-
شوہر اور بیوی کے حقوق حرف اول:
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر فطری طور پر دوسرے انسانوں کے لیے انسیت کا مادہ رکھا ہے۔اس فطری تقاضے کی تکمیل کے لیے اس نے انسانوں کے بیچ رشتوں کو وجود بخشا اور ان رشتوں کا نقطۂ آغاز اور بنیاد رشتۂ ازدواج کو بنایا۔انسانوں کے بیچ جو پہلا رشتہ وجود میں آیا وہ یہی رشتہ ہے۔اسی سے ددھیالی،ننہالی اور سسرالی رشتے قائم ہوئے۔اس رشتے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عائلی اور خاندانی نظام کا بار اسی رشتہ پر ڈالا گیا۔ اولاد کی حسنِ تربیت، گھر کا حسنِ انتظام اور معاشرے کو صالح افراد کی فراہمی رشتۂ ازدواج کی صالحیت پر موقوف ہے،یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جو رشتۂ ازدواج کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے اسلامی تعلیمات میں موجود ہیں۔
اس کی اہمیت کے پیش ِنظر یہ سمجھنے میں ذرہ برابر بھی دشواری نہیں ہوگی کہ اسلام میں اس رشتہ کے دو ستون شوہر اور بیوی کے مکمل، معتبر، معتدل، متوازن، منتظم،خیرخواہ،دور اندیش اور صالح ہونے میں کس قدر زور دیا گیا ہوگا۔میاں بیوی کی ذمہ داریوں میں یہ وہ بنیادی اصول ہیں جن کی تکمیل ان دونوں کے جذبات،احساسات، جسمانی اور ذہنی سکون اور حقوق کی رعایت کے بغیر ممکن نہیں۔اسی مقصد کے لیے اسلام نے دونوں میں سے ہر ایک کے دوسرے پرفطری بنیادوں اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے حقوق متعین کیے اور ان کی پاسداری کی بڑی تاکید کی ہے۔ذیل کے سطور میں ان میں سے بعض بنیادی حقوق کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
شوہر پر بیوی کے حقوق :
شوہر پر بیوی کے جو حقوق مرتب ہوتے ہیں وہ دو طرح کے ہیں۔
(۱)مالی حقوق (۲)غیر مالی حقوق
مالی حقوق :
(۱) حق مہر: بیوی کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق مہر ہے جس کو اللہ نے عقد نکاح میں شوہر پر واجب کیا ہے۔دلیل: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَآتُوا النِّسَائَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْئٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا}
’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو، پھر اگر وہ اس میں سے کوئی چیز تمہارے لیے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائیں تو اسے کھالو، اس حال میں کہ مزے دار، خوشگوار ہے‘‘
[النساء:۴]
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عَلِيًّا قَالَ:’’ تَزَوَّجْتُ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ ابْنِ بِي قَالَ أَعْطِهَا شَيْئًا قُلْتُ مَا عِنْدِي مِنْ شَيْئٍ قَالَ فَأَيْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِيَّةُ قُلْتُ هِيَ عِنْدِي قَالَ فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :’’کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو (کچھ دنوں کے بعد) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فاطمہ کی میرے گھر رخصتی فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: اسے کچھ دو میں نے کہا: میرے پاس تو کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: تیری حطمی زرہ کدھر گئی؟ میں نے کہا: وہ تو میرے پاس ہے۔ آپ نے فرمایا: وہی اسے دے دو‘‘۔
[سنن نسائی:۳۳۷۵،حسن صحیح]
(۲) نان و نفقہ: اس سے مراد بیوی کی ضروریات زندگی ہیں جن کے بغیر اس کا گزارا ممکن نہ ہو، مثلاً روٹی، کپڑا، مکان،علاج و معالجہ اور زیب و زینت اختیار کرنے کے ساز و سامان۔دلیل: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَعَلَی الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ}
’’ وہ مرد جس کا بچہ ہے، اس کے ذمے معروف طریقے کے مطابق ان (عورتوں) کا کھانا اور ان کا کپڑا ہے‘‘
[البقرۃ: ۲۳۳]
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ‘‘
’’ان عورتوں کے لیے تم پر معروف طریقے سے ان کی روزی اور کپڑے کی ذمہ داری ہے‘‘
[صحیح مسلم:۱۲۱۸]
عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : سَأَلَهُ رَجُلٌ : مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَي الزَّوْجِ ؟ قَالَ:’’تُطْعِمُهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْت‘‘
حکیم بن معاویہ اپنے والد معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا:بیوی کا اپنے شوہر پر کیا حق ہے؟تو آپ نے فرمایا:’’جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ،جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ،(اس کے) چہرے پر نہ مارو،اسے بدصورت نہ کہو اور نہ (اس سے) قطع تعلق کرو مگر گھر پر ہی رکھ کر‘‘
[مسند احمد:۲۰۰۱۳،اسنادہ حسن]
وروي عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ هِنْدَ بِنْتَ عُتْبَةَ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللّٰهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ وَلَيْسَ يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَوَلَدِي إِلا مَا أَخَذْتُ مِنْهُ وَهُوَ لاَ يَعْلَمُ فَقَالَ:’’ خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ‘‘
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہند بنت عتبہ نے اللہ کے رسولﷺسے کہااے اللہ کے رسول ﷺ! (میرے شوہر) سفیان رضی اللہ عنہ ایک بخیل آدمی ہیں۔مجھے اتنا خرچہ نہیں دیتے جو میرے اور بچوں کے لیے کفایت کرے اس لیے میں ان کی لاعلمی میں ان کے پیسے لے لیتی ہوں(تو کیا یہ غلط ہے؟) آپ نے فرمایا:’’اپنے اور اپنے بچوں کی ضرورت کے بقدر لے لیا کرو‘‘
[صحیح البخاری:۴۹۴۵]
(۳) رہائش : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ}
’’ان (طلاق شدہ) عورتوں کو اپنی استطاعت کے مطابق رہنے کا گھر دو جہاں تم رہتے ہو‘‘
[الطلاق:۶]
غیر مالی حقوق :
(۱) حسن معاشرت: اس سے مراد ہے بیوی کے ساتھ اچھائی اور بھلے طریقے سے زندگی گزارنا۔ حسن معاشرت کی دلیل ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰٓي اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـئًـا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا}
’’اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو، پھر اگر تم انھیں نا پسند کرو تو ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے‘‘
[ النساء:۱۹]
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ:’’خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي‘‘
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور گھر والوں کے لیے میں تم میں سب سے بہتر ہوں‘‘
[جامع ترمذی:۳۸۹۵]
(۲) دین کا پابند بنانا: بحیثیت قوّام مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کو دین کی باتوں کا پابند بنائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ }
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس پر سخت دل، بہت مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں‘‘
[ التحریم:۶]
(۳) بیوی کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچانا: یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے کہ کسی کو بھی ضرر پہنچانا اسلام میں حرام ہے تو بیوی کو تو بدرجہ ٔاولیٰ ممنوع و حرام ہے۔دلیل:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ ‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’کسی کو ضرر پہنچانا جائز نہیں اور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے کو ضرر پہنچانا جائز ہے‘‘
[سنن ابن ماجہ:۲۳۴۱]
بیوی پر شوہر کے حقوق:
(۱) اطاعت و فرماں برداری : بیوی پر واجب ہے کہ وہ شوہر کے حکم کی تابعداری کرے۔ دلیل:
{اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَي النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ}
’’مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا‘‘
[النساء:۳۴]
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:’’إِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا، قِيلَ لَهَا : ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتِ‘‘
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ (رمضان ) کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرلے ، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اسکے جس دروازے سے داخل ہونا چاہے داخل ہوجا ‘‘
[مسند أحمد:۱۶۶۱،حسن لغیرہ]
(۲) شوہر بستر پر بلائے تو ہر حال میں شوہر کے پاس جانا الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو: دلیل:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَي فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّي تُصْبِحَ‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :’’جب مرد اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی انکار کردے توخاوند اس پر رات ناراضگی کی حالت میں بسر کرے توصبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں‘‘
[صحیح بخاری:۳۰۶۵ صحیح، مسلم:۱۴۳۶]
(۳) نافرمانی پر شرعی تنبیہ: اللہ نے شوہر کو یہ حق دیا ہے کہ اگر وہ بیوی کے اندر بد دماغی اور نافرمانی دیکھے تو شرعی ضابطوں کو سامنے رکھتے ہوئے بیوی کو تنبیہ کرے۔ دلیل:
{وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا }
’’اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو، سو انہیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہو جاؤ اور انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند، بہت بڑا ہے‘‘
[النساء:۳۶]
(۴) شوہر کے مال کی حفاظت: دلیل:
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:’’ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْإِمَامُ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا‘‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:’’تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے،چنانچہ امیر ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر ذمہ دار ہے‘‘
[صحیح بخاری:۲۴۰۹]
حرف آخر: اوپر مذکور شوہر اور بیوی کے حقوق کے علاوہ شریعت مطہرہ میں اور بھی بہت سارے حقوق ذکر کئے گئے ہیں۔ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے حقوق کی بنیاد محبت اور رحمت پر رکھی گئی ہے۔دونوں کے ایک دوسرے پر واجبی حقوق اور اخلاقی امور کی پاسداری انہی دو بنیادوں کی پاسداری پر منحصر ہے۔ازدواجی زندگی کی خوشگواری کا راز حقوق کی رعایت اور مصلحتوں کی تعمیل میں پنہا ہے۔
٭٭٭