-
ماہِ صفر اور غیر شرعی رسومات و منکرات قارئین ! ماہِ صفر اسلامی و ہجری سال کادوسرا مہینہ ہے ،جو محرم الحرام کے بعد اور ربیع الاول سے پہلے آتا ہے ، قرآن و سنت میں اس مہینہ کی کوئی خاص اہمیت و فضیلت بیان نہیں کی گئی ہے ، البتہ جاہلیت کے زمانے میں بہت سے لوگ اس سے متعلق چند باطل عقائد رکھا کرتے تھے جن کی وضاحت ہادیٔ عالم اوررسول عربی محمدﷺ نے اپنی احادیث میں بیان فرمادی ہیں ،جس کا علم ہر مسلمان مرد وعورت کو حاصل کرناضروری ہے تاکہ ان سے بچ سکیں، میں نے اپنے اس مضمون میں ماہ صفر کی وجہ تسمیہ اور اس سے متعلق چند بدعات وخرافات اور بدعقیدگیوں کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں قلم بند کی ہیں۔
ساتھ ہی یہ ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتی ہوں کہ آج کے دور میں قرآن و حدیث کی روشن تعلیمات واضح ہونے کے باوجود کئی شہروں اور قریوں میں میں نے خود ماہِ صفر کے اندربدعات وخرافات کے رواج کا اپنی نظروں سے مشاہدہ کیا، جنہیں دیکھ کر میں حیران ودنگ رہ گئی اورارادہ کیا کہ ماہِ صفر سے متعلق رسومات و منکرات اور بدعات پر قرآن وحدیث کے نصوص سے اس کا دفاع و ازالہ کروں۔ بتوفیق اللہ وبفضل اللہ آج اس ماہ صفر پر تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ لک الحمد والشکر یاربی۔
محترم قارئین! ماہِ صفر ہجری سال کے بارہ مہینوں میں سے ایک ہے، جو کہ محرم الحرام کے بعد آتا ہے، اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ماہ میں اہل ِمکہ سفر کرتے تھے اور مکہ میں لوگوں کی تعداد’’صفر‘‘ ہو جاتی، کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد اس ماہ میں لوٹ مارکا بازار گرم ہوجاتا اور چور اُچکے لوگوں کو لوٹ کر ان کی جمع پونجی ’’صفر‘‘ کر دیتے تھے۔دیکھیں: [لسان العرب، از ابن منظور:۴؍۴۶۲۔۴۶۳]
آئیے اس مضمون میں ہم درج ذیل نکات پر گفتگو کرتے ہیں۔
۱۔ دورِ جاہلیت میں اس ماہ کے متعلق نظریات ۲۔ عصر حاضر میں اس ماہ کے متعلق پائی جانے والی بدعات اور برے نظریات ۳۔ماہِ صفرمیں نکاح کو منحوس ونامبارک سمجھنا ۴۔ ماہ ِصفر کو منحوس سمجھنے کی تردید
۱ ۔ دور جاہلیت میں اس ماہ کے متعلق نظریات:
عربوں کے ہاں ماہ صفر میں دو بڑی برائیاں تھیں:
۱۔ ماہ ِصفر کو اپنی جگہ سے آگے پیچھے کرنا۔ ۲۔ ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰـ نے ایک سال میں مہینوں کی تعداد بارہ رکھی ہے، اور ان مہینوں میں سے چار کو حرمت والے قرار دیا، چنانچہ ان چار مہینوں میں جنگ وجدال ، قتال اور لڑائی جھگڑا کرنا حرام ہے، حرمت والے چار مہینے یہ ہیں: ذو القعدہ، ذو الحجہ، محرم، اور رجب۔
اس کی قرآن مجید میں دلیل فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{إِنَّ عِدََّة الشُّهُورِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ}
ترجمہ: ’’ بیشک آسمان و زمین کی تخلیق سے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں کتاب میں سال کے مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی مضبوط دین ہے، چنانچہ ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم مت کرو‘‘
[التوبۃ:۳۶]
لیکن مشرکین جانتے بوجھتے ہوئے بھی ماہِ صفر کو اپنی مرضی سے آگے پیچھے کرتے رہتے تھے، جیسے کہ انہوں نے محرم کی بجائے ماہ صفر کو حرمت کا مہینہ قرار دیا۔
مزید برآں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا سب سے بڑا گناہ ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عرب حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو روئے زمین پر سب سے بڑا گناہ سمجھتے تھے، نیز وہ صفر کو حرمت والا مہینہ بنا کر کہتے:
’’ إِذَا بَرَأَ الدَّبَرُ، وَعَفَا الْأَثَرُ، وَانْسَلَخَ صَفَرُ: حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرَ‘‘
یعنی: ’’جب حج کے سفر کی وجہ سے سواریاں زخم خوردہ ہو کر شفا یاب ہو جائیں، زخموں کے نشانات مٹ جائیں اور ماہ ِصفر گزر جائے تو عمرہ کرنے والا عمرہ کر سکتا ہے‘‘
[سنن ابی داؤد:۱۹۸۷،حسن]
(التوبہ: ۳۷
کی تفسیر مروی ہے کہ : دورِ جاہلیت کے لوگ دو سال تک ذو الحجہ میں حج کرتے پھر آئندہ دو سال محرم میں، اس کے بعد اگلے دو سال صفر میں اسی طرح حج پورے سال گھومتا یہاں تک کہ جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حج کیا تو وہ ذو القعدہ میں تھا، اس کے بعد جب نبی ﷺ نے حج ادا کیا تو وہ ذو الحجہ میں ہی تھا، یہی وجہ ہے کہ صحیح حدیث کے مطابق آپ ﷺ کے خطبہ کے الفاظ کچھ یوں تھے: (بیشک زمانہ اپنی اسی اصلی حالت پر لوٹ آیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا تھا)
ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے نقل کیا ہے، اسی خطبہ کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: (لوگو! میری بات غور سے سنو! مجھے علم نہیں ہے کہ شاید دوبارہ میری اور تمہاری یہاں ملاقات ہو سکے، لوگو! تمہارے مال و جان قیامت کے دن تک ایک دوسرے کے لیے قابلِ احترام ہیں، بالکل اسی طرح جیسے آج کا دن، اس ماہ اور اس شہر میں محترم ہے، یہ بات ذہن نشین کر لو! تم اپنے رب سے ملو گے، اور اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں مکمل حساب لے گا، میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے، لہٰذا جس کے پاس امانت رکھوائی گئی ہے وہ صاحب امانت تک پہنچائے، ہر قسم کا سود آج سے کالعدم ہے، تمہیں صرف تمہارا اصل مال ہی ملے گا، اس لیے تم کسی پر ظلم کرو، اور نہ ہی تم پر کوئی ظلم کرے، اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ سود بالکل نہیں چلے گا، چنانچہ سب سے پہلے عباس بن عبد المطلب کا سود کالعدم قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح دور ِجاہلیت کے قتل کا قصاص بھی کالعدم ہے، چنانچہ دور ِجاہلیت کے قصاص کالعدم کرنے کے لیے سب سے پہلے میں ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا قصاص ختم کرتا ہوں، جسے قبیلۂ ہذیل نے بنی لیث میں رضاعت کے دوران قتل کر دیا تھا۔
اس کے بعدآپ نے فرمایا : لوگو! شیطان تمہاری سرزمین پر اپنی پرستش سے بالکل مایوس ہو چکا ہے، لیکن اسے دیگر گناہوں پر امید ہے جو تمہاری نظر میں چھوٹے ہیں، اس لیے اپنے دین کو بچا کر رکھنا۔
پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
{إِنَّمَا النَّسِيئُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللّٰهُ}
( سورۃ التوبۃ ؍ ۳۷)
ترجمہ: ’’بیشک ’’نسیء ‘‘ کفر میں مزید اضافے کا باعث ہے، اس کے ذریعے کفر میں ملوّث لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے، وہ (کچھ قمری مہینوں کو )کبھی حرمت والا قرار دیتے ہیں اور کبھی نہیں، تا کہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حرمت والے مہینوں کی تعداد بھی پوری ہو جائے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بھی کر لیں‘‘
[التوبۃ:۳۷]
نوٹ :’’نسیء ‘‘ (یعنی قمری مہینوں کی من مانی تقدیم وتاخیر)
اللہ تعالیٰ نے سال کے چار مہینوں ( رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ، اور محرم) کو خاص اہمیت دی ہے ان کا احترام لازم قرار دیا ہے اور ان میں جنگ کو حرام کردیا ہے لیکن زمانۂ جاہلیت میں بعض عربوں نے اس حکم کا لحاظ نہیں کیا اور اپنی خواہش کے مطابق مہینوں کو آگے پیچھے کرنا شروع کردیا کبھی حج ذی الحجہ میں رکھتے اور کبھی مؤخر کر کے محرم میں لے جاتے۔
اسی طرح اگر کبھی کسی قبیلہ کو دوسرے قبیلہ پر محرم کے مہینہ میں حملہ کرنا ہوتا تو اسے حلال کرلیتے اور اس کے بد لے صفر کے مہینہ کو حرام بنا لیتے اس لیے کہ بہت سے قبائل لوٹ کے مال پر ہی زندگی گزارتے تھے اور مسلسل تین مہینے حرام ہونے کی وجہ سے انہیں فاقہ کشی کی نوبت آجاتی تھی اس لیے ان مہینوں میں سے کسی کو حلال بنا لیتے اور اس کے بدلے دوسرے کو حرام بنادیتے، اسی کو قرآن نے نسئی کہا ہے یعنی مہینوں کو آگے پیچھے کرلینا اس کا نتیجہ یہ ہواکہ مہینے آپس میں خلط ملط ہوگئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺنے حجۃ الوداع میں اعلان کیا کہ تمام مہینے اپنی جگہوں پر لوٹ گئے اور آپ ﷺ کا حج ذی الحجہ میں ہوا۔
۲: عصر حاضر میں اس ماہ کے متعلق پائی جانے والی بدعات اورغلط نظریات:
دائمی فتویٰ کمیٹی سے استفسار کیا گیا: ’’ ہمارے ملک کے بعض علماء کا خیال ہے کہ دین اسلام میں ایک ایسی نفل نماز ہے جو ماہِ صفر کے آخری بدھ کو چاشت کی نماز کے وقت ایک سلام کے ساتھ پڑھی جاتی ہے جس میں چار رکعتیں ہیں، اس کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ کوثر سترہ مرتبہ، اور سورہ اخلاص پچاس مرتبہ، جبکہ معوذتین ایک ایک مرتبہ پڑھی جاتی ہے، یہ عمل چاروں رکعات میں کیا جائے گا، اور پھر سلام پھیر دیا جائے گا، پھر سلام پھیرنے کے بعد یہ آیت پڑھے: {وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰي أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ}
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ اس سے نابلد ہیں‘‘
[یوسف : ۲۱]
تین سو ساٹھ مرتبہ، اور جوھرۃ الکمال سے موسوم خود ساختہ درود تین مرتبہ، اور
{سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ، وَسَلَامٌ عَلَي الْمُرْسَلِينَ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}
( سورۃ الصفات؍ ۱۸۰؍۱۸۱؍۱۸۲)
ترجمہ: ’’آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ان تمام باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں، اور سلامتی ہو رسولوں پر، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں‘‘
[الصافات:۱۸۰،۱۸۱،۱۸۲]
اس طرح اس کا اختتام ہوتاہے ،پھر کچھ روٹیاں فقراء کے لیے صدقہ کی جاتی ہیں، اس آیت کی یہ خاصیت ہے کہ یہ ماہِ صفر کے آخری بدھ میں نازل ہونے والے مصائب و پریشانیوں سے بچاؤ کا باعث بن جاتی ہے۔
ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہر سال تین لاکھ بیس ہزار مصیبتیں نازل ہوتی ہیں جو کہ سب کی سب ماہِ صفر کے آخری بدھ میں آتی ہیں ، چنانچہ یہ دن پورے سال میں سب سے زیادہ سخت دن ہوتا ہے، لہٰذا جس نے یہ نماز مذکورہ کیفیت کے ساتھ پڑھی اللہ اسے اپنے فضل سے اس دن نازل ہونے والی تمام مصائب سے محفوظ رکھے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی قوت کو ختم نہیں کرے گا کہ مبادا ہلاک ہی ہو جائے اور بچے وغیرہ جو اس طرح نماز ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ اسے لکھ کر نوش کر لیں، کیا یہ درست ہے یا نہیں؟‘‘
تو کمیٹی نے جواب دیتے ہوئے کہا:’’سوال میں مذکور نفل نماز کی کوئی دلیل کتاب و سنت کے ذخیرے میں سے ہمارے علم میں نہیں ہے ، اور نہ ہی اس امت کے کسی سلف اور نیک خلف سے اس کا کوئی عملی ثبوت ملتا ہے، بلکہ یہ منکر بدعت ہے، جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کی یہ حدیث مذکور ہے:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘
’’جو شخص ہمارے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کرتا ہے، جس کا ہمارے دین میں کوئی ذکر نہیں تو ایسا کام قابلِ قبول نہیں‘‘
[صحیح بخاری:۲۶۹۷]
نیز آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ‘‘
’’جو شخص ایسا کام کرتا ہے جو ہمارے فعل کے مطابق نہیں تو وہ قابلِ قبول نہیں ہو گا‘‘
[صحیح مسلم:۱۷]
ان دو حدیثوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بدعت کا کام دین میں مردود اور باطل ہے اور باطل کام کا کوئی ثواب نہیں ملتا۔ نیز ایسا کام جس کا ثواب نہ ملے قابلِ انکار ہے اور اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔
مزید برآں یہ کہ جس نے اس نماز سمیت مذکورہ باتوں کو نبی ﷺ یا صحابہ میں سے کسی کی طرف منسوب کیا ہے تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا، وہ اللہ کی جانب سے جھوٹ بولنے والوں کی سزا کا مستحق ہوگا۔
[فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: ۲؍۳۵۴]
۳: ماہ صفر میں نکاح کو منحوس ونامبارک سمجھنا:
ہمارے معاشرے میں ماہ محرم، صفر، شوال اور ذو القعدہ میں نکاح کرنے کو معیوب اور غلط سمجھا جاتا ہے، بلکہ ان مہینوں میں نکاح کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نکاح کی تاریخ طے کرنے سے پہلے باقاعدہ ان مہینوں پر نظر رکھی جاتی ہے کہ اگر کہیں ان مہینوں میں نکاح کی تاریخ آرہی ہو تو بد فالی اور بد شگونی لیتے ہوئے اسے تبدیل کیا جاتا ہے، تاکہ نحوست سے حفاظت ہوسکے اور شادی کامیاب رہے۔ مہینوں کو منحوس قرار دینے کے معاملے میں علاقوں اور قوموں کے نظریات بھی باہم مختلف ہیں کہ مختلف قومیں مختلف مہینوں کو منحوس قرار دیتی ہیں ۔
ایسے بے بنیاد نظریات وتوہمات میں عموماً خواتین زیادہ مبتلا ہوتی ہیں، اس لیے اس معاملے میں بھی مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ دخل اندازی اور اصرار کرتی ہیں اور بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ نکاح کی تاریخ ان مہینوں میں نہ آنے پائے۔افسوس کہ آج کا مسلمان دینِ اسلام کی تعلیمات سے کس قدر بے خبر ہے!! اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس سے متعلق شریعت کی تعلیمات کو سمجھے، ایک باطل اور غلط عقیدہ کی تردید ہو تاکہ معاشرے میں رائج یہ غلط فہمیاں دورہوسکیں۔
۴: ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی تردید:
اس مہینے کی بابت لوگوں میں جومذکورہ رسومات و بدعات رواج پاچکی ہیں جن کی تردید نبی اکرمﷺنے اس حدیث میں فرمائی:
’’لَا عَدْوٰي وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘
’’ (اللہ کی مشیت کے بغیر) کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ ہی بد شگونی لینا جائز ہے، نہ اُلو کی نحوست یا روح کی پکار اور نہ ماہِ صفر کی نحوست‘‘
[سنن ابن ماجۃ:۳۵۳۹]
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’اس حدیث میں ماہ صفرکو منحوس سمجھنے سے منع کیا گیا ہے، ماہ صفر کو منحوس سمجھنا تطیّر (بدشگونی) کی اقسام میں سے ہے۔ اسی طرح مشرکین کا پورے مہینے میں سے بدھ کے دن کو منحوس خیال کرنا سب غلط ہیں‘‘
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے اور کہتے کہ یہ منحوس مہینہ ہے ۔ چنانچہ رسول اکرمﷺنے اُن کے اس نظریے کو باطل قرار دیا‘‘
یاد رکھیں! بندۂ مومن کایہ ایمان و اعتقادہوناچاہیے کہ ماہ و سال، شب و روز اور وقت کے ایک ایک لمحے کا خالق اللہ ربّ العزت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی دن، مہینے یا گھڑی کو منحوس قرار نہیں دیا۔ در حقیقت ایسے توہمانہ خیالات غیر مسلم اقوام اور قبل از اسلام مشرکین کے ذریعے مسلمانوں میں داخل ہوئے ہیں۔ مثلاً غیر مسلموں کے ہاں شادی کرنے سے پہلے دن اور وقت متعین کرنے کے لیے پنڈتوں سے پوچھا جاتا ہے۔ وہ اگر رات ساڑھے بارہ بجے کا وقت مقرر کردیں تو اُسی وقت شادی کی جاتی ہے، اس سے آگے پیچھے شادی کرنا بدفالی سمجھا جاتاہے ۔ آج یہی فاسد خیالات مسلم اقوام میں دَر آئے ہیں، اس لیے صفر کی خصوصاً ابتدائی تاریخوں کو جو منحوس سمجھا جاتا ہے تو یہ سب جہالت کی باتیں ہیں، دین اسلام کے روشن صفحات ایسے توہمات سے پاک ہیں۔ کسی وقت کو منحوس سمجھنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ کسی دن یا کسی مہینہ کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ ربّ العزت کے بنائے ہوئے زمانہ میں، جو شب وروز پر مشتمل ہے، نقص اور عیب لگانے کے مترادف ہے اور اس چیز سے نبی ﷺنے ان الفاظ میں روک دیا ہے:
قَالَ اللّٰه تَعَاليٰ: ’’ يُؤْذِيْنِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهر وَأنَا الدَّهْرُ، بَيِدِيَ الْأمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا:آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے۔ وہ وقت (دن، مہینے، سال) کو گالی دینا ہے حالانکہ وقت (زمانہ) میں ہوں، بادشاہت میرے ہاتھ میں ہے، میں ہی دن اور رات کو بدلتا ہوں‘‘
[صحیح مسلم:۲۲۴۶]
تومعلوم یہ ہوا کہ دن رات اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں، کسی چیز کو عیب دارٹھہرانا گویا کہ خالق و مالک کی کاری گری میں در حقیقت عیب نکالنا ہے۔
اسی طرح اس شخص کے لیے خوشخبری بھی سنائی گئی جو کسی چیز کو منحوس سمجھتا ہے اور نہ بدشگونی لیتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ و توکل کرتا ہے۔
رسولِ اکرمﷺنے فرمایا:’’مجھے میری اُمت کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ آپ کی اُمت ہے، ان میں ستر ہزار ایسے ہیں جو پہلے جنت میں جائیں گے، ان پر کوئی حساب اور عذاب نہیں ہوگا۔نبی اکرمﷺنے فرمایا: میں نے پوچھا کہ یہ کس وجہ سے بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے؟ تو جبریل نے جواب دیا:
’’كَانُوْا لَا يَكْتَوُوْنَ وَلَا يَسَتَرَقُوْنَ وَلَا يَتَطَيَّرُوْنَ وَعَليٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ‘‘
’’(ان کی صفت یہ ہے کہ) وہ اپنے جسم کو داغتے نہیں، نہ ہی دم کرواتے ہیں، نہ کسی چیز کو منحوس سمجھتے اور وہ اپنے ربّ پر توکل کرتے تھے‘‘
[صحیح بخاری:۶۵۴۱]
مذکورہ حدیث میں بغیر حساب کتاب جنت میں جانے والے لوگوں کے اوصاف کا ذکر ہے، ان میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو منحوس نہیں سمجھتے اور ان میں توکل کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ سبحان اللہ
اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر کرتی چلوں کہ بعض مسلمان صرف ماہ صفر کو ہی نہیں بلکہ انسان یا بلی یا کوّا وغیرہ کو بھی منحوس سمجھتے ہیں اور اس سے بد شگونی لیتے ہیں مثلاً : ایک انسان، جب اُس کاکوئی کام خراب ہوجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اِس کام کو ہاتھ میں لینے سے پہلے میں نے فلاں کا چہرہ دیکھا تھا ، وہ منحوس ہے ، یہ اُسی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسی طرح اگر بلی کسی بدشگونی لینے والے کے سامنے سے گزر جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ بس! جس کام کے لیے جارہا تھا اب وہ کام نہیں ہوگا کیونکہ بلی نے راستہ کاٹ دیا ہے ،اس وجہ سے وہ اپنے کام کو انجام دینے سے رک جاتا ہے ۔ اگر کوّے کی آواز آئی تو کہتے ہیں یقینا کوئی مہمان آنے والے ہیں۔ العیاذ باللہ
محترم قارئین ! کوئی مصیبت آنے پر کسی دوسرے کو منحوس قرار دینا، یہ مسلمان کا کام نہیں ہے بلکہ کافروں کا کام ہے، جیساکہ فرعون کی قوم کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوا بِمُوسٰي وَمَنْ مَّعَهُ }
’’جب ان کو کوئی برائی پہنچتی تو وہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو منحوس قرار دیتے‘‘
[الاعراف:۱۳۱]
اور اسی طرح یہ بات بھی جان لیں کہ کسی چیز سے بدشگونی لینا ،گویا اس چیز کو نفع ونقصان کا مالک تصور کرنا ہے جبکہ نفع و نقصان کا مالک فقط اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’وَاعْلَمْ اَنَّ الاُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰي اَنْ يَّنْفَعُوكَ بِشَيْئٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْئٍ قَدْ كَتَبَهُ اللّٰهُ لَكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلٰي اَنْ يَّضُرُّوكَ بِشَيْئٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْئٍ قَدْ كَتَبَهُ اللّٰهُ عَلَيْكَ‘‘
’’جان لو ! اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے اور اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے‘‘
[جامع الترمذی:۲۵۱۶]
اور اللہ کے اِس فرمان کو بھی یا د رکھیں :
{مَا اَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ}
’’کوئی بھی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی ہے‘‘
[التغابن:۱۱]
اسی طرح ایک اور جگہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:{ما أَصابَ مِن مُصيبَةٍ فِي الأَرضِ وَلَا فِيْ أَنفُسِكُم إِلّا فِي كِتـٰبٍ مِن قَبلِ أَن نَبرَأَها}’’ کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں‘‘
[الحدید:۲۲]
قابل غور بات !بدشگونی شرکِ اصغر ہے!
بدشگونی ’’یعنی کسی چیز کو منحوس خیال کرنا‘‘ شریعت میں سختی سے ممنوع ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا:’’اَلطِّيَرَةُ شِرْكٌ ، اَلطِّيَرَةُ شِرْكٌ، اَلطِّيَرَةُ شِرْكٌ‘‘
’’ بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے‘‘
[سنن ابی داؤد:۳۹۱۰]
خلاصۂ بحث: اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ماہ صفر کو منحوس سمجھنا، اس کے تعلق سے بے بنیاد عقائد رکھنا یہ تمام چیزیں قرآن و احادیث سے ثابت نہیں ہیں ، بلکہ موضوع اور من گھڑت ہیں، اس کو بیان کرنا اور اس کے مطابق ا پنا ذہن و عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔ نیز ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔ لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کریں۔
رب العزت سے دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی بدعات اور منکرات و خرافات سے دور رہنے اور معاشرے سے انہیں ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور قرآن وحدیث کا صحیح فہم عطا فرمائے۔آمین