-
کسی حدیث پر عمل کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ اس پر صحابہ یا کسی کا عمل ثابت ہو قاعدہ کی تشریح:
کسی حدیث پر عمل کرنے کے لیے یہ شرط لگانا درست نہیں ہے کہ اس کے مطابق صحابہ یا سلفِ صالحین میں سے کسی کا عمل ثابت ہو۔ اس لیے جب صحتِ حدیث کے لیے یہ شرط نہیں لگائی جاتی ہے تو اس پر عمل کرنے کے لیے کیوں کر لگائی جا سکتی ہے ؟ صحیح حدیث بذاتِ خود حجت ہے اسے قبول کرنے یا اس پر عمل کرنے کے لیے کسی اور شرط کی ضرورت نہیں۔ نیز اگر حدیث کے مطابق اسلاف میں کسی کا عمل نہ ملے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انہوں نے اس پر عمل ہی نہیں کیا۔ بلکہ سلفِ صالحین اور خاص طور پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہ بعید ہے کہ ان تک حدیث ِ نبوی پہنچے اور وہ اس پر عمل نہ کریں اور اگر کسی کے بارے میں یہ ثابت ہوجائے کہ انہوں نے حدیث ملنے کے بعد بھی اس پر عمل نہیں کیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک منسوخ ہو یا اس سے قوی دلیل ان کے پاس موجود ہو۔
احکام کی بہت کم ایسی حدیثیں ہیں جن پر امت میں سے کسی نے عمل نہ کیا ہو۔ امام ترمذی رحمہ اللہ(۲۷۹ھ) نے اپنی کتاب ’’سنن‘‘ کی احادیث کے تعلق سے کہا کہ اس کی تمام احادیث معمول بہ ہیں سوائے دوحدیثوں کے اور ابن رجب نے بعض اور احادیث کا اضافہ کیا ہے اور ان احادیث کا جواب بھی دیا گیا ہے ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ(م۲۷۹ھ)فرماتے ہیں :
’’جميع ما فى هذا الكتاب معمول به ، وقد أخذ به بعض العلماء، ما خلا حديثين‘‘
’’اس کتاب میں مذکورہ تمام احادیث پر عمل کیا گیا ہے اور کچھ نہ کچھ علماء نے اسے اختیار کیا ہے سوائے دو حدیثوں کے ‘‘
[العلل الصغیر۔مطبوع آخرالسنن:۶؍۲۲۷]
اس کے بعد آپ نے دونوں حدیثوں کا ذکر کیا ہے ۔
البتہ اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ احادیث ِ نبویہ کو سلفِ صالحین کے اقوال اور افعال کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے اور جس مقتضائے حدیث پر عمل نہ کرنے پر صحابہ ،تابعین اور دیگر اسلاف کا اجماع ہوجائے اس پر عمل ترک کردیا جائے گا۔
ابن رجب رحمہ اللہ(م ۷۹۵ھ) فرماتے ہیں :
’’ومتي أجمع علماء الامة على اطراح العمل بحديث وجب اطراحه ، وترك العمل به ‘‘
’’‘جب کسی حدیث کو عملاً چھوڑدینے پر علمائے امت کا اجماع ہوجائے تو اس حدیث کو اور اس پر عمل کرنے کو ترک کردینا واجب ہے‘‘
[سیر الحاث الی علم الطلاق الثلاث ، ابن عبد الہادی:(ص:۴۵۳)]
قاعدے کی توثیق:
امام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ) فرماتے ہیں :
’’حديث رسول اللّٰه ﷺ يثبت بنفسه، لا بعمل غيره بعده‘‘
’’رسول اللہ ﷺ کی حدیث بذات خود ثابت ہوتی ہے ، صحت حدیث کے لیے کسی اورکے عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
[الرسالۃ:ص:۴۲۴]
ابن قدامہ رحمہ اللہ (م ۶۲۰ھ) لکھتے ہیں :
’’الخبر اذا صحّ كان حجّة من غير اعتبار شرط آخر‘‘
’’حدیث جب صحیح ہوجائے تو وہ حجت ہے اس میں کسی اور شرط کا اعتبار نہیں کیا جائے گا‘‘
[المغنی:۱؍۲۷۵]
امام ابن القیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱) فرماتے ہیں:
’’لا يعرف امام من أئمة الاسلام ألبتة قال: لا نعمل بحديثِ رسول ِ اللّٰه ﷺ حتي تعرف مَن عمل به‘‘
’’ائمہ اسلام میں سے کسی نے قطعاً یہ نہیں کہا کہ ہم حدیث رسول ﷺ پر اسی وقت عمل کریں گے جب اس کے مطابق کسی کا عمل کرنا معلوم ہوجائے‘‘
[اعلام الموقعین:۶؍۱۸۰]
اس کے علاوہ اس قاعدے کے درج ذیل مآخذ ہیں :
۱۔ جب کسی قولی حدیث کے ثابت ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے مطابق نبی کریم ﷺ کا عمل ثابت ہو تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم یا کسی اور عالم کا عمل ثابت ہونا بدرجۂ اولیٰ لاز م نہیں آئے گا۔
۲۔ کسی حدیث کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا بھی محل نظر ہے کہ کسی صحابی نے اس پر عمل نہیںکیا ہے کیونکہ صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم مختلف علاقوں اور شہروں میں پھیل گئے تھے اور تمام صحابۂ کرام کے سبھی اقوال اور افعال کو جمع کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کا اس قدر اہتمام نہیں کیا گیا ہے جتنا کہ حدیث نبوی کا ۔ لہٰذا اس بات کا قوی احتمال باقی رہتا ہے کہ کسی نے اس پر عمل کیا ہو مگر ہم تک وہ نقل نہ کیا گیا ہو اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے عمل کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی ہے ۔
۳۔ جب صحابی کاقول یا عمل کسی ثابت حدیث کے خلاف ہو تو اسے اس وجہ سے ترک کردیا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے ان تک یہ حدیث نہ پہنچی ہو تو اگر ان سے کوئی عمل منقول نہ ہو تو بدرجۂ اولیٰ اسے کسی حدیث پر عمل کرنے کے لیے ضروری نہیں قراردیا جا سکتا ہے۔
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ صحابۂ کرام اور سلفِ صالحین کے پاس جب نبی کریم ﷺ کی سنت پہنچتی تھی تو وہ فوراً اس پر عمل کرتے تھے۔ رسول ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے قصے معروف و مشہور ہیں اور ہر ثابت سنت کے بارے میں ان کے تعلق سے یہی اصول ہے۔
ان کا حال اس واقعے کے مصداق تھا کہ ربیع بن سلیمان نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو شافعی رحمہ اللہ سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتے ہوئے سنا ۔ امام صاحب نے کہا: اس مسئلہ میں نبی کریم ﷺ سے فلاں فلاں حدیث مروی ہے۔ سائل نے کہا :اے ابو عبد اللہ ! آپ کا بھی یہی قول ہے ؟ ربیع کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو دیکھا کہ ان پر کپکپی طاری ہوگئی اور کہنے لگے :
’’يا هذا، أى أرض تقلني، و أى سمائٍ تظلني ، اذا رويتُ عن النبى ﷺ حديثاً فلم أقل به؟ نعم على السّمع والبصر ، نعم على السّمع والبصر‘‘
’’اے اللہ کے بندے ! کون سی زمین مجھے پناہ دے گی ؟ اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہوگا؟جب میں نبی ﷺکی کوئی حدیث روایت کروں اور پھر اس کے خلاف کوئی بات کہوں۔ ہاں ! حدیث میرے سر آنکھوں پر ، ہاں! حدیث میرے سر آنکھوں پر ‘‘
[الفقیہ والمتفقہ:۱؍۳۸۹]
لہٰذا کسی حدیث کے بارے میں یہ دعویٰ کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم تک پہنچی لیکن انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ، دلیل کا محتاج ہوگا، کیونکہ اصل کے خلاف ہے۔
قاعدے کی اہمیت:
کسی حدیث پر عمل کرنے کے لیے صحابی یا کسی کا عمل ثابت ہونے کی قید لگانے سے حدیث کی تشریعی حیثیت متأثر ہوتی ہے ۔ اس کے بذات خود حجت ہونے کی نفی ہوتی ہے اور بہت سی احادیث کا انکار لازم آتا ہے ۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ) فرماتے ہیں :
’’ولوترُكتِ السُّننُ للعمل لتعطَّلت سننِ رسولِ اللّٰه ﷺ ، ودَرَسَتْ رسومها ، وعَفَتْ آثارها، وكم من عملٍ قداطرد بخلافِ السنة الصَّريحة علٰي تقادُمِ الزمان، والي الآن، وكلُّ وقتٍ تُترَك سنةٌ، ويُعمل بخلافها ،ويَستمر عليها العملُ فتجده يسيراً من السنة معمولاً به علٰي نوعِ تقصيرٍ۔ وخذْ بلا حسبان ماشاء اللّٰه من سننٍ قد أُهمِلَت، وعُطِّلَ العملُ بها جملةً ،فلو عَمِلَ بها مَن يعرفها لقال الناس: تُرِكَتِ السنة‘‘۔
’’اگر احادیث کو اس بنیاد پر ترک کردیا جائے کہ لوگوں کا عمل اس کے خلاف ہے تو اس طرح رسول اللہ ﷺ کی بہت ساری حدیثیں معطل ہوجائیں گی اور سنت کی نشانیاں مٹ جائیں گی کیونکہ کتنے اعمال ایسے ہیں جو صریح سنت کے مخالف ہونے کے باوجود قدیم زمانے سے آج تک جاری ہیں بلکہ ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی سنت متروک ہوتی ہے اور اس کے خلاف لوگوں کا عمل رہتا ہے اور یہ عمل لگاتار جاری بھی رہتا ہے یہاں تک کہ اگر بعد میں اس سنت پر کوئی عمل کرنے لگے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس نے ہی سنت کو ترک کردیا ‘‘
[الفقیہ والمتفقہ: ۳؍۳۷۴۔۳۷۵]
دوسری جگہ فرماتے ہیں :
’’إذَا قِيلَ لِأَحَدِهِمْ: (ثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ كَذَا وَكَذَا) يَقُولُ: مَنْ قَالَ بِهٰذَا؟ وَيَجْعَلُ هٰذَا دَفْعًا فِي صَدْرِ الْحَدِيثِ، أَوْ يَجْعَلُ جَهْلَهُ بِالْقَائِلِ (بِهِ) حُجَّةً لَهُ فِي مُخَالَفَتِهِ وَتَرْكِ الْعَمَلِ بِهِ، وَلَوْ نَصَحَ نَفْسَهُ لَعَلِمَ أَنَّ هٰذَا الْكَلَامَ مِنْ أَعْظَمِ الْبَاطِلِ، وَأَنَّهُ لَا يَحِلُّ لَهُ دَفْعُ سُنَنِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم بِمِثْلِ هٰذَا الْجَهْلِ، وَأَقْبَحُ مِنْ ذٰلِكَ عُذْرُهُ فِي جَهْلِه، إذْ يَعْتَقِدُ أَنَّ الْإِجْمَاعَ مُنْعَقِدٌ عَلٰي مُخَالَفَةِ تِلْكَ السُّنَّةِ، وَهٰذَا سُوئُ ظَنٍّ بِجَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ، إذْ يَنْسُبُهُمْ إلَي اتِّفَاقِهِمْ عَلٰي مُخَالَفَةِ سُنَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘
’’بعض لوگوں کے سامنے جب نبی کریم ﷺ سے کوئی ثابت حدیث پیش کی جاتی ہے توکہتے ہیں کہ کس عالم نے یہ قول اختیار کیا ہے ؟ پھر قائل کی جہالت کو بنیاد بنا کر حدیث کو وہ رد کردیتے ہیں یا اس کی حجیت پر سوال اٹھا کر اس پر عمل کرنا ترک کردیتے ہیں ۔ لیکن اگر وہ اپنے لیے خیر خواہ ہوتے تو یقیناً اس کا ادراک کرلیتے کہ یہ کلام باطلِ محض ہے۔اس طرح کی جاہلانہ باتوں سے سنت کو رد کردینا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ گویا وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس سنت کی مخالفت پر اجماع منعقد ہوچکا ہے اور یہ مسلمانوں کے ساتھ بدگمانی ہے کیونکہ وہ ان پر حدیث ِنبوی کی مخالفت پر متفق ہونے کی تہمت لگار ہے ہیں‘‘
[اعلام الموقعین:۵؍۱۵۳]
فقہاء اورعلمائے اصول کے درمیان اس مسئلہ میںاختلاف ہے کہ اگر صحابی کی رائے اس کی روایت کے خلاف ہو یا اس کا عمل حدیث کے مخالف ہو تو کس کو اختیار کیا جائے ؟ راجح قول کے مطابق حدیث کو مقدم کیا جائے گا۔ صحابی کی مخالفت کی وجہ سے اسے معلول نہیں قراردیا جاسکتا۔کیونکہ حق یہ ہے کہ حدیث کی بذات خود حجیت مسلم ہے اگر چہ اس کے مطابق عمل کرنا کسی صحابی سے منقول نہ ہویا اس کے مخالف عمل مروی ہو نیز صحابہ کے بعد لوگوں سے منقول نہ ہونا بدرجۂ اولیٰ کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا۔
ایک اشکال کاازالہ:
یہاں اگر کوئی یہ اشکال پیش کرے کہ سلفِ صالحین تو نبی کریم ﷺ کے عمل کے ساتھ صحابۂ کرام اور خاص طور پر خلفائے راشدین کا عمل بھی پیش کرتے ہیں، جبکہ حجت کے لیے حدیثِ رسول ﷺ کافی ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ سلف صالحین حدیث کی حجیت یا اس کی صحت کو ثابت کرنے کے لیے ایسا نہیں کرتے ہیں بلکہ حدیث کی تشریح یا اس کے مفہوم کی تعیین کے لیے صحابہ اور تابعین وغیرہ کے عمل کو پیش کرتے ہیںاور کبھی ایسا اس لیے بھی کرتے ہیں تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ نبی کریم ﷺ کی اس سنت پر بعد کے لوگ بھی عمل پیرا تھے اور یہ سنت نہ تو منسوخ ہے اور نہ ہی مرجوح۔جیسا کہ امام ملک رحمہ اللہ اکثر حدیث کی موافقت میں صحابہ اور خاص طور پر اہل مدینہ کا عمل پیش کرتے ہیں ۔
هذا ما تيسر لي جمعه فى هذه الرسالة،وصلي اللّٰه وسلم علٰي نبينا محمد وعلٰي آله و صحبه اجمعين۔