Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عقیدۂ توحید کی اہمیت و فضیلت قرآن وحدیث کی روشنی میں

    محترم قارئین : کیا آپ بتلا سکتے ہیں وہ کون سی چیز ہے کہ صرف اسی کے لیے اللہ تعالیٰ نے زمین پر بے شمارنبیوں اور رسولوں کو مبعوث فرمایا؟ وہ کون سی چیز ہے جو دین اسلام کی روح ہے؟ وہ کون سی چیز ہے جس کے ذکر سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے؟ وہ کون سی دولت ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا شہید ہوجانا گوارا کرلیامگر اس دولت سے ہاتھ نہیں دھویا؟ وہ کون سی چیز ہے جس کے لیے فرعون کی بیوی آسیہ نے باخوشی موت کو گلے لگانا پسند کیا؟ وہ کون سی چیز ہے جس کے لیے آپﷺاور صحابۂ کرام نے اس قدر تکلیفیں اٹھائیں؟ وہ دولت توحید کی دولت ہے ۔
    ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام میں اس دولت کی قدر و منزلت کیا ہے؟
    توحید دین اسلام کی بنیاد ہے ،توحید سب سے پہلا فرض ہے جس کا اقرار کرنا اور اسے دل وجان سے قبول کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ،توحید وہ چیز ہے جس کے بغیر کوئی انسان دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا ،توحید ہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جنگیں ہوتی رہیں اور ان گنت مسلمانوں نے اس کے لیے اپنی جانوں کو قربان کر کے جام شہادت نوش فرمایا ،توحید ہی وہ اساسی فریضۂ دین ہے جو اسلام اور کفر کے درمیان فرق کرتا ہے ،توحید ہی وہ چیز ہے کہ اگر اسے کما حقہ قبول کرلیا جائے اور اس کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اسی پر موت آجائے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے اور اگر اسے کما حقہ قبول نہ کیا جائے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی وعید سنائی ہے اور اسے قبول نہ کرنے والے انسان پر جنت کو حرام کردیا ہے ۔
    قارئین کرام! جب انسان کی نجات اور کامیابی و کامرانی کے لیے عقیدۂ توحید اس قدر اہم ہے تو سب سے پہلے ہم یہ جانیں گے کہ عقیدۂ توحید کیا ہے؟
    کتاب اللہ اور احادیث نبوی میں عقیدۂ توحید جن چھ چیزوں پر مشتمل ہے انہی چھ اسلامی بنیادی عقائد کو آپ ارکان ایمان کے نام سے جانتے ہیں۔
    آمنت باللّٰه وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقدر خيره وشره من اللّٰه تعالٰي والبعث بعد الموت۔
    ۱: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، ۲: اس کے فرشتوں پر ایمان لانا، ۳: اس کی کتابوں پر ایمان لانا، ۴: اس کے رسولوں پر ایمان لانا، ۵: قیامت کے دن پر ایمان لانا، ۶: اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا۔
    اسی طرح مرکر دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان ہو، اسی کو آخرت کے دن پر ایمان رکھنا کہا جاتا ہے۔
    تو عقیدۂ توحید ان چھ ارکان میں سے پہلے رکن سے تعلق رکھتا ہے۔
    قارئین! اب عقیدۂ توحید کا معنیٰ و مفہوم جانیں گے ۔
    لغوی معنی : کسی چیز کو ایک جاننا ایک ماننا۔
    شرعی معنی : اللہ کو اس کے افعال، عبادات اور اس کے اسماء و صفات میں اکیلا اور یکتا ماننا۔
    مفہوم : اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں واحد، اکیلا اور لا ثانی ہے اس کی صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں، تمام کائنات کو پیدا کرنے والا صرف ایک اللہ ہے، اس کے سامنے ساری مخلوق اور دنیا کی طاقتیں ہیچ ہیں، زندگی و موت، صحت و بیماری، نفع نقصان سب اس کے اختیار میں ہے، کسی مخلوق کا اس میں کوئی دخل نہیں۔
    یاد رکھیں! توحید یہ نہیں ہے کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک سمجھیں توبس کافی ہوگیا ہرگز نہیں۔ بلکہ توحید تو اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک بندہ اللہ تعالیٰ کو اس کے افعال، عبادات اور و اسماء و صفات میں اکیلا نہ مان لے۔
    قارئین ! الحمد للہ ہم نے توحید کی تعریف جان لی لیکن اس کی قسمیں کیا ہیں اور کتنی ہیں یہ جاننا بے حد ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم توحید کے اصل مفہوم کو سمجھ نہیں پائیں گے۔
    توحید کی تین قسمیں ہیں !
    ۱۔توحید الوہیت ، ۲۔ توحید ربوبیت ، ۳۔توحید اسماء و صفات
    پہلی قسم: توحید الوہیت
    اس سے مراد یہ ہے کہ عبادات میں اللہ تعالیٰ کو یکتا مانا جائے ، اور تمام قسم کی عبادات صرف اسی کے لیے انجام دی جائیں ۔مثلاً، رکوع، سجدہ، قربانی، نذر ونیاز، دعا، مصیبت کے وقت صرف اور صرف اسی سے مدد طلب کرنا،اسی سے امیدیں وابستہ رکھنا، اسی کو مشکل کشا اور حاجت روا تسلیم کرنا، ہر چیز اسی سے مانگنا حتی کہ اگرجوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے مانگنا ، بندہ کو نمک کی بھی ضرورت پیش آئے تو وہ بھی اسی سے طلب کرنا ہے۔اللہ اکبر۔
    الغرض ہر قسم کی عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے بجالائے اور غیر اللہ کی محبت کو دل سے نکال کر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کو اپنے دل میں بسائے۔
    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ }
    ’’آپ کہئے کہ میری نماز اور میری قربانی، اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘

    [الانعام:۱۶۲]
    اب اگر کوئی شخص وہ تمام کام جو اللہ کے لیے سر انجام دیئے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی کام غیر اللہ کے لیے کرے، رکوع، سجدہ، قربانی، نذر ونیاز وغیرہ تو اس نے بہت بڑا شرک کیا اور جب تک وہ ایسا کرتارہے گا اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوگی اور اگر اسی حالت میں بغیر توبہ کیے وہ مرگیا تو وہ ہمیشہ کا جہنمی ہے۔ معاذ اللہ
    اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے اکیلے معبود برحق ہونے کا اعلان کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں۔
    {وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ، لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْم}
    ’’تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں وہ بہت رحم کرنے والااور بڑا مہربان ہے‘‘
    [البقرۃ:۱۶۳]
    {فَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٓ اَسْلِمُوْا}
    ’’ تمہارامعبود ایک ہی معبود ہے پس تم سب اسی کے فرمانبردار بن جاؤ‘‘
    [الحج:۳۴]
    {اِنَّ اِلٰهَكُمْ لَوَاحِد ٌ}
    ’’بیشک تمہارا معبود ایک ہی ہے‘‘
    [الصف:۴]
    {وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــًـا }
    ’’ اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ‘‘
    [النساء:۶]
    {فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ }
    ’’پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود سمجھ کر مت پکار یںاگر (بالفرض) آپ نے بھی ایسا کیا تو آپ کو بھی عذاب میں مبتلا کیا جائے گا‘‘
    [الشعراء:۲۱۳]
    نوٹ: اس آیت میں شرک کی برائی کو واضح کیاگیا ہے، ورنہ کسی نبی سے شرک کا ارتکاب ناممکن ہے یہ بتایاگیاکہ اگر بفرض محال کسی نبی سے بھی شرک کا ارتکاب ہوجائے تو اس کو بھی معاف نہیں کیاجائے گا۔
    اسی طرح احادیث نبوی میں بے شماردلائل موجود ہیں۔
    عَنْ عُثْمَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: ’’مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ‘‘
    عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی الٰہ نہیں(یعنی عقیدۂ توحید کو اچھی طرح سمجھتا تھا اور اسی عقیدہ پر موت تک قائم رہا) تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا‘‘
    [صحیح مسلم :۲۶]
    عَنْ جَابِرٍ،قَالَ أَتَي النَّبِيَّ صلى اللّٰه عليه وسلم رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ مَا الْمُوجِبَتَانِ فَقَالَ:’’ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللّٰهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللّٰهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ‘‘
    جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے آکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کون سی دوچیزیں ہیں جوواجب کردینے والی ہیں (ایک چیز جنت کو واجب کرنے والی اور ایک چیز جہنم کو واجب کردینے والی ہے) آپ ﷺنے فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تھا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جوشخص اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا کرتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا‘‘
    [صحیح مسلم:۹۳]
    عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قال سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم يَقُولُ:’’ مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ النَّارَ‘‘
    عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺسے سنا آپ نے فرمایا :’’جس شخص نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ﷺ)اللہ کے رسول ہیں تو اللہ نے اس پر جہنم کی آگ کو حرام کردیا‘‘
    [صحیح مسلم:۲۹]
    دوسری قسم : توحید ربوبیت
    یعنی ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیزکا تنہاخالق ہے، مالک ہے، مدبر ہے۔ تمام امور جیسے رزق عطا کرنا، زندہ کرنا ،مارنا اور بارش نازل کرنا وغیرہ کی تدبیر کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔
    جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
    {اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ هَلْ مِنْ شُرَكَآئِكُمْ مَّنْ يَّفْعَلُ مِنْ ذٰ لِكُمْ مِّنْ شَيْئٍ سُبْحٰنَه وَتَعالٰي عَمَّا يُشْرِكُوْنَ}
    ’’اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کورزق دیا پھرتم کو مارے گا پھر تم کو زندہ کرے گا کیا تمہارے شریکوں میں سے(وہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ پکارتے ہو) کوئی ایسا ہے جو یہ کام (پیدا کرنا، رزق دینا،مارنا اور زندہ کرنا)کرسکتا ہو اللہ تعالیٰ پاک اوربلند ہے ان شریکوں کی شرکت سے پاک اور بلندہے جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے ہیں‘‘
    [الروم:۴۰]
    {وَمَا بِكُمْ مِّنْ نّـِعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ}
    ’’اور تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اللہ کی ہی طرف سے ہیں‘‘
    [النحل:۵۳]
    {هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَـكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا }
    ’’وہ اللہ ایسی ذات ہے جس نے ہراس چیز کوتمہارے لئے پیدا کیاجو زمین میں ہے‘‘
    [البقرۃ:۲۹]
    {وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ }
    ’’اور جب میں بیمار ہوتا ہوں وہی مجھے شفادیتا ہے‘‘(یہ بات حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہی تھی)
    [الشعراء: ۸۰]
    نوٹ: تو ہر مسلمان کا بھی یہی عقیدہ ہونا چاہئے کہ صحت دینے والا، شفا دینے والا، رزق دینے والا، پریشانیوں کو دور کرنے والا، حاجتوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے والا، مدد کرنے والا،مشکل کشا، حاجت روا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
    تیسری قسم : توحید اسماء و صفات
    اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ان اسماء و صفات پرایمان لائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے ثابت کیا ہے، اور جنہیں اس کے نبی محمد ﷺ نے ثابت کیا ہے۔ان پر بغیر تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے اسی طریقے سے ایمان لایاجائے جیسا اس ذات عزوجل کے لائق ہے ۔
    جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :
    {وَلِلّٰهِ الْاَسْمَآء الْحُسْنٰي فَادْعُوْهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ}
    ’’اور اللہ کے بہت ہی اچھے اچھے نام ہیں، پس تم لوگ اسے انہی ناموں کے ذریعہ پکارو اور ان لوگوں سے تعلق نہ رکھو جو اس کے ناموں کو بگاڑتے ہیں (اس کے غلط معنی بیان کرتے ہیں) اور انہیں عنقریب ان کے کئے کی سزا دی جائے گی‘‘
    [الاعراف:۱۸۰]
    قرآن مجید کی ایک مکمل سورت اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر مشتمل ہے اور اس میں بیک وقت توحید کی تینوں اقسام شامل ہیں۔
    { قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ۔اللّٰهُ الصَّمَدُ۔لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ۔وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ}
    ’’کہہ دو کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا ، اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے‘‘
    [الاخلاص:۱]
    قارئین ! لفظ ’’الصمد‘‘ پر غور کریں ۔اس کا معنی بے نیاز ہے یعنی کہ وہ ذات جس کو کسی کی ضرورت نہیں لیکن سب کو اس کی ضرورت ہے۔ اللہ اکبر
    دوسری جگہ فرمایا:
    {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء ٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}
    ’’اللہ کے مثل کوئی چیز نہیں، اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے‘‘
    [الشوریٰ:۱۱]
    اس آیت میں غور فرمائیں کہ اس میں تشبیہ کی نفی کردی گئی ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کو مخلوقات کی صفات سے تشبیہ دینا قطعاً درست نہیں۔اس آیت میں دو صفات کا ذکر’’ سمیع، بصیر ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھتا اور سنتا ہے لیکن اس کا دیکھنا اور سننا اسی طرح ہے جیسا کہ اس کی بڑائی اور کبریائی کے لائق ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کی باقی تمام صفات پر بھی ہمارا ایمان ہونا چاہئے۔ لیکن نہ تو تشبیہ اور تمثیل کو جائز تصور کرتے ہیں اور نہ ہی ان صفات کی کیفیت کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کی کیفیت بیان کرنے کو جائز تصور کرتے ہیں کیونکہ کیفیت کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے جب (الرحمن علی العرش استویٰ ) کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا : ’’الإستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمانُ به واجِب، والسؤالُ عنه بدعة‘‘ یعنی، استوی کا معنی معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت معلوم نہیں ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے لیکن اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ۔
    قارئین ! توحید کا معنیٰ و مفہوم اور اس کی اقسام جان لینے کے بعد آئیے اب یہ جانتے ہیں کہ انسانی زندگی میں عقیدۂ توحید کی کیا اہمیت ہے؟
    ۱: عقیدۂ توحید انبیاء کا اولین پیغام
    اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو متعدد تعلیمات و ہدایات کے ساتھ مبعوث کیا، اور تمام انبیاء کرام کی اولین دعوت اور سب سے پہلا پیغام و مشن بالاتفاق اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان اور تمام معبودان باطلہ سے برأت کا اظہار تھا۔
    جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
    {وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّه لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ}
    ’’اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھی بھیجا، اس پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس لیے تم سب میری ہی عبادت کرو‘‘
    [الانبیاء:۲۵]
    قارئین ! کتاب وسنت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو سب سے پہلے توحید ہی کی دعوت پیش کی تھی، اور سابقہ تمام انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام ہی کی طرح رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی دعوت کا آغاز عقیدۂ توحید ہی سے کیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {قُلْ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَاْ الَّذِيْ لَه مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحْيٖ وَيُمِيْتُ}
    ’’آپ کہئے کہ اے لوگو! میں تم سب کے لیے اس اللہ کا رسول ہوں جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے‘‘
    [الاعراف:۱۵۸]
    ۲: عقیدۂ توحید انسان کا مقصد ِوجود ہے
    توحید نہ صرف انسان کا مقصد وجود ہے بلکہ جنات کو بھی اللہ تعالیٰ نے توحید یعنی صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ}
    ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘[الذاریات:۵۶]
    قارئین! صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرناحقیقی توحید ہے اور اس پر یقین رکھنا عقیدۂ توحید کہلاتا ہے جو ہمارا مقصد ِزندگی ہے۔ جیسا کہ مذکورہ آیت میں ’’لیعبدون ‘‘کا یہی معنیٰ ہے، لیکن مفسرین نے مزید صراحت کے ساتھ’’لیعبدون‘‘کا معنی’’ لیوحدون ‘‘بتایا ہے یعنی تاکہ وہ میری توحید اختیار کریں۔[فتح القدیر الجامع بین فنی الروایۃوالد رایۃ من علم التفسیر للشوکا نی]
    نہ صرف جنات و انسانوں کا مقصد ِحیات توحید ہے بلکہ ہر چیز توحید میں مصروف ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَيْئٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰـكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ اِنَّه كَانَ حَلِيْمًا غَفُوْرًا}
    ’’ساتوں آسمان اور زمین اور جو مخلوقات ان میں پائے جاتے ہیں سبھی اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور ہر چیز صرف اسی کی حمد و ثنا اور پاکی بیان کرنے میں مشغول ہے لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو، وہ بیشک بڑا بردبار بڑا معاف کرنے والا ہے‘‘
    [ بنی اسرائیل:۴۴]
    تسبیح کا مطلب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو بے عیب قرار دینااور حمد کا معنی اللہ تعالیٰ کو خوبیوں سے متصف قرار دینا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک جہاں بہت بڑے عیب کی بات ہے وہیں اللہ تعالیٰ کی توحید بڑی خوبی کی بات ہے اس اعتبار سے ہر مخلوق تسبیح کے ساتھ حمد میں مشغول ہے یعنی توحید کی طرف مائل اور شرک سے دور اور بے زار ہے، واضح رہے کہ اس مفہوم کی جانب امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے۔
    تو معلوم ہوا کہ رکوع ، سجدہ، قیام، دعا، نذر نیاز، قربانی، الغرض کوئی بھی عبادت خواہ چھوٹی ہو یا بڑی وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے کسی بھی غیر اللہ، پیر، ولی، بابا، مرشد کے لیے خاص کرنا حرام ہے عظیم گناہ ہے۔
    { اِنَّ الشِّرْكَ لَـظُلْمٌ عَظِيْمٌ}
    ’’ بیشک شرک ظلم عظیم ہے‘‘
    [لقمان:۱۳]
    یاد رکھیں: اللہ تعالیٰ کی عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہرانا بہت بڑا ظلم اور بدترین جرم ہے، یہ ایسا بھیانک وگھناؤنا عمل ہے کہ جو شخص شرک میں ملوث رہا اور توبہ کئے بغیر اس کی موت ہوگئی تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسک کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
    ۳: قرآن مجید کی ابتداء و انتہا اسی عقیدۂ توحید پر ہے۔
    یعنی کہ قرآن کریم میں اقامت ِصلاۃ جیسی عبادات اور توبہ و استغفار جیسے تزکیۂ نفس کے کاموں میں سے پہلے عقائد، ایمانیات اور توحید کا ذکر کیا گیا ہے حتیٰ کہ قرآن مجید کی ہر آیت کا تعلق عقیدۂ توحید سے ہے۔
    جیساکہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہر آیت توحید پر مشتمل، توحید کی شاہد، اور توحید کی طرف دعوت دینے والی ہے، کیونکہ قرآن مجید اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں اور اس کے اسماء حسنیٰ و صفات علیاکے بارے میں ہے تو یہ توحید علمی و خبری ہے، یا اللہ تعالیٰ کی عبادت ۔
    اور غیر اللہ سے برأت کے بارے میں ہے تو یہ توحید ارادی و طلبی ہے۔
    لہٰذا’’الحمد للہ ‘‘میں توحید، ’’رب العالمین‘‘ میں توحید،’’ الرحمن الرحیم‘‘میں توحید،’’مالک یوم الدین‘‘میں توحید ،’’إیاک نعبد‘‘ میــــــــں توحید، الغرض قرآن کریم کی ہر آیت توحید پر مشتمل ہے۔
    ۴: عبادات کی قبولیت کی شرط صحیح عقیدہ و ایمان پر منحصر ہے
    جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰي لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا}
    ’’اور جو کوئی آخرت چاہتا ہے اور اس کے لیے اس جیسی کوشش کرتا ہے وہ مومن ہوتا ہے تو ان کی کوششوں کا انہیں پورا بدلہ چکایا جائے گا‘‘
    [بنی اسرائیل:۱۹]
    اسی طرح صحیح بخاری کی روایت پر روشنی ڈالتے ہیں ۔
    عَنِ ابْنِ عُمَرَ،رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰه ِﷺ بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلٰي خَمْسٍ: ’’شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ،وَإِقَامِ الصَّلَاةِ،وَإِيتَائِ الزَّكَاةِ،وَالحَجِّ،وَصَوْمِ رَمَضَانَ‘‘
    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک حضرت محمد ﷺاللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘
    [صحیح بخاری:۸]
    مذکورہ حدیث میں تمام اعمال و عبادات میں توحید ہی کا ذکر مقدم ہے تو پتہ یہ چلا کہ اولین ذکر و شرط توحید ہے اس کے بغیر کوئی بھی عبادت قابل قبول نہیں۔
    مثلاً آپ نماز پڑھ رہے ہیں، روزہ رکھ رہے ہیں، حج و عمرہ ادا کررہے ہیں، صدقات ادا کررہے ہیں اور تمام اعمال صالحہ میں سبقت لے جارہے ہیں مگر بندہ کے عقائد میں بگاڑ ہے، اس کا عقیدۂ توحید درست نہیں تو اس کی ساری عبادات و ریاضات، اس کے تمام اعمال و حسنات اکارت و برباد ہوجائیں گے، اس کی کوئی عبادت قابل قبول نہیں۔
    کیونکہ توحید ہی کی بنا پر عبادات درست اور صحیح قرار دی جاتی ہیں اور اللہ تبارک تعالیٰ کے ہاں شرف قبولیت کا باعث بنتی ہیں۔
    جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
    { وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُه وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ}
    ’’ اور جو ایمان لانے سے انکار کرے گا، اس کے اعمال ضائع ہوجائیں گے، اور وہ آخرت میں گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا‘‘
    [المائدۃ:۵]
    اس نکتے کا حاصل یہ ہے کہ نیک عمل اور عبادت کی قبولیت کے لیے توحید و ایمان اولین شرط ہے، اور کفر کی وجہ سے عبادتیں قبول نہیں کی جاتی ہیں، بلکہ کفر کی بنا پر سابقہ عمل بھی برباد ہو جائے گا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کفر وشرک پر قائم رہتے ہوئے کفار و مشرکین کے لیے مساجد کو آباد کرنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ اس کا اختیار اہل ایمان کو دیا، علاوہ ازیں قرآن نے یہ بھی اعلان کیا کہ بفرض محال اگر انبیاء علیہم السلام حتیٰ کہ نبی ﷺ سے بھی اس کا صدور ہوتا تو لازماً ان کا بھی نیک عمل ضائع ہوجاتا۔
    ۵: عقیدۂ توحید گناہوں کی بخشش واخروی نجات کا ذریعہ
    جس طرح عقیدۂ توحید بہترین زندگی اور اعمال کی قبولیت کے لیے شرط ہے اسی طرح اخروی نجات کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
    قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: فَإِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَي النَّارِ مَنْ قَالَ: ’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ،يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللّٰهِ‘‘
    ’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو آگ سے محفوظ کردیا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر’’لا إلہ إلا اللہ‘‘ کہا‘‘
    [صحیح بخاری:۴۲۵]
    اسی عقیدۂ توحید ہی کی بنا پر آسمان بھر گناہ اور زمین بھر خطائیں بھی معاف ہوجاتی ہیں جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہے:
    عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ قَال:سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ،يَقُولُ: قَالَ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَي:’’ يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلٰي مَا كَانَ فِيكَ وَلَا أُبَالِي،يَا ابْنَ آدَمَ لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَائِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِي،يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيتَنِي لَا تُشْرِكُ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً‘‘
    انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ کہتا ہے: ’’اے آدم کے بیٹے!جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا،چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں،مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں ہے،اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پرواہ نہ ہو گی۔اے آدم کے بیٹے!اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھر مجھ سے (مغفرت طلب کرنے کے لیے) ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آوں گا (اور تجھے بخش دوں گا)‘‘
    [سنن الترمذی:۳۵۴۰]
    مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے ہرگناہ کو معاف کرے گا چاہے اس کے گناہ آسمان و زمین کے برابر کیوں نہ ہوجائیں لیکن شرط ہے کہ بندہ مکمل توحید پر قائم رہے اس کی ذات، وصفات اور عبادات میں کبھی شرک نہ کیاجائے تو یہی توحید انسان کے گناہوں کی بخشش اور، اخروی نجات کا ضامن ہے۔
    خلاصۂ کلام : توحید تمام احکام میں اولین حکم ہے، تمام عبادات میں مقدم فریضہ توحید ہے، توحید محور حیات ہے، عقیدۂ توحید سب سے افضل نیکی ہے، توحید ایمان کا سب سے افضل شعبہ ہے، توحید افضل عمل، بہترین دعا، عمدہ زندگی کا راز ہے، توحید نجات کا راستہ ہے، توحید کی بنا پر آسمان بھر گناہ اور زمین بھر خطائیں معاف ہوتی ہیں، توحید جنت میں داخلہ اور جہنم سے بچاؤ کا واحد ذریعہ ہے، توحید کامیابی کی کنجی ہے۔
    تو ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ توحید پرست بنے توحید سب سے بڑی دولت ہے اس کی حفاظت گویا کی دنیا وآخرت کی کامیابی کی سعادت ہے۔ایک مسلمان، موحد کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت، ربوبیت اور اسماء وصفات میں ذرہ برابر بھی شرک کی مداخلت کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
    اللہ تعالیٰ ہم تمام کو توحید پرست بنائے، اللہ تعالیٰ کی توحید کو شرک کی آمیزش سے پاک رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے دلوں کو ایمان سے بھردے۔ آمین یارب العالمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings