-
محرّم الحرام کی بے حرمتی و غیر شرعی رسومات، اور محرم و یوم عاشوراء کے روزوں کی فضیلت قارئین! جب تک اسلام عرب کی زمین تک محدود رہا اس وقت تک مسلمانوں کا معاشرہ اور ان کا طرزِ زندگی بالکل ہی سادہ اور ہر قسم کی رسومات اور بدعات و خرافات سے پاک صاف رہا۔ لیکن جب اسلام عرب سے باہر نکل کر دوسرے ملکوں میں پہنچا تو دوسری قوموں اور دوسرے مذہب والوں کے میل جول اور ان کے ماحول کا اسلامی معاشرہ اور مسلمانوں کے طریقۂ زندگی پر بہت زیادہ اثر پڑا اور کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی بہت سی غلط سلط اور من گھڑت رسموں کا مسلمانوں پر ایسا جارحانہ حملہ ہوا، اور مسلمان ان مشرکانہ رسموں میں اس قدر ملوث ہو گئے کہ اسلامی معاشرہ کا چہرہ مسخ ہو گیا اور مسلمان رسم و رواج کی بلاؤں میں گرفتار ہو کر خیرالقرون کی سیدھی سادی اسلامی طرز زندگی سے بہت دور ہوگئے۔
چنانچہ خوشی و غمی، پیدائش و موت، ختنہ و شادی بیاہ وغیرہ الغرض مسلمانوں کی جملہ تقریبات بلکہ ان کی زندگی و موت کے ہر مرحلہ اور موڑ پر نت نئی و غیر شرعی رسموں کی فوجوں کا اس طرح عمل دخل ہوگیا ہے کہ مسلمان اپنی تقریبات کو باپ داداؤں کی ان روایتی رسموں سے الگ کر ہی نہیں پائے جس کی بنا پر یہ صورتحال ہے کہ:
یہ امت روایات میں کھو گئی حقیقت خرافات میں کھو گئی
قارئین! ویسے تو جنگ و جدل، قتل و غارت گری، خونریزی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی مہینے، ہفتے اور دن میں اجازت نہیں تاہم حرمت والے مہینوں میں خاص طور پر گناہ، لڑائی جھگڑا، ظلم و زیادتی، اشتعال انگیزی اور فتنہ و فساد کی ہرممکنہ شکل سے اجتناب کرنے کا تاکیدی حکم ہے۔ لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ ماہِ محرم کی حرمت کو اتنا ہی پامال کرتے ہیں جتنا کہ اس کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
جیسا کہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کے ارشادات موجود ہیں:
(۱) {اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِالْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ، فَمَنِ اعْتَدٰي عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰي عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ}
’’حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور (دیگر) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘
[البقرۃ:۱۹۴]
(۲) {يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِالْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ، قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ، وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌ، بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ}
’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (خانۂ کعبہ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک (اس سے بھی) بڑا گناہ ہے اور یہ فتنہ انگیزی قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہے‘‘
[البقرۃ: ۲۱۷]
(۳) {يٰـٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَـلَآ ئِدَ وَلَآ آٰمِّيْنَ الْـبَـيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَاناً}
’’اے ایمان والو! اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرم کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور نہ مکّہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ حرمت والے گھر (یعنی خانۂ کعبہ) کا قصد کرکے آنے والوں (کے جان و مال اور عزت و آبرو) کی (بے حرمتی کرو کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے رب کا فضل اور رضا تلاش کر رہے ہیں‘‘
[المائدۃ:۲]
(۴) {جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَـلَآ ئِدَ ، ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمٌ}
’’اللہ نے عزت (و ادب) والے گھر کعبہ کو لوگوں کے (دینی و دنیوی امور میں) قیام (امن) کا باعث بنا دیا ہے اور حرمت والے مہینے کو اور کعبہ کی قربانی کو اور گلے میں علامتی پٹے والے جانوروں کو بھی (جو حرمِ مکہ میں لائے گئے ہوں سب کو اسی نسبت سے عزت و احترام عطا کر دیا گیا ہے)، یہ اس لیے کہ تمہیں علم ہو جائے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ خوب جانتا ہے اور اللہ ہر چیز سے بہت واقف ہے‘‘
[المائدۃ:۹۷]
(۵) {اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ}
’’بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتہ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں‘‘
[التوبۃ :۳۶]
اسی طرح ماہ محرم کی حرمت کی پامالی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعۂ شہادت پر نالہ و شیون اور نوحہ و ماتم کیا جاتا ہے۔ اپنے جسم کو از خود سخت تکلیفیں دی جاتی ہیں۔ تیز دھاری آلات سے جسم کو زخمی کیا جاتا ہے۔ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کے رنج و غم میں آہ و بکا کا ایسا عجیب وحشیانہ اور خوفناک منظر برپا کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ ! اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ کسی کی وفات یا شہادت پر رنج و غم اور افسوس کا اظہار نہ کیا جائے لیکن یہ اظہار شرعی حدو د میں رہتے ہوئے ہونا چاہئے جبکہ نوحہ و ماتم کرنے والے کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوٰي الجاهلية‘‘
’’ وہ شخص ہم (مسلمانوں) میں سے نہیں جس نے رخسار پیٹے، گریبان چاک کئے اور دورِ جاہلیت کے بین کئے‘‘ [صحیح بخاری:۱۲۹۷]
چند غیر شرعی رسم ورواج:
بدقسمتی سے لوگوں میں پائی جانے والی خرافات و غیر شرعی رسومات ان کے یومیہ اور ماہانہ وسالانہ معمولات کا حصہ بن چکی ہیں اور وہ بڑے اہتمام کے ساتھ ان رسومات کی ادائیگی کرتے نظر آتے ہیں۔ میری اس تحریر کا موضوع اسلامی سال کے پہلے بابرکت اور حرمت والے مہینے محرم الحرام میں پائی جانے والی خرافات و بدعات ہیں، جن کے سبب اس ماہ مقدس کی ناصرف بے حرمتی ہوتی ہے بلکہ اسلامی اقدار کا کھل کر مذاق بھی اڑایا جاتا ہے نیز بالخصوص شہدائے کربلا کی یاد منانے کی آڑ میں ایسے غیر شرعی کام سرانجام دیئے جاتے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
* تعزیوں کو ماتم کرتے ہوئے گلی گلی پھرانا، تعزیوں کے سامنے سجدہ کرنا، بچوں کو محرم کا فقیر بنا کر بھیک منگوانا۔
* مال کو ضائع کرنا، برتن پھوڑنا، دسویں محرم کو گھرمیں کھانا پکانے کو معیوب سمجھنا، خود کو فقیر بناکر بھیک مانگنا وغیرہ۔
* ماتم کرنا، کپڑے پھاڑنا، نوحے پڑھنا، رونا پیٹنا ، بطور سوگ سیاہ لباس پہننا، کالے بلے پہننا، نئے لباس کو برا سمجھنا وغیرہ۔
* ناچنا، کودنا، رقص کرنا، مرد و عورت کا ایک ساتھ مجالس و محافل میں بیٹھنا، جھوٹے واقعات بیان کرنا وغیرہ۔
* جھوٹی منتیں ماننا، امام قاسم کی مہندی نکالنا ، فضول کاموں میں لگ کر نمازیں ترک کردینا وغیرہ۔
* محر م الحرام میں شادی بیاہ و دیگر تقریبات کو ممنوع اور باعث نحوست سمجھنا،حالانکہ بعض روایات کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح محرم الحرام میں ہی ہوا تھا۔
مذکورہ خرافات و بدعات یا اس طرح کی اور رسومات جو مسلمانوں میں رائج ہیں سب ناجائز و ممنوع ہیں ان سے بچنا ہر صورت لازم ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خرافات ہماری دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب بن جائیں اور ہمیں علم بھی نہ ہو۔
محرم الحرام میں شادی کرنا کیسا؟
بعض لوگ محرم الحرام میں شادی کرنے کو برا تصور کرتے ہیں اور اسے بد شگونی (اپنے حق میں برا) قرار دیتے ہیں، اسی طرح دیگر جائز کاموں کو ناجائز سمجھنا یا غیر شرعی رسومات کو اچھا شگون سمجھنا یعنی اپنے حق میں بہتر جاننا ایسے لوگوں کے لیے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ:’’ بد شگونی شرک (یعنی مشرکوں جیسا کام) ہے اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں،اللہ تعالیٰ اسے توکل کے ذریعے دور کر دیتا ہے‘‘
[سنن ابی داؤد:۳۹۱۰، صحیح]
ایک اور روایت میں ہے:’’جس نے بَدشگونی لی اور جس کے لیے بَدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں۔(یعنی ہمارے طریقے پرنہیں)‘‘
[المعجم الکبیر:۳۵۵]
قارئین! دراصل اس مہینے کی حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات بخشی اور دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ’’شہر اللہ المحرم‘‘ اللہ نے اس مہینے کی نسبت اپنی جانب کی ہے حالانکہ تمام مہینے اللہ ہی کے بنائے ہوئے مہینے ہیں مگر جب کسی چیز کی نسبت اللہ اپنی جانب کردے تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے ،جیسے دیکھیں گھر تو بہت سارے ہیں لیکن اگر کسی گھر کی نسبت اللہ کی طرف ہوجائے جیسے’’بیت اللہ‘‘’’اللہ کا گھر ‘‘تو اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ سبحان اللہ۔
محرم کے روزوں کی فضیلت :
رمضان المبارک کے روزے سال بھر کے دیگر تمام روزوں سے افضل ہیں۔ البتہ رمضان کے ماسوا محرم کے روزوں کی فضیلت سب سے بڑھ کر ہے ،جیسا کہ درج ذیل صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ‘‘
’’رمضان المبارک کے بعد اللہ کے مہینے محرم کے روزے سب روزوں سے افضل ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز آدھی رات (یعنی تہجد) کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے‘‘
[مسلم:۱۱۶۳]
* صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ:
’’ أَيُّ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ وَأَيُّ الصِّيَامِ أَفْضَلُ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟‘‘
’’فرض نمازوں کے بعد کون سی نما زسب سے افضل ہے اور رمضان المبارک کے بعد کون سے روزے سب سے افضل ہیں؟‘‘ [مسلم:۱۱۶۳]تو آپ ﷺنے وہی جواب دیا جو پہلی حدیث میں مذکور ہے۔
یومِ عاشوراء کی فضیلت :
۱۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاء أَحْتَسِبُ عَلَي اللّٰهِ أَنْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ‘‘
’’مجھے اللہ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا ء کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا‘‘
[مسلم : ۱۱۶۲]
واضح رہے کہ ’’عاشوراء‘‘ عشر سے ہے جس کا معنی ہے دس ۔اور محرم کی دسویں تاریخ کو عاشوراء کہا جاتا ہے۔
۲۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ:’’قریش کے لوگ دورہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرمﷺ بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے‘‘
[صحیح بخاری:۲۰۰۳،صحیح مسلم: ۱۱۲۵]
۳۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں لوگ یومِ عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اللہ کے رسول ﷺ اور مسلمان بھی اس دن روزہ رکھتے۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ إِنَّ عَاشُورَائَ يَوْمٌ مِنْ أَيَّامِ اللّٰهِ فَمَنْ شَائَ صَامَهُ وَمَنْ شَائَ تَرَكَهُ ‘‘ ‘‘
’’عاشورا اللہ تعالیٰ کے دنوں میں سے ایک (معزز) دن ہے لہٰذا جو اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھے اور جونہ رکھنا چاہے وہ نہ رکھے‘‘
[صحیح مسلم:۱۱۲۶]
تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دورِ جاہلیت میں قریش دسویں محرم کا روزہ کیوں رکھتے تھے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ہر سال ماہِ محرم کی اس تاریخ کو بیت اللہ کو غلاف پہنایا کرتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ایک حدیث میں ہے ۔[صحیح بخاری:۱۵۸۲]
لیکن اس پر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قریش غلافِ کعبہ کے لیے یہی دن کیوں خاص کرتے تھے؟ تو اس کا جواب (اور پہلے سوال ہی کا دوسرا جواب) یہ ہوسکتا ہے جو حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
’’دورِ جاہلیت میں قریش نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کیا جو ان پر بڑا گراں گزرا تو ان سے کہا گیا کہ تم لوگ عاشوراء کا روزہ رکھو یہ تمہارے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ پھر اس وقت سے قریش عاشوراء کا روزہ رکھنے لگے‘‘
[فتح الباری:۴؍۷۷۳، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء ]
۴۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
’’جب اللہ کے رسول ﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا (افضل) دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات بخشی (اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت بحیرئہ قلزم میں غرقاب کیا) تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (بطورِ شکرانہ) اس دن روزہ رکھا (اور ہم بھی روزہ رکھتے ہیں) تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے (شریک ِمسرت ہونے میں) تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا‘‘
[صحیح بخاری:۲۰۰۴،صحیح مسلم :۱۱۳۰]
۵۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
’’میں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے رسول ﷺ دنوں میں سے دسویں محرم(یوم عاشوراء)کے اور مہینوں میں سے ماہِ رمضان کے روزوں کے سوا کسی اور روزے کو افضل سمجھ کر اس کا اہتمام کرتے ہوں‘‘
[صحیح بخاری:۲۰۰۶،صحیح مسلم:۱۱۳۲]
۶۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:’’عاشوراء کے روز یہودی عید مناتے مگر آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھا کرو‘‘[صحیح بخاری:۲۰۰۵،صحیح مسلم:۱۱۳۱]
۷۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی مسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ:’’اہل خیبر عاشوراء کے دن، روزہ رکھتے اور ا س دن عید مناتے اور اپنی عورتوں کو اچھے اچھے لباس اور زیورات پہناتے مگر اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھو‘‘
[صحیح مسلم:۲۶۶۱]
۸۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ:
’’اے اللہ کے رسول ﷺ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپ تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی موافقت ہورہی ہے۔) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ’’فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاء َ اللّٰهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ‘‘
’’ آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کو روزہ رکھیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسول انتقال فرما گئے‘‘
[صحیح مسلم۱۱۳۴ ]
۹ ۔ مسلم کی ایک روایت کے لفظ یہ ہیں کہ: ’’لَئِنْ بَقِيتُ إِلَي قَابِلٍ لأَصُومَنَّ التَّاسِعَ ‘‘
’’اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا‘‘
[صحیح مسلم:۱۱۳۴]
اللہ ہم تمام کو غیر شرعی رسومات سے بچنے اور محرم الحرام کی فضیلت کو حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمائے ۔ آمین