-
زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی (قسط رابع) زنا سے نسب کے اثبات ونفی کا مسئلہ:
گزشتہ سطور میں یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ بالفرض زنا سے نسب کے اثبات کا مسئلہ مان لیا جائے تب بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زانیہ حاملہ سے زانی کی شادی جائز ہے۔
اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ دلائل کی روشنی میں راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوگا، تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
پہلی دلیل:
عن عائشة رضي اللّٰه عنها، أنها قالت:’’ اختصم سعد بن أبي وقاص، وعبد بن زمعة فى غلام، فقال سعد: هذا يا رسول اللّٰه ابن أخي عتبة بن أبي وقاص، عهد إلى أنه ابنه انظر إلى شبهه، وقال عبد بن زمعة: هذا أخي يا رسول اللّٰه، ولد علٰي فراش أبي من وليدته، فنظر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى شبهه، فر أى شبها بينا بعتبة، فقال: هو لك يا عبد بن زمعة، الولد للفراش وللعاهر الحجر، واحتجبي منه يا سودة بنت زمعة فلم تره سودة قط‘‘
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ:’’ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچے کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ!یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے۔ اس نے وصیت کی تھی کہ یہ اب اس کا بیٹا ہے۔ آپ خود میرے بھائی سے اس کی مشابہت دیکھ لیں۔ لیکن عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے اور اس کی باندی کے پیٹ کا ہے۔ نبی کریم ﷺنے بچے کی صورت دیکھی تو صاف عتبہ سے ملتی تھی۔ لیکن آپ ﷺ نے یہی فرمایا کے اے عبد! یہ بچہ تیرے ہی ساتھ رہے گا، کیونکہ بچہ فراش کے تابع ہوتا ہے اور زانی کے حصہ میں صرف پتھر (یعنی محرومی )ہے اور اے سودہ بنت زمعہ!اس لڑکے سے تو پردہ کیا کر، چنانچہ سودہ رضی اللہ عنہا نے پھر اسے کبھی نہیں دیکھا‘‘
[صحیح البخاری:۳؍۸۱ ر قم ۲۲۱۸]
اس حدیث میں ایک طرف یہ بات کہی گئی ہے کہ بچہ صاحب ِفراش کا ہوگا اور دوسری طرف اصولی یہ بات بھی کہہ دی گئی ہے کہ’’ وللعاہر الحجر ‘‘ یعنی زانی کے لیے محرومی ہے ۔
یہاں حجر یعنی پتھرسے زانی کو سنگسار کرنے کی طرف اشارہ نہیں ہے ،بلکہ محرومی بتانے کے لیے ہے، اہل عرب کسی کو محروم گرداننے کے لیے کہتے تھے اس کے لیے پتھرہے،یعنی وہ محروم ہے۔
ایک شبہ کاازالہ:
بعض اہل علم کاکہنا ہے کہ اس حدیث میں فراش والی زانیہ کا ذکر ہے اوربچے کے دعویدار دو لوگ تھے،اس لیے اس کیس میں اللہ کے نبی ﷺ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بچہ صاحب ِفراش کا ہوگا۔لہٰذا اگر زانیہ فراش والی نہ ہو اور بچے کو تنہا صرف زانی ہی اپنی طرف منسوب کررہاہو تو دریں صورت بچہ کا نسب زانی سے ثابت ماناجائے گا۔
عرض ہے کہ:
اولاً: مذکورہ حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ بچہ صاحب ِفراش کا ہوگا ، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص صاحبِ فراش نہ ہو بچہ اس کا نہیں ہوسکتا ۔
ابو بکر الرازی الجصاص الحنفی (المتوفی۳۷۰) فرماتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: ’’الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ قَدْ اقْتَضَي مَعْنَيَيْنِ: أَحَدُهُمَا: إثْبَاتُ النَّسَبِ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ، وَالثَّانِي: أَنَّ مَنْ لَا فِرَاشَ لَهُ فَلَا نَسَبَ لَهُ، لِأَنَّ قَوْلَهُ: الْوَلَدُ اسْمٌ لِلْجِنْسِ، وَكَذَلِكَ قَوْلُهُ: الْفِرَاشُ لِلْجِنْسِ، لِدُخُولِ الْأَلِفِ وَاللَّامِ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَبْقَ وَلَدٌ إلَّا وَهُوَ مُرَادٌ بِهَذَا الْخَبَرِ، فَكَأَنَّهُ قَالَ: لَا وَلَدَ إلَّا لِلْفِرَاشِ‘‘
حدیث کے الفاظ :’’بچہ صاحب فراش کا ہوگا اس کے دو معانی ہیں ایک یہ کہ نسب کا اثبات صرف صاحب ِفراش ہی کے لیے ہوگا ، دوسرے یہ کہ جو شخص صاحب ِفراش نہیں ہوگا اس کے لیے کوئی نسب نہیں ہوگا ، نیز حدیث کا لفظ ’’الولد‘‘ اور’’ الفراش‘‘ جنس کے لیے ہے کیونکہ اس پر الف لام داخل ہے ، لہٰذا ہر نسب والا بچہ اس میں شامل ہے ، گویا کہ حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ بچے کا نسب صرف صاحب فراش ہی کے لیے ثابت ہوگا‘‘
[أحکام القرآن للجصاص ت قمحاوی :۵؍۱۶۰]
ثانیاً: مذکورہ حدیث میں صاحب ِفراش کے لیے نسب کا حکم ہے اور زانی کے لیے الگ سے یہ حکم ہے کہ :’’وللعاہر الحجر‘‘ یعنی (زانی کے لیے محرومی ہے) ۔اور یہ دوسراحکم ہرزانی کے لیے عام ہے ،اگر یہ عام نہ ہوتا تو صرف یہ کہہ دیا جاتا کہ’’ لڑکا صاحب فراش کا ہے‘‘۔یہ کہتے ہی زانی محروم ہوجاتااور یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی کہ ’’زانی کے لیے محرومی ہے‘‘۔
لیکن ایک طرف صاحب ِفراش کے لیے نسب کا حکم اور ساتھ ہی دوسری طرف زانی کے لیے محرومی کاحکم،اس تکرارکا سوائے اس کے کوئی مطلب نہیں کہ زانی کے لیے ہرحال میں محرومی ہے۔
الغرض مذکورہ حدیث میں زانی کے لیے ایک عمومی حکم بتادیا گیاہے کہ اس کے لیے محرومی ہے ۔اب چاہے زانیہ فراش والی ہو یانہ ہوبہرصورت زانی اس بچے سے محروم ہی ہوگا اوراس سے اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا۔
ابراہیم بن عبداللہ بن صالح القصیّر لکھتے ہیں:
’’أن النبى ﷺ لم يجعل ولداً لغير الفراش كما لم يجعل للعاهر سوي الحجر- وهو الخيبة والحرمان- وإلحاق ولد الزنا بالزاني إلحاق للولد بغير الفراش، ومخالفة لحرمان العاهر‘‘
’’اللہ کے نبی ﷺ نے صاحب فراش کے علاوہ کسی اور کی طرف بچہ کی نسبت نہیں کی ہے اور زانی کے لیے پتھر یعنی محرومی کی بات کی ہے اور زنا سے پیدا ہونے والے بچے کو زانی کی طرف منسوب کرنا بچہ کو غیر صاحب ِفراش کی طرف منسوب کرنا ہے اور زانی کے لیے جو محرومی کی بات کی گئی ہے اس کی مخالفت کرنا ہے‘‘
[أحکام ولد الزنا :ص۹۷]
اس تفصیل سے مذکورہ حدیث کا ماحصل یہ سامنے آتا ہے کہ صرف صاحب ِفراش ہی کسی بچہ کا باپ ہوسکتا ہے اور زانی زنا سے پیدا ہونے والے بچہ کا باپ نہیں ہوسکتا بلکہ وہ اس بچے سے محروم ہی رہے گا۔
نیز درج ذیل حدیث سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے:
عن عبد اللّٰه بن عمرو بن العاص قال: ’’قام رجل فقال: يا رسول اللّٰه، إن فلانا ابني عاهرت بأمه فى الجاهلية، فقال رسول اللّٰه ﷺ: لا دعوة فى الإسلام، ذهب أمر الجاهلية، الولد للفراش وللعاهر الحجر‘‘
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:’’(فتح مکہ کے وقت) ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! فلاں میرا بیٹا ہے میں نے زمانۂ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام میں اس طرح کا مطالبہ صحیح نہیں، زمانۂ جاہلیت کی بات ختم ہوئی، بچہ صاحب بستر کا ہے اور زانی کے لیے محرومی ہے‘‘
[سنن أبی داؤد: ۲؍ ۲۸۳رقم۲۲۷۴وإسنادہ حسن،مسند أحمد ط الرسالۃ: رقم۶۶۸۱ وإسنادہ حسن]
مسند احمد میں یہ روایت مفصل ہے اوراس میں صراحت ہے کہ:
’’لما فتحت مكة علٰي رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم…‘‘
’’یعنی مذکورہ حدیث میں سائل نے فتح مکہ کے وقت سوال کیا تھا‘‘
[مسند أحمد ط الرسالۃ :رقم۶۶۸۱ وإسنادہ حسن]
اس حدیث میں غور کریں کہ فتح مکہ کے وقت ایک صحابی زمانۂ جاہلیت میں کسی عورت کے ساتھ زناکی بات کررہے ہیں اوروہ زانیہ فراش والی تھی یا نہیں تھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں کررہے ہیں اورنہ اللہ کے نبی ﷺ اس کی کوئی تفصیل پوچھ رہے ہیں ، بلکہ سنتے ہی یہ قانون ذکر کررہے ہیں کہ بچہ صاحبِ فراش کا ہوگا اور زانی کے لیے محرومی ہوگی۔ مطلب واضح ہے کہ زانی کی محرومی والی بات فراش والی زانیہ کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔نیز دیکھیں: [أحکام ولد الزنا فی الفقۃ الإسلامی :ص۶۶]
دوسری دلیل: امام ابوداؤد رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵) نے کہا:
حدثنا الحسن بن علي، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا محمد بن راشد وهو أشبع، عن سليمان بن موسٰي، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده (عبد اللّٰه بن عمرو بن العاص) قَالَ: ’’إِنَّ النَّبِيَّ صلّى اللّٰه عليه وسلم قَضَي أَنَّ كُلَّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَي لَهُ ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ، فَقَضَي أَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا، فَقَدْ لَحِقَ بِمَنْ اسْتَلْحَقَهُ، وَلَيْسَ لَهُ مِمَّا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ شَيْء ٌ، وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ فَلَهُ نَصِيبُهُ، وَلَا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَي لَهُ أَنْكَرَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَمْ يَمْلِكْهَا، أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا، فَإِنَّهُ لَا يَلْحَقُ بِهِ وَلَا يَرِثُ، وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَي لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ فَهُوَ وَلَدُ زِنْيَةٍ مِنْ حُرَّةٍ، كَانَ أَوْ أَمَةٍ‘‘
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:’’ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ جس لڑکے کو اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس باپ سے ملایا جائے جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اور باپ کے وارث اسے اپنے سے ملانے کا دعویٰ کریں تو اگر اس کی پیدائش ایسی لونڈی سے ہوئی ہے جو صحبت کے دن اس کی ملکیت میں رہی ہو تو ملانے والے سے اس کا نسب مل جائے گا اور جو ترکہ اس کے ملائے جانے سے پہلے تقسیم ہو گیا ہے اس میں اس کو حصہ نہ ملے گا، البتہ جو ترکہ تقسیم نہیں ہوا ہے اس میں اسے حصہ دیا جائے گا، لیکن جس باپ سے اس کا نسب ملایا جاتا ہے اس نے (اپنی زندگی میں اس کے بیٹا ہونے سے) انکار کیا ہو تو وارثوں کے ملانے سے وہ نہیں ملے گا، اگر وہ لڑکا ایسی لونڈی سے ہو جس کا مالک اس کا باپ نہ تھا یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس کے باپ نے زنا کیا تو اس کا نسب نہ ملے گا اور نہ اس کا وارث ہو گا گرچہ جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اسی نے (اپنی زندگی میں) اس کے بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہو کیونکہ وہ زنا کی اولاد ہے آزاد عورت سے ہو یا لونڈی سے‘‘
[سنن أبی داؤد :رقم ۲۲۶۵ وإسنادہ صحیح و حسنہ الالبانی]
امام ابن القیم رحمہ اللہ (المتوفی۷۵۱) فرماتے ہیں:
’’فهذا الحديث يرد قول إسحاق ومن وافقه، لكن فيه محمد بن راشد، ونحن نحتج بعمرو بن شعيب، فلا يعلل الحديث به، فإن ثبت هذا الحديث تعين القول بموجبه، والمصير إليه، وإلا فالقول قول إسحاق ومن معه ‘‘
’’یہ حدیث امام اسحاق اور ان کے موافقین کے قول کی تردید کرتی ہے لیکن اس کی سند میں محمد بن راشد ہے ، باقی اس سند کے اوپر عمروبن شعیب کا جو سلسلہ ہے وہ ہمارے نزدیک حجت ہے لہٰذا اس کے سبب اس حدیث پرجرح نہیں کی جاسکتی ، پس اگر یہ حدیث ثابت ہوجائے تو اس کے مطابق بات کہنا اور وہی موقف اپنانا متعین ہوجائے گا، ورنہ اس حدیث کے ضعیف ہونے کی صورت میں امام اسحاق اور ان کے موافقین کا قول ہی راجح ہوگا‘‘
[زاد المعاد، ن مؤسسۃ الرسالۃ:۵؍۳۸۴]
عرض ہے کہ محمد بن راشد بلاشک و شبہ ثقہ ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں ’’صدوق یہم ورمی بالقدر ‘‘کہا تو تحریر التقریب کے مولفین نے اس پر لکھا :
’’بل: ثقة، وثقه أحمد، فقال: ثقة ثقة ، وابن معين، وعبد اللّٰه بن المبارك، والنسائي، وعبد الرحمٰن بن صالح، وقال الذهبي فى الكاشف : وثقه أحمد وجماعة۔ وقال دحيم: مستقيم الحديث، وقال أبو حاتم: كان صدوقا حسن الحديث۔وإنما ضعفه بعضهم بسبب ما رمي به من البدع، فقالوا: قدري، وقالوا: معتزلي، وقالوا: شيعي، وقالوا: كان يرى الخروج على الأئمة، وهى علل غير قادحة فى صدقه ووثاقته، بل قال الجوزجاني: كان مشتملا علٰي غير بدعة، وكان فيما سمعت متحريا للصدق فى حديثه، وقال الساجي: صدوق، إنما تكلموا فيه لموضع القدر لا غير!‘‘
’’بلکہ یہ ثقہ ہے ، امام احمد رحمہ اللہ نے انہیں ثقہ قرار دیتے ہوئے کہا: یہ ثقہ ہے ، یہ ثقہ ہے ، نیز امام ابن معین ، امام ابن المبارک ، امام نسائی اور امام عبدالرحمن بن صالح نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے ، امام ذہبی نے کاشف میں کہا: انہیں امام احمد اور ایک جماعت نے ثقہ کہا ہے۔ امام دحیم نے انہیں مستقیم الحدیث کہا ہے ، امام ابوحاتم نے انہیں صدوق و حسن الحدیث قرار دیا ہے ، اور بعض نے ان کی تضعیف اس سبب کی ہے کہ ان کی طرف بدعی رائے منسوب ہے چنانچہ بعض نے انہیں قدری، بعض نے معتزلی، بعض نے شیعی کہا ہے اور بعض نے کہا کہ: یہ حکام کے خلاف خروج کے قائل تھے ، اور یہ سب ایسی علتیں ہیں جو ان کی صداقت اور ثقاہت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی ہیں ، بلکہ امام جوزجانی نے کہا ہے کہ : یہ بدعت سے پاک تھے ، اور جہاں تک میں نے سنا ہے یہ حدیث کی روایت میں سچے تھے ۔ اور امام ساجی نے کہا کہ : یہ سچے ہیں ان کے بارے میں صرف قدری رائے کے سبب کلام کیا گیا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسری وجہ نہیں ‘‘
[تحریر تقریب التہذیب :رقم۵۸۷۵]
معلوم ہوا کہ یہ حدیث صحیح ہے ، لہٰذا امام ابن القیم رحمہ اللہ کے بقول اس کے مطابق موقف اپنانا لازم ہے۔
جاری ہے……