Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • طلاق حیض ، فتویٰ ابن عمر سے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردوں کے الفاظ (قسط اول)

    اس سے پہلے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فتویٰ سے متعلق اشکالات کا ازالہ پیش کیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تفصیل کے ساتھ یہ بتادیا جائے کہ ان کے طلاق حیض والے واقعہ سے متعلق جو اقوال منقول ہیں ان میں کون سے الفاظ ان کے اپنے ہیں ،اور کون سے الفاظ ان کے شاگردوں کے ہیں، اوران سارے الفاظ کا درست معنیٰ و مفہوم کیا ہے۔
    اس کی وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ کچھ لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردوں کے الفاظ کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کردیتے ہیں ، اسی طرح ان الفاظ کے مفہوم ومراد کو بیان کرنے میں بھی غلطی کرجاتے ہیں ، چنانچہ بعض لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے موقوف قول کو مرفوع سمجھ بیٹھتے ہیں بلکہ حد ہوگئی کہ کچھ لوگوں نے ان کے شاگرد کے الفاظ کو بھی مرفوع باور کرلیا جوکہ مرفوع تو دور کی بات موقوف بھی نہیں ہے بلکہ مقطوع ہے۔
    واضح رہے کہ آئندہ سطور میں ہم صرف انہی روایات کو پیش کریں گے جن میں ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعہ حیض کے ساتھ اس سے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ، یا اس سے نیچے کسی راوی کا قول بھی موجود ہو نیز اس سلسلے میں بھی صرف وہی روایات پیش کی جائیں گی جو صحیح سندوں سے قائل سے ثابت ہیں ، ہم بالترتیب سب سے پہلے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ دیکھیں گے ، پھر ان کے شاگردوں کے اقوال ذکر کریں گے، اس کے بعد ان سے بھی نچلے راوی کا جو قول ہے وہ ذکر کریں گے ، ملاحظہ ہو:
    ٭ ابن عمررضی اللّٰہ عنہ کے الفاظ :
    ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طلاق حیض والی روایت کو ان کے کئی شاگردوں نے نقل کیا ہے مگر اس روایت کے ساتھ ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو بھی نقل کرنے والے ان کے صرف تین شاگر د ہیں جو درج ذیل ہیں:
    ۱۔ انس بن سیرین ۲۔ یونس بن جبیر ۳۔ سالم بن عبد اللہ
    اب بالترتیب ہم ان تینوں شاگردوں کی روایات کو دیکھتے ہیں ۔
    (۱) پہلے شاگرد انس بن سیرین:
    انس بن سیرین کی روایت درج ذیل دو طرق سے ثابت ہے: طریق عبد الملک بن میسرۃ ، طریق شعبۃ بن الحجاج
    (۱) پہلا طریق : عبد الملک بن میسرۃ
    اس طریق کو عبد الملک بن میسرۃ کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
    ٭ روایت خالدبن عبداللہ:
    قلت: فاعتددت بتلك التطليقة التى طلقت وهى حائض؟ قال: ما لي لا أعتد بها ؟ وإن كنت عجزت واستحمقت۔
    [صحیح مسلم :رقم:۱۴۷۱]
    ٭ روایت یزید بن ہارون:
    قلت له: هل اعتددت بالتي طلقتها وهى حائض ؟ قال: فما لي لا أعتد بها ؟ وإن كنت قد عجزت واستحمقت۔
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۱؍۴۳،وإسنادہ صحیح]
    ٭ روایت محمد بن عبید:
    هل اعتددت بالتي طلقتها وهى حائض ؟ قال : وما لي لا أعتد بها ؟ إن كنت عجزت واستحمقت۔
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۲؍۱۲۸، وإسنادہ صحیح]
    ٭ روایت یعلی بن عبید :
    قلت: فاعتددت بتلك التطليقة التى طلقت وهى حائض؟، فقال: مالي لا أعتد بها ؟وإن كنت عجزت واستحمقت۔
    [مستخرج أبی عوانۃ :۳؍۱۵۰،وإسنادہ صحیح]
    (۲) دوسرا طریق: شعبۃ بن الحجاج: اس طریق کو شعبہ کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
    ٭ روایت محمدبن جعفر:
    ابن بشار کے الفاظ:
     قلت لابن عمر:أفاحتسبت بتلك التطليقة؟ قال: فمه؟
    [صحیح مسلم : رقم: ۱۴۷۱]
    امام احمد کے الفاظ:
     قلت لابن عمر : أحسب تلك التطليقة؟ قال : فمه؟
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ: ۲؍۷۸،وإسنادہ صحیح]
    ٭ روایت بہز بن أسد:
    امام احمد کے الفاظ:
    قلت: احتسب بها؟ قال : فمه؟
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۲؍۷۴، وإسنادہ صحیح]
    امام احمد ہی کے الفاظ:
    قال : بهز أتحتسب ؟
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۲؍۶۱ ،وإسنادہ صحیح]
    ٭ روایت یزیدبن ہارون:
    فقلت لابن عمر: اعتدت بتلك التطليقة؟ قال: فمه؟
    [المنتقی لابن الجارود :ص:۱۸۳ وإسنادہ صحیح]
    ٭ روایت ہاشم بن القاسم:
    قال: فقلت له: أفتحتسب بها؟ قال: فمه؟
    [مستخرج أبی عوانۃ:۳؍۱۴۹ وإسنادہ صحیح]
    ٭ روایت حجاج بن محمد:
    ابن خزیمہ کے الفاظ:
    فقيل: أيحتسب بها؟ قال: فمه؟
    [شرح معانی الآثار:۳؍۵۲ ،وإسنادہ صحیح]
    ابوالولید کے الفاظ:
    قال: فقلت له: أفتحتسب بها؟ قال: فمه؟
    [مستخرج أبی عوانۃ:۳؍۱۴۹، وإسنادہ صحیح]
    ابن حیویۃ کے الفاظ:
    قال: فقلت له: أفتحتسب بها؟ قال: فمه؟
    [مستخرج أبی عوانۃ:۳؍۱۴۹ وإسنادہ صحیح]
    علی بن الحسن کے الفاظ:
    : فقلت له يعني لابن عمر: يحتسب بها؟ قال: فمه؟
    [السنن الکبریٰ للبیہقی: ۷؍۵۳۳، وإسنادہ صحیح]
    ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ انس بن سیرین رحمہ اللہ نے ابن عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی طلاق حیض کو شمار کریں گے؟ تو انہوں نے جو جواب دیا مذکورہ روایات کی روشنی میں اس کے مجموعی الفاظ یہ ہیں:
    ’’ فمه ، ما لي لا أعتد بها، أرأيت وإن كنت عجزت واستحمقت‘‘
    ’’ تو پھر کیا ؟ میں کیوں اسے شمار نہ کروں؟ گرچہ مجھ سے عاجزی اور ناسمجھی سرزد ہوگئی مگر اس سے کیا فرق پڑے گا‘‘؟
    (۲) دوسرے شاگرد یونس بن جبیر :
    یونس بن جبیر کی روایت درج ذیل دو طرق سے ثابت ہے:
    طریق محمد بن سیرین طریق قتادہ بن دعامۃ
    (۱) پہلا طریق : محمد بن سیرین: اس طریق کو محمد بن سیرین کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
    ٭ روایت یزید بن إبراہیم:
    حجاج بن منہال کے الفاظ :
    قلت: فتعتد بتلك التطليقة؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق۔
    [صحیح البخاری :رقم:۵۳۳۳]
    عبد اللہ بن مسلمۃ کے الفاظ :
    ’’قلت: فيعتد بها؟، قال: فمه، أرأيت إن عجز واستحمق‘‘
    [ سنن أبی داؤد: رقم:۲۱۸۴، وإسنادہ صحیح]
    ٭ روایت یونس بن عبید:
    یونس بن عبید سے اسے ابن علیۃ نے نقل کیا ہے پھر ان سے یعقوب بن إبراہیم نے نقل کیا اور ان سے امام مسلم ور امام نسائی نے نقل کیاہے۔
    امام مسلم کے الفاظ:
     فقلت له: إذا طلق الرجل امرأته وهى حائض، أتعتد بتلك التطليقة؟ فقال: فمه؟ أو إن عجز واستحمق؟
    [صحیح مسلم :رقم:۱۴۷۱]
    امام نسائی کے الفاظ:
     قلت له: إذا طلق الرجل امرأته وهى حائض، أيعتد بتلك التطليقة؟ فقال: مه؟ وإن عجز واستحمق۔
    [سنن النسائی :رقم:۳۴۰۰،وإسنادہ صحیح]
    ٭ روایت أیوب بن کیسان:
    اسماعیل ابن علیۃ کے الفاظ:
    قلت: أفحسبت عليه؟ قال: فمه، أو إن عجز، واستحمق۔
    [صحیح مسلم :رقم:۱۴۷۱]
    حماد بن زید کے الفاظ:
    (قتیبۃ کے یہاں) :
    قلت: فيعتد بتلك التطليقة؟ قال: فمه؟ أرأيت إن عجز واستحمق۔
    [سنن الترمذی :رقم:۱۱۷۵،وإسنادہ صحیح]
    (مسدد وغیرہ کے یہاں
    قلت: تعتد بتلك التطليقة، قال: فمه؟ أرأيت إن عجز واستحمق؟
    [مستخرج أبی عوانۃ: رقم:۴۵۱۹، وإسنادہ صحیح]
    ٭ روایت ہشام بن حسان:
    عبد الأعلی کے الفاظ:
    قلت: أيعتد بتلك؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق؟
    [ سنن ابن ماجہ :رقم:۲۰۲۲، وإسنادہ صحیح]
    وہب بن جریر کے الفاظ:
    قلت: وتعتد بتلك التطليقة؟، قال: فمه أرأيت إن عجز واستحمق؟
    [مستخرج أبی عوانۃ: رقم:۴۵۲۰، وإسنادہ صحیح]
    ابن إدریس کے الفاظ:
    قيل لابن عمر: أكنت اعتددت بتلك التطليقة؟ ، فقال: ومالي لا أعتد بها وإن كنت عجزت واستحمقت۔
    [سنن الدارقطنی، ت الارنؤوط:۵؍۱۶،وإسنادہ صحیح]
    (۲) دوسرا طریق : قتادہ بن دعامۃ: اس طریق کوقتادہ کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
    ٭ روایت ہمام بن یحییٰ:
    حجاج بن منہال کے الفاظ:
    قلت: فهل عد ذلك طلاقا؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق؟
    [صحیح البخاری: رقم:۵۲۵۸]
    ٭ روایت شعبہ:
    شعبہ سے اسے سلیمان بن حرب اور محمد بن جعفر نے نقل کیا ہے۔
    ٭ سلیمان بن حرب کے الفاظ:
    قلت: تحتسب؟ قال: أرأیت إن عجز واستحمق۔
    [صحیح البخاری :رقم:۵۲۵۲]
    ٭ محمد بن جعفر کے الفاظ:
    ان سے ابن المثنی اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ (ابن المثنی کے یہاں) :
    مسلم عنه : فقلت لابن عمر: أفاحتسبت بها؟ قال: ما يمنعه؟ أرأيت إن عجز، واستحمق۔
    [صحیح مسلم :رقم:۱۴۷۱ ]
    نسائي عنه: قلت لابن عمر: فاحتسبت منها؟ فقال: ما يمنعها؟ أرأيت إن عجز واستحمق۔
    [سنن النسائی: رقم:۳۵۵۵،وإسنادہ صحیح]
    (امام احمد کے یہاں) :
    فقلت لابن عمر: أفتحتسب بها ؟ قال: ما يمنعه؟ نعم أرأيت إن عجز واستحمق۔
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۲؍۷۹، وإسنادہ صحیح]
    نوٹ: نعم کا لفظ صرف امام احمد کے یہاں ہے ، ابن المثنی کے یہاں نہیں ہے ، اور نہ ہی ہمام کی روایت میں ہے اور نہ ہی محمد بن سیرین کے طریق میں ہے۔جس سے ظاہر ہے کہ اس کا اضافہ معنوی طور پر ہے۔
    ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ یونس بن جبیر رحمہ اللہ نے ابن عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی طلاق حیض کو شمار کریں گے؟ تو انہوں نے جو جواب دیا مذکورہ روایات کی روشنی میں اس کے مجموعی الفاظ یہ ہیں:
    ’’ فمه، ما يمنعه ومالي لا أعتد بها نعم أرأيت إن عجز واستحمق‘‘
    ’’ تو پھر کیا ؟ اس سے کیا مانع ہے ؟ ہاں ! اور میں کیوں اسے شمار نہ کروں؟ اگر عاجزی اور ناسمجھی سے ہی ایسا ہوجائے تو اس سے کیا فرق پڑے گا‘‘؟
    (۳) تیسرے شاگرد سالم بن عبد اللہ:
    سالم بن عبداللہ سے یہ روایت امام زہری نے نقل کی ہے پھر ان سے دو طریق سے یہ روایت مروی ہے :
    طریق محمد بن عبد اللہ الزہری طریق محمد بن الولید الزبیدی
    (۱) پہلا طریق : محمد بن عبد اللہ الزہری
    اس طریق کو محمد بن عبد اللہ الزہری سے یعقوب بن إبراہیم نے بیان کیا ہے پھر ان سے ان کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
    روایت عبدبن حمید:
    ’’وكان عبد اللّٰه طلقها تطليقة واحدة، فحسبت من طلاقها، وراجعها عبد اللّٰه كما أمره رسول اللّٰه‘‘
    [صحیح مسلم :رقم:۱۴۷۱]
    روایت امام احمد:
    وكان عبد اللّٰه طلقها تطليقة ، فحسبت من طلاقها وراجعها عبد اللّٰه كما أمره۔
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۲؍۱۳۰،وإسنادہ صحیح]
    روایت محمدبن یحییٰ:
    وكان عبد اللّٰه طلقها تطليقة، فحسب من طلاقها وراجعها عبد اللّٰه كما أمره رسول اللّٰه۔
    [مستخرج أبی عوانۃ: رقم:۴۵۱۱،وإسنادہ صحیح]
    (۲) دوسراطریق : محمد بن الولید الزبیدی
    اس طریق کو محمد بن الولید الزبیدی سے ان کے شاگرد محمد بن حرب نے بیان کیا ہے پھر ان سے ان کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کیاہے:
    روایت یزید بن عبد ربہ :
    قال ابن عمر: فراجعتها، وحسبت لها التطليقة التى طلقتها۔
    [صحیح مسلم :رقم:۱۴۷۱]
    روایت کثیر بن عبید :
    قال عبد اللّٰه بن عمر: فراجعتها وحسبت لها التطليقة التى طلقتها ۔
    [سنن النسائی: رقم:۳۳۹۱، وإسنادہ صحیح]
    یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام زہری کے دونوں شاگردوں محمد بن عبد اللہ الزہری اور محمد بن الولید الزبیدی کی روایت میں اختلاف ہے، پہلے نے سالم کا اپنا قول نقل کیا ہے جبکہ دوسرے نے سالم کے ذریعہ ابن عمر کا قول نقل کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ سالم نے کبھی اس روایت پر خود کا تبصرہ پیش کیا ہے اور کبھی ابن عمر کا قول نقل کیا ہے ۔
    لیکن جس روایت میں ابن عمر کا قول ذکر کیا ہے اس میں ’’فراجعتہا ‘‘کے بعد ’’ وحسبت لها التطليقة التى طلقتها‘‘ کے جو الفاظ ذکر کیے ہیں یہ دراصل معنوی طور پر وہی جواب ہے جسے ابن عمررضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں کو دیا تھا ۔جیساکہ مسلم کی درج ذیل روایت سے واضح ہے:
    امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱) نے کہا:
    حدثنا يحيي بن يحيي، أخبرنا خالد بن عبد اللّٰه، عن عبد الملك، عن أنس بن سيرين، قال: سألت ابن عمر عن امرأته التى طلق، فقال: طلقتها وهى حائض، فذكر ذلك لعمر، فذكره للنبي صلى اللّٰه عليه وسلم، فقال: مره فليراجعها، فإذا طهرت فليطلقها لطهرها، قال: فراجعتها، ثم طلقتها لطهرها، قلت: فاعتددت بتلك التطليقة التى طلقت وهى حائض؟ قال: ما لي لا أعتد بها، وإن كنت عجزت واستحمقت ۔
    انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی اس بیوی کے بارے میں پوچھا جسے انہوں نے طلاق دیاتھا ، تو انہوں نے کہا: میں نے اسے حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر نبی ﷺ سے کیا ، تو آپﷺنے فرمایا: ان سے کہو کہ اپنی بیوی واپس لیں ، پھر جب وہ پاک ہوجائے تو اس کی پاکی میں اسے طلاق دے سکتے ہیں ، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : پھر میں نے اسے واپس لیا اور اس کی طہر کی حالت میں اسے طلاق دیا۔
    میں (انس بن سیرین) نے کہا: کیا آپ نے اس طلاق کو شمار کیا جسے آپ نے اس کی حیض کی حالت میں دیا تھا ؟ تو انہوں نے کہا: میں کیوں نہ اسے شمار کروں گرچہ مجھ سے عاجزی اور ناسمجھی سرزد ہوئی ؟
    [صحیح مسلم :۳؍۱۰۹۷ ، رقم:۱۴۷۱]
    اس روایت میں دیکھئے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں صرف’’ فراجعتہا‘‘ کہہ کر صرف اپنی بیوی واپس لینے کاذکرکیا ، اس کے بعد جب ان سے اس طلاق کو شمار کرنے سے متعلق سوال ہوا تو انہیں نے کہا کہ میں اسے کیوں نہ شمار کروں ۔
    معلوم ہو اکہ سالم بن عبداللہ نے بھی معنوی طور پر وہی بات ذکر کی ہے جسے ان کے دونوں شاگرد انس بن سیرین اور یونس بن جبیر نے ذکرکیا ہے۔
    قارئین کرام! عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے اپنے الفاظ جو ان کے تین شاگردوں (۱) انس بن سیرین (۲) یونس بن جبیر اور(۳) سالم بن عبد اللہ نے نقل کیے وہ پوری تفصیل کے ساتھ آپ کے سامنے ہیں ، ان الفاظ پر غور کرنے سے درج ذیل چیزیں سامنے آتی ہیں:
    الف: ابن عمررضی اللہ عنہ کے جواب میں سختی ظاہر ہے ۔
    ب: ابن عمررضی اللہ عنہ کی کسی بھی روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے عہد رسالت میں ہی اپنی حیض والی طلاق کو شمار کرلیا تھا بلکہ شاگردوں کے سوال وجواب سے صاف واضح ہے کہ جب شاگردوں کے سوالات سامنے آئے تو ان کے جوابات میں انہوں نے اپنی طلاق حیض کو شمار کیا ۔
    ج: ابن عمررضی اللہ عنہ سے یہ سوال کئی بار ہوا لیکن انہوں نے جواب میں کسی بھی دفعہ کوئی مرفوع حدیث نہیں پیش کی ہے ، بلکہ محض اپنی رائے پیش کی ہے، اور اسے اللہ کے نبی ﷺ کی طرف قطعا ًمنسوب نہیں کیا ہے۔
    د: اللہ کے نبی ﷺ نے ان کی طلاق حیض کو قطعاً شمار نہیں کیا تھا اگر ایسا ہوتا تو ابن عمررضی اللہ عنہ صرف ایک بار پوچھنے پر ہی نبی ﷺ کی حدیث پیش کردیتے ، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ کسی مسئلہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ ایسا جواب رکھتے ہوں جس پر ان کے علم میں صریح نص حدیث بھی موجود ہو ، پھر بھی وہ جواب پیش کرتے ہوئے نص حدیث کو چھوڑ کر محض اپنی رائے اورقیاس پیش کریں وہ بھی صرف ایک بارنہیں بلکہ ہر بار سوال پوچھے جانے پر ایسا ہی کریں۔
    اب اگلی سطور میں وہ اقوال دیکھئے جو ابن عمررضی اللہ عنہ کے اپنے اقوال نہیں ہے اور نہ ہی ان کے واسطے سے نقل کئے گئے ہیں بلکہ یہ ان کے شاگردوں یا بعد کے راوی کے الفاظ ہیں:
    ٭ سالم بن عبد اللّٰہ کے الفاظ :
    سالم نے دوسری روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے کوئی بات نہیں کی ہے بلکہ اپنے الفاظ میں کہا ہے:
    ’’وكان عبد اللّٰه طلقها تطليقة واحدة، فحسبت من طلاقها، وراجعها عبد اللّٰه كما أمره رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ‘‘
    ’’ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک طلاق دی تھی ، اور ان کی طلاق شمار کی گئی ، اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو واپس لیا جیساکہ انہیں اللہ کے نبی ﷺ نے اس کا حکم دیاتھا ‘‘
    [صحیح مسلم :رقم:۱۴۷۱]
    یہ عبداللہ بن عمررضی اللہ کے الفاظ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے واسطے سے بیان کی ہوئی بات ہے بلکہ یہ سالم بن عبداللہ کا مرسل بیان ہے ۔
    ٭ نافع مولیٰ ابن عمر کے الفاظ :
    نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کوئی بات نہیں کی ہے بلکہ اپنے الفاظ میں کہا ہے:
    قال عبيد اللّٰه: قلت لنافع: ’’ما صنعت التطليقة؟ قال: واحدة اعتد بها ‘‘
    عبیداللہ نے کہا: میں نے نافع سے پوچھا: ’’اس طلاق کا کیا ہوا؟ تو نافع نے جواب دیا: یہ ایک طلاق تھی جسے شمار کیا گیا‘‘
    [صحیح مسلم :رقم:۱۴۷۱]
    اس میں بھی وہی بات ہے یعنی یہ نافع کا اپنا بیان ہے جو مرسل ہے ، کیونکہ اس کے لیے انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہ کا واسطہ ذکر نہیں کیا ہے۔
    ٭ عبید اللّٰہ العدوی کے الفاظ :
    عبید اللہ العدوی نے اس واقعہ کی اصل روایت ابن عمررضی اللہ عنہ سے براہ راست روایت نہیں کی ہے بلکہ نافع کے واسطے سے نقل کی ہے، اس لیے اس روایت میں یہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے شاگرد نافع کے شاگرد ہیں ، لیکن انہوں نے یہ قول نافع یاکسی بھی واسطے سے نقل نہیں کیا ، بلکہ اپنے الفاظ میں براہ راست بیان کرتے ہوئے کہا ہے جیساکہ ان سے نچلے راوی نے کہا:
    قال عبيد اللّٰه: ’’وكان تطليقه إياها فى الحيض واحدة غير أنه خالف فيها السنة ‘‘
    عبیداللہ کہتے ہیں :’’کہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے حالت حیض میں جو طلاق دی تھی ایک طلاق تھی یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اس میں سنت کی مخالفت کی تھی‘‘
    [ مسند عمر بن الخطاب للنجاد: ص:۴۹]
    یہ عبیداللہ کا قول ہے جو اس روایت میں ابن عمر کے شاگرد( نافع) کے شاگرد ہیں۔
    مؤخرالذکر ان تینوں اقوال میں سے کوئی بھی قول ابن عمررضی اللہ عنہ کا نہیں ہے بلکہ ان کے شاگردوں کا یا ان کے شاگرد کے شاگرد کا بیان ہے۔
    مذکورہ تفصیل سے ہمارے سامنے یہ چیز واضح ہوجاتی ہے کہ ابن عمر ضی اللہ عنہ کے طلاق حیض کو شمار کئے جانے سے متعلق جتنے بھی اقوال ہیں ان میں کوئی قول بھی مرفوع نہیں ہے بلکہ یا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اپنے الفاظ ہیں ، یا ان کے شاگردوں کے ہیں یا بعد کے رواۃ کے الفاظ ہیں ۔
    اب رہا سوال یہ کہ طلاق حیض کو شمار کئے جانے کا قول گرچہ مرفوع نہیں ہے لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا قول تو ہے! تو کیا یہ دلیل نہیں ہے ؟ تو اس سے متعلق تفصیلات اگلے حصہ میں ان شاء اللہ۔
    جاری ہے……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings