-
تین طلاق اور صحیح مسلم کی حد یث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما (بیسویں قسط ) (د) مجرد خبر پر محمول کرنا
علامہ المازری المالکی (المتوفی۵۳۶)فرماتے ہیں:
وأما قول ابن عباس:’’كان طلاق الثلاث واحدة علٰي عهد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم :فقال بعض العلماء البغداديين: المراد به أنه كان المعتاد فى زمن النبى ﷺ تطليقة واحدة وقد اعتاد الناس الآن التطليق بالثلاث، فالمعني:كان الطلاق الموقع الآن ثلاثا يُوقع بواحدة فيما قبل إنكارًا لخروجهم عن السنة ‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا:’’ کہ عہد نبوی میں تین طلاق…تو بعض بغدادی علماء اس سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مراد یہ بتاتے ہیں کہ وہ یہ خبر دے رہے ہیں کہ نبی ﷺ کے دور میں ایک طلاق دینے کا رواج تھا اور آج لوگوں میں تین طلاق دینا رائج ہوگیا ، یعنی آج جس طلاق سے عورت کو الگ کیا جاتا ہے وہ تین طلاق ہے جبکہ عہد نبوی میں ایک ہی طلاق سے عورت کو الگ کیا جاتا تھا ، اس سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصود ان پر نکیر کرنا تھا کہ طلاق دینے میں سنت کے طریقے سے ہٹ گئے ہیں‘‘
[المعلم بفوائد مسلم :۲؍۱۹۲]
اس تاویل کو ابن العربی نے بہتر کہا ہے اوراسے ابوزرعہ الرازی کی طرف بھی منسوب کیا ہے۔[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۳۶۴]
عرض ہے کہ: اس تاویل کے بطلان کے لیے ابوالصہباء اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا سوال وجواب ہی کافی ہے، چنانچہ:
’’أن أبا الصهباء ، قال لابن عباس:أتعلم أنما كانت الثلاث تجعل واحدة علٰي عهد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم، وأبي بكر، وثلاثا من إمارة عمر؟ فقال ابن عباس:نعم‘‘
’’ابوالصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:کیا آپ کو علم ہے کہ عہد نبوی ، عہد صدیق اور عہد فاروقی کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق کو ایک بنایا جاتا تھا؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:ہاں‘‘
[صحیح مسلم :۳؍۱۰۹۹رقم:۱۴۷۲]
اب غور کریں کہ اگرعہدنبوی میں تین طلاق دی ہی نہیں جاتی تھی تو کس طلاق کو ایک بنایا جاتا تھا ؟
مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
حدیث کے الفاظ اس جواب کے متحمل نہیں’’ أتعلم أنما كانت الثلاث تجعل واحدة…قال نعم‘‘ ، کیا آپ جانتے ہیں کہ تین طلاقوں کو ایک بنادیا جاتاتھا ؟ آپ نے فرمایا:ہاں! اگر تین طلاقیں دی ہی نہیں جاتی تھیں تو ایک کس کو بنایا جاتا تھا؟ (دعوت فکرونظر:مطبوع در مجموعہ مقالات: ص:۲۲۶)
شہاب الدین الألوسی (المتوفی۱۲۷۰)فرماتے ہیں:
’’واعترض عليه بعدم مطابقته للظاهر المتبادر من كلام عمر لا سيما مع قول ابن عباس رضي اللّٰه تعالٰي عنهما:الثلاث إلخ، فهو تأويل بعيد لا جواب حسن فضلا عن كونه أحسن ‘‘
’’اس جواب پر اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ یہ عمر رضی اللہ عنہ کے کلام کے ظاہر اور متبادر مفہوم سے میل نہیں کھاتا ، خاص طور سے ابن اعباس رضی اللہ عنہ کے قول تین طلاق…الخ سے ، اس لیے یہ تاویل بعید ہے ،یہ جواب سرے سے اچھا ہی نہیں ہے، چہ جائے کہ ا سے سب سے اچھا جواب کہا جائے ‘‘
[روح المعانی:۱؍۵۳۲]
علامہ المازری کوبھی احساس ہوا کہ عہد ِنبوی میں تین طلاق کوایک بنانے والے الفاظ سے تو یہ تاویل بہت بعید معلوم ہوتا ہے اس لیے انہوں نے ان الفاظ کو بھی کھینچ تان کر تاویل کے بھینٹ چڑھادیا چنانچہ آگے ان الفاظ کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:
’’وإن كان هذا اللفظ الثاني أبعد من الأول قليلاً لقوله:كانت الثلاث تجعل واحدة ولكن يصح أن يريد كانت الثلاث الموقعة الآن تجعل واحدة، بمعني توقع واحدة ‘‘
’’دوسری روایت کے ان الفاظ میں گرچہ گزشتہ معنی تھوڑا بعید لگتا ہے کیونکہ اس میں یہ ذکر ہے کہ تین طلاق کو ایک بنایا جاتا تھا ، لیکن یہاں یہ مراد لینا بھی درست ہوسکتا ہے کہ آج جن تین طلاقوں کے ذریعہ طلاق واقع کی جاتی ہے اسے ایک بنایا جاتا تھا یعنی ایک سے ہی طلاق واقع کی جاتی تھی ‘‘
[المعلم بفوائد مسلم :۲؍۱۹۲]
عرض ہے کہ:
اس پرتکلف تاویل سے کام نہیں چلنے والا کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ایک طریق میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
أنَّ أبا الصَّهْباء أتي ابن عبّاس فقال له:’’أنها علمت أنه كان على عَهْدالنّبيّ صلى اللّٰه عليه وسلم وأبي بكرٍ مَنْ طلَّق ثلاثًا جُعِلْن واحدة۔قال: قدْ كان ذلك‘‘
ابوالصہباء ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورکہا:’’کیا آپ کوعلم ہے کہ دور ِنبوی اور دور ِصدیقی میں جو شخص تین طلاقیں دیتا تھا تو اس کی تینوں طلاقیں ایک بنائی جاتی تھیں‘‘
[مستخرج أبی عوانۃ:۱۱؍۵۶۸، رقم :۴۹۶۹وإسنادہ صحیح]
ملاحظہ فرمائیں کہ اس روایت میں تو کھل کر صراحت آگئی کہ دور ِنبوی اور دور ِصدیقی میں کوئی شخص تین طلاق دیتا تھا تو اسی شخص کی دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک بنایا جاتا تھا۔اس سے مذکورہ تاویل کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ جاتی ہے۔
نیز مذکورہ تاویل کے لیے حدیث میں مستعمل لفظ’’ تجعل‘‘ (بنائی جاتی تھی)کو توڑ مروڑ کر تاویل کے بھینٹ چڑھایا گیا لیکن بعض روایت میں اس کی جگہ ’’ ترد‘‘ (لوٹائی جاتی تھیں)کے الفاظ ہیں :
’’هل علمت أن الثلاثة كانت ترد علٰي عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى الواحدة؟ ،قال:فقال ابن عباس:نعم ‘‘
’’کیا آپ کوعلم ہے کہ دورِ نبوی میں تین طلاق کو ایک طلاق کی طرف لوٹا دیا جاتا تھا ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں‘‘
[سنن الدارقطنی، ت الارنؤوط: ۵؍۸۰، رقم:۴۰۱۹،وإسنادہ حسن]
’’ألم تعلم أن ثلاثة كانت علٰي عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأبي بكر، وثلاث من إمارة عمر ترد إلى واحدة؟ قال:نعم‘‘
’’کیا آپ کوعلم ہے کہ عہدِرسالت ، عہدِ صدیقی اور عہد ِفاروقی کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق کو ایک طلاق کی طرف لوٹا دیا جاتا تھا ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:ہاں‘‘
[مستخرج أبی عوانۃ :۳؍۱۵۲رقم :۴۵۳۳وإسنادہ صحیح ]
اب الفاظ میں تو کھینچ تان کر بھی تاویل نہیں ہوسکتی۔
بلکہ اس سے بھی آگے بڑھئے بعض روایات میں تو اس جگہ ’’یحسبن ‘‘ (شمارکی جاتی تھیں)کے الفاظ ہیں:
’’فقال له أبو الصهباء أما علمت أن الثلاث كن يحسبن علٰي عهد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم واحدة فقال ابن عباس بلٰي ‘‘
’’ابوالصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:کیا آپ کو علم نہیں کہ عہد ِنبوی میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں‘‘؟
[المسند المستخرج علٰی صحیح مسلم:۴؍۱۵۳،وإسنادہ صحیح]
حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کے ان دیگر طرق کو دیکھنے کے بعد ہر انصاف پسند شخص پکار اٹھے گا کہ مذکورہ تاویل انتہائی بعید اور لایعنی ہے ۔
بلکہ ابو الحسن الماوردی (المتوفی۴۵۰)رحمہ اللہ نے یہ درناک اعتراف بھی کیا ہے کہ:
’’وإنما حملناه علٰي هذا الاحتمال مع بعده، لأن …‘‘
’’اس احتمال کے بعید ہونے کے باوجود بھی ہم نے حدیث کو اس پر اس لیے محمول کیا ہے کیونکہ…‘‘
[الحاوی الکبیر:۱۰؍۱۲۲ ]
عرض ہے کہ کیونکہ کے بعد والے شبہ کا بار بار جواب دیا جاچکاہے اس لیے اس بعید احتمال کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔
نیز اس بات پر غور کیجئے کہ اس حدیث میں یہ ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں دو سال کے بعد تین طلاق کو نافذ کردیا ، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے جب تین طلاق دی جاتی تھی تو نافذ نہیں کی جاتی تھی ، بلکہ ایک شمار ہوتی تھی ، حدیث کے انہیں الفاظ کو دیکھتے ہوئے احناف میں سے بھی کئی اہل ِعلم نے مذکورہ باطل تاویل کو رد کردیا ہے ۔چنانچہ:
٭کمال الدین ابن الہمام الحنفی (المتوفی۸۶۱)فرماتے ہیں:
’’وما قيل فى تأويله أن الثلاث التى يوقعونها الآن إنما كانت فى الزمان الأول واحدة تنبيه علٰي تغير الزمان ومخالفة السنة فيشكل إذ لا يتجه حينئذ قوله فأمضاه عمر رضي اللّٰه عنه ‘‘
’’اور اس حدیث کی تاویل میں جو یہ بات کہی گئی ہے کہ اب لوگ تین طلاق دینے لگے ہیں جبکہ پہلے زمانے میں ایک ہی طلاق دیتے تھے ، اس میں بدلے ہوئے زمانے اور سنت کی مخالفت کی خبر ہے ، تو اس تاویل میں اشکال ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ تاویل حدیث کے ان الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے نافذ کردیا ‘‘[فتح القدیر للکمال ابن الہمام:۳؍۴۷۱]
٭احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی۱۲۳۱)فرماتے ہیں:
’’وهذ الحمل لايتجه مع قوله فأمضاه عليهم عمر، ويؤيد ذالك ماذكره القهستاني أنه كان فى الصدر الأول إذا أرسل الثلاث جملة لم يحكم إلا بوقوع واحدة إلى زمن عمررضي اللّٰه تعالٰي عنه ، ثم حكم بوقوع الثلاث سياسة لكثرته بين الناس‘‘
’’یہ تاویل حدیث کے اندر موجود ان الفاظ سے میل نہیں کھاتی کہ پھر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تین طلاق کو ان پر نافذ کردیا اور اس (تاویل کے بطلان)کی تائید اس بات سے بھی ہوتی جسے قہستانی نے ذکر کیا ہے کہ صدر اول میں جب ایک ہی جملے میں تین طلاق دی جاتی تھی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور تک ایک ہی شمار کی جاتی تھی ، پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیاسی فرمان کے تحت تین کے وقوع کا فیصلہ کردیا کیونکہ لوگ بکثرت ایسا کرنے لگے تھے‘‘
[حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار:ج :۲،ص :۱۰۵،جدیدنسخہ:ج :۴،ص : ۳۶۳وانظر:جامع الرموز للقھستانی:ص :۲۷۷،مطبوعہ کلکتہ)]
٭ مولانا اشرف تھانوی صاحب نے بھی اس حدیث کے صحیح مفہوم کا اقرار کیا ہے ، لکھتے ہیں:
اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ تینوں طلاق ایک سمجھی جاتی تھی ۔
[تقریر ترمذی : ص:۳۴۶]
الغرض مذکورہ تاویل باطل ہے اور اس حدیث کا صحیح مفہوم وہی ہے جو اس حدیث کے الفاظ سے واضح ہے کہ عہدِ نبوی ، عہدِ صدیقی اور عہدِ فاروقی کے ابتدائی دو سال تک تین طلاق ایک شمار کی جاتی تھی ، نیز اس حدیث کے تمام طرق کے الفاظ اسی مفہوم کا ساتھ دیتے تھے ۔
نوٹ: اس تاویل کے مزید جوابات میں وہ دو ابتدائی جوابات بھی شامل کرلیں جو اس سے قبل تاکید وتکرار والی تاویل کے رد میں دئے گئے ہیں ۔
زیر بحث حدیث کے ترجمہ پر ایک پُر جہالت اعتراض:
صحیح مسلم کی اس حدیث میں عہد ِرسالت ، عہدِ صدیقی اور عہدِ فاروقی کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاق کو ایک قراردئے جانے کی بات ہے ، اس حدیث کا سیاق صاف دلالت کرتا ہے کہ یہاں بیک وقت دی گئی تین طلاق کو ایک قرار دینے کی بات منقول ہے ۔
اسی سیاق کو دیکھتے ہوئے بعض علماء نے بیک وقت یایکبارگی تین طلاق کا ترجمہ کیا تو بعض دیوبندیوں نے اسے جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ یکبارگی والا کوئی لفظ متن حدیث میں موجود نہیں ہے ۔حالانکہ متن کے سیاق میں اس کا مفہوم موجودہے ۔
ماسٹر امین اوکاڑوی صاحب لکھتے ہیں:
جب لفظ کا مطلب موجود ہو تو لفظ کا مطالبہ کرنا ایک دھوکہ ہوتا ہے۔(فتوحات صفدر:۱؍۲۰۸)
اور بعض دیوبندیوں نے اسی اعتراض کو لے کر اس حدیث کا یہ جواب بھی دینے کی کوشش کی کہ تین طلاق کا ذکر ہے لیکن بیک وقت دی گئی تین طلاق کا ذکر نہیں ہے ، اس لیے یہ حدیث بیک وقت دی گئی تین طلاق کے ایک ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی ۔
عرض ہے کہ:
اس حدیث میں تین طلاقوں کو ایک قرار دئے جانے کی بات ہے ، یہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں بیک وقت دی گئی تین طلاق کا ذکر ہے ، ورنہ الگ الگ وقت میں سنت کے مطابق دی گئی تین طلاقوں میں یہ مسئلہ ہی نہیں پیدا ہوگا کہ انہیں ایک شمار کیا جائے ۔
واضح رہے کہ ہم نے اس حدیث کا جو ترجمہ پیش کیا ہے وہ ہمارا نہیں بلکہ جناب غلام رسول سعیدی حنفی بریلوی صاحب کا ہے اور انہوں نے بھی بیک وقت تین طلاق کا ترجمہ کیا ہے ، اسی طرح دیوبندی حضرات میں پالن حقانی دیوبندی صاحب نے بھی اس طرح ترجمہ کیا ہے:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ، اور دوسال تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کو ایک خیال جاتا ہے ۔
(شریعت یا جہالت :ص:۱۹۹)
لہٰذا بریلوی اور دیوبندی حضرات اپنے مترجمین کا ترجمہ دیکھ کر ہی اطمینان کرلیں۔
متن پرچوتھا اعتراض : متعہ کو لے کر الزامی اعتراض:
بعض لوگ الزاماً متعہ والی یہ روایت پیش کرتے ہیں جس میں جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے عہدِ رسالت ، عہدِصدیقی اور عہدِ فاروقی میں متعہ کیا پھر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری دور میں اس سے منع کردیا تو اس کے بعد ہم نے دوبارہ متعہ نہیں کیا ۔پھر کہتے ہیں کہ یہی معاملہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا بھی ہے۔
[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ: ۹؍ ۳۶۵]
امام ابو عوانہ یعقوب بن إسحاق الإسفرائینی (المتوفی۳۱۶)نے :
حدثنا إسحاق، عن عبد الرزاق، عن ابن جريج، عن عطاء ، قال:’’قدم جابر، فجئناه فى منزله، فسأله القوم عن أشياء ، ثم ذكروا له المتعة، فقال:نعم استمتعنا علٰي عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأبي بكر وعمر، حتي كان آخر خلافة عمر استمتع عمرو بن حريث، وذكر الحديث فنهانا عمر فلم نعد‘‘
امام عطاء فرماتے ہیں :’’کہ جابر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو ہم ان کے گھر گئے اور لوگوں نے ان سے کئی باتیں پوچھیں پھر متعہ کاذکر کیا تو جابر رضی اللہ عنہ نے کہا:ہم نے عہدِ رسالت ، عہدِ صدیقی اور عہدِ فاروقی میں متعہ کیا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا آخری دور آیا اور عمرو بن حریث نے متعہ کیا پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی کہ اس کے بعد عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ہم کو منع کردیا تو پھر ہم نے دوبارہ متعہ نہیں کیا ‘‘
[المسند الصحیح المخرج علٰی صحیح مسلم لأبی عوانۃ: ۱۱؍ ۲۶۰]
عرض ہے کہ:
اولًا :
جس طرح ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بنا پر یہ مانتے ہیں کہ عہدِ رسالت ، عہدِصدیقی اور عہدِ فاروقی کے ابتدائی دو سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ، ٹھیک اسی طرح ہم جابر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کے سبب یہ بھی مانتے کہ عہدِ رسالت ، عہدِصدیقی اور عہدِ فاروقی میں لوگوں کا متعہ پر عمل تھا ۔
لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ہم محکم اور عام مانتے ہیں ، یعنی نہ تو یہ منسوخ ہے اور نہ ہی اس کے خلاف کسی کا عمل ثابت ہے ۔
جبکہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ہم منسوخ اور اس پر بعض لوگوں کا عمل مانتے ہیں ، کیونکہ اس کے منسوخ ہونے کاثبوت موجود ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ بعض صحابہ نسخ سے آگاہ ہونے کے بعد اس پر عمل نہیں کرتے۔
ملاحظہ ہو اس کے منسوخ اور اس پرعمل کے متروک ہونے کا ثبوت:
امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱)نے کہا:
حدثنا محمد بن عبد اللّٰه بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عبد العزيز بن عمر، حدثني الربيع بن سبرة الجهني، أن أباه، حدثه، أنه كان مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال:’’ يا أيها الناس، إني قد كنت أذنت لكم فى الاستمتاع من النساء ، وإن اللّٰه قد حرم ذالك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله، ولا تأخذوا مما آتيتموهن شيئا ‘‘
ربیع بن سبرۃ اپنے والد سبرۃ الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ تھے تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:’’الے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ، اور اب اللہ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے ، تو جس کے پاس بھی متعہ والی عورتوں میں سے کوئی ہو وہ اسے چھوڑ دے اور اس سے پہلے اسے جو کچھ عطا کیا ہو اسے واپس نہ لے‘‘
[صحیح مسلم :۳؍۱۰۲۵رقم :۱۴۰۶]
یہ حدیث مسند احمد میں بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے سبرۃ الجہنی رضی اللہ عنہ نے بھی متعہ کیا تھا لیکن نبی ﷺ سے نسخ کا حکم سن کر متعہ والی عورت کو الگ کردیا تھا ، چنانچہ یہ اپنے متعہ کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
’’ثم قال رسول اللّٰه ﷺ: ’’من كان عنده من النساء التى تمتع بهن شيء ، فليخل سبيلها قال: ففارقتها ‘‘
پھر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’کہ جس کے پاس ایسی عورت ہو جس سے اس نے متعہ کیا ہو تو وہ اس عورت کو چھوڑ دے ، چنانچہ پھر میں نے اس عورت کو چھوڑدیا‘‘
[مسند أحمد ط المیمنیۃ:۳؍۴۰۵،وإسنادہ صحیح]
ان احادیث سے واضح طور پرثابت ہوگیا کہ عہد ِرسالت ہی میں متعہ کاحکم منسوخ ہوگیا تھا اسی طرح نسخ کا یہ حکم سننے والے صحابہ نے متعہ کرنا بند کردیا تھا ۔ لہٰذ عہدِ رسالت ، عہدِ صدیقی اور عہدِ فاروقی کے ابتدائی ایام میں سب کا اس پر عمل نہیں تھا بلکہ صرف انہیں لوگوں کا عمل تھا جن کو نسخ سے آگاہی نہیں ہوئی تھی ۔
اب غور کیجئے کہ بھلا جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو ہمارے خلاف کیسے پیش کیا جاسکتا ہے ؟ اسے اسی صورت میں پیش کیا جاسکتا تھا جب متعہ کے نسخ اور اس پرعمل کے ترک کی دلیل نہ ہوتی کیونکہ اس صورت میں اس کا معاملہ بلاشبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث جیسا ہوتا ۔لیکن چونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے متعلق نسخ اور اس پر عمل کے ترک ہونے کاثبوت مل گیا ہے ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے متعلق ایسا کچھ بھی موجود نہیں ہے ۔لہٰذا اس فرق کے سبب ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے خلاف الزاماً جابررضی اللہ عنہ کی حدیث نہیں پیش کی جاسکتی ، فافھم۔
ثانیاً :
جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ نے متعہ جو منع کیا تھا تو وہ اپنے اجتہاد اور رائے سے نہیں بلکہ نبی ﷺ کی طرف سے ثابت شدہ ناسخ حدیث کی بنیاد پرمنع کیا تھا جیساکہ بعض روایات میں پوری صراحت موجود ہے۔ مثلاً:
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۳)نے کہا:
’’حدثنا محمد بن خلف العسقلاني قال:حدثنا الفريابي، عن أبان بن أبي حازم، عن أبي بكر بن حفص، عن ابن عمر، قال:لما ولي عمر بن الخطاب خطب الناس فقال:’’إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، أذن لنا فى المتعة ثلاثا، ثم حرمها، واللّٰه لا أعلم أحدا يتمتع وهو محصن إلا رجمته بالحجارة، إلا أن يأتيني بأربعة يشهدون أن رسول اللّٰه أحلها بعد إذ حرمها ‘‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے ، تو انہوں نے خطبہ دیا اور کہا:’’رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو تین بار متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام قرار دیا ، قسم ہے اللہ کی اگر میں کسی کے بارے میں جانوں گا کہ وہ شادی شدہ ہوتے ہوئے متعہ کرتا ہے تو میں اسے پتھروں سے رجم کر دوں گا ، مگر یہ کہ وہ چار گواہ لائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے حرام قرار دینے کے بعد حلال کیا تھا‘‘
[سنن ابن ماجہ :۱؍۶۳۱،وإسنادہ حسن]
جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کسی ناسخ حدیث کی بنیاد پر تین طلاق کو تین قرار نہیں دیا بلکہ خود اعتراف کیا کہ’’ فى أمر كانت لهم فيه أناة ‘‘ (اس میں ان کے لئے مہلت ووسعت تھی)یعنی یہ حکم منسوخ نہیں ہے ، لیکن تعزیر اور سزا ء کے طور پر ان پرتین طلاق کو نافذ کر دیا۔
لہٰذا اس واضح فرق کی بناپر بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے خلاف جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بطور الزام قطعاً نہیں پیش کیا جاسکتا۔
(ختم شد)