-
فتنۂ شکیل بن حنیف کا مختصر تعارف ! دیگر مضامین,Latest magazine,اہم مضامین,ستمبر 2023,محمد محب اللہ محمدی،سپول بہار,محمد محب اللہ سیف الدین المحمدیمحترم قارئین! شکیل بن حنیف دو فتنوں کا جامع ہے۔
(۱) پہلا فتنہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو امام مہدی کہتا ہے۔
(۲) دوسرا فتنہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام بھی کہتا ہے۔
شکیل بن حنیف نے کیسے کام شروع کیا ؟
شکیل بن حنیف ( بہار۔ انڈیا ) کے ضلع دربھنگہ کے گاؤں عثمان پور کا رہنے والا ہے۔
(۱) دربھنگہ کے اندر کالجوں اور اسکولوں میں پڑھنے والوں میں دین اور علماء سے دور رہنے والے بچوں میں اس نے کوشش کی۔
(۲) بھارت کی راجدھانی دہلی میں اس نے امام مہدی ہونے اور اور مسیح یعنی عیسیٰ علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی۔
دہلی کے مختلف محلوں میں اس نے مہدویت یعنی امام مہدی اور مسیحیت یعنی عیسیٰ علیہ السلام ہونے کی تبلیغ کی۔
(۳) دہلی میں محلہ نبی کریم کو اس نے اپنا مرکز بنایا کیونکہ یہاں بہار سے روزی روٹی کے سلسلے میں آئے ہوئے سیدھے سادھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سیدھے سادھے نوجوان جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے آئے تھے اس پر اس نے محنت کی۔ بعد میں جب لوگوں کو اس کی اصلیت کا پتہ چلا تو وہ دہلی کے اندر اپنا ٹھکانہ بدلتا رہا۔
(۴) اخیر میں اس نے مہاراشٹر (انڈیا) کے اورنگ آباد کے’’رحمت نگر‘‘میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے بلکہ مستقل ایک گاؤں بسا لیا ہے ، (جس میں وہی شخص سکونت اختیار کر سکتا ہے جو اس شکیل بن حنیف کا متبع ومنقاد ہو۔) اور پھر وہ اپنے مشن میں لگا ہوا ہے۔ لگ بھگ دس سال سے زائد عرصے سے وہ محنت کر رہا ہے۔
(۵) ملک کے مختلف حصوں میں اس جھوٹے مہدی اور جھوٹے عیسیٰ کی دعوت وتبلیغ کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ دہلی، بہار، یوپی، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور آندھرا پردیش وغیرہ میں اس کے فتنے میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ آچکے ہیں۔ بہار اس کے فتنے سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔اور یہ فتنہ سیلاب اور طوفان کی طرح بڑھتا جارہا ہے ۔
یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ اب دس ہزار سے زائد لوگ اس فتنے کے شکار ہوچکے ہیں ۔بحوالہ:(فتنۂ شکیل بن حنیف ،مولاثناء اللہ شبیر محمدی مدنی :صفحہ نمبر:۱تا۵)
معزز قارئین! فتنے کا ادراک سب سے پہلے علماء کرلیتے ہیں ، علماء اپنے علم بصیرت، حکمت و فراست سے ان فتنوں کو تاڑ لیتے ہیں ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فتنہ کے سامنے سد سکندری بننے سے قبل وہ فتنہ سر چڑھ کر بولنے لگ جاتا ہے ، یعنی فتنوں کی روک تھام کی فکر اس وقت کی جاتی ہے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے (اذا بلغ السیل الزبی ) یعنی جب اس کے شکار ہزاروں لاکھوں لوگ ہوجاتے ہیں اور اس وقت تک فتنوں کی جڑیں اتنی مضبوط ہوچکی ہوتی ہیں یا ان کی شاخیں اتنی پھیل چکی ہوتی ہیں کہ اب اس کو روکنا گویا جوئے شیر لانا ہے۔
’’شکیلیت‘‘ کا فتنہ کوئی نیا نہیں ہے یہ ایک فتنہ نہیں نہ جانے اور کتنے فتن و نوائب الدہر اپنا پیر پھیلا چکے ہیں ۔مثلاً اس وقت مودودیت ، قطبیت ،بنائیت اورخمینیت وغیرہ کے فتنے عروج پر ہیں۔
جیسا کہ اوپر کے سطور میں بتایا کہ شکیل بن حنیف دربھنگہ بہار(عثمان پور )کا رہنے والا ہے اور اس کی علمی صلاحیت و لیاقت یہ ہے کہ اس نے بعض عصری ادارے میں تعلیم حاصل کی ہے اور کمپیوٹر انجینئر ہے ، ملازمت کی تلاش میں دہلی آیا اور یہیں پر وہ ایک دینی جماعت سے بھی وابستہ ہوا ، لیکن عیاش دماغ ، ذہنی دیوالیہ پن ، عقل کا بگاڑ اور عہدہ کی حرص و ہوس کی وجہ سے اس نے بعض بھولے بھالے اورسیدھے سادے انسانوں کو اپنا ہمنوا بنانا شروع کیا اور بالآخر اپنے بارے میں طرح طرح کے دعوے کرنے لگا ، یہ شخص ۲۰۰۴ء سے اپنے گمراہ افکارو خیالات لوگوں میں پھیلا رہا ہے۔
اس کے ان باطل دعوؤں کی وجہ سے حالات اس کے خلاف اتنے کشیدہ ہو گئے کہ اسے دہلی چھوڑنا پڑا، پھر دوبارہ دہلی ہی واپس آیا اور لکشمی نگر کے علاقہ میں ایک مکان لے کر اس کو اپنا مرکز بنایا ۔ اور اب اس کے متبعین پورے ہندوستان میں پھیل چکے ہیں۔ مدھیہ پردیش ،مہاراشٹر ،اورنگ آباد ،حیدرآباد ،کرناٹک ،یوپی ،لکھنؤ ،ساؤتھ انڈیا وغیرہ کے حساس ودیندار مسلمانوں کو بے چین کرڈالے ہیں۔
قارئین کرام! اس فتنے کی طرف دعوت دینے والے داعیوں کا طریقہ بہت پوشیدہ ہے۔ آئیے ذرا غور کرلیجیے۔
(۱) شکیلی لوگ اپنا نیٹ ورک ایسے نوجوانوں سے خفیہ طورپر جوڑتے ہیں جنہیں مدرسے کی ہوا بھی نہ لگی ہو ، مساجد ،دروس ومحاضرات سے جن کا کوئی مطلب نہ ہو ،مشائخ و علمائِ ثقات سے ان کا کوئی رابطہ نہ ہو ۔ مثلاً کسی کالج کا، کسی اسکول کا ایک ایسا طالب علم ہے جس کا کسی عالم سے یا دینی جماعت سے یا دینی تنظیم سے رابطہ نہیں ہے۔
طریقۂ کار ! ان کچے اورنا پختہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے شروع میں یہ کہتے ہیں کہ ہم علاماتِ قیامت کو سائنس کے ذریعہ بتا ئیں گے، اور اس طرح جب نوجوان ان کی بات سننے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو شروع میں علاماتِ قیامت کو اپنے وضع کردہ طریقہ اور خاص پیٹرن سے سمجھاتے ہیں، اور جی لبھانے والا اسٹائیل اپنا کرکے مخاطب کے دل میں جگہ بناتے ہیں ،اب جب زمین ہموار ہوئی تو قیامت کی علامات اور نشانیوں کو جدید ایجادات پر اس طرح فٹ کرتے ہیں کہ علامات قیامت سے متعلق نبی ﷺکی پیشین گوئیاں مثلاً ظہور مہدی ، خروجِ دجال اور نزولِ عیسیٰ کا اصل مفہوم بگڑ جاتا ہے، اور اس موضوع کی صاف اور واضح احادیث میں کھینچ تان کرکے ، تاویل وتحریف کرکے وہ ان کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مثلاً کہتے ہیں کہ: امریکا اور فرانس یہ دونوں ملک دجال ہیں۔ دجال کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس کی پیشانی پر ( بیچ میں ) کافر لکھا ہوا ہوگا۔ اس سے مراد امریکا اور فرانس ہے۔ اس لیے کہ جب ان دونوں ملکوں کا نام ایک ساتھ لکھا جائے گا تو کافر لفظ بیچ میں آتا ہے ( امریکا فرانس) امریکا میں سے ( کا) اور فرانس کے شروع کا (فر) تو ( کافر ) ہو گیا۔
دجال ایک آنکھ سے کانا ہونے کا مطلب سیٹیلائٹ ہے اور دجال کی سواری کامطلب جنگی جہاز ہے وغیرہ وغیرہ۔
اور عام لوگ چونکہ علم ِدین اور احادیث سے پورے طور پر واقف نہیں ہوتے اس لیے وہ اس فتنے کے آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں اور اس فتنہ کی جانب سے احادیث میں تحریف کر کے جو بھی مواد پیش کیا جاتا ہے وہ اس کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔یہ فتنہ جن نوجوانوں کو اپنا ہدف بناتا ہے ان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ تمام علاماتِ قیامت پوری ہو چکی ہیں، اور اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی کو بھی آجانا چاہئے اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مہدی ومسیح شکیل بن حنیف ہی ہے، شکیل بن حنیف کو مہدی اور مسیح ثابت کرنے کے لیے وہ وہی مواد استعمال کرتے ہیں جو قادیانیوں نے قرآن و احادیث میں تحریف وتلبیس و تبدیل کر کے تیار کیا ہے، جس سے وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مہدی اور مسیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں ، اس مواد کو استعمال کر کے وہ شکیل بن حنیف پر فٹ کرتے ہیں اور اس طرح شکیل بن حنیف کو مہدی اور مسیح منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔
(۲) اس کے بعد شکیلی لوگ تمام دینی گفتگو شروع کرتے ہیں۔
(۳) شکیلی لوگ اپنا حلیہ ایسا بنائے ہوئے ہیں کہ لوگ ان کو سنت کی پیروی کرنے والا سمجھتے ہیں۔ لمبی لمبی داڑھیاں ، لباس میں لمبے کرتے ، اونچی شلوار، گفتگو میں بار بار ’’الحمد للہ، سبحان اللہ،ما شاء اللہ،ان شاء اللہ‘‘ جیسے الفاظ کی کثرت ہے۔ جس سے سیدھے سادھے نوجوان جلدی متأثر ہو جاتے ہیں اور انہیں دیندار سمجھنے لگتے ہیں۔
(۴) شکیلی لوگ اپنے حلیے سے سامنے والے کو مرعوب کر دینے کے بعد قیامت کی نشانیوں پر بات شروع کرتے ہیں ۔ ان جھوٹے لوگوں کا کہنا ہے کہ قیامت کی نشانیوں سے مراد نئے نئے انکشافات، نئی نئی ایجادات اور دنیا کے بعض حالات اور واقعات ہیں۔
(۵) شکیلی لوگ بڑی ہوشیاری سے علماء کی ایسی تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ ان کے جال میں پھنسنے والے لوگ علماء سے ان کی کہی ہوئی باتوں کی تصدیق کرانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ شکیلیوں کا کہنا ہے کہ علماء کو قیامت کی نشانیوں کے بارے میں کچھ جانکاری نہیں ہے۔ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہوئے کہتے ہیں کہ علماء کو قیامت کی نشانیوں کے بارے میں پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ ان کو صرف حدیث کی کتابوں سے چند وہ حدیثیں پڑھائی جاتی ہیں جن کا تعلق نماز ، روزے، حج ، زکوٰۃ ، نکاح اور طلاق جیسے مسائل سے ہوں تاکہ وہ مسجد کے امام اور مدرسہ کے مدرس بن سکیں۔ سامنے والا انہیں ہی دین کا ماہر سمجھنے لگتا ہے، اب جو باتیں بتادیں اس پر یقین کر لیتے ہیں۔
(۶) شکیلی لوگ بڑی ہوشیاری سے دجال کے بارے میں من گھڑت واقعات بیان کر کے سامنے والے کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ امریکہ اور فرانس کو دجال قرار دیتے ہیں۔
(۷) شکیلی لوگ بڑی ہوشیاری سے لوگوں کو اپنی جال میں پھنسا کر کہتے ہیں کہ جب دجال دنیا میں موجود ہے تو دجال کے بعد امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام کو آنا تھا تو وہ آچکے ہیں اور دونوں (امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام ) ایک ہی آدمی ہیں، دونوں الگ الگ نہیں ہیں، اور اب نجات اسی میں ہے کہ ہم ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں ۔ سامنے والا جھانسے میں آکر اور سچ مان کر بیعت کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے کہ مجھے بھی اس سفینۂ نجات میں سوار ہونا ہے۔ اس کے بعد اسے صوبائی امیر کے پاس بھیجا جاتا ہے پھر کچھ دنوں کے بعدمہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد بھیج کر شکیل بن حنیف کے ہاتھ پر بیعت کرا دیتے ہیں۔ جیسے یوپی میں اس مشن کا صوبائی امیر بنارس ہندو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک نو جوان ہے ۔ ۲۰۱۹ ء کی بات ہے۔
(۸) شکیلی لوگ بیعت سے پہلے اصل نام نہیں بناتے۔
٭ اس فتنے کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟ :
۱۔ علماء و فضلاء ِدین کو جنگی پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے ، وہ اس فتنے کی سرکوبی کے لیے بالکل مستعد وتیار رہیں ، قلمی ولسانی جہاد کریں ، پہلے ہی سے لوگوں کے ذہن کو واش کررکھیں ، دروس وخطباتِ جمعہ میں بلاخوف لومۃ لائم کے کھول کھول کراس طرح کی فتنوں کا قسط واراور ٹھہر ٹھہر کر رد کریں ۔
۲۔ لوگ مساجد ومدارس سے اپنا ربط مضبوط کریں ، علماء سے دوری نہ بنائیں ، کچھ اردوزبان پڑھنا آتی ہو تو اردو میں ردِّ فتن پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ کریں ،لیکن کسی جان کار سے مشورہ لے کر ۔
۳۔ گھر کا ماحول دینی بنائیں ، بچوں کو عقیدہ ٔتوحید ،ختم ِرسالت ،دین کے مسلمات اور اساس ومنہجیت کی ٹھوس تعلیم دیں ۔
۴۔ علماء کو چاہیے کہ عقیدۂ ختم ِنبوت کولوگوں کے دلوں میں راسخ کریں۔
۵۔ جلسہ وکانفرنس میں مسیح ،مہدی اوردجال کے بارے میں لوگوں کوصحیح انفارمیشن دیں ۔
۶۔ انٹرنیٹ، فیس بک، گوگل اورٹویٹر وغیرہ سے علم حاصل کرنے کے بجائے مستند وثقہ عالم سے علم حاصل کریں ۔
۷۔ دنیاوی حرص ولالچ سے بچیں ،حلال کمائی کھائیں ، ممکن ہے کہ یہ لوگ آپ کی غربت و افلاس کافائدہ اٹھاکر آپ کو سبزباغ دکھائیں اور آپ کے دین وعقیدے پر حملہ کردیں اور آپ کوشکیلی فکر کا حصہ بنا دیں ۔
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه۔
اللهم وفقنا لماتحب وترضي۔
مصادر:
فتنۂ شکیل بن حنیف ،مولاثناء اللہ شبیر محمدی مدنی صفحہ نمبر:۹تا ۱۰
فتنۂ شکیل بن حنیف کی حقیقت ،صفحہ نمبر:۳تا۴
مولانا ابرار الحق شاکر قاسمی ،
مولانا رفیق رئیس سلفی کا مضمون دی فری لانسر سے،
ودیگر مجلات ومقالات سے مدد لی گئی ہے۔