Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • گود لینے کا حکم اور یتیموں کی کفالت

    شریعت مطہرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ایک جامع شریعت ہے جس میں کسی بھی معاشرہ کے سماجی مسائل میں رہنمائی کابھی ایک عظیم باب موجود ہے، زیر نظر تحریر دراصل ایک ایسے ہی اہم اور حساس سماجی مسئلہ سے متعلق نکات پر مشتمل ہے، یہ ایک پکے مضمون کے بجائے کچی تحریر ہے جس کا مقصد بس بروقت چند نکات کو علمی حوالوں کے ساتھ پیش کردینا تھا ، امید ہے قارئین کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
    مسئلہ مذکورہ کا خلاصہ چند نکات میں بیان ہوسکتا ہے جو درج ذیل ہیں ۔
    (۱) عربوں میں یہ رواج عام تھا کہ وہ کسی بھی بچہ کو گود لے لیتے تو اسے بالکل اپنے سگے بیٹے کی طرح تمام معاملات میں برابر کا شریک مانتے تھے۔ نسبت ، وراثت، اس متبنی (گود لیے گئے بیٹے) کی بیوی کو سگی بہو ماننا جیسے مسائل عام تھے ۔
    عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا:’’أَنَّ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ، مَوْلٰي رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنَّا نَدْعُوهُ إِلَّا زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّي نَزَلَ القُرْآنُ:{ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ}
    [الاحزاب:۵]
    حضرت عبداللہ بن عمر ر ضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’کہ رسول اللہ ﷺ کے غلام زید بن حارثہ(جو رسول اللہ ﷺکے متبنی (لے پالک)تھے) کو ہم لوگ زید بن محمد ہی کہا کرتے تھے(اسی نسبت سے پکارا کرتے تھے)یہاں تک کہ قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: (لے پالکوں کو ان کے(حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کرکے بلاؤ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے)‘‘
    [صحیح بخاری:۴۷۸۲،صحیح مسلم:۲۴۲۵]
    (۲) شریعت اسلامیہ نے اس رواج کو ختم کردیا اور یہ مسئلہ بیان کیا کہ متبنیٰ بنانا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی کسی کو اپنا متبنی بنالے تب بھی وہ بیٹا نہیں قرار پائے گا،البتہ کسی بچہ کو اپنی کفالت میں لیا جاسکتا ہے اور کفالت کی ایسی صورت میں گود لیا گیا (زیر کفالت)بچہ بیٹا نہیں ہوتا اور نہ ہی بیٹوں جیسے حقوق کا مستحق ہوگا،وہ اپنے حقیقی ماں باپ ہی کا بیٹا مانا جائے گا اور انہی کی طرف منسوب ہوگا۔
    قال اللّٰه :{وَما جَعَلَ أَدْعِيائَكُمْ أَبْنائَكُمْ ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ وَاللّٰهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ۔ ادْعُوهُمْ لِآبائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبائَهُمْ فَإِخْوانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ فِيما أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكانَ اللّٰهُ غَفُوراً رَحِيماً }
    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیںاللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے اور وہ سیدھی راہ سجھاتا ہے لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کرکے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی)باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیںتم سے بھول چوک میں جوکچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جو جس کا تم ارادہ دل سے کرو‘‘
    [الأحزاب: ۴۔۵]
    وقال عزوجل أيضا {فَلَمَّا قَضي زَيْدٌ مِنْها وَطَراً زَوَّجْناكَها لِكَيْ لا يَكُونَ عَلَي الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْواجِ أَدْعِيائِهِمْ إِذا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَراً وَكانَ أَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُولاً }
    اللہ تعالیٰ کا مزید ارشاد ہے :’’ پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلے ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیاتاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں ، اللہ کا (یہ) حکم تو ہوکر ہی رہنے والا تھا ‘‘
    [الأحزاب: ۳۷]
    (۳) اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکورہ بالا ممانعت اور تشریع کے نازل ہوجانے کے بعد کسی اور کے بیٹے کوگود لے کر اپنا نام دینا یا کسی بچہ کا آگے چل کر اپنے حقیقی باپ اور خاندان کے بجائے کسی اور باپ یا خاندان کی طرف منسوب ہونا شریعت اسلامیہ کی نظر میں ناجائز اور حرام ہے اور ایسا کرنے والا گناہ کبیرہ کامرتکب ہے ۔نبی ﷺ سے متعدد احادیث میں اس کی ممانعت ، مذمت اور ایسا کرنے پر وعید وارد ہے ۔
    فعن على رضي اللّٰه عنه مرفوعا فى حديث طويل:’’…وَمَنِ ادَّعَي إِلَي غَيْرِ أَبِيهِ، أَوْ تَوَلَّي غَيْرَ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللّٰهِ، وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللّٰهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا‘‘
    حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں مرفوعاً مروی ہے :’’کہ نبی ﷺ نے ارشادفرمایا (…اور جو اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کومنسوب کرے، یا غلام اپنے حقیقی مالک کے علاوہ کسی اور سے اپنا تعلق جوڑے تو اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ،اللہ تعالیٰ روز قیامت ایسے شخص کے فرائض اور سنن دونوں کو قبول نہیں فرمائے گا‘‘
    [صحیح مسلم:۴۶۷،وحم:۶۱۵]
    و عن أنس ابْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ مَنِ ادَّعَي إِلَي غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ ‘‘
    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو کوئی اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کی نسبت کرے حالانکہ وہ حقیقت حال سے واقف ہے تو ایسے شخص پر جنت حرام ہے‘‘
    [صحیح بخاری: ۴۳۲۶ وصحیح مسلم: ۱۱۵، و أحمد :۱۴۹۹]
    وعَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’أَفْرَي الْفِرَي مَنِ ادَّعَي إِلَي غَيْرِ أَبِيهِ‘‘
    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ آدی اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کی نسبت کرے ‘‘
    [صحیح بخاری :۳۵۰۹، وأحمد : ۵۹۹۸]
    وعن عَبْدِ اللّٰهِ بْنُ عَمْرٍو: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’مَنِ ادَّعَي إِلَي غَيْرِ أَبِيهِ لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ قَدْرِ سَبْعِينَ عَامًا أَوْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ عَامًا‘‘
    حضرت عبدا للہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’جو کوئی اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کی نسبت کرے وہ جنت کی خوشبوبھی نہیں پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی دور ی یا ستر سال کی مسافت سے پائی جاسکتی ہے ‘‘
    [أحمد: ۶۵۹۲]
    (۴) شریعت مطہرہ میں مزید یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ کسی اور کے بیٹے کوگود لے کر اپنا نام دینا یا کسی بچہ کا آگے چل کر اپنے حقیقی باپ اور خاندان کے بجائے کسی اور باپ یا خاندان کی طرف منسوب ہوناحقیقی باپ کی اجازت سے ہویا بچہ کی اپنے باپ اور خاندان سے ناراضگی اور نا پسندیدگی کی وجہ سے ہو تب بھی بہر دوصورت یہ ناجائز او رحرام ہے ۔
    أ۔ قال الإمام النووي:’’احتج قوم بهذا الحديث (من تولي قوما بغير إذن مواليه= بخاري ۱۸۷۰ومسلم ۱۵۰۸) ونحوه على جواز التولِّي بإذن مواليه، والصحيح الذى عليه الجمهور أنه لا يجوز وإن أذِنُوا، كما لا يجوز الانتسابُ إلى غير أبيه وإن أذن أبوه فيه‘‘
    امام نووی نے ایک متفق علیہ حدیث (جو کوئی اپنے آقاؤں کی اجازت کے بغیر کسی اور سے اپنی نسبت جوڑلے)کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’بعض اہل علم نے اس حدیث یا اس جیسی دیگر احادیث سے استدلال کیا ہے کہ غلام اگر اپنے حقیقی مالک کی اجازت سے اپنی نسبت کسی اور کی طرف کرلے تو یہ جائز ہے، صحیح مسئلہ یہ ہے جو کہ جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے چاہے مالکان اس کی اجازت دے دیں، جیسا کہ یہ بھی جائز نہیں ہے کہ کوئی اپنے حقیقی باپ کے علاہ کسی اور کی طرف خود کو منسوب کرے چاہے اس کا حقیقی باپ اس کی اجازت دے دے‘‘
    [المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج :ج:۱۰۔ص:۱۴۹]
    ب۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ، قَالَ: كُنْتُ تَحْتَ نَاقَةِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: ’’مَنِ ادَّعَي إِلَي غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَي إِلَي غَيْرِ مَوَالِيهِ، رَغْبَةً عَنْهُمْ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ‘‘
    حضرت عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی اونٹنی کے نیچے تھا(یعنی آپ ﷺاونٹ پر سوار تھے) تو میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا :’’جو کوئی اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کی نسبت کرے یا غلام اپنے حقیقی مالک کے علاوہ کسی اور سے اپنی نسبت جوڑے اور ایسا وہ ان سے بے رغبتی کی وجہ سے کرے تو اس پر اللہ کی ،فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کی طرف سے فرائض اور سنن دونوں قبول نہیں کئے جائیں گے ‘‘
    [النسائی: ۲۵۷۱ و إسنادہ حسن]
    (۵) اولاد سے محروم جوڑے کو شریعت مطہرہ میں کسی اور کے بچہ کو گود لینے سے منع کیا گیا ہے تو اس کے بدیل (alternate)کے طور پرشریعت مطہرہ نے یہ امکان باقی رکھا ہے کہ وہ کسی بچہ کی کفالت کرلیں،وہ کسی بھی بچہ یا بچی کے کفیل بن کر اپنی پدرانہ شفقت اور ماں کی ممتا کی تسکین کا ادھورا سہی انتظام کرلیںاور اپنے بڑھاپے کا سہارا بنالیں، کسی لاچار ومجبور بچہ کی یا کسی یتیم بچہ یابچی کی کفالت سے یہ دونوں مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں ،جذبات کی ممکن حد تک تسکین بھی اور بڑھاپے کی لاٹھی کا انتظام بھی ۔اس طرح گود لینے کے بجائے کفیل بن کر کفالت کرلینے سے شریعت میں ملحوظ بہت ساری مصلحتوں کی پامالی کا جوامکان تھا وہ بھی ختم ہوجائے گا اور دوسری طرف انسانی طبیعت اور حالات کے تقاضوں میں سے بعض کی تکمیل کاراستہ بھی مل جائے گا۔
    کسی بے سہارا بچہ یا لاچار بچی کی کفالت کرنا ، کسی یتیم کے سر پر ذمہ دار بن کرہاتھ رکھنا شریعت مطہرہ کی روشنی میں ایک عظیم نیکی اور سماج کی بہت بڑی خدمت ہے ، شریعت مطہرہ میں اس کی ترغیب اور فضیلت مکرر بیان ہوئی ہے۔ درج ذیل چند احادیث بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں ۔
    (۱) عن سهل بن سعد رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:’’أنا وكافل اليتيم فى الجنة هكذا وأشار بالسبابة والوسطي وفرج بينهما‘‘
    حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں میں فاصلہ رکھا‘‘
    [رواہ البخاري: ۵۳۰۴]
    یعنی یہ بتلایا کہ یتیم کے کفیل کا مقام روز قیامت نبیﷺ سے اسی قدر قریب ہوگا جس قدر یہ دونوں ایک دوسرے سے قریب ہیں ۔
    (۲) عن أبي الدرداء رضي اللّٰه عنه قال:’’أتي النبى ﷺ رجل يشكو قسوة قلبه؟ قال: أتحب أن يلين قلبك وتدرك حاجتك؟ ارحم اليتيم وامسح رأسه وأطعمه من طعامك يلن قلبك وتدرك حاجتك‘‘
    حضرت أبوالدرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں :’’کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص اپنے دل کی سختی کی شکایت لے کر آیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم پڑجائے اور تم اپنی مراد پالو؟ تم یتیم پر ترس کھاؤ ، اس کے سر پر ہاتھ پھیرو او ر اسے اپنے کھانے میں سے کھلاؤ ،تمہارا دل نرم پڑ جائے گا اور تمہاری مراد برآئے گی ‘‘
    [رواہ الطبراني وحسنہ الألباني:السلسلۃ الصحیحۃ:۸۵۴]
    (۳) عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال:’’الساعي على الأرملة والمسكين كالمجاهد فى سبيل اللّٰه وأحسبه قال: وكالقائم الذى لا يفتر وكالصائم لا يفطر‘‘
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ سے راوی ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا :’’ بیوہ عورت اور مسکین کے مسائل حل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے جیسا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ۔وہ رات میں قیام کرنے والے اس عابدجیسا ہے جو کبھی تھکتا نہیں ہے اور اس روزہ دار جیسا ہے جو کبھی روزہ ترک کرتا نہیں ہے‘‘
    [صحیح بخاري:۵۳۵۳، وصحیح مسلم:۲۹۸۲،واللفظ لمسلم ]
    حدیث مذکور میں لفظ گرچہ مسکین کا وارد ہے تاہم امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر عنوان قائم کرتے ہوئے یہ باب باندھا ہے:باب:’’ما جاء في السعي علی الأرملۃ والیتیم‘‘ باب :’’ بیوہ اور یتیم کے مسائل حل کرنے کی خاطر بھاگ دوڑ کرنے کا بیان ‘‘۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں یتیم کی کفالت کا تذکرہ ہے۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings