-
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں وارد صحابہ وتابعین وغیرہم کے اقوال تاریخِ اسلام کے اوراق میں آپ کو بنو امیہ کے ایسے افراد بکثرت مل جائیں گے جنہوں نے اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
انہی عظیم الشان ہستیوں میں سے ایک عظیم ، روشن اور عبقری شخصیت امیر المومنین معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کی ہے جو کہ نہ صرف عالم وفقیہ اور حلیم الطبع تھے بلکہ ایک خوددار، ذہین وفطین، قوی، نرم مزاج اور عادل بادشاہ بھی تھے ۔
ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ معاویہ رضی اللہ عنہ شیر سے بڑھ کر جری اور بڑے با رعب انسان تھے، واللہ میں تو چاہتا ہوں کہ جب تک جبل ابو قبیس باقی رہے معاویہ بن ابی سفیان بھی ہم میں باقی رہیں‘‘[ البدایۃ والنہایۃ :۱۱؍۴۴۲]
وہ اس وجہ سے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کی وفات کے بعد حالات میں تبدیلی آنے کا خوف تھا۔[ التاریخ الإسلامی:۱۷؍۲۷]
۱۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’تم قیصر و کسریٰ اور ان کے رعب و دبدبہ کی بات کرتے ہو جبکہ تمہارے پاس معاویہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں‘‘ [المعجم الکبیر :۵؍۳۳۰ ، مرویات خلافۃ معاویۃ فی تاریخ الطبری: ص:۸۳]
یہاں پر ایک مدبر اور دور اندیش صحابیِٔ رسول خلیفہ ٔثانی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ اے لوگو : تم قیصر وکسریٰ کے رعب اور دبدبے سے خوف نہ کھاؤ کیونکہ تمہارے درمیان ایک شیر موجود ہے ۔
اور اس شیر کی موجودگی میں اگر تم قیصر وکسریٰ کے رعب و دبدے سے خوف زدہ ہوتے ہو تو یہ تعجب کی بات ہے ۔ یعنی وہ تمہاری شان اور تمہاری عزت وآبرو کا محافظ ہے ۔
۲۔ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو نا پسند نہ کرو ، اللہ کی قسم اگر تم نے انہیں گم پایا تو تم ایسے سر دیکھو گے جو کندھوں سے اندارئن کی طرح گریں گے‘‘[البدایۃ والنہایۃ:۱۱؍۴۳۰]
۳۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں نے معاویہ سے بڑھ کر کسی کو سردار نہیں دیکھا ۔ کہا گیا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں ؟ انہوں نے فر مایا عمر رضی اللہ عنہ ان سے بہتر تھے جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے بڑے سردار تھے‘‘[البدایۃ والنہایۃ:۱۱؍۴۳۸]
۴۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا :
امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ ایک وتر پڑھتے ہیں اس کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے ؟ انہوں نے جواب دیا : ’’معاویہ رضی اللہ عنہ فقیہ شخص ہیں‘‘[صحیح البخاری:۳۷۶۵]
یعنی : اس امت کے سب سے بڑے فقیہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو فقیہ فرما رہے ہیں ۔ کیونکہ جیسے خالص سونے کی پہچان ایک سونار ہی کر سکتا اسی طرح ایک فقیہ کی پہچان بھی ایک فقیہ ہی کر سکتا ہے ۔
۵۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا قول ہے :
’’میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد اس دروازے والے( امیر معاویہ رضی اللہ عنہ) سے بڑھ کر کسی کو مبنی بر حق فیصلہ کرتے نہیں دیکھا‘‘[سیر أعلام النبلاء:۳؍۱۵۰]
۶۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے بازار میں چلتے ہوئے فرمایا :
’’تمہارے لئے افسوس ہے ، معاویہ رضی اللہ عنہ سے وابستہ ہو جاؤ، میرے اللہ! مجھے بچوں کی امارت سے بچانا‘‘ [مختصر تاریخ دمشق:۲۵؍۷۹]
۷۔ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس کی نماز تمہارے اس امیر ( معاویہ رضی اللہ عنہ) کی نماز سے زیادہ آپ ﷺ کی نماز سے مشابہت رکھتی ہو‘‘[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:۹؍۳۵۷]
حضرت عبد اللہ بن عباس اور ابو درداء رضی اللہ عنہما کے آثار کو ذکر کرنے کے بعد امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فقاہت اور دین داری کے بارے میں صحابۂ کرام کی گواہی ہے ، ان کی فقاہت کی شہادت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما دے رہے ہیں جبکہ حسن صلاۃ کے گواہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ ہیں اور ان دونوں کی شخصیات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اس کی تاکید میں بکثرت آثار مروی ہیں‘‘[ منہاج السنۃ:۶؍۲۳۵]
۸۔ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :
’’رسول اللہ ﷺکی معیت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی ناک میں پڑنے والا غبار عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے بہتر اور افضل ہے‘‘[ منہاج السنۃ:۱۱؍۴۴۹]
۹۔ ابراہیم بن میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ میں نے کبھی بھی عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو کسی انسان کو مارتے نہیں دیکھا ۔ بجز اس شخص کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کیا اسے انہوں نے کئی کوڑوں کی سزا دی‘‘[ البدایۃ والنہایۃ: ۱۱؍۴۵۱]
۱۰۔ معافی بن عمران سے پوچھا گیا: معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ؟ تو وہ ناراض ہو کر سائل سے کہنے لگے :’’کیا تو صحابیٔ رسول کو تابعی کے برابر قرار دینا چاہتا ہے ؟ معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺکے صحابی ، سسرالی رشتے دار ، آپ ﷺ کے کاتب اور وحی الٰہی کے امین ہیں‘‘[ البدایۃ والنہایۃ:۱۱؍۴۵۰]
۱۱۔ امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے جو یہ کہتا ہے کہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتبِ وحی اور خالُ المومنین نہیں مانتا اس لیے کہ انہوں نے امارت تلوار کے زور پر غصب کی؟ آپ نے فرمایا :
’’ یہ بہت بری اور گھٹیا بات ہے ،ایسے لوگوں سے الگ رہا جائے، ان کے ساتھ نشست وبرخاست نہ کی جائے اور انہیں لوگوں کے سامنے ننگا کیا جائے ‘‘۔(السنۃ للخلال:۲؍۴۳۴، مذکورہ تمام آثار ڈاکٹر الصلابی کی کتاب ’’سیدنا معاویہ بن ابو سفیان کے فضائل و مناقب ‘‘اردو ترجمہ ، ص:۲۱۶۔۲۱۷سے ماخوذ ہیں )
اخیر میں میں اپنی بات کو دعائے رسول ﷺسے ختم کر رہا ہوں ۔ آپ ﷺ نے ان کے لئے یہ دعا فرمائی:
’’اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ هادِيًا مَهْدِيًّا، واهْدِ بِهِ‘‘
’’ اے اللہ! انہیں ہدایت دہندہ اور ہدایت یافتہ بنا اور ساتھ ہی انہیں ہدایت کا ذریعہ بنا ‘‘
[الترمذی:۳۸۴۲، الشریعۃ للآجری:۵؍۲۴۳۷، الجامع الصحیح للسنن والمسانید:۱۶؍۳۵۸]
ان کے حق میں ایک اور دعا اللہ کے رسول ﷺ نے فرمائی :
’’ اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعاوِيَةَ الكِتابَ والحِسابَ وقِهِ العَذابَ ‘‘
’’ اے اللہ! معاویہ کو حساب وکتاب سکھا اور انہیں عذاب سے بچا‘‘
[ موارد الظمآن للہیثمی:۴؍۲۴۹ ، الجامع الکبیر :۳؍۴۸۰]
ظاہر سی بات ہے کہ آپ ﷺ کی یہ مبارک دعا اللہ رب العزت نے ضرور قبول فرمائی ہوگی،تبھی تو آپ فقیہ ،ہادی اور مہدی ہونے کے ساتھ ساتھ خلق کثیر کی ہدایت کا ذریعہ بنے ۔
٭٭٭