-
خاندان اور خاندانی نظام کی اہمیت اللہ نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور پھر انہی کے ذریعے ان کا جوڑا حوا علیہا السلام کی شکل میں پیدا کیا اور پھر ان دونوں کے ملاپ سے اللہ نے بہت سے انسانوں یعنی مردوں کو اور عورتوں کو دنیا میں پھیلا دیا،اللہ نے فرمایا :
{يٰٓـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَآئً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَآء َلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا}
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیا، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے‘‘
[النساء:۱]
ساتھ ہی اللہ رب العالمین نے انسانوں کو مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکیں کہ فلاں انسان فلاں قبیلے سے ہے، فلاں خاندان سے ہے، فلاں کا سلسلہء نسب یہ ہے اور اس انسان کے تعلق سے صحیح جانکاری لوگوں کو ہو سکے۔جیسا کہ اللہ رب العالمین نے سورۃ الحجرات کی ایک آیت کے اندر اس کی تفصیل ذکر کی ہے:
{يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰي وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَ تْقٰكُمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ}
’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دئیے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے، یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے‘‘
[الحجرات:۱۳]
اللہ نے انسانوں کو خاندان میں تقسیم کرنے کے ساتھ ہی خاندان کے اصول و ضوابط بھی مقرر کر دئیے تھے، ہر بندے کی ذمہ داریاں اور اس کے حدود بیان کر دئیے، ماں باپ کے الگ حقوق، شوہر بیوی کے الگ حقوق، اولاد کے الگ حقوق، بھائی بہنوں کے الگ حقوق، گھر والوں کے الگ حقوق اور خاندان والوں کے الگ حقوق بیان کر دئیے، خاندان میں جس کی جو حیثیت بنتی ہے اس کے مطابق ہر مرحلے میں اس کے حقوق مقرر کیے اور ہر ایک سے متعلق یہ فرمان صادر کیا کہ ان میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری سے متعلق سوال کیا جائے گا، شوہر کو اس کی بیوی اور بچوں کا ذمہ دار بنایا، بیوی کو اس کے شوہر کے گھر، مال، اولاد اور اپنی عزت کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا، باپ کو اس کی اولاد کا ذمہ دار بنایا، اولاد کو ان کے بوڑھے ماں باپ کا خیال رکھنے کا حکم دیا، غرض یہ کہ رب نے انسانوں کو صرف خاندانوں میں تقسیم نہیں کیا بلکہ خاندان سے متعلق ایک ایک چیز کو واضح طور سے بیان بھی کیا تاکہ اس کے بندوں کو کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ ہو۔
محترم قارئین! شریعت کی جانب سے خاندان سے متعلق وضع کردہ اصول و قوانین اور ذمہ داریوں کو اگر ہر فرد اپنے دائرے میں رہ کر مکمل طور سے ادا کرے تو نہ صرف یہ کہ گھر اور خاندان میں خوش حالی اور برکت کی آمد ہوگی بلکہ پورا سماج اور علاقہ خوش حال ہوگا اور برکتوں سے بھر جائے گا لیکن آج صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے، خاندان کا کوئی انسان مالی یا سماجی اعتبار سے بڑا بن جاتا ہے تو وہ خاندان کے دیگر افراد سے اپنے آپ کو دور کر لیتا ہے، ان سے ملنا نہیں چاہتا، ان کو اپنے سامنے دیکھنا گوارا نہیں کرتا، وہ سوچتا ہے کہ سارے لوگ اس کے ارد گرد رہیں، سب اس کو پوچھیں، اس کی آؤ بھگت کریں، اس کا خیال رکھیں، وہ چاہے کسی کا خیال رکھے یا نہ رکھے، شریعت کے اعتبار سے یہ نہایت ہی گھناؤنی سوچ ہے جس کے مثبت اثرات کبھی مرتب نہیں ہو سکتے۔ آپ سوچیں کہ اگر ایک بندہ خاندان سے الگ رہ کر زندگی گزارے تو مشکل وقت میں اس کا کیا ہوگا، بیماری اور پریشانی کے وقت کون اس کی خبر گیری کرے گا، دکھ اور درد میں اس کی کیفیت کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے لیکن اس کے برخلاف خاندان سے مربوط انسان مشکل وقت میں اپنے خاندان والوں کو اپنے آس پاس پاتا ہے جو اس کے خیرخواہ ہوتے ہیں۔
اس کی ایک مثال حضرت شعیب علیہ السلام کی اپنے سامنے رکھیں کہ انہوں نے اپنی قوم کو توحید کی طرف بلایا، شرک سے دور رہنے کی تعلیم دی اور قوم میں موجود بیماری ناپ تول میںکمی کرنے سے منع کیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ وہ راہِ راست پر آ جائیں لیکن قوم کے لوگ ان کے دشمن بن گئے، ان کی باتوں کو ماننے سے انکار کر دیا لیکن اس کے باوجود ان کا کچھ نہیں کر سکے، وجہ؟ خود قوم کے لوگوں نے اپنی زبان سے وجہ بیان کی جس کو اللہ نے قرآن میں اس طرح ذکر کیا ہے، کہا:
{قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَاِنَّا لَـنَرٰكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيْزٍ }
’’انہوں نے کہا: اے شعیب!تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں اور ہم تجھے اپنے اندر بہت کمزور پاتے ہیں، اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کر دیتے اور ہم تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں گنتے‘‘
[ھود:۹۱]
شعیب علیہ السلام سے اختلاف اور ناراضگی کے باوجود قوم کے لوگ ان پر حملہ نہیں کر سکے، صرف اس وجہ سے کہ ان کے پیچھے ان کا ایک مضبوط خاندان موجود تھا جس کا فائدہ انہیں یقینی طور سے ہوا۔
اس سے بڑی ایک اور مثال آپ جانتے ہوئے چلیں جو ہمیں سیرۃ النبی پڑھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ کی زندگی میں کافروں کی جانب سے کبھی بھی نبی کریم ﷺ پر قاتلانہ حملہ نہیں ہوا اور نہ ایسا کرنے کی مکہ والوں میں جرأت تھی اس لیے کہ آپ ﷺ کے پیچھے آپ کا ایک مضبوط اور عزت دار خاندان موجود تھا جس کے سردار ابو طالب کی نگرانی میں آپ ﷺ تھے، اور آگے بڑھیں، ہجرت کے صفحات اٹھا کر دیکھیں کہ صحابہ مدینہ کی جانب رفتہ رفتہ جانے لگے تو مکہ والوں کو محسوس ہوا کہ محمد (ﷺ) بھی یہاں سے مدینہ چلے جائیں گے تو نبی کے ان دشمنوں یعنی کفار مکہ نے آپ کو قتل کرنے کا پلان بنایا، دار الندوہ میں بیٹھ کر میٹنگ ہوئی کہ کیا کیا جائے، کئی لوگوں کے مشورے کے بعد اس امت کا فرعون ابو جہل مشورہ دیتا ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے اور اسی پر سب کا اتفاق ہو جاتا ہے، مشورے میں یہ بات آتی ہے کہ ہر ہر قبیلے کا ایک ایک فرد جمع ہو اور سب مل کر یکبارگی محمد (ﷺ) پر حملہ کر کے انہیں قتل کر دیں، ایسا جب ہوگا تو بنو ہاشم اور بنو مطلب یعنی محمد ﷺ کے خاندان والے اتنے سب قبیلے والوں سے بدلہ نہیں لے پائیں گے۔
نبی کریم ﷺ سے متعلق ان دونوں مثالوں میں آپ دیکھیں کہ مکہ والوں کو دونوں ہی جگہ نبی کے خاندان سے متعلق فکرمندی تھی اور اسی وجہ سے وہ چاہ کر نبی کو تنہا پا کر ان پر حملہ نہیں کر سکتے تھے۔
یہ ہے خاندان کے ساتھ جڑ کر رہنے کا فائدہ جس کی تعلیم ہماری شریعت نے دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خاندان میں موجود تمام رشتہ داروں کا خیال رکھنے کی بھی تعلیم شریعت دیتی ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اس کے لیے بہت سی بشارتیں سنائی ہیں اور جو اس کا خیال نہیں رکھتا بلکہ خاندان کے افراد سے قطع تعلق کر لیتا ہے تو اس کا بھیانک انجام بتاتے ہوئے کہا کہ اس پر لعنت نازل ہوتی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
اللہ ہم سب کو خاندان کی اہمیت سمجھنے اور خاندان والوں کے ساتھ جڑ کر رہنے یعنی صلہ رحمی کرنے اور قطع رحمی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین