-
مسلمانان ہند کے لیے تاریخ کا ایک سبق قرآن کریم میں بار بار یہ حکم دیا گیا ہے کہ گزشتہ قوموں کے واقعات اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کی جائے، ان کی تاریخ کو عبرت وموعظت کا سامان سمجھا جائے اور اُن راستوں پر چلنے سے احتراز کیا جائے جن پر چل کر یہ قومیں ہلاکت وبربادی سے دوچار ہوئیں اور حرف غلط کی طرح مٹادی گئیں۔
وہ قومیں تو شرک وبت پرستی اور انبیاء کی نافرمانی کے ارتکاب پر زیر گرفت آئیں، لیکن اگر ہم خود مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ پر سرسری نظر ڈالیں اور دنیا کے مختلف علاقوں میں ان کے عروج وزوال کی کہانی پڑھیں تو اپنے ملک کے موجودہ حالات میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔
جس طرح ہندوستان پر مسلمانوں نے لگ بھگ آٹھ سو سال حکومت کی، پھر حکومت سلب ہونے کے بعد آج تک ان کی جو داستان ہے وہ سامنے ہے، اسی طرح اندلس(موجودہ اسپین) میں بھی تقریباً آٹھ صدیوں تک مسلمانوں نے حکومت کی۔ پھر وہاں مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا، اس کے کچھ عرصہ بعد مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ایک وقت آیا کہ ایک ایک مسلمان سے اندلس کو خالی کرالیا گیا، اس کی پوری داستان طویل اور بے حد المناک ہے۔
سقوط اندلس اور مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ زوال کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ’’طوائف الملوکی‘‘ بتایا گیا ہے، سطورِ ذیل میں ملکی تناظر میں صرف اسی تعلق سے گفتگو کی جارہی ہے۔
اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کے استحکام اور اسلامی خلافت کے قیام کا سہرا امویوں کے سر ہے۔ لیکن تین صدیوں تک حکومت کرنے کے بعد جب امویوں میں کمزوری آگئی اور بالآخر ۴۲۲ھ میں حکومت پر ان کی گرفت ختم ہوگئی تو وہاں پر مختلف نسل کے مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی کمزور حکومتیں قائم ہوئیں جنہیں ’’ملوک الطوائف‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مورخین کے مطابق طوائف الملوکی کایہ دور اندلس میں مسلمانوں کا سب سے برا اور کمزور دور مانا جاتا ہے۔
اندلس میں اموی حکومت کے خاتمے کے بعد بیس سے زیادہ حکام بیس سے زیادہ شہروں اور علاقوں میں اموی خلافت کے وارث بنے۔ ان میں بربر،عرب اور صقالبہ تھے۔ ہر شہر کی مستقل حکومت تھی بلکہ بعض شہروں میں ایک سے زائد امیدوار تھے۔ ان کے مابین قومی جنگ وجدال کا طویل سلسلہ جاری رہا،جبکہ ان کے مخالف نصرانی بادشاہ اپنی اپنی حکومتوں اور عوام کے ساتھ پرسکون وقت گزار رہے تھے۔ نصرانیوں نے ان بادشاہوں کو ایک دوسرے کے خلاف ورغلانا شروع کردیا اور اس طرح اسلام اور مسلمانوں کی عزت ووقارکو زبردست ٹھیس پہنچی۔ بعض مسلم بادشاہوں نے اپنی کمزوری کے باعث نصرانیوں کو جزیہ دینا قبول کرلیا اور بعض نے اپنے متعدد شہر ان کے حوالے کردیئے۔ یہ لوگ عیسائی فوجوں کے ساتھ مل کر اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑائی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ یہ نام نہاد مسلم حکمراں عیسائی بادشاہوں کو جزیہ پیش کرتے تھے جس کی مقدار ہمیشہ بڑھتی رہتی تھی۔ اسی رقم سے وہ تمام مسلم ملوک طوائف کے خاتمے کا منصوبہ بناتے تھے۔
کیایہ حیرت انگیز بات نہیں کہ اندلس کے مسلمانوں نے یہ تو پسند کرلیا کہ دشمنوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں، اپنی زمین اور علاقے ان کے حوالے کردیں، ذلت وخواری کی صلح کے بعد جزیہ ادا کرنا قبول کرلیں، اپنے بھائیوں کے مقابلہ میں دشمنوں سے مدد لیں۔ یہ سب ممکن اور آسان تھا لیکن اقتدار کی محبت اور دنیا کی بندگی سے اوپر اٹھ کر اسلام کی جانب واپسی اور اتفاق واتحاد کے ساتھ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے میں ان کے لیے عار تھی، اندیشے تھے اور رکاوٹیں تھیں۔
ڈاکٹر عبدالحلیم عویس لکھتے ہیں: اندلس سے ہمارے نکلنے کی داستان کا ماحصل یہ نہیں کہ دشمن اپنی قوت وتدبیر سے ہم پرغالب آگیا، بلکہ اس میں ہماری اپنی ذات میں ہزیمت کی داستان مضمر ہے، ہم اپنے ہاتھوں ضائع ہوئے، ہم میں سے ایک نے دوسرے کو اس طرح کھالیا جس طرح بعض جانور دوسرے کو کھالیتے ہیں۔ (عظمت رفتہ :ص:۳۵)
موصوف مزید لکھتے ہیں:تاریخ میں ہمارے لیے عبرت کی چیز خود ہمارے زوال کی داستان ہے، جب ہمارا کوئی عضو صرف اپنی فکر میں لگارہے گا تو یقینا تمام اعضاء زوال کا شکار ہوجائیں گے۔ (ایضاً :ص:۳۷۔۳۸)
افسوس کہ ہمارے ملک کے مسلمان جو۱۳۰؍کروڑ کی آبادی میں محض۱۵؍فی صد ہیں وہ مختلف ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس میں سر فہرست مسلکی تقسیم ہے، اس کے علاوہ سیاسی اعتبار سے، لسانی اعتبار سے، جغرافیائی اعتبار سے تقسیم الگ ہے۔ ذات پات اور برادری کے نام پر بھی فاصلے ہیں۔ ہر گروہ کے سر پر نام نہاد مگر مضبوط قیادت ہے جو اپنے متبعین کو صرف اور صرف یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے کہ تمہارے سب سے بڑے دشمن تمہارے مخالف مسلک والے، مخالف پارٹی والے، مخالف برادری والے ہیں۔ ان قیادتوں کی تقریروں اور تحریروں کاجائزہ لیجیے اور زمینی سطح پر ان کی اور ان کے ماتحتوں کی سرگرمیوں پر نظر ڈالیے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔
فی الحال ملک کے مسلمان بلا تفریق مسلک ومشرب کن حالات سے دوچار ہیں اور عوام ہوں یا خواص اپنے اور اپنے دین کے مستقبل کو لے کر کس قدر فکرمند ہیں لیکن ان نازک ترین حالات میں بھی مسلکی، سیاسی اور طبقاتی گیم کھیلنے والے پورے خلوص کے ساتھ اپنے نیک عمل میں مصروف ہیں۔ ابھی چند روز قبل خبر ملی ہے کہ ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں سے ایک ریاست میں کسی مسلک کے لوگوں کا کوئی دعوتی اور تربیتی پروگرام ہونے والا تھا۔ دور دراز سے کچھ علماء پہنچ چکے تھے، مگر دوسرے مسلک والوں نے اپنی عددی برتری اورمزعومہ طاقت کے بل بوتے پر انتظامیہ سے شکایت کرکے اس پروگرام کو ختم کرادیا اور اس کارخیرکا ثواب لوٹ لیا۔ غور کریں اگر ملک کی اکثریت سے یہ شکایت ہے کہ وہ پچاسی فیصد کی تعداد میں ہونے کی وجہ سے ہم پندرہ فیصد مسلمانوں کو ستا رہے ہیں اور ظلم وتعدی کا نشانہ بنارہے ہیں تو کیا ہم بھی اپنے کلمہ گو بھائیوں کے ساتھ محض اسی وجہ سے ظلم وزیادتی نہیں کررہے ہیں کہ وہ تعداد میں ہم سے بہت کم ہیں؟
اندلس کے مسلمان اور ان کی قیادتیں اپنی چھوٹی چھوٹی حکومتوں اور علاقوں کو بچانے کے لیے عیسائیوں سے مدد لیتے تھے،اس کی بھاری قیمت جزیہ کی شکل میں پیش کرتے تھے،عیسائیوں سے مدد لے کر دوسری مسلم حکومتوں اور علاقوں پر حملے کرتے تھے،بلکہ بسا اوقات انہیں خود اپنے مخالف مسلمانوں پر حملے کی ترغیب دیتے اور ان کی مدد کرتے،ان کی کمزوریوں سے انہیں آگاہ کرتے۔لیکن سب کے باوجود باری باری سب کا نمبر آیا اور سب عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے۔
اندلس کی طوائف الملوکی کے معاملہ کو سامنے رکھیے اور اپنے ملک کے مسلمانوں کی گروہ بندیوں کا اس سے موازنہ کیجیے تو معاملہ کہیں زیادہ خطرناک نظر آتا ہے۔ اکثر متصادم جماعتوں اور گروہوں کا ایک دوسرے کے ساتھ لگ بھگ وہی تعامل ہے جو اندلس کے ملوک الطوائف کا آپس میں تھا۔دوسروں کی جاسوسی کرنا، ان کے راز اور ان کی کمزوریوں سے حکومتوں کو آگاہ کرنا، ان کے معابد ومدارس پر حملے تک کے لیے ماحول بنانااور اس کام میں بے دریغ پیسہ لگانا۔ان کو ملک مخالف بلکہ دہشت گرد بنا کر پیش کرنا،وغیرہ وغیرہ۔تمام تر تقاضوں اور ضرورتوں کے باوجود مسلکی اور گروہی حصار سے باہر نکل کر ایک امت کا نمونہ پیش کرنے کے لیے کوئی معقول کوشش ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ان نازک حالات میں بھی ہماری قیادتیں یا تو منظر نامے سے غائب ہیں یا نمودار ہوتی ہیں تو گروہی ضرورتوں اور گروہی چادروں میں لپٹی ہوتی ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔
ہمارے مسلکی اور طبقاتی ملوک الطوائف کا حال تو یہ ہے کہ غیر مسلموں اور بت پرستوں سے اظہار یکجہتی اور تعاون واستمداد میں بڑی فراخ دلی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جیسے ہی معاملہ اپنے کلمہ گو بھائیوں اور جماعتوں سے اشتراک اور تعاون کی بات آتی ہے ان کی رگ حمیت پھڑک اٹھتی ہے اور ان کو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ تو کفر اور ایمان کے ما بین اشتراک اور تقارب کی بات ہے،اور ایسا کیوں کر ممکن ہے۔
میں بڑے ہی ادب کے ساتھ ایک اللہ، ایک رسول، ایک قرآن اور ایک دین پر ایمان رکھنے والے تمام اہل وطن سے گزارش کرتا ہوں کہ ملک کے موجودہ حالات میں اپنی اپنی روش پر نظر ثانی کریں،اس نازک وقت میں مسلک اور مشرب کے تحفظ سے کہیں زیادہ دین اور ایمان کے تحفظ کی فکر کریں،آپسی اختلافات کو ایک دائرے میں حل کرنے کی کوشش کریں،اختلاف کو اتفاق پر غالب نہ آنے دیں۔نوجوان نسل سے میری خاص طور پر التجا ہے کہ افتراق وانتشار کی شکار ملت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے آگے آئیں،مسلکی اور گروہی گیم کھیلنے والوں کو قائل کریں کہ وہ اپنی صلاحیتیں امت کی فلاح وبہبود کی خاطر مثبت کاموں میں استعمال کریں۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی،نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی،دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک