-
مرد کا حق طلاق اور عورت کا حق خلع مذہب اسلام میں نکاح ایک پائیدار معاہدہ ہے،اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی عظیم نشانی ،سکون ،محبت ورحم دلی اور تونگری ومالداری کا سبب ٹھہرایاہے، نبی اکرمﷺنے اسے نصف ایمان قراردے کرہر صاحبِ استطاعت کو اس کی ترغیب دی ہے ۔ نکاح کے ذریعہ انسان اپنی جنسی خواہش کی تسکین اورصنفی ضرورت کی تکمیل کرتاہے جس سے اس کے قلب کو سرور اوردماغ کو سکون نصیب ہوتاہے۔اسی کے ساتھ نکاح ہی بقائِ انسانی کاذریعہ ہے، یہ فطری نظامِ زندگی کے لیے ایک عظیم نعمت ہے، اس کے ذریعہ جہاں ایک طرف انسان کی فطری ضرورت کی تکمیل ہوتی ہے اور دنیا میں توالد وتناسل اور افزائش نسل کا پاکیزہ نظام قائم ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے ذریعہ ایک عبادت اور تمام انبیاء علیہم السلام کی مشترکہ سنت کی ادائیگی ہوتی ہے۔اس کے ذریعہ معاشرہ متعدد قسم کے فواحش ومنکرات اور امراض خبیثہ سے محفوظ ہوتا ہے اور عزتیں سلامت اور عظمتیں بحال ہوتی ہیں۔
اسلام نے اس عبادت کی ادائیگی کے لیے ایک مرد پر عورت کے لیے حقِ مہر، نان ونفقہ اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنا، نیز حسنِ معاشرت کوضروری قرار دیاہے، جب کہ عورت کی طرف سے عفت و پاک دامنی اور شوہر کی اطاعت وفرماں برداری شرط قرار دی ہے، اس لیے کہ اسلام کی نظر میں نکاح کوئی وقتی اور محدود معاہدے کا نام نہیں ہے،بلکہ یہ ایک ایسا مضبوط شرعی عہد اور بندھن ہے جس کا ہمیشہ باقی رکھنا مطلوب اور پسندیدہ ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے مردکو اس کی بعض خصوصیات وامتیازات کے سبب خواتین پراسے قوام یعنی نگراں بنایا گیا ہے چنانچہ ایک مرد کو اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ نکاح کے بعد وہ عورت کی تمام ترفطری کمزوریوں کے باوجود اس کے ساتھ حسنِ معاشرت کا اہتمام کرے، حتیٰ کہ اگر اس کو بیوی کی بعض باتیں ناپسند بھی ہوں، تب بھی اس کے ساتھ نباہ کرنے کی حتی الامکان پوری کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسٰي أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا}
’’اور تم ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو، پھر اگر تم ان کو ناپسند کرو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی ڈال دے‘‘
[النساء :۱۹]
اسی بات کو رسول اللہﷺ نے اس انداز میں فرمایا:
’’لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ‘‘
’’کوئی مومن مرد (شوہر)کسی مومن عورت(بیوی) سے بغض نہ رکھے، اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو اس کی کوئی دوسری عادت پسند بھی ہوگی‘‘
[صحیح مسلم:۱۴۶۹]
ایک اور مقام پر فرمایا:
’’وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْئٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، إِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاء خَيْرًا‘‘
’’تم عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو۔ اس لیے کہ عورت پسلی سے پیداہوئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے (لیکن سیدھا نہیں کرسکو گے) اور اگر تم اِسے چھوڑ دو گے تووہ ٹیڑھا ہی رہے گا (یعنی عورت کی فطری کجی کبھی ختم نہیں ہوگی، اس لیے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے) اس کے ساتھ بھلائی کرتے رہو‘‘
[صحیح مسلم:۱۴۶۸]
یہاں پرعورت کے ساتھ نباہ کے دو اہم اُصول بیان کیے گئے ہیں:
۱۔ اس میں جوخوبیاں ہیں، ان پرنظر رکھو اور کوتاہیوں کو نظر انداز کردو۔
۲۔ مرد کے مقابلے میں عورت جسمانی لحاظ سے بھی کمزور ہے اور عقلی و ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی فرو تر۔
اس کا تقاضا یہ ہے کہ مرد عورت کی کوتاہیوں پر صبر و ضبط اور حوصلہ و تحمل کا مظاہرہ کرے۔ مردانگی و فرزانگی کا زعم اور نفقہ ورہائش نیز اس کی دیگر ضروریات کی تکمیل کا واہمہ اسے عورت کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے پر مجبور نہ کرے، اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ عورت تو سیدھی نہیں ہوسکے گی البتہ گھر کے اُجڑنے تک نوبت پہنچ جائے گی جو چیز بھی اس معاہدے کے دوام اور بقا میں رکاوٹ بن سکتی ہے، اس کے لیے عادلانہ نظام اور فطرت سے ہم آہنگ سسٹم کی طرح ڈالی گئی ہے۔
اسباب خلع وطلاق: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو دو اجنبی رشتۂ نکاح میں مربوط ہوئے ہیں ،وہ الگ الگ دل ودماغ رکھتے ہیں ،سوچنے اورغوروفکر کے ان کے الگ الگ طریقے ہیں ۔دونوں کے فکر وعمل اورطرز زندگی مختلف ہوسکتے ہیں ،اس لیے دونوںکاہر معاملہ میں مکمل طورپر ہم آہنگ ہوناضروری نہیں ۔ان ہی دشواریوں کی وجہ سے یہ رشتہ بجائے راحت وسکون کے دردسری اورایک مصیبت کی شکل اختیار کرلیتاہے۔ دونوں ایک دوسرے کی حق تلفی کرنے لگتے ہیں ،ایسی ناگفتہ بہ صورتِ حال سے خلاصی کے لیے شریعت نے طلاق کی راہ ہموارکررکھی ہے۔ کیونکہ شریعت کا ضابطہ ہے {لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ} ’’نہ تم ظلم کروگے اور نہ ہی ظلم سہو گے‘‘[البقرہ: ۲۷۹] ’’لا ضرر ولا ضرار‘‘’’نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ گے اور نہ ہی تمہیں کوئی نقصان پہنچائے گا‘‘[صحیح ابن ماجۃ للالبانی:۱۹۰۹]یہی وجہ ہے کہ شیطان لعین کا سب سے بہترین مشغلہ اس خوش گوار زندگی کو بربادکرنا ہے جس کے پیچھے مختلف اسباب وعوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔مثلا ًدینی تعلیم سے دوری،عدم برداشت ،خواتین کا ملازمت کرنا، فلموں، ڈراموں اور سیرئلس کا منفی کردار،کفو دیکھ کر رشتہ نہ کرنا ،بیجامطالبات، والدین کی غلط تربیت ،لومیریج، لڑکی کو میراث میں حصہ نہ دینا،جوائنٹ فیملی،جہیز کا نہ ملنا یاکم ملنا ،موبائل کا کردار ،بدگمانی اور شک کاگزر،احترام کا فقدان، خاندانوں کی بیجا دخل اندازی، برے دوست واحباب کی صحبت ،سحروجادوگری اوربانجھ پن وغیرہ مختلف زمان ومکان اور احوال وکوائف کی رو سے مختلف اسباب وعوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔
طلاق کے فوائد: جس طرح نکاح کے بہت سارے اغراض ومقاصداورفوائد ہیں ،اسی طرح طلاق کے بھی بہت سے اغراض و مقاصداورفوائد ہیں ،نکاح حرام کو حلال کرنے کاذریعہ ہے تو طلاق بھی حلال کو حرام کرتاہے۔جس طرح نکاح کرنا شریعت کاحکم ہے اورنکاح سے متعلق احکام پرعمل کرناضروری ہے، اسی طرح طلاق دینابھی شریعت کاحکم ہے اوراس سے متعلق احکام پر عمل کرناضروری ہے۔ دراصل خالق ِکائنات نے ہر مرد وعورت کو آزاد پیداکیاہے، ہر ایک کو شریعت کے دائرہ میں رہ کراپنی زندگی گزارنے کاحق حاصل ہے۔ہر ایک پر لازم ہے کہ دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی اداکرے، یہ رشتہ آقا وغلام کے بجائے لائف پارٹنر اور گاڑی کے دوپہیوں کا ہے ۔چنانچہ جب میاں بیوی رشتۂ نکاح میں رہ کرایک دوسرے کے حقوق کو ادانہ کرسکیں ،دونوں کے درمیان اس طرح اختلاف رونما ہوجائے کہ ان دونوںکایا ان میں سے کسی ایک کاآرام وسکون سے زندگی گزارنادشوار ہوجائے، اور نکاح کے جومقاصدہیں وہ فوت ہونے لگیں ،تو پھر طلاق کے ذریعہ رشتۂ نکاح کو ختم کرلینے کاحکم دیا گیا ہے، تاکہ دونوں اپنی اپنی پسند کے مطابق زندگی گزاریں ، کوئی کسی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔گویا کہ طلاق میاں بیوی کے درمیان ہونے والے ذہنی تناؤ، روز روزکے جھگڑے اورایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے خاتمہ کانام ہے۔ طلاق میاں بیوی کے درمیان پیداشدہ مسائل کاحل ہے۔مرد اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کوباعزت رخصت کرتا ہے تاکہ سکون حاصل کرکے اپنی پسندکے مطابق دوسری بیوی لاسکے،تودوسری طرف عورت بھی اپنی پسند کے مطابق دوسراشوہر بھی تلاش کرسکتی ہے۔گویاکہ دونوں کے لیے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کاذریعہ طلاق ہے۔
میاں بیوی کے جھگڑوں کابرا اثربچوں پر بھی پڑتاہے، اگر بچوںکی موجودگی میں ماں باپ جھگڑا اور لڑائی کرتے ہیں توجہاں ایک طرف بچوںکی تعلیم وتربیت متاثر ہوتی ہے،وہیں دوسری طرف ان کی ذہنی نشونما اور سوچ وفکر بھی اسی طرح ہوجاتی ہے،بچے بھی گالی گلوج، لعن طعن اورلڑائی جھگڑے سیکھتے ہیں، پھر وہ آگے چل کر خود اپنی شریک حیات کے ساتھ وہی رویہ اپناتے ہیں ،اس طرح گویااپنی زندگی اجیرن ہونے کے ساتھ ساتھ بچوںکابھی مستقبل خراب ہوتا ہے۔بعض دفعہ دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑوں کی وجہ سے پڑوسیوں کوبھی تکلیف ہوتی ہے،ان دونوں کی آوازیں اورگالی گلوج سے پڑوسی تنگ آجاتے ہیں ،ان کے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں ، اس لیے طلاق کے ذریعہ جس طرح میاں بیوی کو سکون حاصل ہوتاہے اور وہ اپنی پریشانیوں سے نجات پاتے ہیں ،اسی طرح ان کے بچوںکو بھی پرسکون ماحول نصیب ہوتاہے۔جس سے ان کی تعلیم وتربیت اچھی ہونے کے امکانات بھی ہیں ، نیز پڑوسی بھی سکون وراحت کی سانس لیتے ہیں ۔
طلاق کے نقصانات: عائلی زندگی میں طلاق یہ کوئی محبوب اور پسندیدہ حل نہیں ہے، چنانچہ جب میل ملاپ کے تمام طریقے استعمال کرلیے جائیں گھر میں زوجین کے باہمی سمجھوتے کے راستوں کو اختیار کرنے کے علاوہ فریقین کے ذمہ دار اور مخلص ارباب حل وعقد کے ذریعہ بحالی کے جملہ راستے مسدود نظر آئیں تو یہ طلاق آخری حل ہے،کیوں کہ اس سے میاں بیوی کے درمیان کامقدس رشتہ ٹوٹ جاتاہے، بسابسایا گھر اجڑ جاتا ہے دو اجنبی مردوعورت جنہوں نے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے،صنفی ضرورت کوپوراکرنے اوردیگر امورمیں ایک دوسرے کاتعاون کرنے کاعہد کیاتھا،طلاق کے ذریعہ یہ سارے معاہدے ٹوٹ جاتے ہیں،خوابوں کا یہ حسین شیش محل یکلخت چکناچور ہوجاتاہے، دونوں سے اگر بچے ہیں توان کو جہاں ایک طرف پیارومحبت کی آغوش چاہیے، وہیں دوسری طرف انہیں باپ کی نگرانی کی بھی سخت ضرورت ہوتی ہے،مگر طلاق کی وجہ سے ماںکی ممتا اور باپ کی شفقت ونگرانی سے محروم ہونے کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں ، اور بہت دفعہ بچوں کا مستقبل تباہی وبربادی کے دہانے پر آجاتا ہے،طلاق کی وجہ سے نہ یہ کہ دونوں میاں بیوی الگ الگ ہوجاتے ہیں،بلکہ دوخاندان کارشتہ ٹوٹ جاتاہے۔ بسا اوقات مناسب رشتہ نہ ملنے کے سبب ایک خاتون بلا شادی کے پوری زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہیں، بعض تو اس کی وجہ سے فتنوں کا شکار اور میکے کے مظالم کی نذر ہوجاتی ہیں۔
مرد کا حق طلاق: عام طور پردشمنان دین کی طرف سے یہ سوال اٹھایاجاتا ہے کہ اسلام برابری کا قائل نہیں ہے، اسی لیے اسلام میں طلاق کا حق صرف مردوں کو ہے جبکہ عورتوں کویہ حق نہیں دیا گیا، اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ جس طرح نکاح میں ایجاب یا قبول لڑکی کی طرف سے نہ ہو تو نکاح منعقد نہیں ہوتا ہے، تو پھر طلاق میں اس کی مرضی پوچھے بغیر کیوں طلاق واقع ہوجاتی ہے؟
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ اسلام نے عورتوں پر کوئی ظلم نہیں کیاہے، بلکہ ان کی خلقت کا اعتبار کرتے ہوئے تمام حقوق دئیے ہیں، جن میں سے کچھ مشترک اور برابری کے ہیں، مثلاً بحیثیت انسان عورت کو جو عزت وشرافت اور وقار اسلام نے دیا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، چنانچہ جب عورتوں کو زندہ در گور کیا جارہاتھا تو اسلام نے زندہ رہنے کا حق دیا، میراث میں ترکہ کا حق نہیں مل رہا تھا تو اسلام نے ترکہ میں حق دیا، سماج میں عورت کو کام کاج کی مشین سمجھاجاتا تھا، اسلام نے اسے بحیثیت بیٹی کے باپ کے گھر کی زینت اور برکت بنایا، بحیثیت ماں کے ان کے قدموں کے نیچے جنت عطا کی ، بحیثیت بیوی کے ان کو گھر کا ملکہ بنایا اور مالی ذمہ داریوں سے بالکلیہ فارغ کردیا اور نان ونفقہ ، رہاش وآسائش کے نظم کی ذمہ داری شوہر کے کاندھے پر رکھی، عورت کے جتنے روپ ہوسکتے ہیں ہر روپ میں اسلام نے اسے مالی ذمہ داری سے آزاد رکھا، سماج میں عورتوں کو تعلیم کا حق نہیں تھا اسلام نے انہیں نہ صرف تعلیم کی اجازت دی بلکہ میدان علم وعمل میں اپنا لوہا منوانے کی ترغیب دی، انسانوں کے بنائے ہوئے قانون ستی کے ذریعہ زندہ عورتوں کو مردہ شوہروں کی لاشوں کے ساتھ جلادیا جاتا تھا، اس قانون کو اسلام نے ختم کرکے اسے آزادی کی زندگی عطا فرمائی، اسلام عورتوں کا مخالف نہیں بلکہ ان کا محافظ ہے اور ان کے حقوق کا پاسدار ہے۔
جہاں تک بات ہے طلاق کی کہ مرد کوکیوں حق طلاق دیا گیا، عورتوں کو کیوں نہیں ؟تو اس کا جواب کئی ناحیوں سے دیا جاسکتا ہے:
(۱) قرآن کریم کی آیات اور احکامات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ طلاق کی حفاظت مردوں کے ہاتھ میں ہے، اور مرد ہی اس کا حق رکھتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:{الذی بیدہ عقدۃ النکاح} ’’(شوہر ) وہ شخص ہے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے‘‘، لہٰذا جس کے ہاتھ میں گرہ ہو ،اس کو کھولنے یعنی طلاق کا حق بھی اسی کو ہوناچاہئے ، یہ تو عقل بھی کہتی ہے کہ دوسرا کیوں کر گرہ کھولے گا۔
(۲) شوہر قوّام اور حاکم ہے اور بیوی محکوم ، اور یہ اس وجہ سے کہ شوہر ، بیوی کے نان ونفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی معاملہ میں فیصلہ کا حق تو حاکم کے پاس ہی ہونا چاہئے، محکوم کے پاس نہیں۔
(۳) مرد جسمانی قوت وطاقت میں عورت سے کئی گنا زیادہ طاقت ور ہوتا ہے، اگر عورت کو طلاق کا حق دے دیا جاتا ، تو پھر شوہر اپنی طاقت اور بَل کا استعمال کرتا،چنانچہ ایسی صورت میں شوہر اس سے چھٹکارہ پانے کے لیے اسے قتل تک کرنے کی سازش کرتا، جیسا کہ کچھ سماج میں آئے دن اس طرح کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
(۴) شوہر عقل وشعور اور ہوش وحواس میں عورتوں کے بالمقابل کامل ہوتا ہے، معاملات کی دور اندیشی مردوں میں زیادہ ہوتی ہے، جبکہ بیوی کم عقل، فکر ونظر کی کوتاہ اور جذبات کی رو میں بہہ جانے والی ہوتی ہے،گواہی کے موقع پر نسیان کے خوف سے مرد کے بمقابل دوخواتین گواہ ہوتی ہیں لہٰذا مرد اپنی زندگی کا اچھا اور برا فیصلہ جتنا صحیح کرسکتا ہے، عورتیں نہیں کرسکتی ہیں، دیکھا گیا ہے کہ مرد کسی مشکل امر کو حل کرنے میں عقل کو فوقیت دیتا اور جذبات کو پیچھے رکھتا ہے، جب کہ عورتیں جذبات کو آگے رکھتیں اور انجام سے بے پرواہ ہوتی ہیں اور عقل کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں، بہت ضروری ہوا تو مرد طلاق دیتا ہے، ورنہ اگر عورت کو یہ حق دی دیا جائے تو ہر لمحہ طلاق کی گولیاں چلتی رہیں گی۔
(۵) اللہ تعالیٰ نے چونکہ مردوں کو مالی ذمہ داری دے رکھی ہے ، عقل کا تقاضہ ہے کہ جو مالی حقوق کا ذمہ دار ہو وہی طلاق کا حق بھی رکھتا ہو، جب کہ عورتوں کو مالی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ خود ان کے نفس کا نفقہ بھی ان کے ذمہ نہیں ہے، میراث میں جس ترتیب سے وارثین ہوتے ہیں ان کو عورتوں کے نان ونفقہ کا ذمہ دار بنایاگیا ہے، اگر عورتوں کو حق طلاق دے دیا جاتا تو پھر عقد نکاح کی حفاظت وہ نہیں کرپاتی کیوں کہ مالی ذمہ داری عائد نہ ہونے کی وجہ سے جیسے پہلا نکاح آسان تھا، دوسرا نکاح اسی طرح آسان ہوگا، اور اس طرح عورتیں نکاح کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی رقم مہر اور نفقہ ایام عدت کو حاصل کرنے کے لیے طلاق کو بہانہ بناتی اور نکاح کم اور کاروبار زیادہ ہوجاتا۔
رہی بات طلاق کے صحیح ہونے کے لیے عورت کی رضامندی کو اسلام نے کیوں ضروری قرار نہیں دیا، جبکہ نکاح کے لیے اس کی اجازت کو ضروری قرار دیا گیاہے، اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح میں عورت سے پوچھنا اور اس کی رضامندی کے بغیر نکاح کو کالعدم قراردینا ہی خود ان خواتین کی عزت وشرافت کی دلیل ہے، جو کہ اسلام نے اسے عطا کی ہے، ورنہ اسلام سے قبل عورتوں کی مرضی کے بغیر اولیا ء اور سرپرست ان کا نکاح کردیا کرتے تھے اور عورتوں کو اس پر چوں چراں کرنے کا حق نہیں رہتاتھا، اسے قبول کرنا ہی بہر صورت ضروری تھا، ان کے مزاج اور فطرت کو دیکھتے ہوئے شریعت نے طلاق کا حق اسے نہ دے کر بھی شریعت نے خواتین پر احسان کیا ہے، لہٰذا یہ ظلم نہیں بلکہ عورتوں کے ساتھ شریعت ِاسلامیہ کا عدل ہے۔
اسلام کا یہ تصور اور عدل بالکل صحیح اور درست ثابت ہوا، چنانچہ مغربی عیسائی ممالک میں طلاق کا تصور ہی نہیں تھا، لہٰذا ازدواجی زندگی کے مشکلات کے حل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں قانون طلاق لانا پڑا اور طلاق دینے کا حق مردو عورت دونوں کو دے دیا گیا، اس کی وجہ سے شرح طلاق میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا کہ وہ ناقابل بیان ہے، ازدواجی زندگی کے تانے بانے بکھر گئے، طلاق کی شرح اتنی زیادہ ہوگئی کہ نکاح کم ہورہے ہیں اور طلاقیں زیاد ہ ہورہی ہیں۔
عورت کا حق خلع: خلع عورت کا وہ حق ہے جو اسے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں دیا گیا ہے۔ مرد تو اپنا حقِّ طلاق ایسے موقعوں پر استعمال کرلیتا ہے جب وہ اپنی بیوی سے ناخوش ہو۔ لیکن اگر عورت کو ایسی ضرورت پیش آجائے کہ وہ خاوند سے گلو خلاصی کرانا چاہے، مثلاً شوہر نامرد ہو، وہ حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا وہ نان نفقہ دینے پر قادر نہ ہو یا قادر تو ہو لیکن دیتا نہ ہو، یا کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جس کا علم عورت کو شادی کے بعد ہو، یا وہ سخت ظالم و جابر قسم کا ہو جو عورت پر بے جا ظلم و تشدد کرتا ہو، یا شکل و صورت کے اعتبار سے عورت کے لیے ناقابل برداشت اور اس کا اس کے ساتھ نباہ مشکل ہو، اس قسم کی تمام صورتوں میں شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر کا دیا ہوا حقِّ مہر اُس کو واپس کرکے اس سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر شوہر عورت کی خواہش اور مطالبے پر اُس کو طلاق دے دے تو ٹھیک ہے، مسئلہ نہایت آسانی سے گھر کے اندر ہی حل ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر مرد مذکورہ معقول وجوہات کے باوجود عورت کی خواہش اورمطالبے کو تسلیم نہ کرے، تو پھرشرعی عدالت یا پنچایت یا دارالقضاء کے ذریعہ اس مسئلے کو حل کیا جائے گا، اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچے کہ عورت کا مطالبہ علیحدگی بالکل جائز ہے تو وہ مرد کو طلاق دینے کا حکم دے گا، اگر وہ پھر بھی طلاق نہ دے تو عدالت یا پنچایت فسخ ِنکاح کا حکم جاری کرے گی جو مرد کے طلاق کے قائم مقام ہوجائے گا اور عورت عدتِ خلع (ایک حیض) گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ شادی کرنے کی مجاز ہوگی۔خلع سے متعلق اللہ فرماتاہے:
{…إِلَّا أَنْ يَّخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللّٰهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللّٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰهِ فَأُولٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ}
’’…مگر یہ کہ دونوں ڈریں کہ اللہ کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ عورت معاوضہ دے کر پیچھا چھڑا لے، یہ اللہ کی حدیں ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو، اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا سو وہی ظالم ہیں‘‘
[البقرۃ:۲۲۹]
آیت بالا میں {فَإِنْ خِفْتُمْ} (پس اگر تم ڈرو…) میں خطاب خاندان کے اولیاء(ذمّے داران) معاشرے کے معزز افراد یا اسلامی حکومت کے افسرانِ سے ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والا نزاع، اُن کی آپس کی بات چیت سے ختم نہ ہوسکے تو تم مداخلت کرکے اس کو حل کرو اور عورت سے فدیہ (حق مہر) لے کر مرد کو دو اور اس سے طلاق دلواؤ، اگر وہ طلاق نہ دے تو تم فسخ نکاح کا آرڈر جاری کرکے اُن کے درمیان علیحدگی کروا دو۔
خلع کے باب میں عہد ِرسالت میں سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا واقعہ اصل ہے جو پیدائشی طورسے خوش شکل نہ تھے جب کہ اُن کی بیوی خوبرو تھیں، اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں آکر نہایت مناسب الفاظ میں اس بات کو بیان کیا او رکہا کہ میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق کے بارے میں تو اُن کو معتوب نہیں کرتی لیکن ان کے ساتھ رہنے میں مجھے ناشکری کا اندیشہ ہے۔ رسول اللہ ﷺنے اس کی بات سن کر صورتِ حال کا اندازہ کرلیا او راس سے پوچھا: کیا تو ثابت بن قیس کو وہ باغ واپس کرنے پر آمادہ ہے جو اس نے تجھے (حق مہر میں) دیا تھا؟ اس نے کہا! ہاں۔ آپ نے ثابت بن قیس کو حکم دیا: اس سے اپنا باغ لے لو اور اس کو طلاق دے دو، چنانچہ اُنہوں نے طلاق دے دی۔ [صحیح بخاری: ۵۲۷۳]
یہاں پر عورت کے حقِّ خلع کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ ظلم کی چکی میں پسنے یا اپنی ازدواجی زندگی کی مشکلات سے نجات کے لیے ذمہ دارانہ انداز میں اپنے شوہر نہیں تو سرپرستوں سے علاحدگی کا مطالبہ کرسکتی ہے اور حدیث کے اندر رسول اللہ ﷺ کا سیدنا ثابت کو طلاق کا حکم دینا ایک حاکم کے طور پر تھا اور ظاہر بات ہے کہ خاندانی معاملات و نزاعات میں عدالت یا پنچایت کی مداخلت ناگزیر ہے، اگر عدالت کو یہ حق نہیں دیا جائے گا یا اُس کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جائے گا تو پھر ان نزاعات کا حل آخر کس طرح نکالا جائے گا؟
ہاں اگر بلا عذر شرعی اور کسی معقول سبب کے بغیر کوئی خاتون اپنے خاوند سے خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اس سلسلہ میں ثوبان مولیٰ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں: ’’أيُّمَا امرأةٍ سألت زوجَها طلاقًا فى غيرِ ما بأسٍ فحرامٌ عليها رائحةُ الجنةِ‘‘ ’’جو بھی خاتون بلاسبب اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے‘‘
[صحیح سنن ابی داؤد للالبانی:۲۲۲۶]
حل وعلاج : موجودہ دور میں مسلم سماج کے اندر طلاق وخلع کی شرح میں آئے دن اضافہ ہورہاہے اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اوپر ذکر کرد طلاق وخلع کے اسباب وعوامل سے حتی الامکان کنارہ کشی اختیار کرنا چاہئے نیز ازدواجی زندگی کے آغاز سے قبل اور بعد میں شرعی اصولوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ،مثلاً رشتوں کے انتخاب کے وقت نیتوں کودرست کرتے ہوے دیندار اور اخلاق مند رشتہ کا انتخاب اولین ترجیحات میں شامل ہو ،عجلت و جلد بازی کے بجائے چھان بین ، رائے ومشورہ نیز استخارہ کی سنت کو بروئے کار لایا جائے ،شرعی رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منگیتر کو محارم کی موجودگی میں دیکھاجائے اور جبر و اکراہ کے بجائے طرفین کی چاہت وآمادگی کی صورت ہی میں رشتہ ٔازدواج سے منسلک ہوا جائے ۔ چونکہ اسلامی رو سے یہ عبادت ہے اور اس زندگی میں زوجہ کے لیے بہترین انسان لوگوں میں بہتر شخص ہے اس لیے صبر وتحمل ،حاسدین اور رفقاء سو سے اجتناب کرے ،جوائنٹ فیملی اور اس کے آزار سے اپنی ازدواجی زندگی کو داغدار ہونے سے بچائے ،ہرفرد اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے،وہ اس رشتہ کو اہل مغرب کی طرح سوشل کنٹریکٹ نہ سمجھ کر ایک مذہبی فریضہ کے طور پر سرانجام دے اور گھر کے ماحول کو خالص دینی بنائے تو قوی امکان ہے کہ فرائض کی انجام دہی کی صورت میں طلاق وخلع کی شرحوں میں کمی واقع ہوگی گھر اجڑنے سے یکسر محفوظ رہیں گے ، بچوں کی صالح تربیت کا بندوبست ہوگا اور ایک صالح اور مثالی گھرانہ اللہ کے فضل وکرم سے وجود میں آئے گا۔