Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تعاقب (۱) حدیث:’’اَعْظَمُ الْاَیَّامِ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمُ النَّحْرِ، ثُمَّ یَوْمُ الْقَرِّ‘‘اورایک اعتراض کا مسکت جواب (قسط اول)

    الحمد للّٰه وحده، والصَّلَاة والسَّلَام عَلٰي مَن لا نبي بعده، اما بعد:
    اما م الائمہ محمد بن اسحاق السلمی ، المعروف بابن خزیمہ رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۱ھ) فرماتے ہیں:
    ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ثنا يَحْيَي، ثنا ثَوْرٌ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ لُحَيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ قُرْطٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِﷺَ: ’’اَعْظَمُ الْاَيَّامِ عِنْدَ اللّٰهِ يَوْمُ النَّحْرِ، ثُمَّ يَوْمُ الْقَرّ‘‘
    (ترجمہ) عبد اللہ بن قرط الازدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر (دس ذو الحجہ)ہے ، پھر یوم القر (گیارہ ذو الحجہ )ہے‘‘
    (تخریج) [صحیح ابن خزیمۃ بتحقیق الاعظمی:۴؍۳۱۵، ح:۲۹۶۶، و سنن ابی داؤد بتحقیق شعَیب الارنوؤط و رفقائہ :۳؍۱۸۰، ح:۱۷۶۵، و صحیح ابن حبان بتحقیق شعیب الارنوؤط:۷؍۵۱، ح:۲۸۱۱، و المستدرک علی الصحیحین للحاکم بتحقیق مصطفی عبد القادر عطا:۴؍۲۴۶، ح:۷۵۲۲،و السنن الکبریٰ للبیہقی بتحقیق محمد عبد القادر عطا:۷؍۴۷۰، ح:۱۴۶۸۵]
    (حکم حدیث) یہ حدیث صحیح ہے۔ ائمۂ کرام کی ایک جماعت نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ کما سیاتی إن شا اللہ تعالیٰ
    اِس کے برخلاف -میرے علم کی حد تک- کسی بھی امام نے اِس حدیث کی سند پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
    ایک اعتراض کا مُسکِت جواب :
    ایک عالم ِدین مذکورہ حدیث کی بابت فرماتے ہیں :سند ضعیف ہے۔ عبد اللہ بن لحی کا سیدنا عبد اللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہو سکا۔( فتاویٰ امن پوری: قسط:۳۷۹ )
    راقم کہتا ہے کہ عبد اللہ بن لحی الشامی رحمہ اللہ کا عبد اللہ بن قرط الازدی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت ہے۔
    دلائل پیش خدمت ہیں:
    پہلی دلیل : ائمۂ کرام کے اقوال
    امام ابو بکر احمد بن علی الخطیب البغدادی رحمہ اللہ (المتوفی :۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:
    ’’سَمِعَ: بِلالَ بْنَ رَبَاحٍ، وَمُعَاوِيَةَ بْنَ اَبِي سُفْيَانَ، وَعَبْدَ اللّٰهِ بْنَ قُرْطٍ‘‘
    ’’عبد اللہ بن لحی رحمہ اللہ نے بلال بن رباح، معاویہ بن سفیان اور عبد اللہ بن قرط رضی اللہ عنہم سے سنا ہے‘‘
    [تلخیص المتشابہ فی الرسم بتحقیق سُکینۃ الشہابی :۲؍۷۶۷]
    پھر زیر بحث حدیث کو نقل کیا ہے۔
    امام ابو نصر علی بن ہبۃ اللہ ، المعروف بابن ماکولا رحمہ اللہ(المتوفی:۴۷۵ھ) فرماتے ہیں:
    ’’سَمِعَ: بِلالَ بْنَ رَبَاحٍ، وَمُعَاوِيَةَ بْنَ اَبِي سُفْيَانَ، وَعَبْدَ اللّٰهِ بْنَ قُرْطٍ‘‘
    ’’عبد اللہ بن لحی الہوزنی الشامی نے بلال بن رباح، معاویہ بن سفیان اور عبد اللہ بن قرط رضی اللہ عنہم سے سنا
    ہے‘‘ [الإکمال فی رفع الارتیاب عن الموتلف والمختلف فی الاسماء والکنی والانساب :۷؍۱۴۷، الناشر: دار الکتب العلمیۃ -بیروت-لبنان]
    امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ) فرماتے ہیں:
    ’’وسَمِعَ: عُمَر، ومعاذ بْن جَبَل، وبلالا، وعَبْد اللّٰهِ بْن قُرْط…‘‘
    ’’عبد اللہ بن لحی رحمہ اللہ نے عمر ، معاذ بن جبل، بلال اور عبد اللہ بن قرط رضی اللہ عنہم سے سنا ہے‘‘
    [تاریخ الإسلام بتحقیق الدکتور بشار عواد:۲؍۸۹۷، ت:۱۳۶]
    دوسری دلیل : ائمہ کرام کی تصحیح
    عبد اللہ بن لحی الشامی رحمہ اللہ کی بیان کردہ زیر بحث حدیث کو فن جرح و تعدیل کے جہابذہ نے صحیح یا حسن قرار دیا ہے جو کہ اِس بات پر دال ہے کہ زیر بحث حدیث اُن کے نزدیک متصل اور صحیح ہے ۔اگر اُن کے نزدیک زیر بحث حدیث منقطع ہوتی تو صحیح یا حسن قرار نہیں دیتے۔ واللہ اعلم۔
    ائمہ کرام کے نام مع حوالہ پیشِ خدمت ہیں:
    (۱) اما م الائمہ ابو بکر محمد بن اسحاق السلمی ، المعروف بابن خزیمہ رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۱ھ)
    آپ رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں زیر بحث حدیث کو تین جگہ احتجاجاً نقل کیا ہے۔
    دیکھیں : [ صحیح ابن خزیمۃ بتحقیق الاعظمی: ۴؍۲۷۳، ح:۲۸۶۶و:۴؍۲۹۴، ح:۲۹۱۷و۴؍۳۱۵، ح: ۲۹۶۶]
    (۲) امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی ،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:۳۵۴ھ)
    آپ رحمہ اللہ نے زیر بحث حدیث کو اپنی صحیح میں احتجاجاً جگہ دی ہے۔
    دیکھیں : [صحیح ابن حبان بتحقیق شعیب الارنوؤط:۷؍۵۱، ح:۲۸۱۱]
    (۳) امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم رحمہ اللہ (المتوفی:۴۰۵ھ)
    آپ رحمہ اللہ نے زیر بحث حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
    دیکھیں : [المستدرک علی الصحیحین للحاکم بتحقیق مصطفٰی عبد القادر عطا :۴؍۲۴۶، ح:۷۵۲۲]
    (۴) امام ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۵۸ھ)
    آپ رحمہ اللہ نے زیر بحث حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
    دیکھیں : [السنن الکبیر بتحقیق الدکتور عبد اللّٰہ الترکی:۱۵؍۹۲، ح:۱۴۸۰۰]
    (۵) امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ)
    آپ رحمہ اللہ نے زیر بحث حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
    دیکھیں : [المستدرک علی الصحیحین للحاکم بتحقیق مصطفٰی عبد القادر عطا:[۴؍۲۴۶، ح:۷۵۲۲]
    ائمہ کرام کے علاوہ محققین کی ایک بڑی جماعت نے زیر بحث حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جیسے علامہ البانی، شیخ شعیب ارنوؤط اور اُن کی ٹیم وغیرہ۔
    اِس پر مزید یہ کہ میرے علم کی حد تک فن جرح و تعدیل کے کسی بھی امام نے یہ بات نہیں کہی کہ عبد اللہ بن لحی الشامی رحمہ اللہ کا عبد اللہ بن قرط الازدی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے اور نا ہی فن جرح و تعدیل کے کسی بھی امام نے عبد اللہ بن لحی عن عبد اللہ بن قرط کے طریق سے مروی کسی بھی حدیث کو عبد اللہ بن لحی اور عبد اللہ بن قرط کے مابین انقطاع کی علت کی وجہ سے مردود قرار دیا ہے۔ فیما اعلم واللہ اعلم۔
    ایک اہم بات :
    جس فتوے کا جواب اِس تحریر میں دیا گیا ہے، اسے ایک بھائی نے واٹس اپ کے ایک گروپ میں ارسال کیا تھا ۔ جب اُن سے یہ بات پوچھی گئی کہ عبد اللہ بن لحی رحمہ اللہ کا عبد اللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے، یہ بات صاحب فتویٰ نے کس دلیل کی بنیاد پر کہی ؟ تو انہوں نے اِس کا کوئی معقول جواب نہیں دیا اور نا ہی صاحب فتویٰ- حفظہ اللہ- نے کوئی جواب دیا جبکہ وہ گروپ میں موجود ہیں۔
    جب میں نے تفتیش کی کہ شیخ حفظہ اللہ نے ایسی بات کیسے کہہ دی جس کی دلیل جرح و تعدیل کے کسی بھی امام سے نہیں ملتی ؟ تو معلوم ہوا کہ صاحب ’’انیس الساری ‘‘شیخ نبیل بن منصور الکویتی حفظہ اللہ کے کلام کو دیکھ کر شیخ نے یہ دعویٰ کیا ہے ۔ اگر شیخ کہتے ہیں کہ میں نے ان کے کلام کو دیکھ کر یہ دعویٰ نہیں کیا ہے تو شیخ سے گزارش ہے کہ آپ نے یہ دعویٰ کس بنیاد پر کیا ہے؟ برائے مہربانی بتائیں اور شکریہ کا موقع دیں۔واللہ ولی التوفیق۔
    صاحب’’ انیس الساری‘‘ حفظہ اللہ زیر بحث حدیث کی تخریج ، امام حاکم کی تصحیح اور امام بیہقی کی تحسین نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
    ’’رواتہ ثقات إلا ان عبد اللّٰہ بن لحی لم یذکر سماعا من عبد اللّٰہ بن قرط فلا ادری اسمع منہ ام لا‘‘۔’’اِس حدیث کے رواۃ ثقہ ہیں مگر عبد اللہ بن لحی الشامی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے سماع ذکر نہیں کیا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے اُن سے سنا ہے یا نہیں‘‘[انیس الساری فی تخریج وَتحقیق الاحادیث التی ذکرہا الحَافظ ابن حَجر العسقلانی فی فَتح البَاری: ۷؍ ۵۰۹۱، رقم:۳۶۴۷]
    راقم کہتا ہے کہ:
    (۱) شیخ نبیل بن منصور حفظہ اللہ نے زیر بحث حدیث کی تخریج میں’’ تلخیص المتشابہ للخطیب‘‘ کا ذکر کیا ہے اور وہاں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ ابن لحی الشامی نے ابن قرط الازدی رضی اللہ عنہ سے سنا ہے۔ اُس کے باوجود پتہ نہیں کیوں شیخ کہہ رہے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ عبد اللہ بن لحی رحمہ اللہ نے ابن قرط رضی اللہ عنہ سے سنا ہے یا نہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
    (۲) شیخ نبیل حفظہ اللہ نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ عبد اللہ بن لحی رحمہ اللہ نے ابن قرط رضی اللہ عنہ سے سنا ہے یا نہیں لیکن صاحب فتویٰ نے بلا دلیل یہ بات کہہ دی کہ عبد اللہ بن لحی کا سیدنا عبد اللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہو سکا۔
    (۳) شیخ نبیل حفظہ اللہ نے زیر بحث حدیث کی بابت ائمہ کرام کے حکم کو نقل کیا اور بذاتِ خود کوئی حکم نہیں لگایا لیکن صاحب فتویٰ نے جھٹ سے حدیث پر ضعیف کا حکم لگا دیااور ائمہ کرام کے حکم کو سرے سے نقل ہی نہیں کیا۔
    زیر بحث حدیث کی بابت دو اہم باتیں بطور فائدہ پیش خدمت ہیں:
    پہلی بات : ثور بن یزید الشامی رحمہ اللہ نے اِس حدیث کو راشد بن سعد الحمصی رحمہ اللہ سے سنا ہے جیساکہ امام یحییٰ بن سعید القطان اور امام ابو عاصم النبیل رحمہما اللہ نے اُن سے حدیث بیان کرتے ہوئے ، راشد بن سعد الحمصی سے اُن کے سماع کو بیان کیا ہے۔
    دیکھیں :[مسند احمد بتحقیق الا رنو ؤط ورفقائہ:۳۱؍۴۲۷، ح:۱۹۰۷۵، و جزء من احادیث القزاز عن شیوخہ بتحقیق خلاف محمود، ح:۱۱۰۷]
    اور امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۶ھ) ثور بن یزید الشامی کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
    ’’سَمِعَ خَالِد بْن مَعدان، وراشد بْن سعد‘‘۔
    ’’ثور بن یزید الشامی رحمہ اللہ نے خالد بن معدان اور راشد بن سعد رحمہما اللہ سے سنا ہے‘‘۔
    [التاریخ الکبیر بحواشی محمود خلیل:۲؍۱۸۱، ت:۲۱۲۶]
    دوسری بات : امام سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۰ھ) فرماتے ہیں:
    ’’لَا يُرْوَي هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ قُرْطٍ إِلَّا بِهٰذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ ثَوْرٌ‘‘
    ’’یہ حدیث عبد اللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے صرف اسی سند کے ساتھ مروی ہے اور ثور رحمہ اللہ اِس حدیث کو بیان کرنے میں منفرد ہیں‘‘
    [المعجم الاوسط بتحقیق طارق بن عوض اللّٰہ وغیرہ:۳؍۴۴، ح:۲۴۲۱]
    راقم کہتا ہے کہ ثور بن یزید الشامی رحمہ اللہ ثقہ، ثبت، حافظ اور متقن راوی ہیں۔
    دیکھیں : [مشاہیر علماء الامصار لابن حبان بتحقیق مرزوق، ت:۱۴۳۸، وتہذیب الکمال للمزی بتحقیق بشار عواد :۴؍۴۱۸، ت:۸۶۲ و غیرہ]
    اور اِس مقام کے راوی کا اِس طرح کا تفرد بلا شبہ مضر نہیں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
    بطور فائدہ دیکھیں : [تہذیب التہذیب لابن حجر:۲؍۱۰، ت:۱۴، الناشر: مطبعۃ دائرۃ المعارف النظامیۃ، الہند وغیرہ]
    اخیر میں ایک گزارش :
    فتویٰ دینے والے عالم دین سے گزارش ہے کہ آپ حدیث کے تعلق سے غور فکر کر کے فتویٰ دیں، ائمہ کرام کی تحقیق اور اُن کے تعامل کو دیکھ لیا کریں ۔ اگر کسی کی تحقیق سے آپ متفق نہیں ہیں تو دلیل سے اپنی بات رکھیں اور سامنے والے کی تحقیق کا جواب بھی دلیل کے ساتھ دیں ۔ اللہ ہی توفیق دینے والا ہے اور ہدایت دینے والا ہے۔
    خلاصۃ التحقیق :
    حدیث:’’اَعْظَمُ الْاَيَّامِ عِنْدَ اللّٰهِ يَوْمُ النَّحْرِ، ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ‘‘ بلا شبہ ثابت ہے ۔ واللہ اعلم۔
    جاری ہے …
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings