-
تربیت اولاد کے سنہرے اصول قرآن حکیم تاقیامت آنے والی بنی نوع انسانی کے لئے نہ صرف باعث ہدایت ہے بلکہ زندگی کے ہر گوشے میں رہنما اصول اور ضابطے کی حیثیت رکھتا ہے ، قرآن کی انہی تعلیمات کی ایک روشن کڑی سورہ’’لقمان‘‘ہے ، جس میں بنی اسرائیل کے ایک نیک سیرت اور حکیمانہ گفتار کے مالک لقمان حکیم کی ان حکیمانہ باتوں کو ذکر کیا گیا جو انہوں نے اپنے بیٹے ’’ثاران‘‘۔ ( أیسر التفاسیر للجزائری ۴؍۲۰۳ ) کو بطور نصیحت و وصیت سکھائی تھی،لقمان حکیم کی ناصحانہ باتوں کو بظاہر دس حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے مگر بنیادی طور پر اس میں تین پہلو ظاہر و باہر ہیں۔
پہلا : عقدی دوسرا : تعبدی تیسرا : اخلاقی
عقدی پہلو: لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو سب سے پہلے عقدی مسائل کی تعلیم دیتے ہوئے سب سے عظیم گناہ شرک سے بچنے کی نصیحت کیا ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَإِذْ قَالَ لُقْمَـٰنُ لِبْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَـٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِااللّٰهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيم}’’اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے ‘‘
[لقمان:۱۳]
مذکور آیت کے اندر چند باتیں قابل غور ہیں :
(۱) لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہے ہیں جس کو قرآن حکیم نے ’’وَهُوَ يَعِظُهُ ‘‘سے تعبیر کیا ہے ، لہٰذا ایک باپ کو چاہیے اپنے بچوں کو وقتا ًفوقتا ًنصیحت کرتا رہے۔
(۲) لقمان حکیم نے شرک جیسے عظیم گناہ سے بچنے کی تعلیم دیتے ہوئے بھی گل افشانی گفتار اور نرم لہجے کو پیش پیش رکھتے ہوئے ’’یا بنی ‘‘سے خطاب کیا ۔ جس میں واعظین کے لیے یہ پیغام ہے کہ دعوت و تبلیغ کی زبان نہایت ہی نرم ہونی چاہیے۔
اسی طرح لقمان حکیم کی حکیمانہ باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ: ’’یا بنی: الرفق رأس الحکمۃ‘‘
’’اے میرے بیٹے نرم خوئی حکمت و دانائی کی اصل پہچان ہے ‘‘[صلاح البیوت:۱؍۲۴۴،محمد علی محمد ]
(۳) جب آپ کسی سے خطاب کریں تو مخاطب کو کسی امر کی بجاآوری یا ممانعت کی وجہ ضرور بتلائیں۔ مثلاً سگریٹ نوشی مت کرو کیونکہ اس کے پینے سے کینسر ہوجائے گا جس سے موت واقع ہوسکتی ہے۔
اسی لیے امین شقاوی کہتے ہیں کہ: ’’ينبغي للواعظ والناصح أن يكون فى موعظته ما يشعر بالإشفاق على المنصوح ‘‘
’’واعظ وناصح کو چاہیے کہ وہ اپنی وعظ میں کچھ ایسی باتوں کو ذکر کرے جو مخاطب کو خوف کا احساس دلائے ‘‘
[ الدرر المنتقاۃ من الکلمات الملقاۃ: ۱۲؍۳۹۳ أمین الشقاوی ]
(۴) بچوں کے ذہن و دماغ میں سب سے پہلے ایمان اور عقیدہ کے متعلق باتیں راسخ کرائی جائیں کیونکہ اگر عقیدہ مضبوط رہے گا تو شرک جیسے عظیم گناہ سے محفوظ رہے گا۔جسے کچھ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ:
آغاز سخن تیری ہو توحید سے لبریز گفتار تری ہوگی ہر اک دل پہ اثر خیز
تعبدی پہلو : شرک سے اجتناب کرنے کی تعلیم دینے کے بعد لقمان حکیم نے عبادات کے باب میں اپنے بیٹے کو سب سے اہم ترین عبادت نماز قائم کرنے کی نصیحت کیا، فرمان ربانی ہے:{يٰـبُنَيَّ أَقِمِ الصَّلٰوةَ…} ’’اے میرے بیٹے تو نماز قائم کر ‘‘[لقمان:۱۷]
اور’’اقامت ِصلاۃ ‘‘اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نماز مطلوب و مقصود طریقے پر ادا کیا جائے۔
نماز کی اہمیت و فضیلت کسی مسلمان سے مخفی نہیں ہے نماز وہ عظیم عبادت ہے جو شرک وکفر کے مابین فارق ہے جس کے اہتمام پر شریعت اسلامیہ میں ثواب عظیم کا وعدہ اور ترک کرنے پر عذابِ الیم کی وعید سنائی گئی ہے ۔ اسی لیے اسلافِ امت نماز کے معاملے میں بڑے سخت تھے ،بلکہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حال تو یہ تھا کہ وہ جب کبھی کسی کو عامل بناتے تو اپنے عمال کو یہ ہدایت لازمی طور پر لکھا کرتے تھے کہ:
’’إن أهم أمركم عندي الصلاة، فمن حفظها وحافظ عليها حفظ دينه، ومن ضيعها كان لما سواها من عمله أشد إضاعة‘‘
’’میرے نزدیک تمہارا سب سے زیادہ اہم کام نماز ہے جس نے نماز کی حفاظت کی اور اس پر کاربند رہا اس نے اپنے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کر دیا وہ دین کے بقیہ امور کو بالاولیٰ ضائع کرنے والا ہوگا‘‘
[ الإنباہ إلی حکم تارک الصلاۃ: ۱؍۲۹ عبد اللّٰہ بن مانع الروقی ]
اخلاقی پہلو : حسن ِاخلاق کی تعلیم دیتے ہوئے لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو گل افشانی گفتار ، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے محبت وغیرہ جیسی باتوں کی نصیحت نہیں کیا بلکہ دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے طوالت کے بجائے اجمال کی راہ اختیار کیا اور فرمایا :{ وَأْمُرْ بِاالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَر}’’ (اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا ، برے کاموں سے منع کیا کرنا) ‘‘
اور معروف و منکر کو اسلامی شرع میں کہتے ہیں: ’’اسم لکل فعل یعرف بالعقل أو الشرع حسنہ، والمنکر ما ینکر بہما‘‘
’’معروف ہر وہ فعل جس کی درستگی شرعا و عقلاً معلوم ہو ( کہ یہ اچھا عمل ہے )،منکر ہر وہ فعل جس کو شرع وعقل برا سمجھتے ہوں‘‘[الأدب النبوی:۱؍۲۷،محمد عبد العزیز الخولی (ت ۱۳۴۹)]
معروف تمام قسم کے اعمالِ حسنہ اور منکر تمام قسم کے منکرات و برے اعمال و افعال کو شامل ہے اس کے باوجود تکبر جیسی مذموم برائی سے اجتناب کرنے کی نصیحت ، کبر و غرور کی مذمت اور اس کے خطرناکی کو بیان کرتا ہے۔
یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو شرک اور اقامت ِصلاۃ کی تعلیم دینے کے بعد ان کی نشرواشاعت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :’’ وَأْمُرْ بِاالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَر‘‘معلوم ہوا کہ تعلیم و عمل کا مرحلہ پہلے ہے ، تعلم کا بعد میں ۔ پہلے خود توحید پرست اور نماز کے پابند بنیں اس کے بعد لوگوں کو ان کی طرف دعوت دیں ۔
اسی لیے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:’’ إن الآمر الناهي لا يستقيم له أمره ونهيه حتي يكون أول مأمور ومنهي‘‘ ’’خیرکے داعی اور شر سے منع کرنے والے کی امرو نہی کی کوئی قدر نہیں ہوگی حتی ٰکہ پہلے وہ خود بھلائی کو اپنانے والا اور برائی سے اجتناب کرنے والا ہو‘‘
[عدۃ الصابرین وذخیرۃ الشاکرین : ۱؍۲۹،ابن القیم :(ت ۷۵۱)]
لقمان حکیم کی ان حکیمانہ باتوں کے اندر والدین کے لیے بچوں کی تربیت کے تعلق سے منظم اور عمدہ اصول پنہاں ہیں کہ :
۱ : سب سے پہلے بچوں کے کورے کاغذ کے مثل ذہن و دماغ میں ایمان و عقیدے کی باتیں بٹھائی جائیں۔ عقیدے کی بنیادی کتابیں پڑھائی جائیں ۔ ۲: نماز جیسی اہم عبادت کا طریقہ سکھایا جائے اور اس کی عادت ڈالی جائے ۔ ۳ : حسن اخلاق اور اعلیٰ کردار کی تعلیم دی جائے، نبی ﷺ کی سیرت طیبہ اور اسلاف امت کے ایمان افروز واقعات سنائے جائیں ۔
لقمانِ حکیم کی قرآن میں مذکور حکیمانہ باتوں کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں جن کو جاننے کے لیے ’’صلاح البیوت ‘‘ نامی کتاب کی طرف رجوع کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔ چند اقوال نقل کیے جارہے ہیں :
’’يا بني: لا تركن إلى الدنيا ولا تشغل قلبك بها فإنك لم تخلق لها‘‘
’’اے میرے بیٹے : تو دنیا سے دل مت لگا اور اس میں اپنے دل کو مشغول مت رکھ اس لیے کہ تو اس کی خاطر نہیں پیدا کیا گیا ‘‘
’’یا بنی: ما ندمت علی السکوت قط‘‘’’اے میرے بیٹے:سکوت اختیار کرنے پر کبھی بھی میں شرمندہ نہ ہو‘‘
’’یابنی:أول الغضب جنون، وآخرہ ندم‘‘’’اے میرے بیٹے : غصے کی ابتدا پاگل پن اور انتہا شرمندگی ہے ‘‘
يا بني: ’’مثل المرأة الصالحة مثل التاج على رأس الملك، ومثل المرأة السوء كمثل الحمل الثقيل على ظهر الشيخ الكبير‘‘’’اے میرے بیٹے : نیک عورت کی مثال بادشاہ کے سر پر رکھے ہوئے تاج کی مانند ہے اور بد اخلاق عورت کی مثال بوڑھے انسان کی پیٹھ پر رکھے ہوئے بھاری بھرکم بوجھ کی مانند ہے‘‘
’’یا بنی: لا تؤخر التوبۃ فإن الموت یأتی بغتۃ‘‘’’اے میرے بیٹے : توبہ کرنے میں تاخیر مت کر اس لیے کہ موت اچانک آتی ہے‘‘[صلاح البیوت: ۱؍۲۴۲ محمد علی محمد ،العقد الفرید ۳؍۹۶ ابن عبد ربہ الأندلسی]