‘ کے لفظ سے بادی النظر میں یہ وہم ہوتا ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ ، ابو عیاش کے استاد نہیں بلکہ استاد الاستاد ہیں ، حالانکہ جابر رضی اللہ عنہ ابو عیاش کے استاد ہیں ۔
ص:۳۳۶پر …’’ لیکن ابو عیاش کی رزقی سے تعیین…‘‘۔ نقطہ مؤخر ہو گیا ہے ، یعنی زرقی صحیح ہے ۔
مختلف فیہ امور :
ص:۳۶پر البانی کے کلام میں دوسرا مرسل لغوی ہے یا اصطلاحی ؟؟؟؟؟ (تحقیق طلب)
ص:۴۳ پر ’’ یعتبر بہ‘‘کا ترجمہ ’’ ان کے ذریعے اعتبار کیا جائے گا ‘‘۔ ؟؟؟؟؟
رے ص:۱۰۹،۱۱۰،۱۱۳،۱۱۴،۱۱۵(عربی میں ری ہے تو اردو میں رے کیسے ہوا ؟ قابل تحقیق ہے)
ص:۱۶۵ پر ابو امامہ کے بارے میں مرقوم ہے ’’ہماری نظر میں راجح یہی ہے کہ یہ صحابی نہیں ، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت ان کو حاصل ہے اور یہ بہت بڑے تابعی ہیں ‘‘ ۔
یہ عبارت تھوڑا کھٹک رہی ہے ۔
ص:۲۲۵ پر’’ اس پر محدثین نے مفسر کلام کر رکھا ہے ‘‘۔ ’’مفسر ‘‘ کی جگہ ’’ مفصل ‘‘ زیادہ مناسب ہوگا ۔ ؟؟؟
ص:۲۴۹ پر ’’ روز روشن کی طرح سے ‘‘ ۔
؟؟؟؟ کیا’’ سے ‘‘ کے ساتھ جملہ صحیح ہے؟
’’ چھے ‘‘ ص:۳۰۸،۳۲۰ (صحیح املا کیا ہے)
ص:۳۳۸ پر ’’ دھوکا ‘‘ ؟؟؟؟