-
جائز اور نا جائز لباسوں کو پہچاننے کے ضوابط لباس وپوشاک اور کپڑوں کے تعلق سے اصل اور بنیادی حکم یہ ہے کہ انسانوں کے لیے دنیا میں پایا جانے والا ہر قسم کا لباس پہننا جائز ہے، سوائے ان لباسوں کے جن کے تعلق سے قرآن وحدیث میں ممانعت آئی ہے، یا جن کے استعمال سے شریعت کی طرف سے مقرر کردہ عام اصولوں میں سے کسی کی مخالفت لازم آتی ہے۔
[القواعد النُّورانیۃ لابن تَیمیَّۃَ:ص:۱۶۴، الإفہام فی شرح عمدۃ الأحکام لابن باز :ص:۷۷۷]
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا }
’’اسی (اللہ) نے تمہارے لیے ان تمام چیزوں کو پیدا کیا جو زمین میں ہیں‘‘
[البقرۃ: ۲۹]
لہٰذا جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام چیزوں کو انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے تو ان کے لیے ان تمام چیزوں کو استعمال کرنا جائز ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ خود کسی چیز سے منع کر دے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰي ذٰلِكَ خَيْرٌ }
’’اے آدم کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس ہی سب سے بہتر ہے‘‘
[الأعراف: ۲۶]
اور فرماتا ہے: {يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ}
’’اے آدم کی اولاد! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘
[الأعراف: ۳۱]
اور فرماتا ہے: {قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّٰهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ}
’’آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے، اور کھانے پینے کی پاکیزہ (حلال) چیزوں کو کس نے حرام کیا ہے؟‘‘
[الأعراف: ۳۱۔۳۲]
ان آیتوں سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے جتنے بھی انواع و اقسام کے لباس وپوشاک پیدا کئے ہیں، ان کے لیے ان تمام کا استعمال جائز ہے، اسی لیے فرمایا ہے کہ میں نے تو ان لباسوں کو تمہارے لیے پیدا کیا ہے تاکہ تم انہیں استعمال کر سکو، اب اگر میں نے کسی لباس کو حرام نہیں کیا ہے تو پھر کس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حرام کرے؟ اور تم استعمال کرنا چھوڑ دو! لہٰذا اگر اللہ نے کسی لباس کو پہننے سے نہیں روکا ہے تو اس کا پہننا جائز ہے اس کے جواز کے لیے کسی اضافی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہی کسی کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی لباس کو حرام قرار دے۔ (ملاحظہ فرمائیں تفسیر ابن کثیر: ۳؍ ۴۰۸)
دوسری بات یہ ہے کہ کپڑوں کا استعمال ’’عادات‘‘ میں سے ہے اور عادات میں اصل حلت واباحت ہے، الا یہ کہ ممانعت کی دلیل موجود ہو۔
[لقاء الباب المفتوح لابن عثیمین اللقاء رقم: ۱۱، فتاوی اللَّجْنۃ الدَّائِمۃ: ۲۴؍۳۸]
اس اہم اور بنیادی اصول کی معرفت کے بعد اب ان ضوابط کا علم حاصل کرنا مفید ہے جن کے ذریعے آسانی کے ساتھ جائز اور حرام لباسوں کے درمیان تمیز کی جا سکتی ہے، چونکہ اس باب میں اصل اباحت ہے اس لیے ضوابط کی صورت میں ان شرعی محظورات اور عیوب وموانع کو جان لینا کافی ہوگا جن کے پائے جانے کی صورت میں کسی لباس کا استعمال حرام اور ممنوع قرار پاتا ہے، چنانچہ کسی لباس کے اندر اگر درج ذیل امور میں سے کوئی چیز پائی جائے گی تو اس کا استعمال ممنوع ہوگا، اور جو بھی لباس ان امور سے خالی ہوگا اس کا استعمال بالکل جائز ہوگا، ملاحظہ فرمائیں:
پہلا ضابطہ: وہ لباس کسی ایسی چیز سے نہ بنایا گیا ہو جو بذات خود حرام یا نجس ہے، جیسے مَردوں کے لیے ریشم اور سونے سے بنایا گیا لباس، یا مطلق طور پر سور ،کتا ،لومڑی، چیتا اور ان جانوروں کے چمڑوں سے بنایا گیا لباس جن کا کھانا جائز نہیں ہے۔
[لقاء الباب المفتوح لابن عثیمین: ۳۹؍ ۵۲ فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ۲۴ ؍۲۹-۳۰]
عن عليَّ بنَ أبي طالب رضي اللّٰه عنه يقول:’’إنَّ نبيَّ اللّٰهِ صلَّي اللّٰهُ عليه وسلَّم أخذ حريرًا، فجعَلَه فى يمينِه، وأخذ ذهَبًا فجعَلَه فى شِمالِه، ثمَّ قال: إنَّ هٰذينِ حرامٌ علٰي ذُكورِ أمَّتي‘‘
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:’’اللہ کے نبی ﷺ نے ریشم لیا اور اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور سونا لیا اور اسے اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا، پھر فرمایا:’’بلاشبہ یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں‘‘
[أخرجہ أبو داؤد: ۴۰۵۷، والنَّسائی: ۵۱۴۴، وحسنہ ابن المدینی وصححہ الألبانی]
امام ابن عبد البر اور امام نووی رحمہما اللہ نے مردوں کے لیے سونا اور ریشم کی حرمت پر علما ء کا اجماع نقل کیا ہے۔
[التمہید :۱۴؍ ۲۴۱، المجموع شرح المہذب: ۴؍ ۴۴۱]
اسی طرح راجح موقف کے مطابق کھانے پینے اور پہننے کے معاملے میں نجس چیزوں سے استفادہ جائز نہیں ہے۔
[المجموع للنووی: ۴؍ ۴۴۶]
دوسرا ضابطہ: مردوں کا لباس عورتوں کے مشابہ نہ ہو اور عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو، چنانچہ اگر کوئی لباس مردوں کے لیے خاص ہے تو عورتوں کے لیے اس کا پہننا حرام ہے خواہ وہ کپڑوں کے اندر چھپا ہوا ہی کیوں نہ ہو، اور اگر کوئی لباس عورتوں کے لیے مخصوص ہے تو مردوں کے لیے اس کا استعمال حرام ہے۔
[فتاویٰ نور علی الدرب لابن باز ’’حکم لبس المرأۃ لباس الرجل‘‘]
عنِ ابنِ عبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عنهما، قال:’’لعن رسولُ اللّٰه صلَّي اللّٰهُ عليه وسلَّم المتشَبِّهينَ مِن الرِّجالِ بالنِّسائِ، والمتشَبِّهاتِ مِن النِّسائِ بالرِّجالِ‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے ان مردوں پر لعنت بھیجی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘
[أخرَجَہ البُخاریّ:ُ ۵۸۸۵]
عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: ’’لَعَنَ رَسُولُ اللّٰه صَلَّي اللّٰهُ عَليْه وسَلَّمَ الرَّجُلَ يَلْبَسُ لِبْسَةَ الْمَرْأَةِ وَالْمَرْأَةَ تَلْبَسُ لِبْسَةَ الرَّجُلِ‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ایسے مرد پر جو عورت جیسا لباس پہنے اور ایسی عورت پر جو مردوں جیسا لباس پہنے‘‘
[أخرجہ أبو داؤد: ۴۰۹۸، وصححہ الألبانی]
البتہ اگر کوئی ایسا لباس ہے جو کسی جنس کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اسے مرد اور عورت دونوں استعمال کرتے ہیں تو سبھی کے لیے اس کا استعمال جائز ہے۔
[فتاویٰ نور علی الدرب لابن عثیمین :۲۲؍۲]
اسی طرح بعض قوموں کے نزدیک بعض لباسیں کسی ایک جنس کے ساتھ خاص ہوتی ہیں، لہٰذا ان قوموں کی دوسری جنس کے لیے ان کا استعمال ممنوع ہے، جبکہ دوسری قوموں کے نزدیک وہی لباسیں مرد وعورت سب کے لیے عام ہوتی ہیں اور انہیں سب پہنتے ہیں، ایسی صورت میں ان قوموں کے مرد وعورت سبھی کے لیے اس کا استعمال جائز ہے، لہٰذا اس سلسلے میں عرف عام اور قوموں کی عادات کا اعتبار سب سے زیادہ ضروری ہے، مثال کے طور پر یورپ امریکہ اور دیگر بہت سارے ممالک میں پینٹ ٹراوزر اور شرٹ وغیرہ مرد وعورت سبھی پہنتے ہیں، لہٰذا ان کپڑوں کو صرف مشابہت کی بنیاد پر کسی جنس کے لیے ممنوع قرار دینا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ ان میں کوئی اور قباحت اور مانع موجود ہو۔
[فتاویٰ نور علی الدرب للعثیمین: ۲۲؍۲، شرح سنن ابی داؤد:۱۳؍ ۴۶۰]
تیسرا ضابطہ: وہ لباس کفار ومشرکین، اہل بدعت وضلالت، فساق وفجار اور اداکار وبدکردار لوگوں کے مشابہ نہ ہو، اس طور پر کہ وہ لباس اس طرح کے لوگوں کے ساتھ خاص ہو، یا اس کا تعلق ان مشرکین ومبتدعیں کے مذہب اور عقیدہ سے ہو، یا کسی فاسق وفاجر کی تقلید کرتے ہوئے اس کے اسٹائل کو اپنا کر خاص قسم کا لباس پہنا جائے، چنانچہ اگر کوئی لباس کفار ومشرکین اور بدعتیوں کے ساتھ خاص ہے جسے صرف وہی لوگ پہنتے ہیں، یا اسے صرف فاسق وفاجر اور بدکردار لوگ ہی زیب تن کرتے ہیں، تو ایسے لباس کا استعمال ممنوع اور حرام ہے۔
عن عبدِ اللّٰهِ بنِ عَمرِو بنِ العاصِ رضي اللّٰه عنهما، قال:’’ر أى رسولُ اللّٰه صلَّي اللّٰهُ عليه وسلَّم عليَّ ثَوبَينِ مُعَصْفَرينِ، فقال: إنَّ هذه مِن ثيابِ الكُفَّارِ، فَلا تَلْبَسْهَا‘‘
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:’’نبی کریم ﷺ نے مجھے دو زرد رنگ کے معصفر کپڑے پہنے ہوئے دیکھا، تو فرمانے لگے :یہ کفار کے کپڑوں میں سے ہیں، تم انہیں مت پہنو “
[أخرجہ مُسْلِم : ۲۰۷۷]
عن ابنِ عُمَرَ رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسولُ اللّٰهﷺ :’’مَن تشَبَّه بقَومٍ فهو منهم‘‘
رسول کریم ﷺنے فرمایا:’’ جس کسی نے بھی کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے‘‘
[أخرجہ أبو داؤد:۴۰۳۱، وأحمد: ۵۱۱۴، وصححہ أحمد شاکر والألبانی]
عن عمر رضي اللّٰه عنه أنه كتب للمسلمين فى أذربيجان:’’إياكم والتنعم وزي أهل الشرك‘‘
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آذربائیجان کے مسلمانوں کو خط لکھا:’’تم ناز و نعمت میں پڑنے اور مشرکوں کے لباس سے اجتناب کرو ‘‘
[رواہ مسلم: ۲۰۶۹]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ تشبہ کا پیمانہ یہ ہے کہ مشابہت اختیار کرنے والا شخص کوئی ایسا کام کرے جو اس شخص کے ساتھ خاص ہے جس کی مشابہت اختیار کی جا رہی ہے، چنانچہ کفار کی مشابہت یہ ہے کہ مسلم شخص کوئی ایسا کام کرے جو ان کے خصائص میں سے ہے، رہی بات اس عمل کی جو مسلمانوں کے درمیان منتشر ومعمول بہ ہے اور کفار کے ساتھ خاص نہیں ہے تو اس کا کرنا تشبہ نہیں ہوگا، چنانچہ وہ اس بنیاد پر حرام نہیں ہوگا کہ وہ تشبہ بالکفار کے زمرے میں آتا ہے الا یہ کہ وہ کسی دوسری وجہ سے حرام ہو‘‘
[مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین: ۱۲ ؍ ۲۹۰]
واضح رہے کہ اس مسئلے میں نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہے اس طور پر کہ اگر کوئی اتفاقی طور پر مشابہت کی نیت کئے بغیر بھی کفار ومشرکین اور بدعتیوں کا مخصوص یا مذہبی لباس زیب تن کرتا ہے تب بھی یہ ممنوع ہے گرچہ اس نے قصداً ایسا نہ کیا ہو۔
[اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ:۱۷۸]
شیخ ابنِ عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مشابہت صرف قصد اور ارادہ سے نہیں ہوتی ہے، بلکہ صورتًا موافقت سے بھی ہوتی ہے، اس طور پر کہ اگر انسان کوئی ایسا کام کرتا ہے جو کفار کے ساتھ خاص ہے اور ان کے امتیازات وخصائص میں سے ہے تو وہ ان کی مشابہت اختیار کرنے والا سمجھا جائے گا، خواہ اس نے مشابہت کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو، بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مشابہت صرف تشبہ کی نیت کرنے سے ہی لازم آتی ہے، جبکہ یہ غلط ہے کیونکہ مقصود ظاہر ہے نہ کہ باطن اور دل کی نیت گرچہ نیت کی شمولیت سے معاملہ مزید سنگین ہو جاتا ہے‘‘
[فتاویٰ نور علی الدرب لابن عثیمین: ۲۲؍ ۲،الشرح الممتع (۵؍۲۹)]
نوٹ: تشبہ کا حکم زمان ومکان، احوال وظروف اور مختلف لوگوں کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، ایک چیز ایک زمانے میں کفار کا شعار ہوتی ہے، جبکہ بعد میں وہی چیز عام ہو جاتی ہے، ایک چیز کسی ملک میں مردوں کے لیے خاص ہوتی ہے، جبکہ وہی چیز دوسرے ممالک میں مرد وعورت سب کے لیے عام ہوتی ہے، ایک چیز عام حالات میں ممنوع ہوتی ہے، جبکہ بیماری یا مجبوری یا عدم دستیابی کی صورت میں جائز ہو جاتی ہے، ایک لباس ایک عام آدمی کے لیے مشابہت کی وجہ سے ممنوع ہوتا ہے، جبکہ وہی لباس ریاستی جاسوس یا انٹیلیجنس اہلکاروں کے لیے جائز ہوتا ہے۔
چوتھا ضابطہ: وہ لباس شہرت، انفرادیت اور امتیاز کا باعث نہ ہو، خواہ زیادہ خوبصورت اور قیمتی ہونے کی وجہ سے، یا زیادہ سادہ، بے رنگ اور معمولی ہونے کی وجہ سے جو معاشرے میں رائج عام لباسوں سے مختلف ہو، اس طور پر کہ اگر کوئی اسے پہنے تو وہ لوگوں کی توجہ اور گفتگو کا مرکز بن جائے، لوگ اسے مڑ مڑ کر دیکھیں، اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کریں، اس کی اور اس کے لباس کی تعریفیں کریں اور وہ معاشرے کے عام لوگوں سے منفرد نظر آئے۔
اور اس کا پیمانہ لوگوں کی عادات اور جس معاشرہ میں انسان رہتا ہے اس کا رواج ہے، لہٰذا جو ان کے معاشرہ اور عادات میں اسراف اور فضول خرچی یا پھر فخر و تکبر یا ردی اور بیکار شمار ہو وہ قابل مذمت اور ممنوع ہے، اور اس شہرت میں شامل ہوتا ہے جس سے رسول اللہﷺ اور صحابہ وتابعین نے منع فرمایا ہے۔
عن ابن عُمَرَ رضي اللّٰه عنهما قال: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِي الدُّنْيَا أَلْبَسَهُ اللّٰهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہتے ہیںرسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص دنیا میں شہرت والا لباس پہنے گا ، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا‘‘، ابو داؤد کی روایت میں اضافہ ہے’’پھر اس کے لیے اس میں آگ بھڑکائی جائے گی‘‘
[رواہ أبو داؤد: ۴۰۲۹، وابن ماجہ: ۳۶۰۶، وحسنہ الألبانی والأرناؤوط]
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں:’’جس نے بھی شہرت والی چادر یا لباسِ شہرت زیب تن کیا اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت آگ پہنائے گا ‘‘
[المصنف لابن أبی شیبۃ ت الشثری: ۲۶۹۰۵]
سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ وہ لوگ (سلف صالحین) دو شہرتیں ناپسند کیا کرتے تھے: وہ اچھا لباس جس سے شہرت ہوتی ہو، اور لوگ اس کی جانب اپنی نظریں اٹھائیں، اور وہ ردی لباس جس میں وہ حقیر لگے اور اس کے دین کو نیچا سمجھا جائے‘‘
[التواضع والخمول لابن أبی الدنیا: ح:۶۴]
سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ مراد یہ ہے کہ وہ انتہائی خوبصورت اور قیمتی لباس نہ پہنے کہ لوگ انگلیوں سے اس کی جانب اشارہ کریں، یا پھر ایسا پراگندہ اور بوسیدہ لباس زیب تن نہ کرے کہ لوگ اس کی جانب انگلیوں سے اشارہ کرنے لگیں، کیونکہ ان میں سے ایک لباس میں تو اسراف اور فضول خرچی ہے، تو دوسرے میں بخل اور کنجوسی، جبکہ سب سے بہتر میانہ روی ہے ‘‘
[المبسوط :۳۰ ؍ ۲۶۸]
پانچواں ضابطہ: وہ لباس اسراف، فضول خرچی، کبر وغرور اور خود نمائی وخود پسندی کا باعث نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ}
’’اے آدم کی اولاد! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘
[الأعراف: ۳۱]
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’آیت کھانے پینے اور لباس وپوشاک میں اسراف اور فضول خرچی کرنے پر سخت وعید پر دلالت کرتی ہے‘‘
[فتح البیان فی مقاصد القرآن لصِدِّیق حسن خان: ۴ ؍۳۳۳]
عن عبدِ اللّٰهِ بنِ عَمرِو بنِ العاصِ رضِي اللّٰه عنهما:أنَّ النبيَّ صلَّي اللّٰهُ عليه وسلَّم قال: ’’كلُوا واشربوا وتصَدَّقوا والْبَسوا ما لم يخالطه إسرافٍ ولا مَخِيلةٍ‘‘
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کھاؤ، پیو، صدقہ کرو اور پہنو، جب تک کہ اس میں فضول خرچی یا تکبر کی آمیزش نہ ہو‘‘
[أخرجہ النسائی:۲۵۵۹، وابن ماجۃ:۳۶۰۵، وأحمد: ۶۶۹۵، وحسنہ الألبانی]
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پہنو، لیکن اسراف اور فضول خرچی اور فخر و تکبر نہ کرو‘‘
[أخرجہ البخاری تعلیقاً بصیغۃ الجزم فی کتاب اللباس فی فاتحتہ، وابن أبی شیبۃ فی المصنف :۴۹۳۰، وحسنہ الألبانی فی تخریج المشکاۃ]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ہر وہ چیز جس کے ذریعے انسان اسراف کی حد تک پہنچ جائے وہ حرام ہو جاتی ہے‘‘[فتاویٰ نور علی الدرب لابن عُثَیمین :۱۱؍ ۲۰۵]
مزید فرماتے ہیں: ’’فضول خرچی ایک نسبتی چیز ہے جس کا تعلق نفسُ الفعل کے بجائے فاعل سے ہے، مثال کے طور پر ایک فقیر ومحتاج خاتون مالدار خاتون کے برابر کا زیور بنواتی ہے، تو کیا وہ فضول خرچی کرنے والی ہوگی؟ اگر وہ زیور ایک خوشحال خاتون خریدے تو ہم کہیں گے کہ یہ کوئی اسراف نہیں ہے، لیکن اگر وہی زیور ایک فقیر ومحتاج خاتون خریدے تو ہم کہیں گے کہ بلاشبہ یہ فضول خرچی ہے، حتیٰ کہ کھانے پینے کا بھی یہی معاملہ ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اسراف اور فضول خرچی کا تعلق کرنے والے فاعل سے ہے نہ کہ بذاتِ خود فعل سے، کیونکہ خرچ کرنے کے اعتبار سے لوگ مختلف قسم کے ہیں‘‘
[لقاء الباب المفتوح:۸۸ ؍ ۳۴]
چھٹا ضابطہ: وہ لباس اس قدر باریک، جالی دار اور پتلا نہ ہو کہ دیکھنے والوں کو واجبِ ستر اعضاء نظر آئیں، چنانچہ ایسا لباس جسے پہننے کے باوجود اعضاء کی بناوٹ، یا چمڑے کی رنگت، یا کسی بھی طور پر جسم کا کوئی واجب ستر عضو نظر آئے تو اس کا استعمال ممنوع ہے، کیونکہ لباس زیب تن کرنے کا مقصد ہی کامل ستر پوشی ہے اگر وہی مقصد حاصل نہ ہو تو کپڑا پہننا بے معنیٰ ہے۔
[المجموع شرح المہذب للنَّوویِّ: ۳؍ ۱۷۰، شرح عمدۃ الفقہ لابن تَیمیَّۃَ: ص: ۲۵۵، مجموع فتاوی ورسائل الشیخ ابن عثیمین :۱۲؍ ۲۶۴]
ساتواں ضابطہ: وہ لباس اس قدر تنگ اور مختصر نہ ہو کہ اسے پہننے سے واجبِ ستر اعضاء کی بناوٹ، حجم، ڈیل ڈول اور نشیب و فراز ظاہر ہوتا ہو، یا ستر کا کچھ حصہ کھل جاتا ہو جیسا کہ تنگ پینٹ اور ٹراوزر وغیرہ پہننے والوں کی حالت ہوتی ہے، اس سلسلے میں عورتوں کا معاملہ مردوں سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔!
[مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ: ۲۲؍۱۵۶، فتاوی نور علی الدرب لابن عثیمین: ۲۲؍۲، فتاوی اللَّجْنۃ الدَّائِمۃ -المجموعۃ الأولی-۳؍ ۴۲۷، ۲۴؍ ۱۷]
نوٹ: عام حالات میں مرد کا واجب پردہ گھٹنے سے لے کر ناف تک ہے، جبکہ غیر محرم کے سامنے عورت کا پردہ بالاتفاق دونوں ہتھیلیوں اور چہرے کے علاوہ پورا جسم ہے، جبکہ بہت سارے اہل علم کے نزدیک غیر محرم کے سامنے چہرہ اور ہتھیلی سمیت مکمل جسم چھپانا واجب ہے۔
آٹھواں ضابطہ: وہ لباس’’عصفر‘‘ اور’’زعفران‘‘کے پودوں سے تیار کئے گئے رنگوں سے رنگا ہوا نہ ہو، چنانچہ جو بھی لباس ’’عصفر‘‘یا ’’زعفرانی‘‘ رنگوں سے رنگا ہوا ہو اس کا استعمال مردوں کے لئے جائز نہیں ہے۔[الشرح الممتع لابن عثیمین :۲؍ ۲۱۸]
’’عصفر‘‘ایک پودا ہے جس سے سرخ یا ایک خاص قسم کا سرخی مائل زرد رنگ تیار ہوتا ہے، ہمارے علماء نے اس کا ترجمہ’’کسم، گیروا، نارنگی اور زرد‘‘وغیرہ الفاظ سے کیا ہے۔
’’زعفران‘‘ایک پودا ہے جس سے ایک مخصوص قسم کا پیلا رنگ تیار ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ عورتوں کے لیے کسی بھی رنگ سے رنگا ہوا کپڑا استعمال کرنا جائز ہے، لہٰذا کسی بھی کپڑے کو صرف رنگ کی بنیاد پر عورتوں کے لیے ناجائز نہیں قرار دیا جا سکتا، الا یہ کہ اس کے اندر کفار کی مشابہت وغیرہ کوئی دوسرا سبب پایا جائے، جیسے بھگوا رنگ کا لباس ہندوؤں کے ساتھ خاص ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے ۔
[التمہید لابن عبد البر: ۱۶؍ ۱۲۳]
اسی طرح مردوں کے لیے بھی ’’معصفر‘‘اور’’مزعفر‘‘کپڑوں کے علاوہ کالا، سفید، پیلا، نیلا، سبز وغیرہ بقیہ تمام رنگوں سے رنگے ہوئے کپڑے پہننا بالاتفاق جائز ہے، صرف خالص سرخ رنگ کے تعلق سے اختلاف ہے، لیکن راجح قول کے مطابق وہ بھی جائز ہے۔
[المجموع للنووی: ۴؍ ۳۳۷، نیل الأوطار للشوکانی :۲؍ ۱۱۳]
عن البَرَاء رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ يَقُول:’’كَانَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْبُوعًا، وَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَائَ، مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْهُ‘‘
حضرت براء رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ: ’’نبی کریم ﷺ میانہ قد تھے، میں نے حضور اکرم ﷺکو سرخ جوڑے میں دیکھا، آپ سے زیادہ خوبصورت میں نے کوئی چیز نہیں دیکھی‘‘
[أخرجہ البُخاری: ۵۸۴۸ ،واللفظ لہ، ومُسْلِم :۲۳۳۷]
عن أبي جُحَيْفَةَ قال:’’خرج النَّبيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وسَلَّمَ فى حُلَّةٍ حَمْرَائَ، مُشَمِّرًا صَلَّي إِلَي العَنَزَةِ بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ مِنْ بَيْنِ يَدَيِ العَنَزَةِ‘‘
ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:’’نبی کریم ﷺ ( حجرے سے ) ایک سرخ پوشاک پہنے ہوئے تہبند اٹھائے باہر تشریف لائے اور برچھی کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی، میں نے دیکھا کہ آدمی اور جانور برچھی کے پرے سے گزر رہے تھے‘‘
[أخرجہ البخاری: ۳۷۶، ومسلم :۵۰۳]
نواں ضابطہ: اس لباس پر کسی ذی روح کی تصویر نہ ہو، چنانچہ اگر کسی لباس پر انسان یا جانور یا چرند وپرند یا مچھلی یا کیڑے مکوڑے وغیرہ کسی ذی روح کی تصویر ہو تو اس کو پہننا حرام ہے، البتہ اگر اس ذی روح تصویر کا سر کٹا ہوا ہو تو جائز ہے، اور اگر جمادات و نباتات اور مظاہر کائنات جیسے ندیوں پہاڑوں جھیلوں اور عمارتوں گاڑیوں اور آلاتِ مصنوعہ کی تصویریں ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
[شرح عمدۃ الفقہ لابن تیمیۃ :۳۸۷، نیل الأوطار للشوکانی:۲؍ ۱۱۹، مجموع فتاویٰ ورسائل ابن عثیمین: ۲؍ ۲۷۴]
عن زَيدِ بنِ خالدٍ الجُهَنيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عنه، قال:’’إنَّ أبا طلحةَ حَدَّثَه أنَّ النبيَّ صلَّي اللّٰهُ عليه وسلَّم قال: لا تدخُلُ الملائِكةُ بيتًا فيه صورةٌ‘‘
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان سے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں ( جاندار کی ) تصویر ہو‘‘
[أخرَجَہ البُخاریُّ: ۳۲۲۶، واللَّفظُ لہ، ومُسْلِم: ۲۱۰۶]
دسواں ضابطہ: اس لباس پر صلیب، یہودیوں کا ستارہ، ہندؤوں کا ترشول اور سودرشن چکر وغیرہ کفار ومشرکین اور ملحدین کے مذہبی شعارات ونشانات، یا ان کی کسی معظم شخصیت کی طرف منسوب لوگوز(logos) اور علامات، یا شرکیہ وکفریہ، حرام، فحش اور گندے الفاظ نہ ہوں، چنانچہ اگر کسی لباس پر صلیب کا نشان، یا یہودیوں کے کسی مخصوص ستارے کا نشان بنا ہوا ہو، یا اس پر شکتی، نارائن،( kiss me) جیسے الفاظ لکھے ہوں تو اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔
[المحلی لابن حزم :۷؍ ۵۱۶، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: ۲۴؍۲۴، لقاء الباب المفتوح لابن عثیمین اللقاء: رقم: ۲۱، شرح ریاض الصالحین لابن عثیمین:۴؍ ۳۰۰]
البتہ اگر کسی کمپنی کا نشان، یا سگنیچر یا عام الفاظ لکھے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
گیارہواں ضابطہ: اس لباس پر قرآنی آیات، یا ایسی دعائیں اور جملے نہ لکھے ہوں جن میں اللہ کا نام آتا ہے، کیونکہ اس سے قرآنی آیات اور اسم باری تعالیٰ کی توہین لازم آئے گی۔
[فتاوی نور علی الدرب لابن باز: ۱؍ ۱۸۱،فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: ۱۳؍ ۴۷۳]
بارہواں ضابطہ: مردوں کا لباس اس قدر لمبا اور بڑا نہ ہو کہ وہ ٹخنوں سے نیچے لٹکنے کا باعث بنے، چنانچہ ایسا پینٹ ٹراوزَر پتلون اور جبہ وغیرہ پہننا ممنوع ہے جو ٹخنوں سے نیچے تک جاتے ہوں، البتہ اگر اسے چھوٹا کر لیا جائے یا کسی طرح سے اسے ٹخنوں سے نیچے تک جانے سے روک لیا جائے تو پھر اسے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عن أبي هُريرة رضي اللّٰهُ عنه، عنِ النبيِّ صلَّي اللّٰهُ عليه وسلَّم قال:’’ما أسفَلَ مِن الكَعبينِ مِن الإزارِ، ففي النَّارِ‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ تہمد کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہوگا‘‘
[أخرجہ البخاری: ۵۷۸۷]
تیرہواں ضابطہ: غیر محرموں کے سامنے عورتوں کا لباس:
۱۔ پورے جسم کو چھپاتا ہو چھوٹا نہ ہو۔
۲۔ باریک نہ ہو جس سے اندر کے اعضاء نظر آئیں بلکہ دبیز اور موٹا ہو۔
۳۔ تنگ ،چست اور کسا ہوا نہ ہو جس سے اعضاء کی بناوٹ اور نشیب و فراز ظاہر ہوتے ہوں۔
۴۔ وہ لباس بذات خود زینت اور دعوت نظارہ دینے والا نہ ہو، اس طور پر کہ خوب چمکتا دمکتا اور رنگ برنگا ہو، اور اس پر قسم قسم کے بیل بوٹے اور نقش و نگار کئے گئے ہوں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’نقش و نگار والا عبایا اوربرقعہ پہننا تبرج اور بناؤ سنگار ظاہر کرنے کے حکم میں ہے، جس سے عورتوں کو منع کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ}
’’ اور وہ بڑی بوڑھی عورتیں جو جوانی سے گزری بیٹھی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں، اگر وہ اپنی چادریں اتار کر رہا کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں، بشرطیکہ وہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں‘‘
[النور: ۶۰]
چنانچہ جب یہ حکم بڑی بوڑھی عورتوں کے تعلق سے ہے تو نوجوان لڑکیوں کے تعلق سے کیا ہوگا؟[مجموع فتاویٰ و رسائل ابن عثیمین: ۱۲؍ ۲۸۳]
۵۔ وہ لباس خوشبودار اور عطر بیز نہ ہو۔
عَنْ زَيْنَبَ، امْرَأَةِ عَبْدِ اللّٰهِ، قَالَتْ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:’’إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلَا تَمَسَّ طِيبًا‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺنے ہمیں حکم دیا تھا کہ:’’جب تم میں سے کوئی مسجد جائے تو وہ خوشبو کو ہاتھ نہ لگائے‘‘
[رواہ مُسْلِم :۴۳۳]
امام البانی رحمہ اللہ نے ان پانچوں کو مزید تین امور کے ساتھ اپنی کتاب ’’جلباب المرأۃ المسلمۃ: ص:۳۹۔۲۱۶‘‘ کے اندر بالتفصیل دلائل کے ساتھ ’’مسلم عورتوں کے پردہ کے شرائط‘‘ کے طور پر ذکر کیا ہے۔
یہ چند ضوابط ہیں جن کے ذریعے آسانی کے ساتھ لباس کے مسائل کو ضبط کیا جا سکتا ہے اور بہت زیادہ مشقت کئے بغیر حلال اور حرام لباسوں میں تمیز کی جا سکتی ہے، اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح منہج کے مطابق دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
٭٭٭