Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • غیرمسلم تیوہارکی مٹھائی : تجزیاتی تحریر کاجائزہ

    غیرمسلم کے تیوہار پر ہدیہ قبول کرنے سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں لیکن یہ سارے آثار ضعیف وغیر ثابت ہیں جیساکہ میں نے اپنے ایک مضمون میں وضاحت کی ہے۔
    لیکن حال ہی میں محترم مقبول احمد سلفی صاحب نے ان آثار میں سے دو اثر کو بڑے ہی عجیب وغریب انداز میں صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، ذیل میں اس کا جائزہ پیش خدمت ہے:
    ٭ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا اثر:
    حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة أنه كان له سكان مجوس، فكانوا يهدون له فى النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ’’ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه‘‘
    ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : ’’میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ۔ سلفیۃ:۸؍۸۸]
    اس سند میں حسن بن حکیم کی والدہ ہیں ان کی کوئی توثیق کہیں نہیں ملتی حتیٰ کی ان کے نام تک کی صراحت مجھے کہیں نہیں مل سکی ۔اب جس کی توثیق تو درکنار اس کا نام تک معلوم نہ ہوسکے اس کی روایت کو کیونکر صحیح کہا جاسکتاہے!
    ٭ لیکن مقبول احمد سلفی صاحب لکھتے ہیں:
    ((( اس میں حسن بن حکیم ثقفی کی ماں جوکہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے مولاۃ ہیں کا حال نامعلوم ہے۔ یہ اثر ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے۔
    حدثنا وكيع عن الحكم بن حكيم عن ابيه عن أبي برزة أنه كان له سكان مجوس، فكانوا يهدون له فى النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله: ’’ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه‘‘۔
    (اعلام السنن:۱۲؍۷۰۶،علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی)مجہول الحال کی روایت متابعات و شواہد میں قابل قبول ہے ۔)))
    ٭ جواباً عرض ہے کہ:
    یہاں مقبول سلفی صاحب نے مشہور دیوبندی عالم ظفر تھانوی صاحب کی کتاب سے یہی روایت نقل کرکے اسے دوسرا طریق بتا دیا!!!علم حدیث کا معمولی طالب علم بھی یہ پڑھ کرحیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ ظفر تھانوی صاحب نے بھی اس روایت کو مذکورہ سند ہی سے ذکرکیا اور ابن ابی شیبہ ہی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔پھر یہ دوسرا طریق کیسے ہوگیا ؟
    غور کریں سند بھی ایک ، کتاب بھی ایک ، پھر دوسرا طریق کیسے ؟
    واضح رہے کہ ظفر تھانوی صاحب کی جس عبارت سے مقبول سلفی صاحب نے حوالہ پیش کیا ہے وہ اصل میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام ہے جسے تھانوی صاحب نے اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ سے نقل کردیاہے۔اورابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
    ظفر تھانوی صاحب نے نقل میں غلطی کی یا کاتب نے غلطی کی اور سند کے اندر ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے نیچے (عن ابیہ) لکھ دیا جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب میں (عن امہ) ہے ۔دیکھئے : [اقتضاء الصراط المستقیم: ص: ۱۲۰، مطبوعہ المطبعۃ الشرفیۃ ، الطبعۃ الاولیٰ]۔اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی (عن امہ) ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبی شیبۃ۔ سلفیۃ:۸؍۸۸]
    نیز سند میں وکیع کے شیخ کی جگہ الحکم بن حکیم لکھا ہوا ہے، ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب میں بھی ایسے ہی ہے اوریہیں پر ناسخ سے غلطی ہوئی ہے کیونکہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب’’ مصنف‘‘ میں وکیع کے شیخ کانام پوری صراحت سے الحسن بن حکیم ہی لکھا ہواہے۔ اور اس اثر کے لیے مصنف ابن ابی شیبہ میں کوئی دوسرا طریق ہے ہی نہیں۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ’’ اقتضاء الصراط‘‘ کے ناسخ نے غلطی سے نام غلط درج کردیا ہے ۔ چنانچہ’’ اقتضاء الصراط‘‘ کے محقق نسخے میں اس کی اصلاح کردی گئی اور محقق نے اصل کتاب میں اس غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے صحیح نام الحسن بن حکیم ہی درج کیا ہے اور حاشیہ میں لکھا:
    فی المطبوعۃ: الحکم، وہو خطأ، والصواب ہو: الحسن بن حکیم بن طہمان أبو حکیم۔
    یعنی (قدیم) مطبوعہ نسخے میں یہاں حکم لکھا ہے جو غلط ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ الحسن بن حکیم بن طہمان أبو حکیم ہے ۔ [اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم :۲؍۵۲]
    ٭ اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر کی صرف اور صرف ایک ہی سند ہے اور یہی سند ظفر تھانوی صاحب کی کتاب میں بھی درج ہے لیکن بعض راویوں کے نام میں کتابت کی غلطی ہے ۔اس حقیقت سے غافل ہو کر مقبول سلفی صاحب نے اسے دوسرا طریق سمجھ لیا جو سخت حیرت کا باعث ہے کیونکہ اس طرح کی غلطیوں پر علم حدیث کا معمولی طالب علم بھی آگاہ ہوجاتا ہے ۔
    الغرض جب واضح ہوگیا کہ اس کی صرف اور صرف ایک ہی سند ہے جو ضعیف ہے تو پھر متابع اور شاہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
    ٭ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا اثر:
    حدثنا جرير، عن قابوس، عن ابيه، ان امراة سالت عائشة قالت: ’’إن لنا اظآرا من المجوس، وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا ؟ فقالت: اما ما ذبح لذلك اليوم فلا تاكلوا، ولكن كلوا من اشجارهم‘‘
    قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ: ’’ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سبزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو‘‘
    [مصنف ابن ابی شیبۃ: سلفیۃ:۸؍۸۷]
    ٭ ہم نے اس سند کو ضعیف لکھا تھا کیونکہ قابوس ضعیف ہے ، نیز جریر نے صراحت کردی ہے کہ انہوں نے قابوس سے جب سنا تھا تو اس وقت قابوس کا حافظہ فاسد تھا۔اس لیے اس اثر کے ضعیف ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔
    لیکن مقبول سلفی صاحب نے جریر کے صریح بیان کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس مردود اثر کو صحیح ثابت کرنے کے لیے صرف یہ کیا کہ بعض اہل علم سے قابوس کی توثیق نقل کردی جبکہ ہم نے اپنے مضمون میں خود یہ لکھ رکھا تھا کہ بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن اس کا ضعیف ہونا ہی راجح ہے ، اس لیے محض بعض محدثین سے اس کی توثیق نقل کردینا کہاں کا انصاف ہے ؟ مقبول سلفی صاحب نے قابوس کی توثیق ثابت کرنے کے لیے کل آٹھ حوالے دیئے ہیں ان کاجائزہ پیش خدمت ہے:
    پہلا حوالہ ابن معین رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے حالانکہ ابن معین رحمہ اللہ نے اس راوی کو’’ ضعیف الحدیث‘‘ بھی کہا ہے ۔ دیکھئے : [العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد، ت وصی:۳؍۲۹]
    لہٰذا توثیق میں ان کا حوالہ ساقط ہے اور تطبیق دیں تو کہہ سکتے ہیں کہ توثیق دینداری کے لحاظ سے ہے اور تضعیف حافظہ کے لحاظ سے ہے۔
    دوسرا حوالہ امام ابن عدی کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے ’’لاباس بہ‘‘ کہہ کر توثیق کی ہے۔
    عرض ہے کہ امام ابن عدی کے الفاظ ’’وأرجو انہ لا بأس بہ ‘‘ہیں ۔دیکھیں: [الکامل لابن عدی ت عادل وعلی:۷؍۱۷۶]
    اور اس صیغے سے امام ابن عدی ہرجگہ توثیق نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی جن کو وہ ضعیف مانتے ہیں ان کے لیے بھی وہ الفاظ بول دیتے ہیں اور ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حدیث لکھی جائے گی چنانچہ ایک راوی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    ’’وأرجو أنہ لا بأس بہ، وہو من جملۃ الضعفاء الذین یکتب حدیثہم‘‘
    [الکامل لابن عدی ت عادل وعلی:۲؍۲۱۹]
    تیسرا حوالہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں اسے ’’حسن الحدیث‘‘ کہا ہے ۔
    عرض ہے کہ امام ذہبی نے تاریخ اسلام میں اس راوی کے ترجمہ میں نہیں بلکہ ایک دوسری جگہ اسے ’’حسن الحدیث‘‘ کہا ہے اورحاشیہ میں محقق دکتور بشار عواد نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی تردید کردی ہے۔ دیکھئے: [تاریخ الإسلام ت بشار: ۲؍۴۰۰]
    دوسری طرف تاریخ اسلام میں جہاں امام ذہبی نے اس راوی کا ترجمہ پیش کیا ہے وہاں صرف اس پر جرح ہی نقل کی ہے اور کسی ایک بھی امام کی توثیق نقل نہیں کی ہے اور انہ ہی اسے خود اسے ’’حسن الحدیث‘‘ کہاہے۔ دیکھیں: [تاریخ الإسلام ت بشار:۳؍۹۵۲]
    بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی ایک دوسری کتاب میں پوری صراحت کے ساتھ اسے ضعیف قراردیتے ہوئے لکھا ہے:
    ’’قابوس بن أبی ظبیان ضعیف‘‘
    ’’یعنی قابوس بن ابی ظبیان ضعیف ہے‘‘[المستدرک للحاکم مع تعلیق الذہبی:۲؍۴۵۰]
    چوتھا حوالہ احمدبن سعید کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے ’’جائز الحدیث ‘‘کہا ہے ۔
    عرض ہے کہ یہ توثیق نہیں ہے کیونکہ ضعیف کے لیے بھی ایسا کہا جاتا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حدیث لکھی جاسکتی ہے۔
    نیز مجھے اس قول کا مصدر نہیں مل سکا کہ موصوف نے اسے کہا ں سے نقل کیا ہے ؟ مجھے لگتا ہے کہ ابن معین کے شاگرد احمدبن سعید نے جو ابن معین کا قول ’’جائز الحدیث ‘‘نقل کیا ہے، اس سے مقبول سلفی صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ یہ احمدبن سعید کا قول ہے ۔جبکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ امام ابن معین کا قول ہے کہ اور اوپر بتایا جاچکا ہے خود امام ابن معین نے اسے ضعیف کہاہے۔اگر ایسا ہی ہے تو اسماء الرجال پر بات کرتے ہوئے اس طرح کی لاپروائی انتہائی معیوب بات ہے۔
    پانچوں حوالہ امام طبرانی کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے اس کی ایک روایت کو حسن کہا ہے۔
    عرض ہے کہ یہ ضمنی توثیق ہے اور راجح صریح توثیق کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
    چھٹا حوالہ یہ دیا گیا ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے’’ درایہ‘‘ میں اس کی روایت سے استدلال کیا ہے۔
    عرض ہے کہ اس سے توثیق کہاں ثابت ہوئی ؟ روایت سے استدلال روایت کی تصحیح کو مستلزم نہیں ہے اس لیے یہ دور کی کوڑی بے کارہے۔مزید یہ کہ خود ابن حجررحمہ اللہ نے اس راوی کو’’لین‘‘ کہا ہے [تقریب التہذیب لابن حجر: رقم: ۵۴۴۵] اور بعض کتب میں اس کی روایت کی تخریج کرتے ہوئے اس پرجرح نقل کی ہے۔ مثلاً ایک جگہ کہا:
    ’’وقابوس ضعفہ النسائی‘‘
    ’’یعنی امام نسائی نے قابوس کو ضعیف قراردیاہے‘‘[التمییز لابن حجر، ت دکتور الثانی:۱؍۳۴۰]
    ساتواں حوالہ امام ترمذی کا ہے کہ انہوں نے اس کی حدیث کو حسن کہا ہے۔
    عرض ہے کہ تحسین میں امام ترمذی رحمہ اللہ کا تساہل معروف ہے امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے :
    ’’فلا یغتر بتحسین الترمذی‘‘
    ’’یعنی امام ترمذی کی تحسین سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے‘‘[میزان الاعتدال للذہبی ت البجاوی:۴؍۴۱۶]
    لہٰذا دیگر ائمہ فن کی تضعیف کے مقابلے میں اس تحسین کو پیش کرنا غلط ہے۔
    آٹھواں حوالہ علامہ شاکر رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے جو معاصرین میں سے ہیں اور یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ راوی کی توثیق کے باب میں ناقدین ائمۂ فن کی فہرست میں بطور حجت کسی معاصر محقق کا قول پیش کرنا بالکل بے معنی ہے ۔ہاں ایک شخص اپنی رائے کی تائید میں معاصر کا قول پیش کرسکتا ہے لیکن ائمہ ناقدین کے مقابلے میں آج کے معاصرین کی بات پیش کرنا عجیب تر ہے۔
    علاوہ بریں معاصرین میں بھی اکثر اس راوی کو ضعیف ہی مانتے ہیں ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو کئی مقامات پر ضعیف قرار دیا ہے ۔مثلاً دیکھیں: [ الأحادیث الضعیفۃ :۹؍۳۶۷]
    حافظ زبیرعلی زئی صاحب نے اسے جمہور کی نظر میں ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا:
    ’’قابوس ضعیف ضعفہ الجمھور‘‘
    ’’ یعنی قابوس ضعیف ہے جمہور نے اسے ضعیف قرار دیاہے‘‘[انوار الصحیفہ ابو داؤد: رقم:۳۰۳۲،سنن ترمذی مع تحقیق علی زئی :رقم:۶۳۳]
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ راوی ضعیف ہے اور اکثر محدثین نے بھی اسے ضعیف ہی کہا ہے ۔ لہٰذا مقبول سلفی صاحب کا بعض کمزور اور کچھ غیرمتعلق حوالوں سے اسے ثقہ ثابت کرنا عجیب وغریب بات ہے ۔ اور حق اور راجح یہی ہے کہ جمہور و اکثر محدثین نے اس راوی کو ضعیف کہا ہے اور یہ ضعیف ہی ہے۔
    مقبول سلفی صاحب نے آٹھ حوالے دیئے ہیں جن میں ایک معاصر کا حوالہ اور ایک بے اصل حوالہ ہے یعنی احمدبن سعید کا اور کئی غیر متعلق حوالے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اگر وہ آٹھ کی تعداد ہی دکھانا چاہتے ہیں ۔
    تو جواباً ہم ذیل میں آٹھ کے دو گنا سولہ محدثین سے اس راوی پر جرح پیش کرتے ہیں:
    (۱) جریر بن عبد الحمید الضبی(المتوفی۱۸۸)نے کہا:
    ’’ أتینا قابوس بعد فسادہ ‘‘[التاریخ الکبیر للبخاری:۷؍۱۹۳]
    (۲) امام ابن سعد رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۰)نے کہا:
    ’’ وفیہ ضعف لا یحتج بہ‘‘[الطبقات الکبریٰ ط دار صادر:۶؍۳۳۹]
    (۳) امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۳)نے کہا:
    ’’ ضعیف الحدیث‘‘ [العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد، ت وصی:۳؍۲۹]
    (۴) امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱)نے کہا:
    ’’ لیس ہو بذاک ‘‘[العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد، ت الأزہری:۱؍۲۰۵]
    (۵) امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷)نے کہا:
    ’’ ضعیف الحَدیث لین، یکتب حَدیثہ، ولا یحتج بہ ‘‘[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم، ت المعلمی:۷؍۱۴۵]
    (۶) امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی۳۰۳)نے کہا:
    ’’ لیس بالقوی ضعیف ‘‘[تہذیب التہذیب:۸؍۳۰۶] نیز دیکھیں: [الضعفاء والمتروکون للنسائی: ص:۸۸]
    (۷) امام زکریا بن یحییٰ الساجی رحمہ اللہ (المتوفی۳۰۷)نے کہا:
    ’’ لیس بثبت ‘‘ [تہذیب التہذیب لابن حجر، ط الہند:۸؍۳۰۶]
    (۸) امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴)نے کہا:
    ’’ کان ردیء الحفظ یتفرد عن ابیہ بما لا اصل لہ ‘‘[المجروحین لابن حبان:۲؍۲۱۶]
    (۹) امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵)نے کہا:
    ’’ ضعیف، ولکن لا یترک‘‘ [سؤالات البرقانی للدارقطنی، ت الازہری: ص:۱۲۱]
    (۱۰) امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی۴۵۸)نے کہا:
    ’’ وقابوس لا یحتج بحدیثہ‘‘[مختصر خلافیات البیہقی:۱؍۲۹۲]
    (۱۱) محمد بن طاہر ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی۵۰۷)نے کہا:
    ’’ وقابوس ضعیف‘‘ [ذخیرۃ الحفاظ لابن القیسرانی:۱؍۵۵۵]
    (۱۲) امام ابن القطان رحمہ اللہ (المتوفی۶۲۸)نے کہا:
    ’’ وقابوس مضعف‘‘[بیان الوہم والإیہام فی کتاب الأحکام :۴؍۶۲۶]
    (۱۳) امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے کہا:
    ’’ قابوس بن أبی ظبیان ضعیف ‘‘[المستدرک للحاکم مع تعلیق الذہبی:۲؍۴۵۰]
    (۱۴) امام ابن الملقن رحمہ اللہ (المتوفی۸۰۴)نے کہا:
    ’’ وقابوس ہذا لیس بالقوی ‘‘[البدر المنیر لابن الملقن:۴؍۳۷۵]
    (۱۵) امام ہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی۸۰۷)نے کہا:
    ’’ رواہ الطبرانی، وفیہ قابوس بن أبی ظبیان وہو ضعیف ‘‘[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:۷؍۴۳]
    (۱۶) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)نے کہا:
    ’’ لین ‘‘[تقریب التہذیب لابن حجر: رقم :۵۴۴۵]
    ہم صرف سولہ اقوال پر اکتفاء کرتے ہیں ورنہ ہمارے پاس ابھی اور بھی اقوال ہیں ۔
    اس تفصیل کے بعد ہر انصاف پسند شخص کے لیے واضح ہوجائے گا کہ یہ راوی ثقہ ہے یا ضعیف ؟
    خلاصۂ کلام یہ کہ محترم جناب مقبول سلفی صاحب نے جن دو آثار کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ دونوں آثار ضعیف و مردود ہیں ۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings