-
مدینہ کا سفر سفر مدینے کا ہے اور ذہن و دماغ میں صحابہء کرام اور نبی کریم ﷺ کی ہجرت کے واقعات گھوم رہے ہیں، ہم تو جدید ٹیکنالوجی سے لیس گاڑی میں سفر کر رہے ہیں لیکن آہ وہ صحابہء کرام کی ہجرت! کس قدر پریشانیوں اور دکھوں سے بھری ہوئی ہے،آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں،دل مغموم ہو جاتا ہے، ذہن و دماغ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، وہ اس لیے کہ ہجرت آسان کہاں ہوتی ہے؟ ہجرت کا مطلب تھا اپنا گھر، فیملی، کنبہ، قبیلہ، مال و جائیداد، پیاروں اور زمین کو چھوڑ دینا،یہ امتحان تھا اور امتحان میں ہر کوئی کہاں کامیاب ہوتا ہے،مگر صحابہ کامیاب ہو گئے، اس وقت ذہن و دماغ میں بس انہی کی یادیں بسی ہوئی ہیں،سوچ سوچ کر رونا آ رہا ہے۔
ہاں سنیں کہ مجھے ابو سلمہ یاد آ رہے ہیں جو اسلام کے سب سے پہلے مہاجر ہیں، ان کی بیوی ام سلمہ یاد آ رہی ہیں کہ ان دونوں اور ان کے بچے سلمہ کو ایک دوسرے سے الگ الگ کر دیا گیا، ابو سلمہ مدینہ چلے گئے،ام سلمہ کو ان کے میکے والے لے گئے،سلمہ کو ابو سلمہ کے گھر والے لے گئے،ہاں اس چھوٹی سی فیملی کا پل بھر میں جدا ہو جانا یاد آ رہا ہے، اور قربان جاؤں ام سلمہ پر کہ شوہر سے بچھڑ جانے کے بعد مسلسل ایک سال تک اس جدائی کے مقام پر آتی رہیں، روتی رہیں، بچھڑنے کا غم انہیں ستاتا رہا،ہاں یہ سب اس سفر میں یاد آ رہا ہے۔
صہیب رومی کی نفع بخش تجارت ذہن میں آ رہی ہے کہ روم سے آئے تھے،مکہ میں تجارت کی، مال دار ہو گئے، ہجرت کے لیے نکلے تو کافروں نے گھیر لیا، کہنے لگے: قلاش آئے تھے اب مال دار ہو چکے ہو، ہم کیسے تمہیں جانے دے سکتے ہیں۔ کہا: مال چھوڑ دوں جانے دو گے؟ کہنے لگے: جانے دیں گے۔ اللہ، رسول اور دین کی محبت کے لیے زندگی بھر کی جمع پونجی چھوڑ دی، ہجرت کر گئے، مدینہ پہنچے اور نبی کو جب اس کا علم ہوا تو آپ کی زبان سے جملہ سنا کہ صہیب نے بڑی نفع بخش تجارت کی۔
ہجرت کے موقع سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دلیری اور حوصلہ دماغ پر دستک دے رہا ہے۔
صحابہ کی داستانِ ہجرت سے آگے بڑھیں تو نبی کریم ﷺ کی ہجرت ذہن میں آتی ہے،مکہ والوں نے پلان بنایا کہ اب قصہ ختم کر دیا جائے، پلان بن گیا، عمل پیرا ہونے کے لیے لوگوں نے گھر گھیر لیا، آج نکلیں گے تو مارے جائیں گے،لیکن جس کا محافظ رب ہو اس کا کون کیا کر سکتا ہے، وحی کے ذریعے کفار مکہ کے پلان کا علم ہوا تو ابو بکر سے مشورہ کیا، علی کو اپنے بستر پر سو جانے کے لیے کہا، پوری ترتیب بنا لی اور رات کا ایک بڑا حصہ گزر جانے کے بعد گھر سے نکل پڑے، ایک مٹھی مٹی لی اور کافروں کی جانب پھینکتے ہوئے آگے بڑھ گئے، اللہ کے حکم سے سارے کافروں کی نگاہوں پر پردہ پڑ گیا، سامنے سے نکل گئے، ابو بکر کے گھر پہنچے،دونوں نے پچھلے دروازے سے مدینہ کے مخالف سمت کا راستہ لیا اور سیدھے غار ثور پہنچ گئے۔
اب یہاں رکیں۔ مشرکین کی بوکھلاہٹ کا تذکرہ کروں یا صدیق کی قربانیوں کا، محبوب کو ذرا بھی تکلیف نہ ہو اس لیے صدیق پہلے غار میں گئے، غار کو اچھی طرح صاف کیا، سوراخ میں کپڑے ڈال دئیے، پھر بھی رہ گیا تو اپنا پاؤں رکھ دیا، محبوب کو آواز دی تشریف لائیں،محبوب آئے اور صدیق کی گود میں سر رکھ کر سو گئے۔ آہ صدیق! قربان جاؤں آپ کی محبت پر!کسی جانور نے ڈس لیا، تکلیف ہوئی اور شدت کی ہوئی لیکن محبوب جب گود میں سر رکھ کر آرام فرما ہوں تو جنبش بھی نہیں کی جا سکتی نا، سو نہیں کیا، لیکن تھے انسان،جب تکلیف برداشت سے باہر ہوئی تو آنکھوں سے آنسو گرنے لگے اور وہ قطرے محبوب پر گرے تو ان کی آنکھیں کھل گئی۔صدیق! کیا ہوا؟ آنسو کیوں گر رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ پیارے نبی! کسی جانور نے ڈس لیا۔ برکتوں والی ذات نے لعاب مبارک لگایا اور وہ تکلیف دور ہو گئی… ہاں یہی تو محبت ہے کہ محبوب کی آنکھوں میں آنسو نہ آئے اور اس کی تکلیف اپنی تکلیف ہو،ایسے ہی تو نہیں کہا نا کہ سب کے احسانات کا بدلہ چکا دیا لیکن صدیق کے احسانات کا بدلہ رب دے گا۔
دوسری طرف مشرکین انتظار کر رہے ہیں کہ اب نکلیں گے اب قتل کر دیا جائے گا، انہیں کیا معلوم کہ عرش والے کی تدبیر کے سامنے ان کی تدبیر کی کوئی حیثیت نہیں،کسی تیسرے فرد کی آمد ہوئی، کہا: کسی کا انتظار کر رہے ہو؟ جواب دیا:محمد کا۔ کہا: وہ تو تمہاری نظروں کے سامنے سے نکل گئے، کہنے لگے: بے وقوف بناتے ہو، ہم یہیں ہیں وہ یہاں سے نہیں گزرے۔کہا: یقین نہ آئے تو اپنے سروں پر ہاتھ پھیرو، ہاتھ پھیرا تو مٹی کے اثرات تھے، حیران تو ہوئے لیکن فوراً بھاگے نبی کے گھر کی طرف،دروازے کی دراز سے جھانکا تو نبی کا بستر بھی ہے، چادر بھی انہی کی ہے، لیٹا بھی کوئی ہے، کہا: یہ تو یہیں ہیں کہیں نہیں گئے، پھر انتظار کرنے لگے لیکن جب یہ وقفہ لمبا ہوا تو گھر میں گھس گئے، چادر ہٹایا، ہوش اڑ گئے، یہ تو محمد نہیں بلکہ ان کا وفادار علی ہے۔ مارا پیٹا، پوچھا محمد کہاں ہیں؟ کہنے لگے نہیں معلوم۔ مانو ان کے پیروں سے زمین کھسک گئی،بھاگے بھاگے صدیق کے گھر پہنچے، اسماء نے دروازہ کھولا، ابو جہل کا سوال آیا کہ محمد کہاں ہیں؟ ابو بکر کہاں ہیں؟ انہیں نہیں معلوم تھا سو کہہ دیا نہیں معلوم۔ ابو جہل نے تھپڑ مارا اور اسماء کی کان کی بالی گر گئی، انعام کا اعلان ہو گیا کہ جو محمد یا ابو بکر یا ان دونوں کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اسے ہر ایک کے بدلے سو سرخ اونٹ انعام میں دئیے جائیں گے، انعام کی لالچ نے ہر ایک کو کام پر لگا دیا۔
اب واپس غار میں آئیں،نبی نے ہجرت کا ایسا خاکہ ترتیب دیا تھا کہ عقل حیران ہے، مکہ میں کیا چل رہا ہے خبریں ابو بکر کے بیٹے عبد اللہ لے کر آتے تھے، ان کے آنے جانے کے نشانات چرواہا عامر بن فہیرہ کی بکریوں کے قدموں سے مٹ جاتے تھے، جانور تیار کر لیے گئے تھے، رہنما کی خدمات لی جا چکی تھیں، خبر ملی کہ انعام کا اعلان ہو چکا ہے، لوگ بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، کچھ تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک بھی پہنچے، صدیق بے چین ہو گئے، اللہ کے رسول! یہ ہمارے اتنے قریب ہیں کہ بس نگاہیں نیچی کریں تو ہمیں دیکھ لیں گے، ہاں محبوب وہی ہے جو تسلی کا سامان فراہم کرے، جو مشکل کے وقت بھی کنٹرول میں رہے اور رکھے، محبوب نے تسلی دیتے ہوئے کہا: ابو بکر!تمہارا ان دو لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے؟ پریشان نہ ہوں اللہ ہمارے ساتھ ہے، محبوب نے تسلی دی تو صدیق پر سکون ہو گئے،تاک میں آنے والے قریب آ کر بھی دور چلے گئے۔
تین دن گزرے، تو نکلنے کا ارادہ ہوااور اب اصل سفر شروع ہوا ہجرت کا، پورے ساڑھے چار سو کلو میٹر کا لمبا سفر، ریت، پتھر اور پہاڑوں کا راستہ، دھوپ کی شدت، جانور کی سخت پیٹھ، نشیب و فراز اور تلاش کرنے والوں کا خوف… لیکن میرے ماں باپ قربان ہوں اُس نبی پر،دین کے لیے، امت کے لیے اور رب کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کیا، سوچو تو خوف آتا ہے کہ اتنا لمبا سفر کبھی پیدل کبھی سواری پر کیسے انہوں نے طے کیا ہوگا؟ ہم اے سی گاڑی میں چھ گھنٹے کے سفر سے ہی پریشان ہو جاتے ہیں تو ذرا ان کے بارے میں بھی سوچ لینا۔
قصۂ مختصر یہ کہ مدینے کا سفر بہت سی یادوں کے پردے کھول دیتا ہے،کبھی اس سفر پر نکلو تو ان کی پریشانیوں اور قربانیوں کو بھی یاد کر لینا۔ اور ہاں مکہ سے نکلتے ہوئے جب ہماری کیفیت بدل جاتی ہے، محبت کا جذبہ ابھر جاتا ہے، آنکھوں سے آنسو آ جاتے ہیں،مکہ کی جدائی ستاتی ہے، دل پر کچوکے لگتے ہیں تو آپ سوچیں اُس نبی کے جذبات اور کیفیت کا عالم کیا ہوگا جس کی پیدائش وہیں کی، جس کا بچپن وہیں گزرا، جس کا خاندان وہاں پر، جس کے اپنے وہاں موجود، جس کی چہیتی بیوی کی قبر وہاں موجود ہو، مکہ سے جانے لگے تو اظہار بھی کیا تھا: اے مکہ! مجھے تجھ سے محبت ہے، تو میرے نزدیک محبوب ترین شہر ہے، اگر تیرے اپنے مجھے یہاں سے نہ نکالتے تو میں تجھے چھوڑ کر کبھی نہ جاتا۔
فداه أبي وأمي ﷺ… اللهم صل وسلم علٰي نبينا محمد وعلٰي آله وصحبه أجمعين وسلم تسليما كثيرا
صحابہ ہماری جان… صحابہ پر ہم قربان. رضی اللّٰہ عنہم اجمعین
ربنا اغفرلنا و لإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل فى قلوبنا غلا للذين آمنوا ربنا إنك رء وف رحيم۔
۱۵؍فروری ۲۰۲۳ء بروز بدھ