Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • طلاق اور خلع کے بعد بچوں کی کفالت

    اسلام کا عائلی نظام دنیا والوں کے لیے رحمت ہی رحمت ہے کیونکہ اس نظام کو بنانے والا لطیف ،خبیر اور حکیم ہے اسلام کے اسی عائلی نظام کو ہم مسلم پرسنل لاء کہتے ہیں ،اس میں نکاح طلاق خلع نان و نفقہ وراثت وصیت رضاعت اور حضانت وغیرہ شامل ہیں حضانت کا مطلب یہ کہ میاں بیوی اگر الگ ہو گئے تو بچوں کی پرورش کون کرے گا، بچے اگر چھوٹے ہیں تو کون ان کی پرورش کا ذمہ دار ہوگا، اس طرح کے بہت سے مسائل اس کے اندر آتے ہیں، موجودہ دور میں ان مسائل کو عوام الناس تک پہنچانے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ حکومت ہند یکساں سول کوڈ کا مسئلہ کھڑا کر رہی ہے، اس لیے اپنوں اور غیروں کے علم میں ان مسائل کو جن کا تعلق عائلی نظام سے ہے لانے کی اور ان کی اہمیت بتانے کی ضرورت ہے۔
    قابل مبارک باد ہیں اسلامک انفارمیشن سینٹر ممبئی کے ذمہ داران جنہوں نے عین موقع پر دکھتی نبض پر انگلی رکھی ہے اور عوام و خواص کو اسلامی عائلی نظام سے روشناس کرانے کے لیے اتنی عظیم الشان کانفرنس بعنوان’’ اسلام کا عائلی نظام‘‘ بتاریخ۱۷؍ ستمبر ۲۰۲۳ء بروز اتوار زیر صدارت فضیلۃ الشیخ ابوالعاص وحیدی حفظہ اللہ منعقد کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔
    اللہ تعالیٰ ذمہ داران سینٹر اور جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ بائیکلہ ممبئی کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور ان کی کاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے۔آمین
    اس عظیم الشان کانفرنس میں اسلام کے عائلی نظام کا ایک جزء طلاق اور خلع کے بعد بچوں کی کفالت میرے اس مقالے کا موضوع ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح لکھنے ،بولنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
    اس مقالے میں جو بات صواب اور درست ہے وہ من جانب اللہ ہے اور جو غلطیاں اور لغزشیں ہوں وہ میری اور شیطان کی طرف سے ہیں، قبل از علم ان سے رجوع کا اعلان کرتا ہوں۔
    حق حضانت ایک مشترک حق ہے، ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے لیکن جب طلاق یا خلع کے ذریعے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہو جائے اور بچے ابھی چھوٹے ہوں تو اس صورت میں عمومی قاعدہ اور اتفاقی مسئلہ یہی ہے کہ ماں کا حق حضانت سب پر مقدم ہے جب تک اس نے عدت کے بعد کسی اور شخص سے نکاح نہ کیا ہو۔
    ماں کو بچے کی پرورش کا حق حاصل ہونے کے بارے میں قرآن حکیم میں کوئی آیت ظاہر نص کے طور پر تو موجود نہیں مگر اقتضاء النص کے طور پر فقہائے کرام کے نزدیک یہ آیت رضاعت ہے:
    {وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ…}
    ’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ حکم اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے ‘‘
    [ البقرۃ:۲۳۳]
    اسی طرح سے سنن ابو داؤد کی وہ حدیث بھی دلیل ہے جسے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے:
    أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنَّ ابْنِي هٰذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاء، وَثَدْيِي لَهُ سِقَاء، وَحِجْرِي لَهُ حِوَاء، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي، وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: ’’أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكَحِيْ‘‘۔
    ایک عورت عرض گزار ہوئی: یا رسول اللہ! یہ میرا بیٹا ہے، میرا پیٹ اس کے لیے برتن تھا، میری چھاتی (پستان) اس کے لیے مشکیزہ تھی اور میری آغوش اس کے لیے جائے قرار تھی، اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب وہ مجھ سے اس بچے کو بھی چھین لینا چاہتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک تو دوسرا نکاح نہیں کرتی اس وقت تک تو ہی اس کی زیادہ حقدار ہے‘‘۔
    [ سنن ابی داؤد:۲۲۷۶،حسن]
    اس حدیث میں مذکور تین اوصاف ایسے ہیں جو بچے کی پرورش میں ماں کے ساتھ ہی خاص ہیں:
    ۱۔ ماں کا پیٹ بچے کے لیے برتن ہے۔ ۲۔ماں کی چھاتی بچے کے لیے مشکیزہ ہے ۔۳۔ماں کی آغوش بچے کے لیے جائے قرار ہے۔
    ظاہر ہے کہ یہ تینوں چیزیں ماں کے علاوہ اور کہیں میسر نہیں ہو سکتیں، اس لیے پرورش کے استحقاق میں ماں کو دیگر لوگوں پر فوقیت حاصل ہے۔
    علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’بچے کی تربیت کے لیے باپ سے زیادہ حقدار ماں ہے کیونکہ وہ زیادہ رحم دل اور اس کی تربیت کو زیادہ سمجھنے والی اور زیادہ صبر کرنے والی ہے‘‘
    [التعلیق علٰی سبل السلام للشیخ عبد اللّٰہ بسام: ۳؍ ۱۵۶۱]
    امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بچہ جب نا سمجھ ہو تو ماں اس کی پرورش کی زیادہ حقدار ہے اس لیے کہ یہ بچے کا حق ہے، والدین کا نہیں کیونکہ ماں بچے کے حق میں باپ کی نسبت زیادہ نرم دل اور رقیق ہوتی ہے‘‘[الام:۸؍۲۳۵]
    امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بچہ اور عدیم العقل کی پرورش کی ماں زیادہ حقدار ہوتی ہے جبکہ اسے طلاق دے دی گئی ہو کیونکہ بچے سے زیادہ قریب اور زیادہ شفقت رکھنے والی ماں ہوا کرتی ہے اگرچہ اس قرب و شفقت میں باپ کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا ہے مگر اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ باپ بھی ماں جیسی شفقت نہیں دے سکتا کیونکہ وہ بذات خود بچے کی حضانت نہیں کیا کرتا بلکہ وہ یہ کام اپنی بیوی کے سپرد کر دیتا ہے‘‘
    [المغنی:۷؍۶۱۴،۷۱۳]
    بچوں کی پرورش کا حق ماں کے لیے ہے اور وہ اس وقت تک اسے اپنے پاس رکھ سکتی ہے جب تک کہ بچے کو کھانے، پینے اور رفع حاجت کے لیے ماں کی ضرورت پڑی اور اس کی مدت فقہاء نے سن شعور کو متعین کیا ہے اور عمر کی تعیین کرتے ہوئے لڑکے کے لیے سات برس اور لڑکی کے لیے نو برس یا حیض آنے تک کی بات کہی ہے۔
    لیکن اگر بچے کی ماں نے نکاح کر لیا تو استحقاق اور برتری کا یہ حق ساقط ہو جائے گا، جیسا کہ گزشتہ حدیث میں یہ لفظ ہے’’ما لم تنکحی‘‘ ’’ جب تک تو دوسرا نکاح نہیں کرتی‘‘، اسی طرح سے اگر عورت بد کردار اور بد چلن ہو جس سے بچے کے اخلاق پر برا اثر پڑے گا تو ایسی صورت میں بھی حق پرورش باطل ہوگا۔
    اسی طرح خدانخواستہ ماں مرتد ہو جائے، دوسرا دین یا دھرم اپنا لے اور بد دین ہو جائے تو بھی حق پرورش باطل ہو جائے گا کیونکہ بچہ مسلمان ہے اور ماں کے مرتد ہونے کی صورت میں بچے کا دین خطرے میں پڑ جائے گا۔
    اگر بچہ سن تمیز کو پہنچ جائے اور مزید حضانت کی اس طرح حاجت نہ ہو جس طرح ابتداء میں ہوتی ہے تو اس صورت میں دیگر مرجحات نہ ہونے کی صورت میں بچے کو اختیار دیا جائے گا اور وہ ماں باپ میں سے جس کا انتخاب کرے اسے رکھنے کا حق حاصل ہو جائے گا۔
    اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے:
    عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: ’’إِنَّ امْرَأَةً جَاء َتْ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي وَقَدْ نَفَعَنِي وَسَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ، فَجَائَ زَوْجُهَا وَقَالَ: مَنْ يُخَاصِمُنِي فِي ابْنِي؟ فَقَالَ: يَا غُلَامُ، هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ، فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ‘‘
    ابی میمونہ سے روایت ہے کہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا تو فرمایا:’’ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! میرا شوہر چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو لے جائے جب کہ یہ اب مجھے فائدہ بھی دیتا ہے اور میرے لیے ابو عنبہ کے کنویں سے پانی بھی لاتا ہے، اس دوران اس بچے کا باپ بھی آیا اور کہا کہ کون میرے لڑکے کے بارے میں مجھ سے جھگڑ رہا ہے؟ تو نبی ﷺ نے بچے سے فرمایا: یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے، دونوں میں سے جس کا چاہو ہاتھ پکڑ لو۔اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑا اور ماں اسے اپنے ساتھ لے گئی‘‘
    [سنن النسائی: ۳۴۹۶،صحیح]
    شیخ البانی رحمہ اللہ نے( الروضۃ الندیہ:۲؍۳۳۸) کی تعلیقات میں اس کے تحت لکھا ہے:
    ’’وينبغي ان لا يكون هذا باطلاقه بل يقيد بما اذا حصلت به مصلحة الولد، والا فلا يلتفت الي اختبار الصبي لانه ضعيف العقل‘‘
    ’’مناسب یہ ہے کہ اس کو مطلقاً اور عمومی حکم سمجھنے کے بجائے بچے کی مصلحت کے ساتھ مقید کیا جائے، محض بچے کے انتخاب کو بنیاد نہ بنایا جائے اس لیے کہ ابھی وہ ضعیف العقل ہے‘‘
    (صحیح سنن ابو داؤد ،کتاب الطلاق ، باب اذا اسلم احد الابوین مع من یکون الولد،ح: ۱۹۶۳)میں حضرت رافع بن سنان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ خود مسلمان ہو گئے اور ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، تو رسول اللہ ﷺنے ماں کو ایک طرف اور باپ کو دوسری طرف بیٹھا دیا اور بچے کو دونوں کے درمیان بیٹھا دیا تو بچہ ماں کی جانب مائل ہوا، رسول اللہ ﷺنے دعا کی: ’’اللهم اهده‘‘’’اے اللہ اسے ہدایت دے‘‘، اس پر وہ بچہ باپ کی طرف مائل ہو گیا اور باپ نے بچے کو پکڑ لیا۔
    اسی قسم کا دوسرا واقعہ ہے جس میں باپ کافر ہے اور ماں مسلمان، بچہ باپ کی طرف مائل ہوا تو آپ ﷺ نے دعا کیا تو بچہ ماں کی طرف مائل ہو گیا۔ [مسند احمد:۲؍۴۴۷]
    مذکورہ دونوں روایتوں میں بھی بچہ کو اختیار دینے کا مسئلہ ہے جبکہ دونوں واقعے میں والدین میں سے ایک کافر ہے اور دونوں واقعے میں یہ بھی مذکور ہوا کہ بچہ کافر باپ یا کافر ماں کی جانب مائل ہوا لیکن نبی کریم ﷺ نے دعا کیا تو بچہ مسلمان باپ اور مسلمان ماں کی طرف مائل ہو گیا۔
    نبی کریم ﷺ مستجاب الدعوات تھے، اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی ساری دعائیں قبول کرتا تھا لیکن آج ہمارے اعمال بڑے کھوٹے ہیں، اس بنا پر ہماری ہر دعا قبول نہیں ہوتی، اس لیے موجودہ حالات میں ایسی صورتحال پیش آنے پر بچے کو اختیار دینے کے بجائے اس کی مصلحت اور خیر خواہی کے پیش ِنظر مسلمان باپ یا مسلمان ماں کے حوالے کر دیا جائے گا تاکہ اس کی پرورش اسلام پر ہو اور وہ کافر ہونے کے بجائے اسلام کے دائرے میں نشونما پائے۔ (ہذا ما عندی واللّٰہ أعلم الصواب)
    علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس میں بچے کے لیے مصلحت اور خیر خواہی کا پہلو زیادہ ہو اسے اختیار کرنا چاہیے، اگر باپ کے مقابلے میں ماں زیادہ صحیح تربیت اور حفاظت کر سکتی ہو اور غیرت مند عورت ہو تو ماں کو باپ پر ترجیح دی جائے گی، اس صورت میں قرعہ اندازی یا اختیار میں سے کسی چیز کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا کیونکہ بچہ تو کم فہم و کم عقل اور نادان و نا عاقبت اندیش ہوتا ہے، ماں باپ میں سے جو بچے کا زیادہ خیال رکھنے والا ہو بچہ اس کے حوالے کر دیا جائے (اگر ماں سے زیادہ باپ میں یہ اوصاف موجود ہوں تو بچہ باپ کے حوالے کر دیا جائے پھر وہی اس کی تربیت کا ذمہ دار ہوگا) شریعت اس کے علاوہ کسی چیز کی متحمل نہیں ہو سکتی اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ:’’بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو‘‘ (سنن ابو داؤد) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:’’اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ‘‘(التحریم) پس جب ماں اسے مکتب و مدرسہ میں چھوڑتی ہو، اسے قرآن مجید سکھاتی ہو اور بچہ کھیل کود اور اپنے ساتھیوں سے میل جول ہی کو ترجیح دیتا ہو اور اس کا والد اسے ان کاموں کی اجازت دیتا ہو تو ماں ہی اس کی زیادہ مستحق ہے، ایسی صورت میں اختیار اور قرعہ اندازی کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اسی طرح اس کے برعکس (اگر والد دین سکھاتا ہو اور ماں کھیل کود کی اجازت دیتی ہو تو باپ زیادہ مستحق) ہے ۔[زاد المعاد:۵؍۴۷۵، بحوالہ فقہ الحدیث:۲؍۲۴۲]
    ماں کے بعد بچے کی حضانت کی سب سے زیادہ مستحق اس کی خالہ ہے، اگر ماں موجود نہیں ہے یا ماں مرتد ہو گئی ہے یا بد کردار ہے یا طلاق اور خلع کے بعد فوراً ماں نے کسی دوسرے سے نکاح کر لیا ہے تو ایسی صورت میں بچہ کی پرورش کی سب سے زیادہ حقدار اس کی خالہ ہوگی۔
    اس کی دلیل وہ روایت ہے جو صحیح بخاری حدیث نمبر ۲۶۹۹میں ہے جب نبی کریم ﷺ صلح حدیبیہ کے بعد سن سات ہجری میں عمرہ کرنے گئے اور شرط کے مطابق تین دن رہ کر واپس ہونے لگے تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی نے آپ ﷺ کا پیچھا کیا اور چچا جان چچا جان کہہ کر صدا لگا رہی تھی تو علی رضی اللہ عنہ نے اسے اٹھا لیا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اس کی دیکھ ریکھ کرو، تو علی، زید اور جعفر رضی اللہ عنہم جھگڑ پڑے، علی نے کہا کہ میں اس کا سب سے زیادہ حقدار ہوں کیونکہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، جعفر نے کہا کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری زوجیت میں ہے، اور زید نے کہا کہ یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے اس لیے میں اس کا سب سے زیادہ حقدار ہوں، تو نبی ﷺ نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا فیصلہ اس کی خالہ کے حق میں کیا اور فرمایا :’’الخالة بمنزلة الأم ‘‘ ’’خالہ ماں کے درجے میں ہے‘‘۔
    حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
    ’’والجارية عند خالتها فإن الخالة والدة‘‘
    ’’لڑکی اپنے خالہ کے پاس ہوگی کیونکہ خالہ ماں ہے‘‘
    [صحیح الجامع:۱۳۴۷]
    مذکورہ احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ خالہ بچے کی پرورش کرنے میں ماں کے درجے میں ہے، اگرچہ کچھ فقہاء نے ماں کے بعد نانی پھر دادی اور اس کے بعد خالہ کا نام لیا ہے لیکن مذکورہ دونوں روایت اس سلسلے میں بڑی صریح ہیں، ایک میں خالہ کو ماں کے منزلے میں کہا گیا ہے تو دوسری میں خالہ کو ماں کہا گیا ہے، اس لیے جب پیدا کرنے والی ماں میں پرورش کی اہلیت نہ رہ جائے یا ماں موجود ہی نہ ہو تو ماں کے منزلے میں ہونے والی عورت ہی کو استحقاقِ پرورش میں اولیت دی جائے گی۔ (واللہ اعلم بالصواب)
    تیسرے نمبر پر بچے کا سب سے زیادہ مستحق اس کا باپ ہے، اس کی دو دلیلیں ہیں:
    ۱۔ سنن ابو داؤد کی وہ مذکورہ روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے شکایت کرنے والی عورت کو بچے کی پرورش کا حقدار بتاتے ہوئے شرط لگائی تھی کہ جب تک تم نکاح نہ کرو بچے کی پرورش کے زیادہ حقدار ہو لیکن کسی اجنبی سے نکاح کے بعد تمہارا یہ حق ساقط ہو جائے گا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نکاح کے بعد بچہ باپ کی پرورش و نگہداشت میں رہے گا۔
    ۲۔ دوسری دلیل سنن ابو داؤد ہی کی وہ روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے بچے کو ماں اور باپ کے درمیان اختیار دیا ہے، لہٰذا ماں کے بعد باپ ہی بچے کا مستحق ہے لیکن اس کے باوجود خالہ کو دوسرے نمبر پر اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ نبی ﷺ نے خالہ کو ماں کا درجہ دیا ہے، اس لیے ماں کے بعد خالہ اور اس کے بعد باپ کا حق ہوگا۔
    لیکن اگر بچہ کی ماں، خالہ اور باپ موجود نہ ہوں تو جماعت کے یا گاؤں کے باشعور افراد پر مشتمل کمیٹی کو چاہیے کہ یہ دیکھے کہ اس بچے کے قریبی رشتہ داروں میں زیادہ خوش اسلوبی، شفقت اور رحم دلی کے ساتھ کون اس فریضے کو انجام دے سکتا ہے، اسی کے حوالے اس بچے کو کر دیں کیونکہ بچہ ایسے شخص کا محتاج ہے جو اس کی پرورش، تربیت اور دیکھ بھال قاعدے سے کر سکے اور جس کے پاس بچے کے رہنے میں اس کے لیے دنیوی و اخروی فائدہ ہو، واضح رہے کہ یہ استحقاق صغر سنی کی صورت میں ہے۔
    ضمنی طور پر یہ مسئلہ بھی ذہن نشین کر لینے کی ضرورت ہے کہ طلاق یا خلع کے بعد بچے کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کے اخراجات کی ذمہ داری بچے کے والد پر ہوگی، پرورش کرنے والے کی مناسب اجرت اور بچے پر ہونے والے اخراجات کا بار بچے کے باپ کو وسعت کے مطابق برداشت کرنا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{وَعَلَي الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ} [سورۃ البقرۃ:۲۳۳]
    اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمے ان کا روٹی اور کپڑا ہے جو دستور کے مطابق ہو (مولود لہ سے مراد باپ ہے)
    طلاق ہو جانے کی صورت میں شیر خوار بچے اور اس کی ماں کی کفالت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بڑا پیچیدہ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ شریعت سے انحراف ہے، اگر حکم الہٰی کے مطابق خاوند اپنی طاقت کے مطابق مطلقہ عورت کی روٹی اور کپڑے کا ذمہ دار ہو جس طرح کی اس آیت میں کہا جا رہا ہے تو نہایت آسانی سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے (تفسیر احسن البیان، حافظ صلاح الدین یوسف)
    امام ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں جب آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا اور اس سے اس کا ایک لڑکا ہے اور عورت نے اس کے بچے کو دودھ پلایا تو باپ پر اس عورت کا خرچہ اور کپڑا دستور کے مطابق واجب ہو جاتا ہے (تفسیر ابن کثیر)
    اگر باپ موجود نہیں ہے تو’’وعلي الوارث مثل ذلك‘‘ وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، باپ کے فوت ہو جانے کے بعد یہی ذمہ داری وارثوں کی ہے کہ وہ بچے کی ماں کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کریں، تاکہ نہ عورت کو تکلیف ہو اور نہ بچے کی پرورش اور نگہداشت متأثر ہو۔
    حرف آخر: مذکورہ تفصیلات سے جو بات ہمارے سامنے روز روشن کی طرح کھل کر عیاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے بچوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا بلکہ ان کی نگہداشت کا بندوبست کرتے ہوئے اصول اور ضابطے متعین کیے ہیں اور لوگوں کے کندھوں پر ان کی پرورش اور دیکھ ریکھ کی ذمہ داری ڈالی ہے۔
    چھوٹے بچوں کی پرورش کی سب سے زیادہ حقدار ان کی ماں ہے پھر خالہ اور اس کے بعد باپ، سن شعور کو پہنچنے کے بعد ان کی مصلحت اور خیر خواہی کے پیش نظر والدین میں سے جس کے پاس رہنا ان کے لیے دنیوی و اخروی فلاح کا ضامن ہو ان کے پاس رہیں گے۔
    پرورش کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری بچوں کے باپ کی ہے، وہ دستور کے مطابق اپنی وسعت کے اعتبار سے بچوں کے اخراجات اور ان کی ماں کی روٹی اور کپڑا کا متحمل ہوگا اور اس کی وفات کے بعد اس کے وارثوں کے کندھوں پر یہ ذمہ داری اسلام نے ڈالی ہے۔
    ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے عائلی نظام و معاشرتی خاکے کو انسانی زندگی میں برتا جائے اور بیرونی و مغربی طرز زندگی کو خیرباد کہتے ہوئے خالص اسلامی نظام زندگی کی طرف قدم بڑھایا جائے جس کی نہ صرف مشرقی لوگوں کو ضرورت ہے بلکہ یہ یورپ اور مغرب کے لیے بھی ناگزیر بن چکا ہے جہاں پر معاشرتی نظام ہلاکت و بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے، اجتماعیت کے پرخچے اڑ چکے ہیں، انسانیت اور آپسی میل ملاپ نے رخصت لے لی ہے، باہمی تعاون و نصرت گویا امر موہوم بن چکے ہیں، ایسے میں اگر انہیں کوئی سنبھالا دے سکتا ہے اور عمدہ معاشرتی و عائلی نظام پیش کر سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے، اب یہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم کس حد تک اسلامی پیغام کو عام کرتے ہیں اور جہنم کدہ بنی انسانیت کو پیغام محمدی سے روشناس کراتے ہیں اور باطل پرستوں کی دنیا میں اسلام کی حق پرستی ثابت کرتے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings