-
قرآن حفظ کرنے کے آسان طریقے (تجربات کے آئینے میں) قرآن اللہ کی وہ عظیم کتاب ہے جسے اللہ نے اپنے بندے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اپنے بندے اور رسول محمدﷺپر نازل کیا اور اسے مومنوں کے لیے شفا اور رحمت کا سبب بتایا، یہ وہ کتاب ہے جس سے متعلق ہر چیز عظیم ہے، قرآن کو اللہ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت اور بھلائی کے لیے نازل کیا اور اسی لیے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی اور اس قرآن کو ہر قسم کے نقص، عیب، کمی بیشی، لغو، فضول اور باطل چیزوں سے پاک رکھا، گمراہوں اور باطل افکار کے حاملین نے قرآن کی شکل و صورت تبدیل کرنے اور اس میں خرد برد کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ نے ہر موقع پر اپنی ذمہ داری ادا کی اور اس کتاب کو محفوظ رکھا اور قیامت تک محفوظ رکھے گا۔
قرآن کی حفاظت کی ایک شکل جو اللہ نے دنیا میں رکھی ہے وہ ہے قرآن کو حفظ کرنا، آپ دنیا میں دیکھیں تو کتنے حفاظ موجود ہیں جن کے ذریعے قرآن کی بہترین خدمت ہو رہی ہے اور زمانہ در زمانہ اس تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے لیکن قرآن حفظ کرنے کے تعلق سے موجودہ زمانے میں ایک مشکل یہ ہے کہ لوگوں کا حافظہ خراب ہو گیا ہے ، خیر القرون اور اس کے بعد کے ادوار میں حفظ ِقرآن یا حفظ ِحدیث کے نہایت ہی حیرت انگیز نمونے آپ کو مل جائیں گے کہ جن کے بارے میں جان اور سن کر انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کیا واقعی انسان کا حافظہ اتنا تیز ہو سکتا ہے؟چاہے امام دار قطنی رحمہ اللہ کا حافظہ ہو جنہیں ان کے زمانے کے لوگ ’’احفظ اهل الدنيا ‘‘’’یعنی دنیا کا سب سے بڑا حافظ‘‘ کہتے تھے، یا پھر چاہے امام بخاری رحمہ اللہ کا حافظہ ہوکہ جن کے حفظ اور اتقان کی گواہی اپنوں اور غیروں سبھی نے دی ، یا پھر ان کے علاوہ کوئی اور ہوں ان کے حافظے مضبوط اور پختہ تھے لیکن گزرتے زمانے کے ساتھ اس میں تنزلی آتی گئی اور آج ہر کسی کو شکایت ہے کہ لوگوں کا حافظہ انتہائی کمزور ہو چکا ہے تو ایسی صورت حال میں ایک انسان اس بات کی تلاش میں ہوتا ہے کہ کسی چیز کو حفظ کرنے اور بطورِ خاص قرآن مجید کو حفظ کرنے کے وہ کون سے آسان طریقے اور راستے ہیں کہ جن کو اپنا کر وہ حفظ کے مرحلے کو پار کر سکے، زیر نظر مضمون میں ایسے ہی کچھ طریقے بتائے جا رہے ہیں جو میرے ذاتی تجربے ہیں اور جن پر بہت آسانی سے عمل کیا جا سکتا ہے۔
پہلا طریقہ: اللہ سے توفیق مانگنا: قرآن حفظ کرنا یہ شرف کی بات ہے، اس کی باتیں نور ہیں، اللہ کا نور ہے اور شرف والی چیزیں بنا توفیق کے نصیب نہیں ہوتی ہیں ، اس لیے ایک طالب کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ سے توفیق مانگے تاکہ اللہ اس کے لیے یہ مرحلہ آسان کر دے۔
دوسرا طریقہ: نیت کو خالص کرنا: کسی بھی کام کے لیے نیت کا خالص ہونا بہت اہم ہوتا ہے اسی لیے محاورہ بھی مشہور ہے کہ جیسی نیت ویسی برکت، تو حفظ ِقرآن کے خواہش مند کو چاہیے کہ وہ اپنی نیت کو خالص کرے کہ وہ صرف اللہ کی محبت کی خاطر قرآن حفظ کرنا چاہتا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور دنیاوی مقصد نہیں ہے کیونکہ نیت کا فساد انسان کو اس کے مقصد سے دور اور بہت دور کر دیتا ہے۔
تیسرا طریقہ: شوق اور جذبہ: کہتے ہیں کہ شوق انسان کو ترقی پر لے جانے کے لیے نہایت ہی ضروری ہے، اگر ایک طالب کے اندر قرآن مجید حفظ کرنے کا شوق ہے تو یہ چیز اس کے لیے اس مرحلے کو آسان بنا دے گی ،ورنہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میرے اپنے بعض حفظ کے ایسے ساتھی تھے کہ جنہوں نے شعبہء حفظ میں آٹھ سے نو سال لگا دیئے لیکن پھر بھی مکمل حفظ نہ کر سکے۔ ایسا کیوں؟ اس لیے کہ ان کے اندر شوق نہیں تھا اور ان کے گھر والوں نے انہیں زبردستی شعبہء حفظ میں داخل کر رکھا تھا، کیونکہ ماں باپ اور گھر والے اپنے بچے کو حافظ دیکھنا چاہتے تھے لیکن بچے کا اپنا کوئی شوق نہیں تھا، تو شوق کا ہونا قرآن مجید کے حفظ کے لیے نہایت ہی ضروری ہے اور ہم دیکھتے بھی ہیں کہ ایسا بچہ اس مرحلے کو بہت جلد اور آسانی سے طے کر لیتا ہے۔
چوتھا طریقہ: محنت اور مسلسل کوشش کرنا: کہتے ہیں کہ بنا محنت کے کچھ نہیں ملتا، کھانا آپ کے سامنے ہو لیکن آپ کی کوشش کے بنا وہ آپ کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا، منزل جتنی عظیم اور مقصد جتنا اونچا ہو محنت اور کوشش بھی اسی کے بقدر ہونا چاہیے، عربی کا شاعر کہتا ہے:
بقدر الكد تكتسب المعالي ومن طلب العلٰي سهر الليالي
ومن رام العلا من غير كد أضاع العمر فى طلب المحال
کوشش کے بقدر ہی بلندیاں ملتی ہیں اور جو بلندیوں کا طالب ہوتا ہے وہ راتوں کو جاگتا بھی ہے (یعنی محنت اور کوشش کرتا ہے) اور جو بغیر کوشش اور جدوجہد کے بلندیوں کی تلاش میں ہوتا ہے گویا کہ وہ نا ممکن کی طلب میں اپنی عمر گنوا رہا ہے۔
ایک طالب جو قرآن حفظ کرنا چاہتا ہے اور وہ اس راستے پر چل پڑا ہے تو کوشش اور محنت کے بنا وہ اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا، اسے چاہیے کہ وہ اس چیز کو کھانے کی طرح اپنی روٹین میں شامل کر لے تاکہ مقصد تک پہنچنا اس کے لیے آسان ہو جائے۔
پانچواں طریقہ: حفظ قرآن سے پہلے تلفظ کی درست ادائیگی کا اہتمام: قرآن حفظ کرنے سے پہلے اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ قرآن کے الفاظ اور اس کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہوئے اس کی درست ادائیگی ہو، حروف، الفاظ اور مخارج کا خیال رکھا جائے، اس لیے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک حفظ کرنے والا طالب قرآن یاد تو کر لیتا ہے لیکن غلط تلفظ کی وجہ سے وہ کسی لفظ یا آیت کو ویسے ہی یاد کر بیٹھتا ہے جیسے وہ اس کی ادائیگی کر رہا تھا، اس سے بسا اوقات الفاظ کی تبدیلی سے زیادہ معنیٰ کی تبدیلی ہو جاتی ہے اور’’ قلب‘‘’’ کلب‘‘ ہو جاتا ہے یعنی دل کتّا بن جاتا ہے، اس لیے حفظ کے آغاز سے پہلے ناظرہ یعنی ریڈنگ پر خصوصی توجہ ہونا چاہیے تاکہ حفظ کا معاملہ آسان ہو جائے۔
چھٹا طریقہ: یاد کیے ہوئے حصوں کا مسلسل اعادہ کرنا: کسی بھی چیز کو ذہن و دماغ میں باقی رکھنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے بار بار یاد کیا جائے، اس کا تذکرہ ہو اور اس سے متعلق باتیں ہوں، یہی معاملہ قرآن مجید کے حفظ کرنے کا بھی ہے کہ جو حصہ ایک طالب یاد کرتا جا رہا ہے اسے بار بار دہرائے، اس کا اعادہ کرے چاہے آواز کے ذریعے، ہونٹوں کو ہلا کر یا بس یونہی ذہن کی اسکرین پر لا کر یکبارگی اس پورے حصے کو پڑھ جائے جسے اس نے یاد کیا ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب مجھے قرآن کے اندر کسی لفظ کی تلاش ہوتی ہے تو ایک سرسری نظر میں پورے قرآن پر دوڑا لیتا ہوں، اس سے مجھے دو فائدے ملتے ہیں، ایک تو وہ لفظ مل جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ سرسری ہی سہی لیکن مکمل قرآن ذہن کی اسکرین پر آ کر چلا جاتا ہے۔ یقین کریں کہ یہ عمل بہت ہی آسان اور نہایت ہی کارگر ہے، جس سے مجھے الحمد للہ بہت زیادہ فائدہ ہوا ہے۔
شعبہء حفظ کے طلبہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان کو سنانے کے لیے نہ کہا جائے تو وہ اعادہ ہی نہ کریں، بس وہ سبق پر توجہ دیتے ہیں اور اسی بنا پر وہ آگے تو بڑھتے جاتے ہیں لیکن پیچھے کا سب صاف ہوتا چلا جاتا ہے، ایسے طلبہ کو چاہیے کہ وہ مسلسل یاد کیے ہوئے پاروں اور سورتوں کا اعادہ کرتے رہیں چاہے استاد کو سنانا ہو یا نہ سنانا ہو، یہ چیز آپ کے لیے حفظ کے مرحلے کو آسان بھی کرے گی اور پختگی میں بھی بہت معاون ثابت ہوگی۔
ساتواں طریقہ: اچھے استاد کی شاگردی اختیار کرنا: کسی بھی چیز کو سیکھنے کے لیے ایک ماہر استاد کی نگرانی اور شاگردی اختیار کرنا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺکو اس امت کے لیے معلم بھی بنا کر بھیجا گیا تھا، یہی معاملہ قرآن مجید کے حفظ کرنے کا بھی ہے کہ ایک بہترین معلّم اور حافظ کی موجودگی ایک طالب کے حق میں حفظ کے مرحلے کو نہایت ہی آسان بنا دیتی ہے کیونکہ ایسا استاد اپنے شاگرد کی نفسیات اور حالات دیکھ کر اسے سبق سنانے، اعادہ کرنے اور اس میں پختگی لانے کے گُر اور طریقے سکھاتا اور بتاتا رہتا ہے جس سے اس طالب کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اور وہ بڑے ہی ذوق و شوق سے اپنی دُھن میں مگن سبق یاد کرتا ہے اور سب سے پہلے سنانا اس کا مقصد بن جاتا ہے، وہیں اگر استاد اچھا نہ ہو یا بے مقصد استاد ہو یا بس وقت گزاری کرنے کے لیے آ گیا ہو تو ایسے استاد صرف طلبہ کا بیڑا غرق کرنے کے لیے آتے ہیں، اپنے ساتھ ساتھ طلبہ کا بھی نہایت ہی قیمتی وقت برباد کر جاتے ہیں، اس لیے اگر کوئی طالب قرآن حفظ کرنا چاہتا ہے تو اس مرحلے کی آسانی کے لیے اسے ایک اچھے استاد کا انتخاب ضرور کرنا چاہیے۔
آٹھواں طریقہ: یاد کرنے سے پہلے کئی بار پڑھنا: شعبہء حفظ کے اکثر طلبہ قرآن مجید یاد کرتے ہوئے ایک غلطی کر جاتے ہیں اور وہ غلطی یہ ہے کہ انہیں جب سبق یاد کرنا ہوتا ہے تو بس اسی چکر میں رہتے ہیں کہ جلدی سے کب یاد ہو جائے، جبکہ سبق یاد کرنے کے لیے جو ضروری چیز ہے وہ بھول جاتے ہیں، ہونا یہ چاہیے کہ طالب پہلے ایک ٹارگٹ متعین کر لے پھر اس پورے حصے کو کئی بار پڑھے بلکہ بار بار پڑھے، خیال رہے کہ یاد کرنے کی نیت سے ابھی نہیں پڑھنا ہے، پھر جب اس مرحلے سے گزر جائے تو اسے خود اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اُس پورے متعین کردہ آیات کے بہت سے الفاظ اس کے ذہن میں بیٹھ چکے ہوں گے، پھر ایک آسانی اور ہوگی کہ وہ آیات بار بار پڑھنے کی وجہ سے اس کی زبان کے لیے سہل ہو جائیں گی اور وہ طالب جب یاد کرنے کی نیت سے ان آیات کو پڑھنا شروع کرے گا تو پھر وہ خود دیکھے گا کہ پہلے کی بنسبت اس بار یاد کرنے میں اسے زیادہ آسانی ہوئی۔
نواں طریقہ: کسی مجرّب قاری کی تلاوت سن کر حفظ کرنا: سیکھنے اور یاد کرنے کا ایک کارآمد طریقہ جو ماہرین نے بتایا ہے اور میرا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ سننے سے بھی یاد کرنے اور یاد رکھنے میں مدد ملتی ہے، واضح رہے کہ یہ سننا اُس قاری کی نقل اور کاپی کرنے کی نیت سے نہ ہو بلکہ یاد کرنے اور حروف و الفاظ کی درست ادائیگی کے لیے ہو، بصورت دیگر ایک طالب قاری کی نقل اور کاپی تو کر لے جاتا ہے لیکن پھر حفظ پر اس کی پکڑ باقی نہیں رہ جاتی اور یہ سودا اس کے لیے گھاٹے کا سبب بن جاتا ہے، میں کئی ایسے حفاظ کو جانتا ہوں جنہوں نے شعبہء حفظ کے مرحلے سے ہی کسی خاص قاری کو تو سنا لیکن نقل کرنے پر زیادہ دھیان رہا تو اس کی وجہ سے ان کا ایک فائدہ تو ہوا لیکن دوسرا جو بڑا فائدہ ہو سکتا تھا اس میں انہوں نے نقصان اٹھایا، قرآن کی تلاوت سن کر آپ اپنے لیے حفظ کے مرحلے کو آسان کر سکتے ہیں اور جو حفظ کر چکے ہیں اسے باقی بھی رکھ سکتے ہیں، میں سال بھر میں الحمد للہ کئی دفعہ قرآن مجید کی مکمل تلاوت کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی دو دفعہ مکمل قرآن ضرور سن لیتا ہوں اور گاہے بگاہے یہاں وہاں سے بھی سنتا رہتا ہوں جس سے مجھے بے انتہا فائدہ ہوتا ہے اور قرآن کے حفظ کو باقی رکھنا میرے لیے آسان ہو جاتا ہے۔فَللّٰہِ الْحَمْدْ
دسواں طریقہ: وقت دینا اور انتظار کرنا: انسان فطرتاً جلد باز ہے اور ہر کام میں اسے جلدی ہونے کے ساتھ ساتھ نتیجہ بھی جلدی چاہیے ہوتا ہے اور وہ اچھے نتیجے کی تلاش میں رہتا ہے لیکن ہر چیز چاہ لینے سے نہیں ہوتی اور نہ ہی چھو منتر کے ذریعے ہر چیز کا حصول ممکن ہوتا ہے، بطور خاص جب اس چیز کا تعلق علم کی دنیا سے ہو تو یہ وقت طلب معاملہ ہے، بعض والدین جب اپنے بچوں کو حفظ کے سفر کا مسافر بناتے ہیں تو ان کی منشا اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ بچہ جلدی سے حافظ قرآن بن جائے، پھر اسی پریشر میں اس طالب کا ذہن انتشار کا شکار ہو جاتا ہے، ذہن کچھ اور چاہتا ہے اور گھر والے کچھ اور، اسی ادھیڑ بن میں رہنے کی وجہ سے ایک طرف اس بچے کی نفسیات پر گہرا اثر پڑتا ہے اور دوسری طرف ذہن مکمل کام نہ کرنے کی وجہ سے اس کے حفظ کا دورانیہ امید سے زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے، اسی لیے ہر طالب اور اس کے والدین کو چاہیے کہ وہ اس مرحلے کو وقت دیں، صبر کریں، انتظار کریں، امید سے زیادہ وقت لگ رہا ہے تب بھی کوئی بات نہیں، کیونکہ اگر وقت زیادہ لگنے کی فکر میں پڑے تو یہ وقت مزید لمبا ہوتا چلا جائے گا پھر کوئی بہتر نتیجہ ہاتھ نہیں آئے گا۔
اسی میں ضمناً آپ یہ بھی شامل کر سکتے ہیں کہ طالب کو چاہیے کہ وہ قرآن مجید کی آیتوں کو یاد کرنے کے لیے دن کے سب سے بہترین وقت کا انتخاب کرے اور دن کا سب سے بہترین وقت فجر سے پہلے اور اس کے بعد کا وقت ہوتا ہے۔
گیارہواں طریقہ: سمجھ کر پڑھنا اور تلاوت کرنا: قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر مسلمان کی زبان عربی نہیں ہے بلکہ اکثریت عجمیوں کی ہی ہے جن کا عربی زبان سے کوئی تعلق ہی نہیں، اسی لیے ہر کوئی نہ عربی بول سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی تلاوت اس کے لیے آسان ہوتی ہے، اگر ایک طالب عربی زبان سمجھتا ہو اور بطور خاص قرآن مجید کی آیتوں کے معانی سمجھنے پر وہ قادر ہو تو حفظِ قرآن کے لیے یہ چیز نہایت ہی ممد و معاون ثابت ہوتی ہے، گزشتہ لاک ڈاؤن کے دوران کتنے ایسے واقعات سننے میں آئے کہ فلاں عالم جو حافظ نہیں تھے انہوں نے حفظ کر لیا، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ممکن ہوا؟ جواب یہ ہے کہ انہیں عربی زبان آتی ہے، وہ بول سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں، عربی گرامر اور قواعد سے وہ واقف ہیں اس لیے قرآن حفظ کرنے کا مرحلہ ان کے لیے آسان ہو گیا، ایسے ہی کوئی بھی طالب اگر عربی زبان جانتا ہے تو اس کے لیے حفظ کرنا آسان ہوگا، خود میرا یہ خیال ہے کہ اگر میں پہلے سے حافظ نہ ہوتا اور اب مجھے حفظ کرنا ہوتا تو عربی زبان جاننے اور سمجھ لینے کی وجہ سے بآسانی ایک مہینے کے اندر ہی قرآن حفظ کر لیتا۔ بإذن اللّٰہ وتوفیقہ
بارہواں اور آخری طریقہ: قرآن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینا: اگر کوئی طالب یہ چاہتا ہے کہ قرآن حفظ کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ قرآن مجید سے اپنے آپ کو محبت و عقیدت کی حد تک جوڑ لے، جیسے کہ ایک محبت کرنے والے کو اپنے محبوب کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ایسے ہی قرآن حفظ کرنے والے کا بھی رویہ ہونا چاہیے کہ اس کی زندگی میں ہر جگہ صرف قرآن ہو، اس کی باتوں میں قرآن، اس کے سونے، جاگنے، کھانے، پینے اور اوڑھنے بچھانے کی جگہوں تک قرآن کی رسائی ہو جائے، اسے خواب بھی آئیں تو ان کا تعلق بھی قرآن سے ہی ہو، جب ایک طالب اپنے آپ کو قرآن سے اس حد تک جوڑ لے گا تو قرآن کی برکت اسے ملے گی اور حفظ کا یہ مرحلہ اس کے لیے آسان اور بہت ہی آسان کر دیا جائے گا، ورنہ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ طالب جب تک درس گاہ میں ہے یا جب تک مدرسہ میں ہے تب تک تو قرآن سے اپنا تعلق رکھتا ہے لیکن جیسے ہی چھٹیاں آتی ہیں وہ اپنے گھر جاتے ہی بالکل آزاد ہو جاتا ہے اور قرآن کھول کر بھی نہیں دیکھتا، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آگے یاد کرنا تو دور وہ یاد کیا ہوا بھی بھول جاتا ہے اور واپس مدرسہ جانے کے بعد اسے پچھلا یاد کر کے سنانے میں اچھا خاصا وقت لگانا پڑ جاتا ہے،اس لیے ہر طالب کو چاہیے کہ وہ قرآن سے چمٹ کر رہے اور اپنی سوچ اور چال ڈھال کا مرکز و محور اسی کتاب کو بنا لیں نتیجے میں کہ کتاب آپ کو اپنی برکتوں سے نواز کر آپ کو قرآن کا حافظ بنا دے گی۔
محترم قارئین! قرآن حفظ کرنے کے یہ بارہ آسان طریقے اس مضمون کے حوالے سے آپ کی خدمت میں پیش کیے گئے،ان کے علاوہ اور بھی طریقہ بیان کیے جاتے ہیںاور کیے جا سکتے ہیںلیکن ان بارہ اہم طریقوں کے تذکرے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے، ان پر بہت آسانی سے عمل کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام طریقے تجربے سے ثابت شدہ ہیں، اگر کوئی ان پر عمل کرتا ہے تو ضرور اس کے لیے حفظ کا معاملہ آسان ہوگا، امید یہی ہے کہ ان شاء اللہ یہ طریقے قارئین میں سے کسی کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔
اللہ ہم سب کو قرآن سے محبت کرنے اور اس کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین
٭٭٭