-
صحیح ابن حبان کے راوی محمد بن عبد اللہ القرشی المدنی رحمہ اللہ کا دفاع (قسط ثانی) الحمد للّٰه وحده، والصلاة والسلام علٰي من لا نبي بعده، اما بعد:
محترم قارئین! ایک شیخ حفظہ اللہ صحیح ابن حبان کے ایک راوی محمد بن عبد اللہ القرشی رحمہ اللہ کی بابت رقمطراز ہیں:
محمد بن عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ مجہول الحال ہے۔ اسے صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے’’الثقات :۷؍۳۸۰‘‘ میں ذکر کیا ہے۔محمد بن عبد اللہ بن قیس کو بخاری اور مسلم کا راوی قرار دینا خطا ہے ۔ ان کی کوئی روایت صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نہیں ہے۔دیکھیں : [فتاویٰ امن پوری : قسط :۳۲۱]
راقم کہتا ہے کہ :
٭ محمد بن عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ القرشی رحمہ اللہ مجہول الحال نہیں ہیں بلکہ اہل مدینہ کے متقن راویوں میں سے ایک ہیں۔
امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی ،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:۳۵۴ھ) موصوف کی بابت فرماتے ہیں:
محمد بن عبد اللّٰہ بن قیس بن مخرمۃ القرشی ،من بنی عبد مناف، اخو حکیم، من متقنی اہل المدینۃ۔
محمد بن عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ القرشی ، عبد مناف کی اولاد میں سے ہیں ، حکیم کے بھائی ہیں، اہل مدینہ کے متقن لوگوں میں سے ہیں۔[مشاہیر علماء الامصار بتحقیق مرزوق علی إبراہیم :ص:۲۱۱، ت:۱۰۳۰]
اِس پر مزید یہ کہ امام ابن حبان نے موصوف کو’’ کتاب الثقات‘‘ میں بھی ذکر کیا ہے۔
دیکھیں : [کتاب الثقات بتحقیق مجموعۃ من المحققین:۷؍۳۸۰، ت:۱۰۵۳۲]
نیز اپنی صحیح میں اِن کے ایک منفرد حدیث کو احتجاجاً جگہ دی ہے۔
دیکھیں : [صحیح ابن حبان بتحقیق شعیب الارنووط:۱۴؍۱۷۰، ح:۶۲۷۲]
٭ امام ابن حبان البستی کے علاوہ دیگر ائمہ کرام نے بھی محمد بن عبد اللہ ابن مخرمہ القرشی کی توثیق کی ہے۔
امام ابن حبان البستی کے علاوہ امام ہیثمی،امام بوصیری اور امام ابن حجر رحمہم اللہ نے بھی موصوف کی توثیق کی ہے۔
امام علی بن ابو بکر الہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۰۷ھ) موصوف کی ایک منفرد حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
رَوَاہُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُہُ ثِقَاتٌ۔
اِس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال ثقہ ہیں۔[مجمع الزوائد بتحقیق حسام الدین القدسی:۸؍۲۲۶، تحت الحدیث:۱۳۸۶۴]
امام ابو العباس احمد بن ابو بکر البوصیری رحمہ اللہ (المتوفی:۸۴۰ھ)موصوف کی ایک منفرد حدیث کی بابت فرماتے ہیں:
هَكَذَا رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ فِي السِّيرَةِ ،وَهَذِهِ الطَّرِيقُ حَسَنَةٌ جَلِيلَةٌ ،وَلَمْ اَرَهُ فِي شَيئٍ مِنَ المَسَانِيدِ الْكِبَارِ إِلَّا فِي مُسْنَدِ إِسْحَاقَ وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ مُتَّصِلٌ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ۔
اسی طرح محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب ’’سیرت ابن اسحاق‘‘ میں اِس حدیث کو روایت کیا ہے اور یہ طریق خوبصورت اور جلیل ہے اور میں نے اِس حدیث کو کسی بھی بڑی مسند میں نہیں دیکھا ہے سوائے مسند اسحاق کے اور یہ حدیث حسن متصل ہے اور اِس کے رجال ثقہ ہیں۔
[إتحاف الخیرۃ المہرۃ بزوائد المسانید العشرۃ:۷؍۵۵، رقم:۶۳۶۵، دار النشر: دار الوطن للنشر، الریاض]
امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ) موصوف کی ایک منفرد حدیث کی بابت فرماتے ہیں:
هَكَذَا رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ فِي السِّيرَةِ، وَهَذِهِ الطَّرِيقُ حَسَنَةٌ جَلِيلَةٌ، وَلَمْ اره فى شيء من المسانيد إلَّا فى مسند إسحاق هذا، وهو حديث حسن متصل، ورجاله ثقات۔
اسی طرح محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب سیرت ابن اسحاق میں اِس حدیث کو روایت کیا ہے اور یہ طریق خوبصورت اور جلیل ہے اور میں نے اِس حدیث کو کسی بھی مسند میں نہیں دیکھا ہے سوائے مسند اسحاق کے اور یہ حدیث حسن متصل ہے اور اِس کے رجال ثقہ ہیں۔
[المطالب العالیۃ بتحقیق مجموعۃ من المحققین: ۱۷؍ ۲۰۸، رقم:۴۲۱۲]
رہی بات آپ کے تقریب والے قول مقبول کی تو وہ نا قابل التفات اور نا قابل احتجاج ہے کیونکہ امام ابن حبان البستی نے ’’مشاہیر علماء الامصار‘‘ میں صریح توثیق کر دی ہے اور حافظ رحمہ اللہ کو یہ توثیق – تقریب میں حکم لگاتے وقت- نہیں مل سکی۔
اِس تقریب والے قول کے برعکس آپ نے اپنی مذکورہ کتاب’’ المطالب العالیہ ‘‘میں محمد القرشی کی منفرد حدیث کو حسن قرار دینے کے ساتھ ساتھ اُن کی توثیق بھی کر دی۔ الحمد للہ۔
بس مجھے اِس بات کا قطعی علم نہیں ہو سکا کہ’’ المطالب العالیہ ‘‘آپ نے تقریب کے بعد لکھی ہے یا پہلے؟
اِس پر مزید یہ کہ میرے علم کی حد تک ائمہ جرح و تعدیل کے کسی بھی امام نے موصوف کو مجہول الحال نہیں کہا ہے۔ واللہ اعلم۔
٭ شیخ کی پیش کردہ معلومات کے حساب سے بھی محمد بن عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ القرشی مجہول الحال نہیں ہیں۔
محمد القرشی رحمہ اللہ سے تین راویوں نے روایت کیا ہے، اُن کے نام مع درجہ درج ذیل ہیں:
(۱) اسماعیل بن امیہ المکی رحمہ اللہ – ثقہ ثبت
(۲) سعید بن ابو ہلال اللیثی رحمہ اللہ – امام ، حافظ ،ثقہ
(۳) محمد بن اسحاق بن یسار المدنی رحمہ اللہ – امام، ثقہ صدوق
اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے محمد القرشی کو’’ کتاب الثقات‘‘ میں ذکر کیا ہے اور اپنی صحیح میں اِن کی منفرد حدیث کو احتجاجاً جگہ دی ہے۔
محمد القرشی کی بابت اتنی معلومات شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کے علم میں تھی لیکن پھر بھی آپ نے محمد القرشی کو مجہول الحال کہہ دیا!جبکہ اِس طرح کا راوی مجہول الحال نہیں ہوتا ہے کیونکہ امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إنْ روي عنهُ اثنانِ فصاعِداً ولم يُوَثَّقْ، فهو مَجْهولُ الحالِ، وهُو المَسْتورُ۔
اگر راوی سے دو یا اس سے زیادہ شخص روایت کریں اور اُس راوی کی توثیق نا کی گئی ہو تو ایسا راوی مجہول الحال ہوتا ہے اور اسی کو مستور کہتے ہیں۔
[نزہۃ النظر بتحقیق عبد اللّٰہ الرحیلی : ص:۱۲۶]
اور محمد القرشی سے تین ثقہ راویوں نے روایت کیا ہے اور امام ابن حبان نے موصوف کو کتاب ’’الثقات‘‘ میں ذکر کر کے اور اِن کی منفرد حدیث کو صحیح قرار دے کر اِن کی توثیق کر دی ہے لہٰذا اصولِ حدیث کی روشنی میں موصوف مجہول الحال نہیں ہیںلیکن پتہ نہیں شیخ نے اصول حدیث کی کس کتاب اور کن ائمہ کرام کے اقوال کو سامنے رکھ کر موصوف کو مجہول الحال کہہ دیا! اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اور واضح رہے کہ اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجہول الحال کی تعریف میں فقط ایک قول پیش کیا گیا ہے ورنہ مصطلح الحدیث کی کتابیں اور ائمۂ کرام کے اقوال اور ان کا تعامل اِس بات پر دال ہیں کہ جس راوی کی حالت اِس طرح ہو ، اسے مجہول الحال کہنا بلا شبہ مردود ہے۔ والعلم عند اللہ تعالیٰ
٭ محمد بن عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ القرشی رحمہ اللہ بلا شبہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راوی نہیں ہیں۔
امام محمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ) محمد القرشی کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
قال صاحب الکمال: روی لہ (خ م) ، قال المزی: لَمْ اقف علٰی ذلک۔
صاحب الکمال (یعنی امام مقدسی رحمہ اللہ)نے کہا کہ امام بخاری اور امام مسلم -رحمہما اللہ- نے اپنی صحیح میں اِن سے روایت لی ہے۔ امام مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں صحیحین میں محمد بن عبد اللہ القرشی کی حدیث سے واقف نہیں ہو سکا۔[تذہیب التہذیب بتحقیق غنیم عباس وغیرہ:۸؍۱۶۸، ت:۶۰۹۸]
امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ)محمد القرشی کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
ذکر صاحب الکمال ان الشیخین اخرجا لہ ،قال المزی: لم اقف علی روایۃ احد منہما۔
صاحب الکمال نے ذکر کیا کہ شیخین نے اپنی صحیح میں محمد القرشی کی حدیث کی تخریج کی ہے ۔ امام مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں صحیحین میں شیخین کی تخریج کردہ حدیث سے واقف نہیں ہو سکا (یعنی صحیحین میں محمد القرشی کی حدیث سے واقف نہیں ہو سکا)۔[تہذیب التہذیب:۹؍۲۷۲، الناشر: مطبعۃ دائرۃ المعارف النظامیۃ، الہند]
واضح رہے کہ تہذیب الکمال للمزی میں محمد بن عبد اللہ القرشی کا ترجمہ موجود ہے لیکن وہاں متن میں مذکورہ قول نہیں ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام مزی رحمہ اللہ کا مذکورہ قول کہاں ہے؟
تو اِس کا جواب دکتور بشار عواد حفظہ اللہ نے ’’تہذیب الکمال‘‘ کی تحقیق میں دے دیا ہے۔ دیکھیں : [تہذیب الکمال للمزی بتحقیق بشار عواد:۲۵؍۵۳۳۔۵۳۴، ت:۵۳۷۰]
٭ امید ہے کہ شیخ رجوع کریں گے ۔
امام ابن حبان البستی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيْرٍ، حَدَّثَنَا اَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ اَبِي طَالِبٍ، عَنْ اَبِيْهِ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ اَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: ’’مَا هَمَمْتُ بِقَبِيْحٍ مِمَّا يَهُمُّ بِهِ اَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ إِلَّا مَرَّتَيْنِ مِنَ الدَّهْرِ كِلْتَاهُمَا عَصَمَنِي اللّٰهُ مِنْهُمَا۔ قُلْتُ لَيْلَةً لِفَتًي كَانَ مَعِي مِنْ قُرَيْشٍ بِاَعْلَي مَكَّةَ فِي غَنَمٍ لِاَهْلِنَا نَرْعَاهَا، اَبْصِرْ لِي غَنَمِي حَتَّي اَسْمُرَ هَذِهِ اللَّيْلَةَ بِمَكَّةَ كَمَا يَسْمُرُ الْفِتْيَانُ، قَالَ: نَعَمْ، فَخَرَجْتُ، فَلَمَّا جِئْتُ اَدْنَي دَارٍ مِنْ دُوْرِ مَكَّةَ سَمِعْتُ غِنَاء ً، وَصَوْتَ دُفُوْفٍ وَمَزَامِيْرَ، قُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: فُلَانٌ تَزَوَّجَ فُلَانَةَ لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشِ تَزَوَّجَ امْرَاَةً مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَهَوْتُ بِذَلِك الْغِنَائِ، وَبِذَلِك الصَّوْتِ حَتَّي غَلَبَتْنِي عَيْنِي، فَنِمْتُ فَمَا اَيْقَظَنِي إِلَّا مَسُّ الشَّمْسِ، فَرَجَعْتُ إِلَي صَاحِبِي، فَقَالَ: مَا فَعَلْتَ؟ فَاَخْبَرْتُهُ، ثُمَّ فَعَلْتُ لَيْلَةً اُخْرَي مِثْلَ ذَلِك، فَخَرَجْتُ، فَسَمِعْتُ مِثْلَ ذَلِك، فَقِيْلَ لِي: مِثْلُ مَا قِيْلَ لِي، فَسَمِعْتُ كَمَا سَمِعْتُ حَتَّي غَلَبَتْنِي عَيْنِي، فَمَا اَيْقَظَنِي إِلَّا مَسُّ الشَّمْسِ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَي صَاحِبِي، فَقَالَ لِي: مَا فَعَلْتَ؟ فَقُلْتُ: مَا فَعَلْتُ شَيْئًا، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَوَاللّٰهِ، مَا هَمَمْتُ بَعْدَهُمَا بِسُوئٍ مِمَّا يَعْمَلُهُ اَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ حَتَّي اَكْرَمَنِي اللّٰهُ بِنُبُوَّتِهِ‘‘۔
[صحیح ابن حبان بتحقیق شعیب الارنووط:۱۴؍۱۷۰، ح: ۶۲۷۲]
شیخ حفظہ اللہ نے اپنے فتاویٰ (قسط:۳۲۱)میں اِس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا اور علت یہ بتائی کہ محمد بن عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ مجہول الحال ہے ۔
اب میں نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ محمد بن عبد اللہ القرشی مجہول الحال نہیں بلکہ اہل مدینہ کے متقن راویوں میں سے ایک ہیں۔ امید ہے کہ شیخ اپنے اِس فتوے سے رجوع کریں گے اور حق کی اتباع کریں گے۔ واللہ ولی التوفیق
صحیح ابن حبان کی اِس حدیث پر – اگر ضرورت پڑی تو- مفصل لکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
خلاصۃ التحقیق :
محمد بن عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ القرشی رحمہ اللہ مجہول الحال نہیں بلکہ اہل مدینہ کے متقن راویوں میں سے ایک راوی ہیں لہٰذا شیخ حفظہ اللہ کا موصوف کو مجہول الحال قرار دینا بلا شبہ باطل اور مردود ہے۔ واللہ اعلم
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭