-
زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی (قسط ثالث) زانیہ حاملہ سے زانی کی شادی ناجائز ہونے پر دلائل:
ماقبل میں مذکور تمام حوالہ جات سے جمہور اہل ِعلم کا موقف یہی سامنے آتا ہے کہ زانیہ حاملہ سے اس کے ساتھ زنا کرنے والا وضع حمل سے قبل شادی نہیں کرسکتا۔اب کتاب وسنت اور آثارِ صحابہ سے اس کے دلائل ملاحظہ ہوں:
پہلی دلیل: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ}
’’اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے‘‘
[الطلاق:۴]
اس آیت میں ایک عمومی حکم ہے کہ حاملہ عورت سے نکاح نہیں ہوسکتا ،اس عموم میں مزنیہ حاملہ بھی شامل ہے ۔
حافظ محمد عبداللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہے کہ حاملہ عورت سے بھی حالت حمل میں نکاح جائز نہیں ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں حمل سے وہ حمل مراد ہے جو ثابت النسب ہو اور زنا سے جو حمل ہووہ ثابت النسب نہیں ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں یہ قید مذکور نہیں ہے اور نہ کسی آیت یا حدیث میں یہ قید مذکور ہے اور اپنی طرف سے کوئی قید لگانا جائز نہیں ہے۔پس یہ آیت اپنے اطلاق پر باقی رہے گی،ہاں اگر یہ عورتیں زنا سے سچی توبہ کرڈالیں تو ان کا نکاح بعد وضع ِحمل کے جائز ہے کیونکہ آدمی جب گناہ سے سچی توبہ کرڈالتاہے تو گناہ سے بالکل پاک ہوجاتا ہے پس یہ عور تیں زنا سے توبہ کرڈالنے کے بعد زانیہ ہی نہ رہیں بلکہ عفیفہ ہوگئیں۔پس اس سے پہلی وجہ نکاح کے ناجائز ہونے کی جاتی رہی اور وضعِ حمل کے بعدحاملہ بھی نہیں رہیں،پس دوسری وجہ بھی جاتی رہی اور جب ان عورتوں کا حالت ِحمل میں نکاح ہی جائز نہیں تو وطی کیوں کر جائز ہوگی؟واللہ تعالیٰ اعلم۔ [مجموعہ فتاویٰ عبداللّٰہ غازی پوری :ج:۱،ص:۴۳۰]
دوسری دلیل: اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَرَفَعَهُ، أَنَّهُ قَالَ فِي سَبَايَا أَوْطَاسَ: ’’لَا تُوطَأُ حَامِلٌ حَتَّي تَضَعَ، وَلَا غَيْرُ ذَاتِ حَمْلٍ حَتَّي تَحِيضَ حَيْضَةً ‘‘
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے جنگ اوطاس کی قیدی عورتوں (لونڈیوں ) کے متعلق فرمایا: ’’کسی بھی حاملہ سے وضع حمل سے قبل جماع نہ کیا جائے اسی طرح کسی بھی غیر حاملہ سے جماع نہ کیا جائے، یہاں تک کہ اسے ایک حیض آ جائے ‘‘
[سنن أبی داؤد :رقم:۲۱۵۷، وصححہ الألبانی]
اس حدیث میں بھی یہ عمومی ضابطہ بتایا گیا ہے کہ حاملہ سے وضع ِحمل سے قبل وطی جائز نہیں ہے ۔لہٰذا حمل جب وطی سے مانع ہے تو حمل نکاح سے بھی مانع ہے۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ (المتوفی۷۵۱) فرماتے ہیں:
’’وَنَهَي النَّبِيّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُوطَأ الْمَسْبِيَّة الْحَامِل حَتَّي تَضَع مَعَ أَنَّ حَمْلهَا مَمْلُوك لَهُ فَالْحَامِل مِنَ الزَّنٰي أَوْلَي أَنْ لَا تُوطَأ حَتَّي تَضَع وَلِأَنَّ مَاء الزَّانِي وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حُرْمَة فَمَاء الزَّوْج مُحْتَرَم فَكَيْفَ يَسُوغ لَهُ أَنْ يَخْلِطهُ بِمَائِ الْفُجُور‘‘
’’اللہ کے نبی ﷺ نے اس بات سے روکا ہے کہ حاملہ لونڈی سے وطی کی جائے جب تک کہ وہ بچہ نہ جَن دے ، حالانکہ وہ بچہ بھی صاحب لونڈی کا غلام ہی ہوتا تو پھر زنا سے حاملہ ہونے والی عورت کے ساتھ وطی بدرجہ ناجائز ہوگی کیونکہ زانی کے نطفہ(خون) کا گرچہ کوئی احترام نہیں ہے لیکن شوہر کا نطفہ (خون)قابل احترام ہے تو شوہر کے لیے کیسے جائز ہوسکتاہے کہ حرام نطفہ (خون)کے ساتھ اپنے حلال نطفہ (خون)کو خلط ملط کرے‘‘
[تہذیب سنن أبی داؤد ۔ ط عطاء ات العلم:۱؍۴۵۳]
تیسری دلیل: امام عبد الرزاق رحمہ اللہ (المتوفی۲۱۱) نے کہا:
أخبرنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللّٰهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، أَنَّهُ سَمِعَ سِبَاعَ بْنَ ثَابِتِ الزُّهْرِيَّ يَقُولُ: ’’إِنَّ مَوْهَبَ بْنَ رَبَاحٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً، وَلِلْمَرْأَةِ ابْنَةٌ مِنْ غَيْرِ مَوْهَبٍ، وَلِمَوْهَبٍ ابْن مِنْ غَيْرِ امْرَأَتِهِ، فَأَصابَ ابْنُ مَوْهَبٍ ابْنَةَ الْمَرْأَةِ، فَرُفِعَ ذٰلِكَ إِلَي عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَحَدَّ عُمَرُ ابْنَ مَوْهَبٍ، وَأَخَّرَ الْمَرْأَةَ حَتَّي وَضعَتْ، ثُمَّ حَدَّهَا، وَحَرَصَ عَلٰي أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَهُمَا، فَأَبَي ابْنُ مَوْهَبٍ‘‘
سباع بن ثابت زہری فرماتے ہیں کہ:’’ موہب بن رباح نے ایک عورت سے شادی کی اور اس عورت کے پاس پہلے شوہر سے ایک لڑکی تھی اور موہب کے پاس اس عورت کے علاوہ دوسری بیوی سے ایک لڑکا تھا تو موہب کے لڑکے نے اس عورت کی لڑکی سے زنا کرلیا ،تو یہ معاملہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا تو عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے موہب کے بیٹے کو کوڑے لگائے اور لڑکی پر حد جاری کرنے میں تاخیر کی یہاں تک کہ اس نے بچے کو جنم دیا پھر اس پر بھی حد جاری کی ، اس کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کی شادی کرانی چاہی لیکن لڑکے ابن موہب نے انکار کردیا‘‘
[ مصنف عبد الرزاق:۷؍۱۵۸ ط التأصیل ، وإسنادہ صحیح]
اس اثر میں غور کریں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ دونوں زانی آپس میں شادی کرلیں لیکن اس کے باوجود بھی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے زانیہ کے وضع حمل سے پہلے ان دونوں کی شادی کی بات نہیں کی بلکہ پہلے زانیہ کے وضع حمل کاانتظار کیا پھر اس پرحد جاری کی اس کے بعد دونوں کی شادی کی بات کی ۔
اس کے برعکس عمرفاروق رضی اللہ عنہ یاکسی بھی دوسرے صحابی کا کوئی قول بسندِ صحیح ہم کو نہیں مل سکا۔
معلوم ہواکہ زانیہ حاملہ سے وضع ِحمل سے قبل کوئی بھی شادی نہیں کرسکتاحتیٰ کہ اس کے ساتھ زناکرنے والابھی ۔
فریق مخالف کے دلائل کا جائزہ:
پہلی دلیل: شادی میں اصل جواز ہے اور زانیہ حاملہ سے زانی کی شادی ناجائز ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے اس لیے یہ شادی جائز ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ صحیح اور صریح احادیث میں حاملہ عورت سے عدت سے پہلے یعنی وضع حمل سے قبل شادی کو حرام قراردیا گیا ہے اور اس عموم میں زانیہ حاملہ اور زانی کی شادی بھی شامل ہے۔
ایک شبہ کاازالہ: ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ مختلعہ حاملہ کی شادی اسی شوہر سے دوران عدت ہی ہوسکتی ہے کیونکہ حمل اسی کا ہے ۔اسی طرح مزنیہ حاملہ کی شادی بھی اس کے ساتھ زناکرنے والے سے ہوسکتی ہے کیونکہ یہ حمل اسی کا ہے۔
توعرض ہے اول تو مختلعہ حاملہ کے اپنے سابق شوہرسے دوران عدت شادی پر بھی سب کا اتفاق نہیں ہے ، کیونکہ بعض اہل علم اس کے لیے بھی استثناء کے قائل نہیں ہیںکیونکہ ان کی نظر میں حاملہ سے شادی کی ممانعت کا حکم تعبدی اور غیر معقول العلۃ ہے، لہٰذا قیاس واجتہاد سے کسی کا استثنا نہیں ہوسکتا۔
ابن رشد الحفید (ت ۵۹۵ہـ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’أن الجمهور أجمعوا علٰي أن له أن يتزوجها برضاها فى عدتها، وقالت فرقة من المتأخرين: لا يتزوجها هو ولا غيره فى العدة۔ وسبب اختلافهم: هل المنع من النكاح فى العدة عبادة، أو ليس بعبادة بل معلل‘‘؟
’’ جمہور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مختلعہ اگر راضی ہو تو اس سے دوران عدت اس کا سابق شوہر شادی کرسکتا ہے ، جبکہ متاخرین کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ مختلعہ سے دوران عدت نہ تو اس کا سابق شوہر نکاح کرسکتا ہے اورنہ ہی اس کے علاوہ کوئی دوسرا نکاح کرسکتا ہے ، ان اہل علم کے اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دوران عدت شادی کی ممانعت کا حکم تعبدی ہے یا تعبدی نہیں بلکہ معقول العلہ ہے ‘‘
[ بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد:۳؍۹۲]
البتہ جمہور اہل علم جواز کے قائل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ حکم معقول العلۃ ہے اور اس کی علت نسب کی حفاظت اور حلال وحرام خون میں تمیز ہے اور مختلعہ حاملہ کا حمل اپنے سابق شوہر ہی کا ہے اور حلال خون سے ہے ۔لہٰذا یہاں نسب کے ثبوت اور حلال وحرام کے اختلاط کا کوئی شبہ نہیں ہے اس لیے یہ شادی جائز ہے۔
لیکن یہی جمہور مزنیہ حاملہ سے اس کے زانی کی شادی کو جائز نہیں ٹھہراتے اس کی دو وجہ ہے:
اول : اس حمل کا سبب گرچہ زانی ہے لیکن شرعاً یہ بچہ زانی کا نہیں مانا جائے گا۔
دوم : زانیہ کاحمل حرام نطفے سے ہے اوراس حالت میں اس سے شادی کی گئی تو اس کے ساتھ حلال نطفہ خلط ملط ہوگا ۔
یہ دونوں صورتیں مختلعہ حاملہ کے اپنے سابق شوہر کے ساتھ شادی میں نہیں پائی جاتیں کیونکہ مختلعہ کا حمل اس کے شوہر کا ہی ہوتا ہے ،نیز یہ حمل بھی حلال نطفہ کا ہوتا ہے۔لہٰذا زانیہ حاملہ کو مختلعہ حاملہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ، یہی وجہ ہے کہ جمہور مختلعہ حاملہ کی اس کے شوہر سے شادی کو جائز مانتے ہیں لیکن زانیہ حاملہ کی اس کے ساتھ زناکرنے والے کے ساتھ شادی جائز نہیں مانتے۔
دوسری دلیل:
جمہورجو زانیہ حاملہ کی شادی اس کے زانی سے جائز نہیں مانتے تو ان کے موقف کی بنیاد یہ ہے کہ وہ زنا سے نسب کو ثابت نہیں مانتے اورجمہور کی یہ بنیاد ہی درست نہیں کیونکہ زانی اگر اپنے نطفے سے پیدا ہونے والے بچے کا اقرار کرے اور اس کے برخلاف کوئی دوسرا اس بچہ کا دعویدار نہ ہو تو ایسی صورت میں اس بچہ کا نسب زانی سے ثابت ہوگا۔لہٰذا جب نسب ثابت ہوگا تو زانی اپنی مزنیہ حاملہ سے شادی کرسکتا ہے کیونکہ اس صورت میں نسب کے اختلاط کامسئلہ نہیں ہے۔
عرض ہے کہ: اول تو جمہور کی مذکورہ بنیاد غلط نہیں بلکہ بالکل درست ہے یعنی واقعتا زنا سے کسی بھی صورت میں نسب کا اثبات نہیں ہوگا تفصیل آگے آرہی ہے۔ دوم یہ کہ زنا سے نسب کے اثبات کا مسئلہ تسلیم کرلیا جائے تب بھی زانیہ حاملہ سے زانی کی شادی کا جواز ثابت نہیں ہوسکتا، چنانچہ غور کریں کہ:
احناف زنا سے نسب کو ثابت مانتے ہیں ، جبکہ شوافع زنا سے نسب کو ثابت نہیں مانتے ، لیکن اس اختلاف کے باوجود دونوں زانیہ حاملہ سے زانی کی شادی درست مانتے ہیں ۔
دوسری طرف بعض حنابلہ زنا سے نسب کو ثابت مانتے ہیں ، جبکہ مالکیہ زنا سے نسب کو ثابت نہیں مانتے ، لیکن اس اختلاف کے باوجود دونوں زانیہ حاملہ سے زانی کی شادی کو ناجائز مانتے ہیں ۔
اس لیے بالفرض اس بات کو درست بھی مان لیا جائے کہ زنا سے نسب ثابت ہوجاتا ہے تو بھی اس سے زانیہ حاملہ سے وضع حمل سے قبل زانی کی شادی کا درست ہونا لازم نہیں آتا ، جیساکہ اس کی تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔
اب اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں ہے تاہم اگلی سطور میں ہم یہ بھی واضح کریں گے کہ زناسے نسب کے اثبات ونفی کے مسئلہ میں بھی جمہور کا موقف ہی درست ہے۔
جاری ہے ……