-
کس دن نہ تہمتوں کو تراشا کئے عدو (علماء سے نفرت کرنے والے گروہ کے نام ) سوشل میڈیا کے دور میں علماء کی مٹی جس طرح پلید ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی،جو شخص ایک عدد موبائل اور انٹرنیٹ ڈاٹا کی استطاعت رکھتا ہے وہ علماء پر تنقید کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے،ادھر چند سالوں سے علماء کرام کو بدتمیزی، الزام تراشی،طعنہ،تحقیر،تذلیل اورانگشت نمائی کامسلسل مشق ستم بنایا گیا ہے،کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دقیانوس ہوتے ہیں،زمانے کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے،کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ سست،کاہل اور نکمے ہوتے ہیں،یہ تنگ نظر اور متشدد ہوتے ہیں،کبھی ان کے خطبے پر اعتراض،کبھی ان کے لباس پر اعتراض،کبھی مدارس پر اعتراض،کبھی ان کے ذرائع آمدنی پر اعتراض کیا جاتا ہے،علماء کو مسلمانوں کی پسماندگی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے،جدید دور سے ناواقف اور نابلد کہہ کر ان کی تنقیص کی جاتی ہے،ان کو تمام طرح کی بربادیوں کی جڑ قرار دیا جاتا ہے،ان کو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ باور کرایا جاتا ہے،یہ سلسلۂ نامسعود موجودہ دور میں بہت زیادہ عام ہوچکا ہے،بلکہ علماء پر تنقید ایک چلتا ہوا فیشن بن چکا ہے،جسے دیکھئے وہی آتا ہے اور راہ چلتے ہوئے چند جملے کس جاتا ہے،یہ اعتراضات دراصل حسد، اسلام دشمنی اور جہالت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ہم اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
میں یہ نہیں کہتا کہ علماء تنقید سے بالاتر ہیں،اخذ و احتساب سے بری ہیں،یا یہ مجسم خیر ہیں،ان میں قابل گرفت جیسی کوئی چیز نہیں پائی جاتی،ہرگز نہیں،اور کوئی بھی صاحبِ عقل اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا ہے،کمیاں بے شک ہر جگہ ہیں جن کی اصلاح کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے،یہ تعمیری سوچ ہے،مگر کمیوں کا سر عام اشتہار دینا،سوشل میڈیا پر ٹرول کرنا،سرعام پگڑی اچھالنا،پوری برادری سے اظہار تنفر کرنا صحت مند رویہ نہیں ہے،علماء پر کتنا بھی کیچڑ اچھالا جائے مگر وحی کی شہادت کبھی بدل نہیں سکتی ہے،کتاب وسنت کی نظر میں علماء باعزت تھے باعزت ہیں اور باعزت رہیں گے،چند افراد کے غلط ہونے سے پوری برادری موردِ الزام نہیں ٹھہرتی ہے،علماء کے خیر سے دنیا کبھی خالی نہیں رہی ہے،چند خرابیوں کے باوجود اخلاص،تقویٰ،للہیت،تزکیہ،خوف خدا،مروت اورقناعت کے خصائل حمیدہ جس قدر اس طبقے میں دیکھے گئے ہیں اور کہیں نہیں دیکھے گئے،موجودہ دور میں بھی کہیں کہیں روشن مثالیں نظر آجاتی ہیں، دنیا میں علماء خیر کا ذریعہ ہیں،خدمتِ دین ودعوت کا سلسلہ ان کے دم قدم سے ہے،ان کی اکثریت نیک اور خیر کی علمبردار ہے،اگر ان میں شر کا غلبہ ہوتا تو اللہ رب العزت کبھی یہ نہیں کہتا :
{إِنَّمَا يَخْشَي اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء }
’’اللہ سے ڈرنے والے علماء ہوتے ہیں‘‘
[فاطر:۲۸]
پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے،چند غلط مثالوں کے چھینٹے پورے علماء طبقے پر اچھال دینا انصاف نہیں ہے،علم کا نور علماء کے وجود سے باقی ہے،دھیرے دھیرے علماء رخصت ہوں گے تو علم بھی رخصت ہوجائے گا،ذرا حدیث کے اس زریں حوالے کو دیکھو اور علماء کی قدر ومنزلت کا اندزاہ لگاؤ،اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّ اللّٰهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ، حَتَّي إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُء ُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا‘‘
ترجمہ: ’’اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ علم علماء کو موت دے کر اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، پھر ان سے سوالات کیے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘
[صحیح بخاری: حدیث نمبر: ۱۰۰]
علماء کا وجود اس دنیا میں اللہ کی رحمت ہے،اس طبقے کی اگر قدر نہیں کرسکتے تو توہین بھی نہیں کرنی چاہیے۔
مادہ پرستی کے اس دور میں انسان دنیا کی چمک دمک پر نچھاور ہورہا ہے،کسبِ مال ہر کسی کی ترجیح بنی ہوئی ہے،ایک دوڑ جاری ہے،مقابلہ آرائی چل رہی ہے،لوگوں نے معیار زندگی بلند کرلیے ہیں،آسائشِ حیات کے حصول میں ہرحد سے گزر جانا چاہتے ہیں،لگژری لائف کی طلب میں سب کچھ قربان کردینا چاہتے ہیں،اس نفسانفسی میں ایک عالم دین کم تنخواہوں کا درد لے کر زندگی گزار رہا ہے،کسمپرسی، محتاجی اورنارسائی کا کرب دل میں رکھ کر زبان سے الحمدللہ کا ورد کررہا ہے،ان کے بچے پڑوسی کے بچوں کی لائف اسٹائل دیکھ کر سراپا حسرت بنے رہتے ہیں،ان کے والدین کا ڈھنگ سے علاج نہیں ہوپا رہا ہے،ان کے پڑوسیوں نے مولانا کے گھر کے سامنے دو منزلہ عمارت بنالیا ہے،مولانا اسی کچے گھر میں اقامت گزیں ہیں،ان کے رشتے داروں کی شادیوں میں لاکھوں خرچ ہورہے ہیں،ان کی بیویاں پڑوسیوں کی محفلوں میں اپنے کپڑے اور زیورات پر شرمائی شرمائی رہتی ہیں، امیروں کے ٹھاٹھ باٹھ کا مشاہدہ روز مرہ کا معمول ہے،مگر علماء کرام یہ سب دیکھ کر ایک آہِ سرد کھینچتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں،دنیا کی ان ترقیوں میں پیچھے ہوتے ہوئے بھی وہ مطمئن ہیں،شکرگزار ہیں،ہاں بچوں کی بے صبری اور ان کی نامراد حسرتیں کبھی ان کا سینہ چھلنی کردیتی ہیں،مولانا بچوں کو صحابۂ کرام کے فقر وفاقہ کے واقعات سنا کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں،سوال یہ ہے کہ کیا یہ منظر بدل نہیں سکتا تھا؟مولوی کے بچے دنیا کی نعمتوں سے شادکام نہیں ہوسکتے تھے،جی ہاں ہوسکتے تھے،ایسا ممکن تھا لیکن خدمت دین ودعوت کو چھوڑ کر کسی اور میدان کا رخ کرنا پڑتا تھا،علم دین سے معذرت کرکے بزنس وتجارت کے زرخیز زمین پر قدم رکھنا پڑتا تھا،مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ منہ زور حسرتوں کو دل میں دبا کر خدمتِ دین کو شعار بنا کر رہے،یہ ایک عالم دین کی بہت بڑی قربانی ہے جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے،وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر انہوں نے دعوت وتبلیغ،امامت و تدریس اورخطبہ و افتا ء کا محاذ چھوڑدیا تو الگ سے کون سی مخلوق آکر یہ دینی فریضہ انجام دے گی،لہٰذا یہ طبقہ عزت وتوقیر کا مستحق ہے تذلیل وتحقیر کا نہیں ہے،نارسائی کا زخم اور گہرا ہوجاتا ہے جب یہ علماء حادثات کے شکار ہوجاتے ہیں،دعوتی سفر میں ان کا ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے اور اپنے نونہالوں کو داغِ یتیمی دے جاتے ہیں،ادھرکوئی فرقہ پرستوں کے ہتھے چڑھ کر شہید ہوجاتا ہے،وقتی طور پر ہمدردیوں کا سیلاب امڈآتا ہے،محبتیں ہجوم کرنے لگتی ہیں لیکن چند ہفتوں اور مہینوں کے بعد وہ بھیڑ چھٹ جاتی ہے جو مولانا کے درس اور خطبے میں نظر آتی تھی،حقیقتِ واقعہ یہی ہے، بہرحال درد کے ان حوالوں کو سنانے سے کوئی انقلاب آنے والا نہیں ہے،یہ تو بس مچلتے جذبات تھے جو قلم پر آگئے، آگے بڑھتے ہیں اورعلماء مخالف اس دل آزار معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ دراصل ایک منصوبہ بند سازش ہے جس کا شکار مسلمان ہوئے ہیں،اسلام دشمنوں نے عوام الناس کو دین سے لاتعلق کرنے کے لیے عوام کو علماء سے بدظن کیا ہے،لایعنی اور ظاہر فریب اعتراضات کے ذریعے علماء سے عوام کو دور کیا ہے،ظاہر سی بات ہے علماء ہی عوام کو اللہ ورسول اورکتاب وسنت سے جوڑ کر رکھتے ہیں،عوام کو علماء سے برگشتہ کرنے کا مطلب عوام کو لامرکزیت میں مبتلا کرنا ہے اور موجودہ دور میں علماء مخالف طبقہ اس مقصد میں کامیاب ہورہا ہے،ایک زمانے سے سوشل میڈیا اس مقصد کی تکمیل میں بہت زیادہ معاون ثابت ہوا ہے،موجودہ دور کا انتشار،انارکی،بے سمتی اور اباحیت علماء سے دوری کا شاخسانہ ہے۔
سلف مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے تھے،اس لیے وہ ہمیشہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ علماء کی علی الاعلان بد گوئی کی جائے،عوام الناس میں ان کی تحقیر کی جائے،اس سلسلے میں سیکڑوں اقوال بیان کئے گئے ہیں۔
چنانچہ عون بن عبد اللہ نے فرماتے ہیں :
’’میں نے امیر المومنین عمر بن عبد العزیز سے عرض کیا:
کہا جاتا ہے کہ اگر تم میں ایک عالم بننے کی صلاحیت ہو تو جہاں تک ممکن ہو عالم بننے کی کوشش کرو اور اگر تم عالم نہیں بن سکتے تو پھر ایک طالب علم بنواور اگر طالب علم بننے کی بھی صلاحیت نہیں ہے تو پھر ان سے (علماء و طالب علم) سے محبت کرو، اگر تم ان سے محبت کے قابل بھی نہیں ہو تو پھر (کم از کم) ان سے نفرت مت کرو۔
عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا:
’’ سبحان اللہ! اللہ نے اس (آخری ) بندے کو بھی مہلت دی ہے‘‘
[ ابو ہیثمہ فصوی، معرفۃ التاریخ ۳؍۳۹۸،۳۹۹، ابن عبدالبر جامع بیان العلم وفضلہ ، ۱.۱۴۲-۱۴۳]
امام احمد بن اذرعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الوقيعة فى أهل العلم ولا سيما أكابرهم من كبائر الذنوب‘‘
ترجمہ: ’’اہل علم کی مذمت و توہین خاص طور سے ان کے اکابر کی، کبیرہ گناہوں میں سے ہے‘‘
[الرد الوافر لابن ناصر الدین الدمشقی: ۳]
کچھ ایسے لوگ بھی علماء پر تنقید کا نشتر آزماتے ہیں جو کبھی اسی خوان علم کے ٹکڑوں پر پلتے رہے ہیں جس کے خوشہ چیں علماء تھے،ان کو جب مدارس کے خیرات میں نئی روشنی ملی تو پھولے نہ سمائے،مدارس اور علماء کے تئیں اسی نظریے کے علمبردار بن گئے جو ملحد اور لبرل پروفیسروں کا ہوتا ہے،ظاہر سی بات ہے وہ علماء سے خار کھائے ہوتے ہیں،اپنا بخار گاہے بگاہے نکالتے رہتے ہیں،علماء جلسوں اور کانفرنسوں میں نظر آئیں تو ان کو پروبلم ہے،علماء خطبہ دیں تو یہ کیڑے نکالتے ہیں،یہ مدارس میں خدمات انجام دیں تو بھی ناقابل برداشت ہے،صدقہ وخیرات کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے، حیرت ہوتی ہے کہ بغض وعناد میں لوگ کن انتہاؤں تک پہنچ جاتے ہیں؟اس قسم کا طعنہ صرف جھنجلاہٹ اور سینے کی دہکتی آگ کو بجھانے کے لیے ہے،وگرنہ دینے والے بھی کبھی علماء کرام پر یہ تہمت نہیں رکھتے،یہ اسی حاسد قبیلے کا طرۂ امتیاز ہے،سچ کہا ہے۔
کس دن نہ تہمتوں کو تراشا کیے عدو
کس دن ہمارے سر پر نہ آرے چلا کیے
شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے اس الزام کا بہترین جواب دیا ہے:
’’جو مدرسین اور دعاۃ اُن دینی اداروں میں تنخواہوں پرکام کرتے ہیں جو زکاۃ کے پیسوں سے چلتے ہیں تو اُن مدرسین اور دعاۃ پر کوئی ملامت نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ زکاۃ خور نہیں ہیں بلکہ یہ اجیر ہیں اور اپنی محنت اور اجرت کا پیسہ لے رہے ہیں ۔ ایسے میں مدیر حضرات ان کی تنخواہ زکاۃ کے پیسوں سے دیں یا شراب اور چرس بیچنے والے تاجروں کے ڈونیشن سے دیں ، بہرصورت اس کے ذمہ دار مدیر حضرات ہوں گے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تدریس کرنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہے کہ ان کی تنخواہ کو حرام نہیں بول سکتے ہیں حالانکہ ان کی تنخواہ حکومت دیتی ہے اور حکومت کے خزانے میں شراب اور طوائف خانوں کے ٹیکس کا پیسہ بھی شامل ہوتا ہے‘‘
علماء کرام ہر زمانے اور ہر دور میں دفاعِ دین کا مورچہ سنبھالے ہوئے تھے اور آج بھی سنبھالے ہوئے ہیں،جب بھی کوئی فتنہ اٹھتا ہے،جب اسلام کے خلاف کوئی طوفان اٹھتا ہے،یہی مظلوم مولوی میدان میں خم ٹھونک کر اترتا ہے، مسند افتاء و محراب سے نکل کر ایک سپاہی کا رول نبھاتا ہے، باطل سے دودو ہاتھ کرتا ہے،یہاں تک کہ ہندوستان کے اٹھارہ سو ستاون کی جنگ میں یہ طبقہ ہزاروں کی تعداد میں شہید ہوا اور انگریزوں کے عتاب کا شکار ہوا،قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں،یہ حقائق کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے ہیں،آخری سطور میں مظلوم مولوی پر قدرت اللہ شہاب کے چند اقتباسات رقم کررہا ہوں جو بڑی بے باکی سے علماء کرام کا درد بیان کرتے ہیں اور ان کی قدر وقیمت کا اندازہ کراتے ہیں۔
’’ایک زمانے میں ملّا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگاکر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟
دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔
اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔
یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیرکے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا‘‘۔
یہ ایک انگریزی تعلیم یافتہ شخص کے الفاظ ہیں جس نے علماء کی زندگیوں،ان کی قربانیوں اوران کی کسمپرسیوں کو بہت قریب سے دیکھا تھا،اس لئے اس نے بڑے خوبصورت الفاظ میں قوم وسماج پر ان کے احسانات کو خراج تحسین پیش کیا ہے،بس اسی نقطہ نظر سے علماء کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے،امید کہ علماء کا مخالف طبقہ اس پیغام کو سمجھے گا اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے گا،اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین