-
جنتی صحابی، حواریٔ رسول زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کا ترکہ حواری ٔرسول زبیر رضی اللہ عنہ کی جب اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے شادی ہوئی تھی تو ان کے پاس نہ مال تھا نہ غلام ، اسماء رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں:
’’ تزوجنی الزبیر، وما لہ فی الأرض من مال ولا مملوک، ولا شیء غیر ناضح وغیر فرسہ ‘‘
’’ زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ان کے گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، کوئی چیز نہیں تھی‘‘
[صحیح البخاری ر:قم :۵۲۲۴]
لیکن بعد میں حالات بدلے اور زبیر رضی اللہ عنہ کو اللہ رب العالمین نے غلام وزر اور زمین و جائداد سے مالا مال کر دیا چنانچہ صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث کے اخیر میں زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے ترکہ کی مقدار ان الفاظ میں مروی ہے:
’’فجميع ماله خمسون ألف ألف، ومائتا ألف ‘‘’’ان کا ترکہ پانچ کروڑ دو لاکھ( 50,200,000) تھا‘‘۔
[ صحیح بخاری:۔کتاب فرض الخمس: باب برکۃ الغازی فی مالہ حیا ومیتا…حدیث نمبر:۳۱۲۹]
آج کے حساب سے یہ ر قم کتنی ہوگی اس کے لیے موٹا موٹا حساب لگاتے ہیں تاکہ اندازہ کرنے میں آسانی ہو۔
اگر یہ دینار کی رقم مانی جائے تو آج کے حساب سے یہ رقم:
تیرہ بلین امریکی ڈالر( 13,00,00,00,000) سے زائد ہوگی ۔
اور انڈین کرنسی میں ایک لاکھ کروڑ روپے( 10,00,00,00,00,000)سے زائد ہوگی۔
اگر ترکہ کو درہم کی شکل میں مانیں تو آج کے حساب سے یہ رقم:
ایک سو چالیس ملین امریکی ڈالر( 14,00,00,000)سے زائد ہوگی۔
اور انڈین کرنسی میں گیارہ سو کروڑ روپے( 11,00,00,00,000) سے زائد ہوگی۔
نوٹ: اگر ترکہ کو دینار کی رقم مانیں تو یہ رقم بہت زیادہ ہوجاتی ہے ، حتیٰ کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ترکہ سے بھی بڑھ جاتی ہے اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ یہ تعداد درہم کی ہوگی ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
’’ وهذا بالنسبة لتركة الزبير… قليل جدا فيحتمل أن تكون هذه دنانير وتلك دراهم لأن كثرة مال عبد الرحمٰن مشهورة جدا ‘‘
’’ اوریہ رقم زبیر رضی اللہ عنہ کے ترکہ کے بالمقابل بہت کم ہے لہٰذا احتمال اس بات کا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ترکہ کا ذکر دینار کے حساب سے ہو اور زبیر رضی اللہ عنہ کے ترکہ کا ذکر درہم کے حساب سے ہو کیونکہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مالداری بہت زیادہ مشہور ہے‘‘
[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۲۳۵]
لیکن یہ توجیہ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ بڑی رقم کا ذکر دینار ہی کے حساب سے ہوتا ہے، اس لیے دونوں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہما کے ترکہ کا ذکر دینار ہی کے حساب سے ہے۔
اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ترکہ کم اس لیے تھا کیونکہ وہ صدقہ خیرات بہت زیادہ کیا کرتے تھے اور انہوں نے اپنی حیات میں ہی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور فقراء ومساکین کے تعاون کے لیے اپنی بڑی بڑی جائداد فروخت کی ہے۔
علاوہ بریں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ قرض لے کر فوت نہیں ہوئے جبکہ زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس بہت بڑی مقدار میں دوسرے لوگوں کی امانت بھی تھی جسے انہوں نے صاحب امانت کی مرضی سے قرض کی شکل دے دی تھی تاکہ اس کی حفاظت میں دشواری نہ ہو جیساکہ یہ بات مذکورہ حدیث میں مذکور ہے۔ واللہ اعلم۔
فائدہ:
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’فيه رد علٰي من كره جمع الأموال الكثيرة من جهلة المتزهدين ‘‘
’’ اس حدیث میں ان جاہل اور دو نمبری زاہدین کا رد ہے جو کہتے ہیںکہ زیادہ مال جمع کرنا ناپسندیدہ ہے‘‘
[فتح الباری لابن حجر:۶؍۲۳۵]
ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن الجوزی رحمہ اللہ کی اس بات پر تعاقب نقل کیا ہے لیکن حق بات وہی ہے جو ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کہی ہے، ابن الجوزی رحمہ اللہ کی بات کے دلائل کو مزید تفصیل سے دیکھنے کے لئے ان کی کتاب’’ تلبیس ابلیس: ص:۱۵۸ تا ص:۱۶۷ ملاحظہ فرمائیں ۔
میرے خیال سے ہرطالب علم کو ابن الجوزی رحمہ اللہ کی یہ مکمل بحث ضرور پڑھنی چاہئے ۔
٭٭٭