-
مسلم پرسنل لاء اور سماج پر مثبت اثرات مذہب اسلام انتہائی کامل و مکمل دین ہے ، جس کی تعلیمات میں انسانی سماج کے لیے امن و راحت اور عدل و احسان ہے ، اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ جب بھی کوئی معاشرہ وجود میں آیا ہے تو وہ صالح اور پاکیزہ معاشرہ بنا ہے ، اس کی ایک اہم اور عمدہ مثال مسلم پرسنل لاء یعنی اسلام کا عائلی نظام ہے ، انسانی سماج پر ہمیشہ اس کے اچھے اور مثبت اثرات پڑے ہیں، اسی حقیقت کی وضاحت میرا موضوع ہے ،جس کے بنیادی اجزاء و عناصر کچھ اس طرح ہیں:
۱۔ مسلم پرسنل لاء کیا ہے ؟ مسلم پرسنل لاء کی خصوصیات
۳۔ مسلم پرسنل لاء کے مثبت اثرات مسلم پرسنل لاء اور موجودہ مسلمان
اسلام کے عائلی نظام پر ہونے والی کانفرنس کی مناسبت سے یہ موضوع تفصیل طلب ہے مگر موضوع کے مطابق مذکورہ عناصر پر اعتدال و توازن کے ساتھ اسلامی شریعت اور دستورہند کی روشنی میں مختصر باتیں ذکر کی جارہی ہیں، واللہ ھوالموفق وھو المعین
(۱) مسلم پرسنل لاء کیا ہے ؟
مسلم پرسنل لاء کا معنی ہے ، مسلمانوں کے شخصی و انفرادی قوانین ،اس کو عربی میں :’’الاحوال الشخصية اللمسلمين او القوانين الشخصية للمسلمين‘‘ کہا جاتا ہے ،اور اسی کو اسلام کا عائلی نظام بھی کہا جاتا ہے ، عائلی کی نسبت عائلۃ کی طرف ہے ، جس کا معنی ہے فیملی یا خاندان ، اس طرح اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ :اسلام کی وہ تعلیمات جن کا تعلق کسی انسان کی فیملی یا خاندان سے ہے ۔
ہمارا ملک ہندوستان چونکہ تکثیری سماج والا ہے ، یعنی اس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں، اسی لیے برطانوی دور اقتدار سے اب تک ہر مذہب کے ماننے والوں کا پرسنل لاء دستور ہند میںالگ الگ ہے ، اسی کے مطابق یہاں کے باشندے اپنے معاملات و نزاعات عدلیہ کے ذریعہ حل کرتے ہیں ۔ مسلم پرسنل لاء میں کیا کیا باتیں دستور ہند کے مطابق شامل ہیں؟ اس کے بارے میں مشہور ماہر قانون خواجہ عبد المنتقم ایکٹ نمبر ۲۶بابت ۱۹۳۷ء کے حوالہ سے لکھتے ہیں :’’مسلمانوں پر شخصی قانون (پرسنل لاء) کا اطلاق اس طرح ہوگا کہ وراثت ،ہبہ،ازدواج ،انفساح ازدواج، بشمول طلاق، ایلاء،ظہار، لعان، خلع اور مبارات(زوجین کی بیزاری)نان و نفقہ، مہر ، ولایت، ٹرسٹ اور ٹرسٹ کی جائیداد اور اوقاف سے متعلق تمام تنازعات کا فیصلہ جہاں فریقین مسلمان ہوں ،مسلم شخصی قانون (شریعت) کے مطابق ہوگا‘‘۔ بحوالہ: (مسلم پرسنل لاء ص:۹۔۱۰،ناشر ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی)
مسلم پرسنل لاء کے تحت جتنے امور کا ذکر کیا گیا ہے ان کے بارے میں دستور ہند کے ایکٹ نمبر ۸ بابت ۱۹۳۹ء اور ایکٹ نمبر ۲۵ بابت ۱۹۸۶ء میں بطور توضیح جو قواعد و قوانین درج ہیں ان میں سے اکثر قرآن و حدیث کے مطابق ہیں، مگر طلاق ،خلع اور ولایت وغیرہ مسائل میں فقہ حنفی کے اثرات پائے جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ برطانوی دور اقتدار سے پہلے مسلم دور حکومت میں فقہ حنفی کا رواج تھا ، اس وقت علماء و قضاۃ فقہ حنفی کے مطابق ہی فیصلے کرتے تھے۔
مسلم پرسنل لاء کی خصوصیات :
مسلم پرسنل لاء یا اسلام کا عائلی نظام قانون شریعت پر مشتمل ہے ، جو الہامی قانون ہے ، اس کے مقابلہ میں انسانی قانون ہے جسے انسان خود وضع کرتا ہے ، چونکہ موجودہ حالات میں قانون شریعت کو فرسودہ قراردیا جارہا ہے اور ملک میں یکساں سول کوڈ کے لیے فضاہموارکی جارہی ہے ، اس لیے اب ہم قانون شریعت کی بعض خصوصیات کا ذکر کر رہے ہیں تاکہ لوگوں پر یہ بات واضح ہوجائے کہ قانون شریعت میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں، مگر پھر بھی ملک کی اکثریت کے رہنما حکومت کے ذمہ داروں کے تعاون سے مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی اسلام سے ناواقف کوئی تجدد پسند مسلمان بھی اس لے میں لے ملانے کی نارواکوشش کرتا ہے ۔یقیناً یہ بڑے افسوس کی بات ہے ۔
پہلی خصوصیت:
دوسرے وضعی قوانین کے بر خلاف قانون شریعت کی بڑی اہم خصوصیت یہ ہے کہ قانون کا ماخذ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور رسول اللہ ﷺ کی شخصیت بھی اس کا مصدر ہے ، اس لیے کہ آپ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے تھے ، بلکہ وحی الٰہی ہی بولتے تھے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰي ۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحٰي }
’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے ،بلکہ وہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو آپ پر کی جاتی ہے‘‘
[النجم:۳۔۴]
قانون شریعت کے مقابلہ میں دوسرے انسانی قوانین کا معاملہ یہ ہے کہ خود انسان کی عقل یا خواہش قانون کا سرچشمہ ہے ، حالانکہ انسانی زندگی کے مسائل کو خود عقل انسانی حل نہیں کر سکتی ۔ قرآن مجید میں بار بار یہ بات کہی گئی ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل کے بارے میں فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے ۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
{إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلّٰهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ }
’’فیصلہ کرنا اللہ ہی کے لیے ہے ، وہ حق بیان کرتا ہے ، اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ‘‘
[الانعام:۵۷]
قرآن کریم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سچائی اور انصاف پر مبنی ہوتا ہے اس لیے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہو سکتی، ارشاد الٰہی ہے :
{وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ}
’’اللہ تعالیٰ کی بات سچائی اور انصاف میںکامل ہے ،اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں ، وہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘
[الانعام:۱۱۵]
معلوم ہوا کہ اسلامی شریعت کے بنیادی مصادر قرآن کریم اور احادیث صحیح ہیں ۔ یہ دونوں وحی الٰہی ہیں ، اس لیے ان سے ثابت شدہ احکام و مسائل میں کوئی شک نہیں ، وہ یقینی و قطعی ہیں ، ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ، رہے وہ مسائل جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہیں ، انہیں اجتہادی مسائل کہا جاتا ہے ، جن کا تعلق ائمہ و فقہاء کے اجتہاد و استنباط سے ہے، تو معلوم ہونا چاہئے کہ اس طرح کے احکام و مسائل میں اختلاف اور ترمیم دونوں کی گنجائش ہے۔
دوسری خصوصیت :
انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مقابلہ میں قانون شریعت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی فطرت پر مبنی ہے ،چونکہ اسے وضع کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جو انسان کا خالق اور انسانی فطرت کا راز داں ہے، اس لیے قانون شریعت میں انسان کی فطرت و مزاج کی پوری رعایت ہے ، چنانچہ قرآن مجید میں دین اسلام کو قانون فطرت کا ترجمان قرار دیا گیا ہے ،اس سلسلہ کی ایک آیت ملاحظہ ہو:
{فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ }
’’تم یکسو ہو کر اپنا رخ دین کی طرف کرو، جو اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ،اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ، یہی سیدھا دین ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘
[الروم:۳۰]
بہر حال قانون شریعت کی یہ امتیازی خوبی ہے کہ اس کے تمام احکام و تعلیمات میں انسانی مسائل کا حل انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ، بنا بریں اسلام ایسا دین ہے جو فطرت کے تابع ہے ، انسانی خواہشات کے تابع نہیں ہے اور جب انسان بذات خود قانون بنانے لگتا ہے تو ایسا اکثر ہوتا ہے کہ مخالف فطرت تقاضوں کو قبول کرلیتا ہے، اور ایسے قوانین بناتا ہے جو انسانی سماج کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں نقصان اور تباہی کے باعث ہوتے ہیں ، مگر شیطان لوگوں کو فطرت سے بغاوت پر ابھارتا رہتا ہے ، اسی بنا پر ہر دور میں قانون شریعت کے خلاف آواز اٹھتی رہتی ہے۔
تیسری خصوصیت:
مغربی تصور قانون (جس کے اثرات ہمارے ملک میں بھی پائے جاتے ہیں) کے مقابلہ میںاسلامی شریعت میںاصل اہمیت عدل کی ہے ، یعنی اسلام کا نظریہ ہے کہ تمام طبقات کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کیا جائے ، چنانچہ کبھی مساوات اور برابری عدل کا تقاضا ہوتا ہے ، اس وقت برابری بھی ضروری ہوگی، اور کبھی عدل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ تمام لوگوں پر برابری کے ساتھ اس کا اطلاق نہ کیا جائے بلکہ فرق کے ساتھ اس کو نافذ کیا جائے ، ایسے موقع پر اسلامی شریعت مساوات کی بجائے عدل کا راستہ اختیار کرتی ہے۔
دراصل اسلام بنیادی طور پر عدل کا قائل ہے نہ کہ مساوات کا ،ہاں جہاں مساوات اور برابری عدل میںشامل ہووہاں مساوات اور برابری کا بھی حکم دیتاہے۔ قرآن کی ۲۹ آیات میں عدل و انصاف کی تلقین کی گئی ہے ، ایک آیت ملاحظہ ہو:
{إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَائِ ذِي الْقُرْبَي وَيَنْهَي عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل واحسان اور قرابت داروں کی مدد کا حکم دیتا ہے ، اور بے حیائی ، برے کام اور ظلم سے روکتا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو‘‘۔
[النحل:۹۰]
میں یہاں مرد اور عورت کا ذکر کرنا چاہتاہوں، مذہب اسلام بحیثیت انسان ان دونوں میں مساوات کا قائل ہے ، قصاص ،دیت اور حصول اجر وثواب وغیرہ میں انہیں برابری کا درجہ دیتا ہے ، لیکن اسلام کی نظر میں مرد صنف قوی اور عورت صنف نازک ہے ، مرد پر گھر اور کمانے کی ذمہ داری ہے اور عورت اس سے سبک دوش ہے، اسی طرح عورت عقلی و جسمانی طورپر کمزور ہے ، اسی بنا پر بہت سے سماجی مسائل میں مذہب اسلام عورت اور مرد میں فرق و امتیاز کرتا ہے ، اس لیے کہ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔
اسلامی شریعت کے برخلاف مغربی دنیا مرد اور عورت کے درمیان مکمل مساوات کا نعرہ لگاتی ہے اور اس کو اپنی ترقی پسندی کی معراج سمجھتی ہے ، چنانچہ مرد اور عورت کے بارے میں مغربی تصور یہ ہے کہ اگر عورت کو ایک ہی شوہر پر اکتفا کرنا ہے تو مرد کو بھی ایک سے زائد شادی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور اگر مرد کو اس کی اجازت دی جاتی ہے تو عورت کو بھی ایک سے زائد مردوں سے ازدواجی تعلق کی اجازت ہونی چاہئے ، اسی طرح رشتۂ نکاح کو ختم کرنے کا حق مردوعورت دونوں کو برابرہونا چاہئے ، ترکہ کی تقسیم میں بیٹا اور بیٹی کا حصہ برابر ہونا چاہئے، مرد کی طرح عورت کو بھی کسب معاش کی اجازت ہونی چاہئے ، اور اگر مرد پر پردہ کی پابندی نہیں تو عورت پر کیوں ہے ؟ وغیرہ وغیرہ
مگر ظاہر ہے یہ ساری باتیں عدل کے خلاف ہیں اور عورت پر صریح ظلم ہیں، اہل نظر پر یہ بات مخفی نہیں کہ مساوات کا مغربی تصور انسانیت کے لیے گمراہ کن اور عورت کے ساتھ خوشنما فریب ہے ۔
قانونِ شریعت کے اور بھی امتیازی اوصاف و خصوصیات ہیں ، مگر موضوع کی مناسبت سے انہیں باتوں پر بطور اختصار اکتفاکیا جارہا ہے ۔
مسلم پرسنل لاء کے مثبت اثرات:
سماج پر مسلم پرسنل لاء کے مثبت اثرات کا معنی ہے سماج کے لیے مسلم پرسنل لاء یا اسلام کے عائلی نظام کے فوائد و ثمرات۔ یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے ۔ اس سلسلہ میں کچھ باتیں مسلم پرسنل لاء کی خصوصیات کے ضمن میں آچکی ہیں ، یہاں بہت اختصار کے ساتھ مسلم پرسنل لا ء کے تحت آنے والی ان باتوں کے سماجی فوائد کا ذکر کیا جار ہا ہے، جن پر عام طور پر اعتراضات کئے جاتے ہیں ۔
اول: اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت ۔ دوم : مرد کو طلا ق کا حکم ہے مگر عورت کو نہیں ۔ سوم: وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلہ میں نصف ہونا ۔ چہارم : گواہی میں دو عورتوں کا ایک مرد کے برابر ہونا ۔ پنجم اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان جنسی فرق و امتیاز ۔
۱۔ تعدد ازدواج یعنی اسلام میںمرد کے لیے چار بیویاں رکھنے کی اجازت : تو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ حکم مباح ہے واجب نہیں ، اسلام میں بعض انفرادی و سماجی ضروریات کے تحت اس کی اجازت دی گئی ہے ، جیسے کسی شخص کو ایک سے زائد بیوی کی ضرورت ہو ، یا کسی سماج میں مردوں کی تعداد کم ہو اور عورتیں زیادہ ہوں تو اس کا حل صرف تعدد ازدواج ہے ، اس شرط کے ساتھ کہ مرد اپنی بیویوں کے درمیان عدل کرسکے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ :
{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً }
’’اگر تم عدل قائم نہ کر سکو تو ایک بیوی پر ہی اکتفار کرو‘‘
[النساء:۳]
تعدد ازدواج کا سب سے بڑا فائد یہ ہے کہ سماج سے بے حیائی ، بدکاری اور جسم فروشی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ جیسا کہ اس وقت عام رواج ہے ۔
۲۔ اسلام میں مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے ، عورت کو اس کا حق نہیں دیا گیا : اس لیے کہ عورت جذباتی ہوتی ہے ، بات بات پر لعن طع کرنا اس کی فطرت ہے ، اگر اسے طلاق کا حق دے دیا جاتا تو سماج میں انتشار پیدا ہو جاتا ، اور لوگوں کی ازدواجی زندگی بہت تباہی سے دوچار ہوجاتی ، لیکن اسلامی شریعت میں عورت کو مجبور نہیں کیا گیا ہے ، اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ناروا سلوک کی وجہ سے حد درجہ پریشان ہے تو اسے خلع کا حق دیا ہے ، اس طرح وہ اپنا معاملہ کسی مجلس شرعی میں لے جائے ، قاضی مجلس عورت و مرد کو بلائے ، حالات کا جائز ہ لے کر دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کرے، اگر صلح نہ ہو سکے تو وہ نکاح فسخ کرادے، اب عورت آزادہے ، ایک حیض کی عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے شادی کرسکتی ہے ، معلوم ہوا کہ اسلام کا نظام طلاق و خلع سماج کے لیے بہت مفید ہے ۔
رہا معاملہ ایک مجلس کی تین طلاق اور سازشی حلالہ کا تو یہ عورت پر ظلم اور اسلام کے لیے باعث ننگ و عار ہیں ، صحیح دلائل کی روشنی میں یہ دونوں درست نہیں ہیں۔
۳۔ اسلامی شریعت میں جو نظام وراثت ہے ،اس میں ایک قانون یہ ہے کہ ’’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ‘‘ یعنی ایک مذکر کا حصہ دو مونث کے حصہ کے برابر ہے۔ تو یہاں اگر چہ مرد و عورت میں برابری نہیں لیکن عدل کا تقاضا یہی ہے کہ ان دونوں کے حصہ وراثت میں فرق و امتیاز کیا جائے ، اس کی وجہ ہے کہ کسب معاش اور انفاق کی پوری ذمہ داری مرد کی ہے ، عورت پر اس طرح کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ عورت کو سسرال میں بھی حصہ ملتا ہے اور میکہ میںبھی حصہ ملتا ہے، لہٰذا وہ ا س معاملہ میں مظلو م نہیں ہے ، مردوں پر کسب معاش اور انفاق کی ذمہ داری کا ذکرکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
{اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَي النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ }
’’مرد عورتوں کے ذمہ دارنہیں ، اس لیے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر برتری دی ہے اور اس لیے کہ مرد انفاق مال کرتے ہیں ‘‘
[النساء:۳۴]
غور کیجئے تو یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ مذہب اسلام نے گھر اور کسب معاش وغیرہ کی ذمہ داری عورت کو نہ دے کر اس کی بے انتہا عزت و تکریم کی ہے ۔
۴۔ گواہی میں دو عورتوں کا ایک مرد کے برابر ہونا، اس قانون میں مذہب اسلام نے عورتوں کی عقلی کمزوری کا لحاظ رکھا ہے ، اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد لائے گی ، اس کا تذکرہ قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کی آیت مداینہ نمبر ۲۸۲ میںکیا گیا ہے ۔
عورتوں کے حق میں اس قانون شہادت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ گواہی دینے کے معاملہ میں مردوں سے اختلاط اور کچہریوں میں چکر لگانے سے بچ جائیں گی، یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندودھر م کی کتابوں منوسمرتی اور رگ وید وغیرہ میں مطلق طور پر عورت کو گواہی دینے کے لائق ہی نہیں ماناگیا ہے ، جب کہ مذہب اسلام نے اس کی گواہی کو نصف مان کر اس کی عزت وتکریم کی ہے ۔
۵۔ مذہب اسلام نے مردوعورت کے درمیان جنسی طور پر فرق و امتیاز کیا ہے اس کا تذکرہ مسلم پرسنل لاء کی تیسری خصوصیت کے تحت آچکا ہے کہ عورت پر گھر یلوذمہ داری نہیں ہے اور وہ جسمانی و عقلی طور پر کمزور ہے، اس لیے بعض سماجی مسائل میں مرد وعورت کے درمیان فرق کیا گیا ہے ، عورت کی جسمانی و عقلی کمزوری کے بارے میں مصری مصنف فرید وجدی نے اپنی کتاب’’المرأۃ المسلمۃ‘‘ میں جدید میڈیکل سائنس کے حوالہ سے بڑی علمی بحث کی ہے ، جس کا ترجمہ ابوالکلام آزاد نے ’’مسلمان عورت‘‘ کے نام سے کیا ہے ،اصحاب علم کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔
مسلم پرسنل لاء اور موجودہ مسلمان:
اس مختصر مقالہ سے معلوم ہوا کہ مسلم پرسنل لاء کیا ہے ، اس کی امتیازی خصوصیات کیا ہیں اور سماج پر اس کے مثبت اثرات کیا پڑتے ہیں ؟
اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی انسانوں نے اسلامی شریعت کے احکام و تعلیمات پر عمل کیا ،تو عالم انسانی میں امن و سلامتی کی بہار آئی اور انسانی سماج عدل و انصاف سے بھر گیا ، آج بھی اسلام کے جادۂ اعتدال پر چل کر دنیا میںامن و راحت کا ماحول بن سکتا ہے اور مصائب و آلام سے دوچار انسانیت کو سکون و قرار مل سکتا ہے ۔
اس وقت عالمی و ملکی سطح پر مسلم پرسنل لاء اوراسلام کے عائلی نظام پر جو شکوک و شبہات اور اعتراضات کئے جارہے ہیں اس کے بہت سے داخلی وخارجی اسباب ہیں ، ان میں ایک اہم داخلی سبب اکثر مسلمانوں کی اسلام سے غفلت اور عملی طورپر اسلامی تعلیمات سے دوری ہے ۔ اگر مسلم عوام و خواص کے دینی و سماجی حالات کا سرسری جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اکثر لوگ عملی طور پر اسلام کے عائلی نظام سے دور ہیں ، شادی بیاہ کے معاملہ میں ’’چھِکائی‘‘، منگنی، بارات، اور جہیز کی جاہلی رسوم میں جکڑے ہوئے ہیں ، جائداد میں بیٹیوں کو حق نہیں دیتے اور دوسرے ورثہ کی حق تلفی کرتے ہیں، ان المناک حالات میں مذہب اسلام خود مسلمانوں سے شکوہ کرتے ہوئے زبان حال سے کہہ رہا ہے :
لوگ اوروں کی بات کرتے ہیں ہم نے اپنوں سے چوٹ کھائی
موجودہ حالات میں عوام و خواص اور علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ ہم لوگ علمی و عملی طور پر اسلام کی سچی نمائندگی کریں، اسلام کے عائلی نظام پر خود عمل کریںاور دوسروں کو اس کی ترغیب دیں، اس طرح دنیا میں اسلام کا بول بولا ہوگااور گلشن عالم میں امن و سلامتی کی بہار آئے گی ۔ ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان کامل عمل صالح کو ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری تمام دینی و ملی مشکلات کو دور کرے۔ آمین