-
کیا بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے؟ الحمد للّٰه وحده، والصلاة والسلام علٰي من لا نبي بعده، أما بعد :
محترم قارئین! ایک بھائی نے سوال کیا کہ کیا بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے؟
جواباً عرض ہے کہ: ہمارے معاشرے میں عموماً بیویاں اپنے شوہروں کواُن کے نام سے نہیں بلاتی ہیں بلکہ فلاں کے ابو وغیرہ جیسے کلمات سے پکارتی ہیں، حالانکہ اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کو اُس کے نام سے مخاطب کرے تو اِس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ جائز ہے ۔کیونکہ اس مسئلہ کی دلیل دو عظیم نبیوں نبی کریم محمد ﷺ اور ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے ملتی ہے۔جنہیں اللہ نے ہمارا اسوہ اور نمونہ قرار دیا ہے۔
٭ نبی کریم ﷺکی زندگی سے دلیل :
پہلی دلیل : عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
قَالَ لِي رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَي قَالَتْ: فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِكَ؟ فَقَالَ:’’ أَمَّا إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، فَإِنَّكِ تَقُولِينَ: لاَ وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَي، قُلْتِ: لاَ وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ‘‘ قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ وَاللّٰهِ يَا رَسُولَ اللّٰهِ، مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ۔
کہ رسول اللہﷺنے مجھ سے فرمایا کہ میں خوب پہچانتا ہوں کہ کب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کب تم مجھ پر ناراض ہو جاتی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا آپ یہ بات کس طرح سمجھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ:’’ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں محمد ( ﷺ ) کے رب کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ابراہیم (علیہ السلام )کے رب کی قسم!‘‘تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جی ہاں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ!(غصے میں)صرف آپ کا نام زبان سے نہیں لیتی۔
[صحیح البخاری:۵۲۲۸]
استدلال : مذکورہ حدیث کو بغو ر پڑھیں تو معلوم ہوتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر حضرت محمد ﷺ کو خوشی کی حالت میں ’’رَبِّ محمد‘‘ ’’محمد (ﷺ) کے رب کی قسم ‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں ،جس پر نبی کبھی نکیر نہیں کرتے تھے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ بیوی شوہر کا نام لے سکتی ہے ۔
دوسری دلیل : امام المفسرین عبد اللہ بن عباس القرشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
اَنَّ امْرَاَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ اَتَتِ النَّبِيَّ ﷺَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا اَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلاَ دِيْنٍ وَلَكِنِّي اَكْرَهُ الكُفْرَ فِي الإِسْلاَمِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اَتَرُدِّيْنَ عَلَيْهِ حَدِيْقَتَهُ؟۔ قَالَتْ: نَعَم۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ اقْبَلِ الحَدِيْقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيْقَةً‘‘۔
ثابت بن قیس الانصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! مجھے ثابت بن قیس کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے ، البتہ میں اسلام میں کفر کو نا پسند کرتی ہوں (یعنی حقوق زوجیت ادا نہیں کر سکتی ہوں) ۔ اِس پر نبی کریم ﷺ نے اُن سے فرمایا: کیا تم ثابت بن قیس کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ ۔انہوں نے کہا : جی ہاں۔ تب آپ ﷺ نے (ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: ’’باغ قبول کر لو اور انہیں چھوڑ دو‘‘
[صحیح البخاری:۵۲۷۳]
استدلال : نبی کریم ﷺ کے سامنے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر کا نام لیا لیکن آپ نے اِس تعلق سے صحابیہ پر کوئی نکیر نہیں کی جو اِس بات کی دلیل ہے کہ بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے۔
٭ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے دلیل :
امام المفسرین عبد اللہ بن عباس القرشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ نے کہا:
{يَا إِبْرَاهِيْمُ، اَيْنَ تَذْهَبُ وَتَتْرُكُنَا بِهٰذَا الوَادِي الَّذِي لَيْسَ فِيهِ إِنْسٌ وَلَا شَيْء ٌ؟…}
’’اے ابراہیم! آپ ہم کو اِس وادی میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں جس میں نا کوئی انسان ہے اور نا ہی کوئی چیز؟‘‘
[صحیح البخاری:۳۳۶۴]
استدلال : اسماعیل علیہ السلام کی والدہ نے اپنے شوہر ابراہیم علیہ السلام کا نام لے کر انہیں پکارا اور اُن سے سوال کیا ، پھر بعد میں ابراہیم علیہ السلام نے اپنی شریک ِحیات کو جواب بھی دیا لیکن جو ام اسماعیل نے آپ علیہ السلام کا نام لے کر پکارا، اِس پر ابراہیم علیہ السلام نے کوئی نکیر نہیں کی جو اِس بات کی دلیل ہے کہ ایک بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے۔
خلاصہ: مذکورہ دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بیوی کا اپنے شوہر کا نام لینا بے ادبی نہیں ہے اور نا ہی شوہر کی شان میں گستاخی ہے اور نا ہی شوہر کا نام لینے سے نکاح ٹوٹتا ہے جیساکہ بعض جاہلوں کا ماننا ہے۔
٭٭٭