-
مکاتب کا ماضی اور حال : کرامت اور تنزلی اسلام کی نشر واشاعت کا پہلا مرکز و محور صفہ نامی چبوترہ جہاں دنیا کے سب سے بڑے امام و مدرس جناب محمد رسول اللہ ﷺکے ذریعہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے علمِ دین سے فیض وکمال حاصل کیا،یہ سلسلہ اپنے آب تاب سے چلتا ہوا اس مرحلے تک پہنچا کہ آج دنیا بھر میں مکاتب ومدارس کی شکل میں اسلامی قلعوں کا ایک غیر محدود جہاں آباد ہے۔
مکاتب دراصل ماں کی گود کے بعد دوسری درس گاہ ہے جہاں ایک معصوم بچہ اپنا خالی و غیرآباد ذہن لے کر پہنچتا ہے اور اپنے فکری شعور کو علم کے نور سے فیض یاب کرکے پوری زندگی اس کے طفیل سے اپنی ذات اور دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے،اس پڑاؤ میں ایک بچہ قرآن وسنت کی تعلیم کے ساتھ زندگی کے تمام اصول وضوابط کو اپنے اساتذہ کے کردار وعمل اور حرکات وسکنات کے ذریعہ دیکھتا و سنتا ہے پھر خود بھی انہی چیزوں کو دہراتا ،سمجھتا ہے کہ کن چیزوں پر داد وتحسین اور کن باتوں پر اسے سرزنش کیا جا رہا ہے گویا سچ اور غلط،حق وناحق کا پیمانہ و معرفت سب سے پہلے بچے کو یہیں سے ملنا شروع ہوتا ہے، پھر اسے پوری زندگی کے لیے ذہن میں قید کر لیتا ہے۔حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا تھا: ’’التعلم فى الصغر كالنقش فى الحجر‘‘ ’’مطلب بچپن کی تعلیم پتھر کی لکیر ہوا کرتی ہے‘‘۔
چنانچہ آج سے قبل جب لوگوں کے یہاں اسبابِ زندگی کی قلت، کھانے پینے کی دشواریاں حد سے زیادہ تھیں، بہت سے لوگ تہی دستی اورافلاس و محتاجی کے سبب فاقہ کرنے پہ مجبور ہوتے تھے ایسے عالم میں بھی ان مکاتب نے عظمتوں کے چراغ کو بلند وعام رکھا،تعلیم وتعلم کے راستے ہر کس و ناکس کے لیے وسیع تر رکھا،ہر مرتبہ و درجات کے بچوں کو یکساں تعلیم دے کر قوم وملت کے آبرو کی حفاظت کی ۔یہی وجہ تھی کہ والدین اپنی دشواری میں ان درس گاہوں کی اہمیت سے واقف تھے اور خلوص کے ساتھ اپنے نونہالوں کو یہاں کی منظم آغوش میں یقین واعتماد کے ساتھ چھوڑ جاتے اور بچہ ہنستے کھیلتے یہاں سے جو بنیادی تعلیم حاصل کرتا وہ مرتے دم تک اس کے وجود پر اثر انداز رہتی جسے وہ چاہ کر بھی خود سے الگ نہیں کر پاتا تھا،یہاں سے ملنے والی غذا پوری زندگی انسان کی شخصیت کو تقویت بخشتی تھی،آج بھی ان مکاتب کی روشن مثالیں کچھ جوان و بزرگ کی صورت میں ہر گاؤں و محلے میں مل ہی جائیں گے جو بوقت ضرورت نڈر ہو کر، بلا خوف منبرِ رسول ﷺ پر کھڑے ہوکر خطبۂ جمعہ،خطبہ نکاح اور جنازہ تک پڑھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔
دراصل مکاتب انسان کو اس کی پہچان،اس کے وجود کو کتاب وسنت اور نیکی کے قالب میں ڈھالتے ہیں،انہیں درست ضابطۂ حیات عطا کرتے ہیں،یہیں سے ایک بچے کو اس کی زندگی اور اس کی حقیقت کا علم ہوتا ہے،دین کی بنیادی باتیں،عبادت کے طریقے،حق و ناحق کے درمیان فرق،صدق پر حوصلہ افزائی،کذب پر ملامت و تنبیہ اورمحبت و نفرت کا ادراک یہیں سے بچوں میں آتا ہے۔
اردو ،عربی،ہندی اورانگلش کے بنیادی قواعد، اپنا نام لکھنے سے ہوتے ہوئے اشیاء کے ناموں اور ان کے عمل و فوائد،رشتے ناتے ان کا ادب واحترام وغیرہ سب کچھ یہیں سے پڑھ کر بچہ شعور وآگہی اور معرفت کو پہنچتا ہے۔
گاؤں اور دیہات میں جہاں لوگوں کی تنگ نظری اور بے رغبتی حد سے زیادہ ہے وہاں ہمیشہ کچھ مخلص لوگوں نے اصحابِ صفہ کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے مسجدوں کے صحن یا بوسیدہ چھپر کو ہی دین کی بنیادی تعلیم کے لیے اپنے خلوص و جذبات سے سجا کر کچھ بھاری معدے والوں کو نیکی و خلوص کا پیغام دیا ہے،اور انہی مخلصین کے حوصلوں کا ثمرہ ہے کہ آج بہت سے لوگ،حافظ وقاری اورعلماء ومشائخ وغیرہ کی صورت میںدنیا کے مختلف عہدوں ومناصب پر فائز ہیں اور بہت سے اس روایت سے جڑنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔
ماضی میں مکاتب کی رونق کا عالم ہی کچھ اور تھا،لوگوں کو انسیت اور لگاؤ اس حد تک تھا کہ مکتب کا مدرِّس بچے کو جتنی مرضی چاہے سزائیں دے لے مگر بچے کے اندر نہ اتنی ہمت تھی کہ وہ گھر پہ استاذ کے خلاف منہ کھولے،نہ والدین کی زباں پہ کسی استاذ کے لیے حرفِ شکوہ ہوتا، انہیں یقین تھا کہ استاذ بغیر جرم کے اس کے بچے کو زد و کوب یا سرزنش نہیں کر سکتا،لیکن آج کسی کی مجال ہے جو ماضی کے طرز پر عمل کر سکے؟ آج کے سماج میں ایسا کرنا ایک استاذ کے لیے خود کو لنگڑا لولا کرنے کے مترادف ہے۔
ایسی کتنی ہی واردات کی صورت میں ہم نے دیکھا اور سنا ہے کہ ایک استاذ کو پس دیوارِ زنداں کر دیا گیا،کہیں کہیں تو استاذ کی ہڈی پسلی برابر کر دی گئی،جس سے بڑھ کر رذالت و پستی کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی۔
ماضی میں مکاتب ومدارس کے اساتذہ سروں پہ بٹھائے جاتے تھے،گھروں میں باری باری لوگ انہیں دو دو وقت بہتر سے بہتر کھانا، محبت و عزت اور اپنا حق سمجھ کر کھلاتے تھے مگر دھیرے دھیرے لوگ چالاک ہونے لگے،انہیں احساس ہونے لگا کہ مولوی کو کھلانے سے ان کا کافی نقصان ہو رہا ہے،دلوں کی تنگی اس قدر بڑھی کہ لوگوں نے صدقات وخیرات تک کو جو نیکیوں میں سبقت اور اپنا حق سمجھ کر مدرسے کو دیا کرتے تھے اس سے بھی اپنا ہاتھ آہستہ آہستہ سمیٹنے لگے ،چنانچہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اللہ نے لوگوں کے اندر سے خلوص و محبت اور کارِ خیر کا جذبہ ہی ختم کر دیا، اب تو یہ شوق وعاطفہ خیال و خواب ہوکر رہ گیا لیکن آج بھی کہیں کہیں یہ رجحان برکت کے طور پر ضرور دکھائی دیتا ہے۔
بچی ہوئی ہے محبت کی آبرو ہم سے
ہم اس زمانے میں اگلے زمانے والے ہیں
لوگوں کا رجحان مکاتب سے سمٹ کر دائروں میں آگیا اور وہ جگہ خالص انگلش وہندی میڈیم کے پہلو میں چلی گئی، وہاں کے ناز و نخرے زمینی سطح سے اوپر والوں کے ساتھ ساتھ زمینوں سے جڑے ہوئے لوگوں کو بھی مبہوت کرنے لگے پھر کیا تھا درد کی زمینوں والے بھی دنیا کی لالچ میں اپنے بچوں کو انگریز بنانے کی دوڑ میں شامل ہو گئے،انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ ان کے بچوں کو جدید تعلیم کی آڑ میں اللہ اور اس کے رسول سے دور کیا جارہا ہے،دین کی باتوں کو بے بنیاد اور فرضی بتایا جا رہا ہے،وحدہ لاشریک کے لطف وعنایات کو کسی اور کی کاریگری سمجھانے کی کوشش ہو رہی ہے،انہیں دین وایمان سے دور کرکے انسانیت کا پاٹھ پڑھایا جا رہا ہے،تعلیم کی ابتدا آرتی اور بتوں کے سامنے ماتھا ٹیک یا کینڈل جلا کر کیا جا رہا ہے۔ان سارے بے بنیاد عقائداور اسلامی اصولوں کی بے حرمتی نے مسلمانوں کی غیرت پہ ذرا بھی اثر نہیں ڈالا،لوگ اس کے باوجود بھی جدید تعلیم کو اپنے لیے ترقی کا معیار سمجھنے لگے،مصنوعی رونق خریدنے کی سوچ و ہوس اور بے اعتدالی نے لوگوں کو اس بات کی طرف ابھارا کہ جب ہمارا بچہ مکتب سے منسلک نہیں رہا تو کس بات پر ہم مکتب یا مولوی سے دلی لگاؤرکھیں اس شیطانی سوچ کی وجہ سے خالق و مخلوق سے رشتہ جوڑنے والی تعلیم کو لوگ حقیر اور غیر ضروری سمجھ کر متنفر ہوتے گئے اور اخیر میں مکتب سے لوگوں کا لگاؤ اس حد تک محدود ہوا کہ کپڑوں میں قضائے حاجت کرنے کی عمر تک بچہ مکتب کی گود کے حوالے کر دیا جاتا اور جیسے ہی ان کی ناک صاف ہوئی،شعور و معرفت کے دریچے ذرا کھلے انہیں دنیاوی تعلیم اور اس کے وزنی بستوں کی بوجھ کے نیچے دبا کر ان کی روحیں نچوڑ لی گئی۔
مکاتب کے ساتھ سوتیلا برتاؤ اور بے توجہی کے نتیجے میں پورے ہندوستان کا معائنہ کر لیجیے، ہو سکتا ہے کسی کونے میں اللہ والے اور نیک نیت رکھنے والے لوگ آج بھی ہوں مگر اکثر مکاتب کی حالت ایسی ہے کہ دیکھ کر گمان ہوتاہے جیسے برسوں یہاں سے انسانوں کا گزر ہی نہیں ہوا،جہاں کسی زمانے میں بچوں کی چہل قدمی اور غیر معمولی بھیڑ کی وجہ سے گھاس کے سر زمین سے نمودار نہیں ہو پاتے تھے وہاں آج ویرانیوں کا منظر بنا ہوا ہے،خوف و دہشت کا ایسا سناٹا ہے جیسے کسی ناگہانی آفت نے فضائے مکتب کی مسکان چھین لی ہو،کہیں گائے، بھینس اور بکریوں کا باڑا بنا ہوا ہے تو کہیں شادی خانہ آبادی کے طور پر مکاتب کا استعمال ہو رہا ہے،کہیں اناج کوٹے اور مسلے جا رہے ہیں،تو کہیں جواریوں کے لیے تاش اور جوے کا اڈا بنا ہوا ہے۔
مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا
باتوں سے میرا دل نہ لبھا شہر کو بچا
تو چاہتا ہے گھر ترا محفوظ ہو اگر
پھر صرف اپنا گھر نہ بچا، شہر کو بچا
کوئی نہیں بچانے کو آگے بڑھا حضور
ہر اک نے دوسرے سے کہا: شہر کو بچا
ہمارا سماج اس وقت جس ترقی کی ناؤ میں سوار ہے وہاں سے یہ مکاتب اب صرف امیری کی چادر میں پیوند اور محلوں کے سامنے کسی بدنما جھوپڑی کے مانند رہ گئے ہیں۔
مسلمانوں کی بے رغبتی اور دین بیزاری کی وجہ سے ہندوستان کے اکثر مکاتب اس قدر بوسیدگی کا شکار ہیں جیسے کسی اجڑی ہوئی ریاست کے گمنام کھنڈر انسانوں کو دعوت عبرت دے رہے ہوں۔
کبھی یہاں کی رونقیں قابل دید ہوا کرتی تھیں ،بچوں کی بھیڑ،اساتذہ کا جذبہ، عوام کی توجہ،مگر سب کچھ سرد پڑگیا، سارا حسن،سبھی رونقیں دنیا کی رنگینیوں میں بہہ گئیں۔حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی چیز بے توجہی کا شکار ہوجائے تو وہ اپنی اصل شکل وصورت کھو دیتی ہے،یہی معاملہ ان مکاتب کے ساتھ ہوا۔اس کے وجوہات پر اگر بات کریں تو سب سے پہلی وجہ بنی لوگوں کا دینی تعلیم کے تئیں تنگ نظری،حقارت کا رویہ:جو تعلیم انسانوں کو پیدائش کا مقصد یاد دلائے، اپنی پہچان بتلائے،اللہ اور بندے کے درمیان تعلقات کو جوڑے،اور اپنے مالک حقیقی کی رضا و خوشنودی کے اصول بتلائے،انسانوں کا ایک دوسرے کے بیچ کا رشتہ سمجھائے،الفت ومحبت،نفرت وعداوت کا فرق واضح کرے وہ تعلیم، اس کی جگہیں حقیر کیسے ہو سکتی ہیں؟
دوسری وجہ علماء کی عزت واحترام کے جذبے کا مفقود ہوجانا: ذرا تصور کریں کہ جو لوگ پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کے احکامات عام کریں،کتاب اللہ اور سنتِ رسول کی چھوٹی بڑی ساری باتیں ذہنوں میں کوٹ کوٹ کر بھریں، بچوں کو فرائض و واجبات اور دیگر علوم وفنون کو سمجھنے کے قوائد بتلائیں، انسانیت کے حقوق سمجھائیں،والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کا سبق پڑھائیں،آپسی پیار ومحبت کا درس دیں وہ عزت واحترام کے کس مقام پر ہونے چاہیے کبھی اپنے آپ سے پوچھیے گا ضرور۔
تیسری وجہ جدید تعلیم سے مکمل لگاؤ اور اسی کو اکیلا کامیابی وکامرانی کا اصول وضابطہ سمجھ لینا: چنانچہ دنیاوی تعلیم کو جب سب کچھ ہی سمجھ لیا جائے تو پھر مکاتبِ دینیہ کا یتیم وبے سہارا ہونا لازم تھا حالانکہ اس کے بیج سے اگنے والے پھلوں کا ذائقہ کتنا کڑوا ہوتا ہے اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جو لوگ جدید تعلیم ہی کو سب کچھ سمجھ کر اپنے بچوں کو پیدائش کے بعد سے مکاتب کی دہلیز کو چھونے نہیں دیتے اور انہیں جدید تعلیم کی آغوش میں ڈال دیتے ہیں ایک دن وہی بچے اپنے والدین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر عزت واحترام کے بلند مقام سے گرا کر ایک کمرے میں قید کر ان کی مکمل آزادی اور حق چھین لیتے ہیں،کچھ تو اس معاملے میں اتنے کم ظرف و بے غیرت نکلتے ہیں کہ اپنے والدین کو گھر سے باہر نکال کر دنیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ والدین کا مقام ومرتبہ کیا ہے،ان کی خوشیوں میں کتنا اجر وثواب ہے وہ تو بس اپنے والدین کے بڑھاپے کو اپنے لیے بوجھ تصور کرتے ہیں،رشتے اور تعلقات کو بے جا رسم و روایات مانتے ہیں اور تمام عمر سبھی سے کٹ کراپنی دنیا آباد کرنے میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ دین سے مکمل طور پر بیزار ہوکر مذہب کو ایک غیر فطری رسم سمجھنے لگتے ہیں۔
مکاتب سے بے توجہی کی ایک وجہ لالچ بھی ہے کیونکہ ہم نے بہت پہلے یہ مان لیا تھا کہ مکاتب سے اپنے بچوں کو جوڑ کر آگے دنیاوی تعلیم میں دشواری پیدا ہوگی،دینی تعلیم نوکری اور کمائی کے راستے میں مخل ہے اس لیے ہم سب نے اپنے اپنے بچوں کو انگلش میڈیم کی مشینری میں ڈال کر انہیں پیسہ کمانے کی مشین بنا ڈالا۔
اس کا انجام جانتے ہیں پھر کیا ہوا ہمارے بچے ذہنی طور پر اتنے محدود ہوگئے کہ انہوں نے اپنے دین ومذہب کو ایک زائد اور غیر ضروری چیز سمجھ کر مکمل طور پر چھوڑ دیا،جس کی پاداش میں اکثر بچے اسلام کی بنیادی باتوں سے بھی نابلد اور کورے رہ گئے ،بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں سورہ ٔفاتحہ اورنماز کی دعائیں تک یاد نہیں،جنہیں فرائض کے اعداد وشمار اور سنت ونوافل کا علم نہیں وہ اپنی حقیقت اور زندگی کا اصل مقصد بھلا کیسے یاد رکھتے جبکہ انہوں نے مکاتب کا منہ دیکھا ہی نہیں جہاں سب سے پہلے بچوں کو انہی باتوں سے روشناس کرایا جاتا ہے۔
چنانچہ ایسے بچوں کے سامنے جب ان کا کوئی غیر مسلم ساتھی اسلام کی چھوٹی باتوں کے متعلق پوچھ بیٹھتا ہے تو یہ دونوں ہاتھ کھڑا کرکے اپنی بے بضاعتی کا اظہار کرکے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف تقریباً ۱۶ سال کا ایک یہودی لڑکا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ایک بینر پہ لکھتا ہے کہ کل خیبر کی زمینیں ہماری تھیں اس کے باوجود تم نے ہمیں وہاں سے نکال پھینکا ،آج وقت ہمارا ہے،فلسطین تمہاری زمین ہے مگر ہم تمہیں راستے پہ لا کھڑا کریں گے،اور خیبر کا پورا پورا بدلہ لیں گے۔
مکاتب سے غیر مانوس جدید تعلیم کے دلدادہ،سڑکوں کے کنارے کھڑے کھڑے پیشاب کرنے والے مسلم بچوں اور ان کے والدین سے پوچھیے کہ کیا کوئی ایسا ہے جو بتا سکے کہ خیبر کیا ہے؟اس کا معاملہ کیا تھا؟ کسی کو پتہ نہیں۔
چنانچہ مسلمانوں کے مکاتب کی تاریخ ماضی میں بڑی روشن رہی ہے،ان مکاتب نے جو کارہائے نمایاں انجام دیا اس کا اعتراف مغربی مورخین بھی کرنے پر مجبور ہیں،ایک وقت تھا جب انہی مکاتب کی خاک سے اٹھنے والے دنیا کی ہر تعلیم میں سب سے آگے تھے،۷۰۰ء سے لے کر ۱۲۰۰ء تک پانچ صدیوں کے دوران اسلام نے طاقت،نظام حکومت، انداز و اطوار کی شائستگی، معیار زندگی،انسانیت پسندانہ قانون سازی اور مذہبی استقلال و بردباری،ادب،علم و فضل، سائنس،طب اور فلسفہ میں ساری دنیا کی قیادت کی جو انہی مکاتب کی مرہونِ منت تھی۔
جب یورپ جہالت کے اندھیروں میںترقی سے بہت دور تھا،اس وقت اندلس(اسپین) میں علم و حکمت، زرعی، صنعتی، معاشی ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ تھا اور مورخین تسلیم کرتے ہیں کہ اسپین نے جو عروج مسلم عہد میں حاصل کیا تھا، وہ دوبارہ اسے نصیب نہ ہو سکا۔
مسلمانوں سے پہلے یونانی نظریاتی علم کی باتیں کرتے تھے مگر یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے پہلی دفعہ دنیا کو مشاہدے اور تجربے سے روبرو کروایا،مسلمانوں نے ہی سائنس کی بنیاد رکھی،مغرب کے بڑے بڑے اہلِ علم اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ مغرب مسلمانوں کی وجہ سے اپنا وجود پا سکا ہے اس لیے کہ انہوں نے نہ صرف متحیر اور چونکا دینے والے انکشافات کیے بلکہ انقلابی نظریے پیش کئے،وسائل کی محرومی کے باجود نئے نئے ایجادات کیے بلکہ سائنس کی بنیاد ہی مسلمانوں کی کاوشوں اور محنت کا نتیجہ ہے،مسلمانوں کی سائنس نے یورپ کو کامیابی کی بنیاد فراہم کی، پانچ سو سال تک علم کے ہر میدان میں سائنس ہو یا فلسفہ کوئی ہمارے مقابل کیا ارد گرد نہیں بھٹکتا تھا،مسلمان دنیا میں سب سے آگے تھے۔مسلمان اہلِ علم اور سائنس دانوں کی کتابیں سات سو سال تک یورپ کے کلیساؤں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہیں۔
مسلمانوں نے دنیا کو بہت سے نئے علوم سے روشناس کرایا،علم فلکیات کے ساتھ جغرافیہ،علم ریاضی کے باب میں الجبرا،جیومیٹری اور ٹریگنومیٹری۔
عربوں نے مغرب کو نئے ہندسوں 1،2،3،4 سے متعارف کروایا جس نے حساب کو بہت آسان کر دیا،یہ ہندسے آج بھی مغرب میں عربی ہندسے کہلاتے ہیں،کیمسڑی کے موجد مسلمان ہیں،علم طبیعات کے باب میں المناظر، بصریات اور موسیقی وغیرہ،نفسیات،تجرباتی نفسیات اور نفسیاتی علاج کے موجد مسلمان ہیں،بحریہ کے تحت جہاز رانی، تاریخ طبعی،سیاحت،علم الجمادات،جیالوجی وغیرہ سے متعارف کروایا جو انہی مکاتب کی خاک سے تیار ہوئے لوگ تھے۔
لیکن یہ سب باتیں اب تو صرف افسانہ بن کر رہ گئیں،یہ روایات اب صرف کتابوں میں بھلی لگتی ہیں ،عام زندگی میں اس کا تصور محال ہے۔
اگر کسی قوم کو اس کے دین سے بیزار کرنا ہو اس کا تصور دین اور بنیادی تعلیم یعنی مکتب سے رشتہ کاٹ دیجیے۔یہ چیزیں خود اسے خوش فہمی میں مبتلا کرکے ذلت کی عمیق گہرائیوں میں ڈال دے گی جہاں سے نکلنے میں ممکن ہے اس کی کئی نسلیں ناکام رہیں۔
ہمارے گرد وپیش میں خالص دنیاوی تعلیم کے جو بڑے بڑے کانوینٹ اور ادارے قائم ہیں،جنہیں ہم اپنے بچوں کو صرف اس لیے سپرد کر آتے ہیں کہ دوچار سالوں میں وہاں کے طلسماتی چشمے کا پانی پی کر ہمارا بچہ انگریز بن کر ساری دولت اپنی مٹھیوں میں کر لے گا، دنیا اس کی مغربی زبان سے مبہوت ہوجائے گی دراصل یہ ہماری بنیادی غلطی ہے چنانچہ لارڈ میکالے فورٹ ولیم کالج بناکر جب برطانیہ پہنچا تو اس نے وہاں کی یونیورسٹی میں اپنے منصوبہ اور عزائم کے متعلق لوگوں کو بڑے فخر سے بتایا کہ دراصل میں نے ہندوستان میں ایک ایسا ادارہ قائم کر دیا ہے جہاں رہنے والے رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی تصور کیے جائیں گے مگر فکری وذہنی اعتبار سے انگریز کہلائیں گے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں نے تقریباً دو سو سال تک حکومت کی اور اس لمبے عرصہ میں ہم نے ان کی تمام حرکتوں کو اپنے لیے ترقی کا معیار سمجھ لیا،ہم نے ان کے لباس تک کو اپنایا مگر کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ دو سو سالوں کی حکومت میں کسی انگریز نے دھوتی کُرتا،ٹوپی،یا لنگی کرتا پہنا ہو،ان کی عورتوں نے ساڑی پہنی ہو،قمیص و سلوار زیب تن کیا ہو۔یہ صرف ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو وزن دار بنانے کے بجائے ان کے سامنے خود کو گراتے چلے گئے اور ان کی ایک ایک حرکات و سکنات کو کامیابی کا اصول سمجھ لیا۔
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے
آج پھر ہم ہار گئے،پھر ہماری ہوا اکھڑ گئی،میں کفر واسلام کے درمیان جنگ کی بات نہیں کر رہا نہ ہی مسلم بنام مسیحی فٹبال میچ کی بات کر رہا بلکہ اسلامی تعلیم و تربیت اور تہذیب وثقافت کی بات کر رہا ہوں،ہم ہر مرتبے میں کتنے مہان اور بلند لوگ تھے،لیکن کیا آج بھی ہم اعلیٰ اخلاق وکردار میں مہان ہیں؟ کہاں کھو گئی ہماری پہچان؟وہ اعلیٰ نمونۂ حیات جسے ہم دوسروں کو اپنے کردار سے بتایا کرتے تھے؟
کہاں ہیں وہ مکاتب جس سے ہم اپنے پرانے کردار اور تعلیم و تربیت کو پیش کر سکیں؟
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
ترا وجود ہے اب صرف داستاں کے لیے
پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا ہوگا
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے
کہاں ہیں وہ رہنما جنہیں دیکھ کر زندگی کا کھویا ہوا اصول یاد آجائے؟کہاں ہیں وہ ایمانی جذبے جن کو دیکھ کر عبادت کا شعور پیدا ہوجائے؟
علامہ اقبال نے اندلس سے لوٹنے کے بعد اپنے جذبات کو جس اعتبار سے پیش کیا تھا وہ ہر مسلمان کے لیے دعوتِ فکر و عمل ہے، انہوں نے بڑی گہرائی اور گیرائی سے کہا تھا کہ ان مکاتب کو اسی حال میں رہنے دو،غریب مسلمانوں کے بچوں کو ان میں پڑھنے دو،اگر یہ مُلّا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو کچھ میں اندلس میں دیکھ کر آیا ہوں، جہاں مسلمانوں کی تقریباً ساڑھے آٹھ سو سالہ حکومت میں کھنڈرات اور بوسیدہ عمارتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر اپنا انجام اس طرح نہیں چاہتے تو پھر مکاتب کو اپنی حالت پہ آباد رکھو۔
یاد رکھیے! جو شخص دین سے کٹ کر بھلائی تلاش کرے گا،وقتی طور پر کامیاب ہوسکتا ہے مگر انجام بدتر ہونا لازمی ہے، اسی طرح دین سے جڑ کر جب تک دنیاوی تعلیم کا حصول ہوگا ان شاء اللہ عرش والا دنیاوی تعلیم کے مراحل آسان سے آسان تر کر دے گا،جس کے لیے ضروری ہے کہ مکاتب کو پرانی روش پر منظم و مستحکم بنایا جائے ورنہ مقصد کا حصول ممکن نہیں۔