Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • فکر و عمل میں تشیع کی دراندازی

    امت مسلمہ کے لیے ایک ٹریجڈی یہ ہے کہ جب باطل ہمارے دینی شعور میں دراندازی نہیں کرسکا تو اس نے ہمارے لاشعور کے لیے ایسی دامِ ہمرنگِ زمین بچھائی کہ اچھے بھلے اس دام میں گرفتار ہوگئے،نادانستہ طور پر امت اس طرح متاثر ہوئی کہ شر خیر اور شقاوت سعادت بن کر رہ گئی،گہرے التباس کی بھول بھلیوں میں بہت کچھ ہاتھوں سے پھسل گیا،اور جب آنکھ کھلی تو باطل کی قیامت خیز چال پر سب انگشت بدنداں تھے،آپ کو یہ سب مفروضہ لگتا ہوگا لیکن آگے کے سطور میں ہم اس ابہام سے پردہ اٹھائیں گے تو حیرت کی انتہا نہیں رہی گی،یہ سچ ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع میں بعد المشرقین ہے،دونوں کا نقطۂ نظر الگ ہے،دونوں کے مصادر الگ ہیں ،دونوں کی نفسیات الگ ہے،اس کے باوجود اہل سنت کے یہاں شیعی گمراہیاں خاموش انداز میں گُربہ قدم داخل ہوتی رہیں اور افکار واعمال ان سے متاثر ہوتے گئے،غیر محسوس انداز میں ذہنوں میں اس زہریلے تخم کی کاشت کی گئی جس کے برگ وبار وقت کی رفتار کے ساتھ ظاہر ہوتے رہے۔
    شیعوں نے اہل سنت کے فکری شریانوں میں اپنا زہر اتارنے کے لیے الگ الگ طریقے اختیار کئے ہیں،قومِ یہود کی برپا کی ہوئی جماعت بھی یہودی طریقۂ کار پر یقین رکھتی ہے،بہت خاموش اندازمیں واردات انجام دیتی ہے،یہ کبھی ادب و زبان کی راہ سے تاخت کرتے ہیں،کبھی حبِّ آلِ بیت کا جام پلا کر ذہنوں کو رام کرتے ہیں،کبھی سیاست کے ذریعے گھس پیٹھ کرتے ہیں،کبھی تیز رفتار میڈیا کی قوتِ تسخیر کا سہارا لیتے ہیں،کبھی پروپیگنڈہ کا جادو جگاتے ہیں، بااثرسماجی وسیاسی شخصیات سے نزدیکی بنا کر مقصد براری کرتے ہیں،ماضی کے ادوار میں سلطنتوں میں حساس مناصب پر قبضہ جما کر اپنے عقیدہ ومسلک کی اشاعت کی ہے،حکومتی رسوخ کا سہارا لے کر اہل سنت کے لیے بڑی بڑی تباہیاں بلائی ہیں،خلافتِ بنو عباسیہ کے ابن علقمی سے لے کر ٹیپوسلطان کے میر صادق تک ایک خونریز داستان اور مکر وخدع کا ایک خوفناک سلسلہ ہے،بات دوسری طرف نکل جائے گی،فی الوقت فکر اسلامی میں شیعی دراندازی کے نکتے پر بات کرتے ہیں،یاد کیجئے ایک زمانہ تھا جب تعزیہ داری دین کا حصہ سمجھی جاتی تھی،مساجد میں تعزیہ رکھا ہوتا تھا،امام باڑے،حسینی مجالس،جشن مولود کعبہ کو ایک اسلامی کلچر کے روپ میں دیکھا جاتا تھا،نت نئے دن مسلم علاقے شیعی بستیوں میں تبدیل ہورہے تھے،باہمی اختلاط اور حبِّ آلِ بیت کا خوبصورت حوالہ اور کربلا کی لہو رنگ داستان گلیوں اور کوچوں کو ماتم زار بنانے کے لیے کافی ہوتی تھی،شیعوں کے ساتھ سادہ لوح اہل سنت بھی ماہ محرم میں بدلے بدلے نظر آتے تھے،محرم آتے ہی شہادتِ حسین کی ملگجی دھند ان پر بھی چھاجاتی تھی،کربلا کی افسردہ ہوائیں انہیں بھی سوگوار کر دیتی تھیں،ان کے مقرر بھی’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘جیسے اشعار سے اپنی خطابت چمکاتے نظر آتے تھے، اور تو اور اسلامیوں کے محبوب شاعراقبال بھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
    رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں
    کیا در مقصد نہ دیں گے ساقیٔ کوثر مجھے
    مسلم مصنفین کی کتابوں میں بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ امام کا سابقہ نظر آتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ دکھائی دیتا ہے،یاعلی اور یاحسین کسی تکیۂ کلام کی طرح زبانوں پر آجاتا تھا،ہمارے نام نہاد مصنف کو بھی پوری اسلامی تاریخ میں صرف کربلا میں ’’شہید اعظم‘‘دکھائی دیتا ہے،یہاں تک کہ وہ’’سیدالشہداء‘‘بھی نظروں کو نہیں جچتے جن کی مثلہ کی ہوئی لاش کو دیکھ کر آنکھیں اشکبار ہوگئی تھی،اس حادثہ فاجعہ سے اٹھتا ہوا دھواں نہ صرف تاریخ بلکہ زبان وادب کے افق کو بھی لپیٹ میں لے لیتا ہے،مرثیے کے باب میں شاعروں نے کربلا پر اتنا آنسو بہایا کہ مرثیہ شخصی اور کربلائی خانوں میں تقسیم ہوگیا،خمینی کے شیعی انقلاب کی خواہش کتنے لوگ اپنے سینوں میں لے کر دنیا سے رخصت ہوگئے،الغرض تہذیب ،تمدن ،معیشت ،سیاست ،معاشرت،عبادات،تفسیر ، احادیث اوراسلامی علوم و فنون غرض ہر شعبۂ زندگی میں انہوں نے اپنا اثر ڈالا ہے،یہ مغل حکمرانوں کے دور اقتدار میں بااثر شیعی گرگوں کی کارستانی تھی،سادہ لوح بادشاہ اسے خدمت ِدین اور آلِ بیت سے محبت کے تناظر میں دیکھتے تھے،یزید رحمہ اللہ کا معاملہ بھی اسی قبیل سے ہے،پروپیگنڈے کی مہم اس قدر تیز چلائی کہ یزید رحمہ اللہ ایک قابل نفرت اور ظالم بادشاہ قرار پائے،یزید رحمہ اللہ کو شر کا ایک نشان بنادیا گیا ہے،تاریخی روایات میں دھاندلیاں کرکے تصویر مسخ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی،آج حقائق کا بہتیروں کو علم نہیں ہے لیکن دانستہ نادانستہ یزید رحمہ اللہ پر زبان دارزی کرنے کو سعادت تصور کی جاتی ہے،بلکہ بزعم خویش اگر لعنت نہ کی گئی تو حبِّ آلِ بیت کا تقاضا رہ جاتا ہے، اگر غور کیا جائے تو یزید اسلامی تاریخ کا ایک مظلوم ترین انسان ہے جسے اس کے ناکردہ گناہ کی کبھی نہ ختم ہونے والی سزا دی گئی ہے۔
    بات یہاں پر ختم نہیں ہوجاتی ہے بلکہ تلبیس کی یہ سیاہ رات دراز تر ہوتی ہے،فکر،عقیدہ،منہج اور طریقہ شیعی اثرات سے محفوظ نہیں ہے،شیعی ہپناٹایز کی خطرناکی یہ ہے کہ ایک پوری جماعت کربلائی انداز فکر کی اسیر ہوجاتی ہے،نام نہاد قبر پرست جماعت اس کی زندہ مثال ہیں،بریلویت کی تلون مزاجی دیکھو تو تغیر پذیر دنیا کی ناپائیداری پر یقین بڑھ جاتا ہے،بریلویت اس وقت اپنے فکری سفر کے جس پڑاؤ پر ہے وہ کربلا وقم سے بہت نزدیک ہے،اگر یہ کہاجائے کہ بریلویت کا مایۂ خمیر شیعیت سے ممزوج ہے تو غلط نہ ہوگا،ان کا پورا دینی و علمی سانچہ روافض کے کارگۂ فکر سے ڈھل کر آیا ہے،اسی لیے ان کا پورا دین مُردوں اور قبروں کے گرد گھوم رہا ہے،ان کی پوری حسیات ونفسیات میں شیعیت رچ بس گئی ہے،اس لیے یہ ٹولہ کتاب وسنت سے زیادہ وابستہ نہیں رہ گیا ہے،یہ زیادہ تر بزرگوں کے اقوال، فتاوے، کرامات، مکاشفات،الہامات اورملفوظات کی خوشنما جنت میں رہتا ہے،ماہ محرم میں ان کا ڈھول اور ان کا جوش اہل ِتشیع کو نہ صرف شرمادیتا ہے بلکہ زبان حال سے کہتا ہے۔
    کون کہتا ہے ہم تم میں جدائی ہوگی
    یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
    موجودہ دور میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا استخفاف بھی سنیوں میں شیعی تخریب کا حصہ ہے،خاموش محنت رنگ لائی ہے،منظر نامہ بہت تیزی سے شیعوں کے حق میں تبدیل ہورہا ہے،اب ادھر بھی بڑی تکرار سے کہا جاتا ہے کہ کیا صحابہ معصوم تھے؟کیا ان سے امکانِ خطا محال ہے؟یہ ظاہر فریب جملے دراصل صحابہ پر طعن وتشنیع کے بنددروازے کھولنے کے لیے گھڑے گئے ہیں،یہ مرحلہ تو ہوچکا،اب جرأت مند زبانیں آگے کا سفر طے کررہی ہیں،اب ہر اس حوالے کو تاریخ کے تہ خانوں سے نکال کر منظر ِعام پر لایا جارہا ہے جو صحابہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں،جرح وتعدیل کے اصولوں سے بے نیاز ہوکر رطب و یابس روایات کی نمائش کی جاتی ہے اور دلوں میں موجود شرفِ صحابیت کے تقدس پر کالک پوتی جاتی ہے،پھر جو یہ کار خیر کرتا ہے وہ محقق اور مجدد قرار پاتا ہے،اس لیے صحابہ کے بارے میں شیعہ کیا کہتے ہیں؟وہ چھوڑئیے، بات اس پر کیجیے کہ تنقیص،توہین اورتذلیل کی مہم یزید رحمہ اللہ سے شروع ہوکر مقامِ صحابہ تک کب پہنچ گئی؟کب رافضیوں کے جگالی کئے ہوئے الفاظ اور حوالے سنیوں کے زبانوں پر پہنچ گئے؟کسی نے سچ کہا تھا کہ یزید صرف دروازہ ہے اصل نشانہ صحابہ ہیں،اب صحابہ نشانہ نہیں بلکہ نفرت وحقارت کامشقِ ستم ہیں ،حیرت اس بات پر ہے کہ اب کٹہرے میں صرف حضرت معاویہ،عمرو بن عاص،طلحہ ،ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم نہیں ہیں بلکہ اس نامسعود سلسلے کے چھینٹے اب دیگر معزز اور اکابرین صحابہ کے دامن تک پہنچ رہے ہیں،اب حضرت عثمان،حضرت عمر اور ابو بکر رضی اللہ عنہم کی بھی خیر نہیں،ابھی تو صرف سقیفہ بنو ساعدہ کو لے کر طنز ہے کہ ’’کہاں رہ گئے تھے بیٹیاں دینے والے‘‘۔۔۔اگلے مرحلے میں مرزا جہلمی جیسے گندم نما جوفروش اکابرین صحابہ پر شیعوں کے ریکارڈ توڑیں گے،اب صرف رافضی واعظ صحابہ پر زبان دارزی نہیں کررہا ہے بلکہ اہل سنت میں بھی اس قسم کے عناصر پیدا ہوگیے ہیں جو صحابہ کی کردار کشی کررہے ہیں،کچھ تو کھل کر اپنا رافضی چہرہ سامنے لاچکے ہیں اور کچھ لوگ اس کیمپ میں رہ کر اپنے قول وعمل سے رافضیوں کو کمک فراہم کررہے ہیں،یہی نادان دوست ہیں جو اہل سنت میں شیعیت کی فصل اگارہے ہیں، مسلمانوں میں شیعیت کے لیے کام کررہے ہیں اور اس منافقت کو حبِّ آل بیت کا خوبصورت نام دے رکھا ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings